• 26 اپریل, 2024

سال نو کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا ایک ناصحانہ خطبہ

سال نو کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا ایک ناصحانہ خطبہ
نعمتیں اور رحمتیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کر رکھی ہیں سال نو میں ہم ان کے نظارے ہر آن دیکھتےرہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں۔

‘‘یہ سالِ نو کا پہلا جمعہ ہے جس میں مَیں آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں۔ میری طرف سے سالِ نو کی مبارک باد قبول کریں۔ آپ بھی جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اور وہ تمام احمدی احباب بھی جو اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور قریہ قریہ میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ میری یہ مبارک باد رسمی طور پر نہیں۔ یہ تکلیف دہ خیال میرے دل کی گہرائیوں میں یکم جنوری سے ہی موجزن رہا ہے کہ گزشتہ سال جو گزرا ہے۔ وہ ہم پر بڑا ہی سخت سال تھا۔ اس نے ہمارے دلوں کو بُری طرح زخمی کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے زخمی دلوں پر تسکین کا پھایہ رکھا اور اس نے ہمیں محض اپنے فضل سے اس صبر کی توفیق عطا فرمائی۔ جس سے وہ راضی اور خوش ہو جایا کرتا ہے۔ اس لئے میری یہ مبارک باد رسمی طور پر نہیں بلکہ میں یہ مبارک باد اپنے دل کی گہرائیوں سے پیش کرتا ہوں اور پھر برکت کے ہر معنی کے لحاظ سے پیش کرتا ہوں جب ہم کسی دن،کسی زمانہ یا کسی سال کو مبارک کہتے ہیں تو اس سے ہمارا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ان تمام معانی میں جن میں یہ لفظ اچھے طور پر بولا اور اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ وہ دن اور وہ زمانہ اور وہ سال ہم سب کے لئے برکتوں والا ہو۔

برکت کے ایک معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائی کے جو سامان اس کے بندوں کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کو دوام اور قیام حاصل ہو جائے۔ پس میری ’’مبارک ہو‘‘ کی دعایوں ہوئی کہ خداتعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکتیں (خیر اور بھلائی کی چیزیں) نعمتیں اور رحمتیں جو اس نے جماعت احمدیہ کے لئے مقدر کر رکھی ہیں۔ اس سالِ نو میں ہم ان کے نظارے ہر آن دیکھتے رہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک مصلح موعود کی بشارت عطا فرمائی تھی تو اس نے اس پیشگوئی کے اندر جماعت احمدیہ کو بھی بہت سی بشارتیں دی تھیں۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ97)

سو اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں جماعت احمدیہ سے جو وعدے کئے تھے۔ ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سال کو ان معنوں میں بھی بابرکت کرے کہ وہ آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے۔ اور آپ سے ہر آن خوش رہے وہ آپ کو بھولے نہیں۔ وہ آپ کو فراموش نہ کرے۔ بلکہ اس کی یاد میں آپ ہمیشہ حاضر رہیں اور جس طرح ایک دوست دوسرے دوست کو محبت کے ساتھ یاد کرتا ہے۔ اسی طرح ہمارا آقا اور ہمارا مالک محض اپنے فضل سے ہمارے ساتھ دوستانہ معاملات کرتا چلا جائے۔

برکت کے دوسرے معنوں کی رو سے ہم اس دعا میں یہ زیادتی بھی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان عنایات میں زیادتی کرتا چلا جائے۔ کیونکہ برکت کے ایک معنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غیر محسوس طور پر زیادتی کے بھی ہیں۔

برکت کے تیسرے معنوں کی رو سے یہ دعا یوں بھی ہو گی کہ خدا کرے کہ آپ اور میں ان نیکیوں پر ثابت قدم رہیں جو خداتعالیٰ کو محبوب اور پیاری ہیں اور روحانی جہاد کے اس میدان میں جس کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے آج ہمارے لئے کھولا ہے اور جس میدان میں اس نے ہمیں لا کھڑا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے اور آپ کی اطاعت کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم پیٹھ نہ دکھائیں اور ہمیشہ ثابت قدمی کے ساتھ شیطان کا مقابلہ کرتے چلے جائیں۔ پس یہ ’’سالِ نو‘‘ مبارک ہو آپ کے لئے بھی اور میرے لئے بھی ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال صالحہ کے بجا لانے کی توفیق دیتا چلا جائے کہ جن کے نتیجہ میں (اگر اور جب وہ انہیں قبول کر لیتا ہے تو) اس کی نعمتیں آسمان سے نازل ہوتی ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت مصلح موعودؓ نے 1952ء میں بھی اور اس کے علاوہ اور مواقع پر بھی جماعت کو بار بار نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں تنظیم پیدا کرے۔انہیں منظّم شکل دے اور انہیں کسی منصوبہ بندی اور پلاننگ (Planning) کے مطابق کرے ورنہ ہماری رفتارِ ترقی کبھی تیز نہیں ہو سکتی ،سو حضور کی اس تاکیدی نصیحت کے ساتھ آج میں اپنے بھائیوں کو سالِ نو کی مبارک باد دیتا ہوں اور ان کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ برکت کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل ہم پر پہلے سے زیادہ نازل ہوں اور اس میدانِ مجاہدہ میں اور میدانِ جہاد میں جس میں ہم قدم رکھ چکے ہیں۔ ہمارے قدم آگے ہی بڑھتے چلے جائیں وہ پیچھے کی طرف کبھی نہ اٹھیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری کوششوں میں تنظیم پائی جائے اور ہم ایک منصوبہ بندی اور پلان (PLAN) کے ماتحت اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے والے ہوں۔ اس اصول کے مطابق میں جماعت کے تمام اداروں سے یہ کہتا ہوں کہ آئندہ چند ہفتوں کے اندر اندر وہ سالِ نو میں کام کرنے کا ایک منصوبہ تیار کریں اور اسے میرے سامنے رکھیں جسے میں سال کے دوران حسب ضرورت جماعت کے دوستوں کے سامنے پیش کرتا رہوں گا اور اسے پورا کرنے کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہوں گا لیکن چونکہ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور حضور ؓکے وصال سے پہلے ایک لمبا عرصہ جماعت پر ایسا بھی گزرا ہے جس میں حضور اپنی بیماری کی وجہ سے ان تفاصیل میں جماعت کی پوری نگرانی نہیں کر سکے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ میں مختلف اداروں کو ان کے بعض کاموں کی طرف مختصراً توجہ دلا دوں۔ تفاصیل وہ اپنے طور پر طے کر لیں’’

(خطبہ جمعہ 7جنوری 1966ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

فرمانِ رسول ﷺ