2021ء کا سال ختم ہونے کو ہے اور نئے سال کی آمد آمد ہے۔ جرمنی میں بسے والے لوگ بھی دوسرے مغربی ممالک کی طرح نئے سال کا دسمبر کے آغاز سے ہی انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ جرمن زبان میں نئے سال کو Neujahr (نوئے یار) یا silvester (سیلویسٹر) بھی کہا جاتا ہے اور سیلویسٹر نام Pop Silvester1 کے نام سے منسوب ہے جو 31دسمبر335میں انتقال کر گئے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ان کے گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنس گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی وفات ہو گئی تھی اس لئے کچھ توہم پرست جرمن کا کہنا ہے کہ اس دن مچھلی نہیں کھانی چاہئے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ carps مچھلی کو خوش بختی کی نشانی سمجھتے ہیں اور سلویسٹر کی شام کو خاص طور پر بناتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس مچھلی کا کانٹا اپنے پرس میں رکھیں گے تو سارا سال ان کا بٹوا پیسوں سے بھرا رہے گا۔ آتش بازی کے بارے میں بھی یہ عقیدہ تھا کہ اس کے شور سے شیطانی قوتیں بھاگ جاتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہذب یافتہ قومیں بھی کئی قسم کے توہمات میں مبتلا ہوتی ہیں۔ کرسمس کی سجاوٹ کے ساتھ نئے سال کی آمد کا بھی شور ہوتا ہے۔ بازاروں میں نئے سال کی مبارکباد کے کارڈز، تحفے اور آتش بازی کا بے شمار سامان نظر آنے لگتا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا ایک دوسرے کے لئے آخری لمحات میں تحائف خریدنے کے اسٹریس میں نظر آتا ہے۔ 31دسمبر کی شام کو لوگ ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں اچھے کھانے بناتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔ جرمن زبان میں نئے سال کی مبارکباد کو
Guten Rutsch
(Have a good start to the new year)
یعنی ’’آپ اچھے طریقے سے نئے سال میں سلائڈ کریں یا داخل ہوں‘‘ یا پھر Frohes neues Jahr یعنی Happy new year کہتے ہیں۔ رات کو دس بجے کے بعد لوگ مختلف جگہوں پر جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ آتش بازی کا سب سے بڑا اجتماع برلن میں برینڈن برگ اور فرینکفرٹ میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی بارہ کا گھنٹا بجتا ہے آتشبازی شروع ہو جاتی ہے اور ایک عجیب طوفان بد تمیزی ہوتا ہے۔ اور اس آتش بازی کے ساتھ ہی آپ کو مختلف جگہوں سے ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں بھی آنا شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ اس آتش بازی کے نتیجے میں بعض دفعہ لوگ جل جاتے ہیں یا مختلف جگہوں پر آگ لگ جاتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کے آگے بھی سڑکوں اور گلیوں میں آتش بازی کرتے ہیں اور اسقدر شور ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ بہت سے بزرگ اور بیمار لوگ اس شور سے سخت پریشان ہوتے ہیں اور ان کو اس وقت تک جاگنا پڑتا ہے جب تک یہ شور کا طوفان تھم نہیں جاتا۔ آج دنیا میں بہت سارے ممالک مل کر جن میں خاص طور پر جرمنی بھی شامل ہے pollution کے خلاف بڑی بڑی کانفرنسز اور سیمینار کرتے ہیں اور تدابیر سوچتے ہیں کہ کس طرح فضا کو مکدر ہونے سے بچایا جائے لیکن دوسری طرف اس آتش بازی کے نتیجے میں جو دھواں پیدا ہوتا ہے اس کو بھول جاتے ہیں۔ جو کروڑوں روپیہ لوگ آتش بازی اور تحائف پر خرچ کرتے ہیں اس کو بھول جاتے ہیں کہ یہ روپیہ کسی غریب ملک کی عوام کے کام آسکتا تھا۔
نئے سال کی خوشی میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے گزرنے والے پچھلے سال کا جو سورج غروب ہوا وہ انہوں نے کیسے گزارا اس میں کیا پایا کیا کھویا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قسم کی مغربی روایات میں مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ دنیاوی لوگ ہیں جو دنیا کی لہو لعب میں ڈوب کر اپنے خالق، اپنے پیارے خدا کو بھول جاتے ہیں۔
قرآن کریم تو ہمیں ہر دور میں، ہر زمانہ میں داخل ہونے کے لئے یہ دعا سکھاتا ہے
وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۱﴾
(بنی اسرائیل: 81)
اور تُو کہہ اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لئے طاقتور مددگار عطا کر۔
بعض احادیث سے بھی ثابت ہے کہ جب نیا مہینہ یا سال شروع ہوتا تو صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے کو دعا دیتے اور سکھلاتے بھی تھے۔
اَللّٰهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِّنَ الشَّيْطَانِ۔
(المعجم الاوسط حدیث 6241)
ترجمہ: اے اللہ! اس (سال یا مہینہ) کو ہم پر امن و ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ، رحمٰن کی خوشنودی اور شیطان سے حفاظت کے ساتھ داخل کر۔
پھر احادیث میں یہ ایک اور دعا بھی ملتی ہے کہ
اے میرے رب! میں تجھ سے اس سال کی خیر چاہتا ہوں اور اس کے بعد کی بھلائی بھی اور میں تجھ سے اس سال کے شر کی پناہ مانگتا ہوں اور اس کے بعد کی برائی سے بھی۔ اے میرے رب! میں سُستی اور تکبر کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ میرے پروردگار! میں آگ کے عذاب اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
(معجم الکبیر طبرانی جلد17 صفحہ294)
قرآن کریم اور ان احادیث میں جو دعائیں ہیں وہ ہمیں سال کے آغاز سے ہی اسلام کے ساتھ ایمان پر قائم رہنے، خدا کی خوشنودی اور شیطان کے شر سے بچنے کا سبق دیتی ہیں لیکن اس کے برخلاف آج کا معاشرہ جس میں مسلمان بھی شامل ہیں نئے سال کا آغاز آتش بازی، ناچ گانے اور پارٹیز کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ نئے سال کا استقبال ایک رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے اور یہ ان قوموں کے نزدیک خوشی منانے کا ایک طریقہ ہے۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رسوم اور بدعات تمہیں گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ان سے بچو۔
(سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع)
ہم نے ایک احمدی کی حیثیت سے گمراہی سے بچنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہم نے صرف دنیاوی طور پر ہی ترقی کی ہے یا دینوی طور پر بھی ہم میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وقت تو بہت تیزی سے گزرتا جاتا ہے اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ہم نے تو ہر وقت یہ کوشش کرنی ہے کہ کس طرح اپنے رب کو راضی کریں۔ یاد رکھیں کہ یہ نئے سال کی رسومات ہماری تہذیب اور ہمارا مذہب نہیں ہے کہ ہم اس جوش وخروش سے اس کو منائیں اور مبارکباد ایک دوسرے کو دیں۔ ہر وہ سال اور ہر وہ دن جس میں انسان اپنے اندر ایک روحانی تبدیلی محسوس کرے اصل میں تو وہ مبارک ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مبارک وہ جو خدا کے لئے اپنے نفس سے جنگ کرتے ہیں اور بد بخت وہ جو اپنے نفس کے لئے خدا سے جنگ کر رہے ہیں اور اس سے موافقت نہیں کرتے جو شخص اپنے نفس کے لئے خدا کے حکم کو ٹالتا ہے وہ آسمان میں ہر گز داخل نہیں ہو گا سو تم کوشش کرو جو ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا بھی تم پر گواہی نہ دے تا تم اسی کے لئے پکڑے نہ جاؤ کیونکہ ایک ذرہ بدی کا بھی قابلِ پاداش ہے وقت تھوڑا ہے اور کار عمر نا پیدا تیز قدم اٹھاؤ جو شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیان کاری کا موجب ہو یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ 25-26)
لہذا خدا تعالیٰ کے بندے اپنے گزرے ہوئے ایام سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اپنے خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے آنے والے سال کا استقبال اس کی مرضی اور اس کے احکامات کو مدِ نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ ہم حقیقی اسلام یعنی احمدیت کو ماننے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر نئے سال کا آغاز دعاؤں اور نوافل سے کریں۔ جب 31دسمبر کی شب بارہ بجیں اور نئے دن کا آغاز ہو تو آپ اور آپ کے اہلِ خانہ نوافل کے لئے کھڑے ہوں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ ہم اپنا نیا سا ل اپنے پیارے رب کے حضور جھک کر اس کا شکر ادا کر کے کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں گزرے ہوئے سال میں بے شمار نعمتوں سے نوازا اور آنے والے سال کے لئے اس کی مدد مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سال میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور ہم اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں، محلہ داروں، دوستوں، غریبوں، یتیموں سب کے حقوق ادا کرنے والے ہوں اور ہمارا خدا ہم سے راضی ہو۔ صبح اٹھ کر صدقہ دیں اور پھر اپنے کاموں کو شروع کریں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’جب سال ختم ہو رہا ہو اور نیا سال چڑھ رہا ہو تو طبعاً دنیا میں اس جوڑ کو خاص طریق پر منایا جاتا ہے اور بغیر محسوس کئے اس وقت کو گزرنے نہیں دیا جاتا۔ مختلف رنگ میں لوگ اپنے رد عمل دکھاتے ہیں بعض لوگ تیاریاں کر رہے ہیں کہ جب اگلے سال کا دن چڑھے گا اس جوڑ کے وقت پھر وہ کثرت سے شراب نوشی کریں گے، عیش و عشرت کے تمام سامان جو پہلے سے مہیا کئے جاتے ہیں ان سے وہ محظوظ ہوں گے اور لذت یاب ہوں گے اور بہت سی ایسی بے حیائیاں اس وقت سے وابستہ ہو جاتی ہیں جو عام حالات میں ایک آزاد قوم نہیں کرتی۔ پس یہ بھی ایک رد عمل ہے۔۔۔ایک اوررد عمل ہونا چاہئے بعضوں میں ہوتا ہے مگر اکثر میں نہیں وہ انفرادی جائزہ ہے اور یہ رد عمل سب سے زیادہ اہم ہے اور معنی خیز ہے۔۔۔۔مقصد کو پوار کرنے والی بات یہ ہے کہ اس سال کا جائزہ ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت سے، اپنی صورتحال، اپنے دل کی کیفیات پر غور کرتے ہوئے معلوم کرنے کی کوشش کہ کون سے ایسے عظیم انقلابی لمحات تھے، نیکی کے مواقع تھے جن کو وہ استعمال کرتے ہوئے اپنی روحانی کیفیت تبدیل کر سکتا تھا اور رستے بدل کر بہتر رستوں پر گامزن ہو سکتا تھا اور کون سے ایسے مواقع تھے جو اس کے لئے نیکیوں کو گنوانے والے تھے اور واضح طور پر بدیوں میں مبتلا کرنے والے تھے جس آواز کو اسے رد ّ کرنا چاہئے تھا اس آواز کو ردّ نہ کر سکا اور ان غلط راستوں پر گامزن ہو گیا۔ یہ جو واقعات ہیں یہ تو روز مرہ ہر انسان کی زندگی میں صبح سے شام تک ہوتے ہی رہے ہیں مگر بعض واقعات نمایاں ہو کر گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں اور بعض دفعہ زندگی کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ میرے نزدیک سب سے اہم رد عمل یہی ہے جو انسان کو وقت کے ایک حصے کے گزرنے کے بعد دوسرے حصے کے آغاز کے جوڑ پر دکھانا چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 30دسمبر 1994ء)
نئے سال کے پہلے دن کا آغاز جماعت احمدیہ جرمنی اپنے پیارے آقا خلیفۂ وقت کی ہدایت کے مطابق تہجد کے ساتھ کرتی ہے۔ مساجد میں نماز تہجد و فجر کے بعد دعا کی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں جرمنی واحد ملک ہے جہاں نماز تہجد و فجر کے بعد تمام اطفال، خدام اور انصار مل کر وقارِ عمل کرنےکے لئے نکلتے ہیں جبکہ اس وقت یہ دنیاوی لوگ رات کے غل غپاڑے کے بعد نیند میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں تو یہ خدام اور انصار اپنے شہر میں مختلف سڑکوں کی صفائی کررہے ہوتے ہیں اور رات کے وقت ہونے والی آتش بازی کا تمام گند اکٹھا کر کے اسے ٹھکانے لگاتے ہیں اور اس وقارِ عمل کی خبر تمام شہروں کے کانسلرز اور میئر زکے تعریفی کلمات اور تصاویر کے ساتھ شہر کے بڑے اخباروںمیں میں شائع ہوتی ہے۔
ہمیں نئے سال کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا اپنا بیان کردہ واقعہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ نئے سال کے موقع پر جب سب شور شرابے میں مشغول تھے تو حضور اس وقت اپنے پیارے رب کی عبادت میں مصروف تھے اور ان کو عبادت میں مشغول دیکھ کر ایک انگریز رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میری قوم اس وقت بے حیائی میں مشغول ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2010ء کے نئے سال کے موقع پر فرمایا:
’’پس آج اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ نئے سال کے پہلے ہی دن کو اِس طرح دعاوٴں سے سجاوٴ کہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں۔ اپنے لئے دعائیں ہیں۔ اپنے اہل و عیال کے لئے دعائیں ہیں۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعائیں ہیں۔ جماعت کی ترقی کے لئے دعائیں ہیں۔ جن جگہوں پر ہیں اس ماحول اور معاشرے کے لئے دعائیں ہیں۔ ملک کے لئے دعائیں ہیں۔ ایک مومن تبھی حقیقی مومن بھی کہلاسکتا ہے جب جس ملک میں رہ رہا ہے، جس کا شہری ہے، اس کے لئے بھی دعا کررہا ہو۔ پس یہ سب فرائض ہیں جو ایک احمدی کے سپرد کئے گئے ہیں اور ان کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے۔ احمدیوں کی دعاوٴں سے ہی دنیا کی بقا ہے۔ انسانیت کی بقا ہے۔ جنت کے راستوں کی طرف راہنمائی ہے۔ اگر خود ہی ان راستوں کی طرف نہیں چل رہے تو دوسروں کو کیا راستہ دکھائیں گے۔ ہم احمدی تو اس زمانہ کے آدم کے ماننے والے بھی ہیں جو جنت سے نکلنے کے لئے نہیں آیا۔ جو نہ صرف دونوں جنتوں کا وارث بنا بلکہ جنت کی طرف لے جانے کے لئے اُس تعلیم کے ساتھ آیا جو آپؑ کے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہﷺ لائے تھے۔
(خطبہ جمعہ 1جنوری 2010ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔
پس ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔ اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 30 دسمبر2016ء)
آئیے! نئے سال کے آغاز پر ہم سب اپنا جائزہ لیں اور روحانی طور پر اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو خود سے یہ عہد کریں کہ آنے والے سال میں اس کمی کو ضرور پورا کریں گے۔ خدا تعالیٰ کےسامنے سجدہ ریز ہوں اور اس سے تمام برائیوں سے بچنے اور نیکیوں میں بڑھنے کی توفیق مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مومنین میں شامل کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنا سب اس پر قربان کرنے والےاور اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت کرنے والے ہوں۔ آمین
یا رب یہی دعا ہے ہر کام ہو بخیر
اکرام لا زوال ہو، انعام ہو بخیر
ہر وقت عافیت رہے، ہر گام ہو بخیر
آغاز بھی بخیر ہو، انجام ہو بخیر
(درعدن ایڈیشن 2008ء)
(عائشہ چودھری۔ جرمنی)