• 12 مئی, 2025

کیا ’’مسجد‘‘صرف مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے؟

صرف ’’مسلمانوں‘‘ کی عبادت گاہ کو ہی مسجد کہا جاسکتا ہے۔ یہ خیال کس قدر قرآن و حدیث کے مخالف ہے ملاحظہ فرمائیے۔

بنی آدم کی عبادت گاہیں مساجد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
يٰبَنِىْ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا‌اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

(الاعراف:32)

ترجمہ:اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کو، جس میں ظاہر ہے غیر مسلم بھی شامل ہیں، تمام ’’مسجدوں‘‘ میں جاتے ہوئے زیب و زینت اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ غیر مسلم تو عبادت کرنے ‘‘مسلمانوں’’ کی مسجدوں میں نہیں آئیں گے، اپنی اپنی عبادت گاہوں میں ہی جائیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے مسجد ہی کہتےہوئے انہیں وہاں زیب و زینت اختیار کرنے کو کہا ہے۔

مدینہ کے منافقین کی عبادت گاہ مسجد

فرمایا۔
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيْقًۢا بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ‌وَلَيَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَااِلَّا الْحُسْنٰى‌ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَـكٰذِبُوْنَ

(التوبہ:107)

ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

مدینہ میں منافقین نے ایک مسجد تعمیر کی تھی جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو بھی اس مسجد میں آنے کی دعوت دی جو اللہ تعالیٰ نے منع فرمادیا اور اس میں کبھی بھی نماز نہ پڑھنے کا حکم دیا۔ اس عمارت کو اگرچہ ’’ضرار‘‘ یعنی ضرر و نقصان پہنچانے والی جگہ کہا گیا لیکن پھر بھی اس کے نام کے ساتھ مسجد کا سابقہ استعمال کیا گیا۔اور اس کے مقابل پر اس جگہ کو بھی مسجد کہا جس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس کی بنیاد روزِ اوّل سے تقویٰ پر رکھی گئی تھی۔

اصحابِ کہف کی زیارت گاہ مسجد

اسلام سےچند صدیاں قبل اصحاب کہف کی غاروں پر بننے والی زیارت گاہوں کو بھی قرآنِ کریم مسجد کہہ کر ہی پکارتا ہے۔
وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَـعْلَمُوْا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا‌اِذْ يَتَـنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ‌ فَقَالُوْا ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا‌ رَّبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ‌ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓى اَمْرِهِمْ لَـنَـتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَّسْجِدًا

(الکہف:22)

ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ان کے حالات پر آگاہی بخشی تاکہ وہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ انقلاب کی گھڑی وہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ جب وہ آپس میں بحث کر رہے تھے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کرو۔ اُن کا ربّ ان کے بارہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اُن لوگوں نے جو اپنے فیصلہ میں غالب آگئے کہا کہ ہم تو یقیناً ان پر ایک مسجد تعمیر کریں گے۔

یہودونصاریٰ کے انبیاء ؑو اولیاء کے مزارات مساجد

اسی طرح احادیث میں نبی اکرمﷺ یہودونصاریٰ کے انبیاء علیہم السلام اور ولیوں کی قبروں پر بنائی جانے والی عمارتوں کو بھی مسجد کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔

حضرت ام سلمہؓ نے رسول اللہﷺ سے ایک کلیسا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا اور ان مجسموں کا بھی ذکر کیا جو اس میں رکھے گئے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ایسی قوم تھی کہ جب ان میں کوئی نیک بندہ (یا فرمایا کہ نیک شخص) مرجاتا تھا تو اس کی قبر پر مسجد بنادیا کرتے تھے اور اس میں مجسمے رکھتے۔ یہ لوگ خدا کی بدترین مخلوق ہیں۔

(بخاری کتاب الصلوٰۃ)

لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَ النَّصَاریٰ اتِّخِذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآءُھُمْ مَّسَاجِدَ

(بخاری کتاب الصلوٰۃ)

اللہ کی لعنت ہو یہودونصاریٰ پر کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا۔

نبی اکرم ﷺ کے لئے ساری زمین مسجد

نبی اکرم ﷺ اس بات کو اپنی امتیازی خصوصیت بیان فرماتے ہیں کہ آپؐ کے لئے تمام زمین کو مسجد قرار دیا گیا اور اس کی مٹی کو پاک قرار دیا گیا جس سے مسلمان پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمّم کرسکتے ہیں اور جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی قانون نبی اکرم ﷺ کی اس امتیازی شان کو گھٹانے کے درپے ہیں اور مصرہے کہ زمین کا وہ حصہ جہاں احمدی عبادت گاہیں بنتی ہیں وہ جگہ اور وہ عمارت مسجد نہیں کہلا سکتی۔

آنحضرتﷺفرماتے ہیں:
مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ میری ایک مہینہ کی مسافت تک رعب سے مدد کی گئی ہے اور تمام زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک بنایا گیا ہے۔ اس لئے میری امت کے جس فرد پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہ وہیں نماز پڑھ لے اور میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے اور پہلے انبیاء اپنی اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ میں تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہوں اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔

قرآن و حدیث کی ان واضح تصریحات کے باوجود اگر کوئی قوم احمدیہ عبادت گاہ کو مسجد کا نام نہیں دینا چاہتی اور اس امتناع کو اپنے دین کا جزو قرار دیتی ہے تو پھر خود ہی جان جائیے کہ ان کا دین قرآن و حدیث کی بجائے کسی اور چیز پر بناء رکھتا ہے ۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2020