• 29 اپریل, 2024

ربوہ۔شہرِ باوفا

کہنے کو تھی یہ بانجھ سی ویران سرزمیں
آثار جس میں پانی کے ملتے نہ تھے کہیں

پھیلی ہوئی تھیں چار سو ویرانیاں یہاں
ہر جا پہ تھیں مکیں پریشانیاں یہاں

کھینچا گیا جب اس پہ دعاؤں کا اک حصار
لکھی گئی پھر اس کے مقدر میں اک بہار

ایسی بہار جس پہ کبھی کچھ خزاں نہیں
پت جھڑ کے موسموں کا بھی جس پر گماں نہیں

پھر یوں ہوا کہ اس میں سے چشمے اُبل پڑے
نایاب اس کی کوکھ سے موتی نکل پڑے

اس پر خدائے پاک کا یہ معجزہ ہوا
پاؤں سے ان کے نیچے سے پانی بہا دیا

پورا ہوا یوں حضرتِ فضل عمرؓ کا خواب
بخشا خدا نے ربوہ کو اکرام لاجواب

تب یہ زمین مرجعٔ خلق جہاں ہوئی
اہلِ وفا کے واسطے دارالاماں ہوئی

اب مثلِ قادیان رجوع جہاں ہے آج
یہ وہ نگر ہے دنیا میں جنت نشاں ہے آج

بستے ہیں اس میں لوگ حسیں اور باوفا
رکھتے ہیں دل میں عشق کے جذبات بے بہا

اس کا ہر ایک گوشہ ہے شاداب دلنشیں
روشن ہے حسن نور خلافت سے یہ زمیں

اب اس دیار سے ہی سبھی فیض پائیں گے
اس کے جمال نور سے دل جگمگائیں گے

پھیلی ہوئی ہے اس پہ جو رعنائیوں کی دھوپ
یہ ہے وفور عشق کی پرچھائیوں کی دھوپ

(عبدالصمد قریشی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2020