• 16 مئی, 2025

سال نو کی توہّم پرستیاں اور جماعت احمدیہ کا مومنانہ کردار

سال نو کی توہّم پرستیاں اور
جماعت احمدیہ کا مومنانہ کردار

توہم پرستی (superstition) جہالت اور خوف کے نتیجے میں پیدا ہونےوالے عقائد اور رسومات ہیں جن کی کوئی عقلی اور منطقی دلیل موجودنہیں ہوتی۔ نفسیاتی طور پر اگرچہ خوف کا بہت بڑا عنصر ان رسومات کیوجہ ضرور ہوتا ہے مگر ان کی اصل اور بنیادی وجہ علم کی کمی اور جہالت ہے۔ علم انسان کے اندر شعور، معرفت اور یقین پیدا کرتا ہے جس سےانسان توہم پرستی جیسی لغویات سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے۔ قرآن کریم نے مومنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ

(النور: 3)

اور مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں۔

توہم پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ۔ اس میں ہر نسل، قوم اور قبیلے کے لوگ شامل ہیں۔ ترقی یافتہ قومیں ہوں یاترقی پذیر ممالک کے باشندے، دہریہ اور مادیت پرست انسانوں سے لے کر تمام مذاہب کے ماننے والے بھی توہم پرستی سے اپنےآپ کو نہیں بچا سکے۔ اسلام سے قبل عربوں میں لڑکیوں کی پیدائش کو برا سمجھا جاتا تھا اور انہیں نحوست سمجھ کر زندہ دفن کر دیاجاتا تھا۔ صفر کے مہینے کو بلاؤں اور حادثات کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ ستاروں کی گردش کے ساتھ اپنی قسمت کو جوڑ دینا وغیرہ اسطرح کی بے شمار توہم پرستیاں تھیں جو ان میں پائی جاتی تھیں۔ قرآن کریم نے خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا کرکے ایسی تمام لغویات کا خاتمہ کر دیا اور تقدیر خیر و شر کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات کو قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ۚ وَ اِنۡ یُّرِدۡکَ بِخَیۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِہٖ ؕ

(یونس: 108)

ترجمہ: اور اگر اللہ تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو کوئی نہیں جو اُسے دور کرنے والا ہو مگر وہی۔ اور اگر وہ تیرے لئے کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو ٹالنے والا کوئی نہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت سے بیان فرمایا کہ خدا کی پیدا کردہ کسی چیز میں نحوست نہیں پائی جاتی اور اچھائی اوربرائی کا دارو مدار انسان کے اعمال پر منحصر ہے۔ آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم جس دن فوت ہوئے اس دن سورج گرہن تھا اوربعض لوگوں نے اسے وفات کی وجہ قرار دیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تردید فرمائی اور ایسے خیالات سے منع فرمایا۔

جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں توہم پرستی نہ پائی جاتی ہو مگر برصغیر پاک و ہند اور بر اعظم افریقہ اس میں سر فہرست ہیں۔ ہندو کلچر اور اس کے زیر اثر مسلم معاشرہ بڑی بری طرح اس کا شکار ہوا اور اب تو یہ ایک باقاعدہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ لوگوں کی جہالت کا فائدہ اٹھا کر اور ان میں خوف پیدا کر کے تعویز گنڈوں اور فالیں نکال کر پیسےبٹورنے کا دھندا زوروں پر ہے۔ سڑکوں پر بیٹھے جاہل خود ساختہ نجومی طوطوں کے ذریعہ قسمت کا حال بتاکر لوگوں کو بے وقوف بنارہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال کہ اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو وہ دن اور سفر منحوس ہو جاتا ہے، گھر کی منڈیر پر کوےکے بولنے کا مطلب کسی مہمان کی آمد ہونا، ہچکیاں آئیں تو سمجھنا کہ کوئی بہت یاد کر رہا ہے، ہاتھوں میں خارش کو دولت ملنے سےتعبیر کرنا، مختلف قسم کے پتھروں اور نگینوں کو اپنے لئیے متبرک سمجھ کر ان کا استعمال کرنا، سفر پر جانے سے پہلے ستاروں کی گردش سے سفر کے متبرک یا تکلیف دہ ہونے کی فال نکال کر سفر پر جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرنا وغیرہ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ سب توہم پرستی خدا کی قدرت پر ایمان اور یقین کی کمی کا نتیجہ ہے اور زیادہ تر یہ بیماری عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ جنّات، بھوتوں اور چڑیلوں کا خوف خاص طور پر عورتوں کے ذہنوں پر مسلط رہتا ہے اور آئے دن پیروں فقیروں اورعاملوں سے سخت نقصان اٹھانے کے باوجود ان توہمات کا سلسلہ جاری ہے۔

ایک بادشاہ کی کہاوت مشہور ہے کہ وہ بہت توہم پرست تھا اس کی کوشش ہوتی کہ صبح اُٹھ کر کسی خوش شکل شخص کو دیکھے تا کہ سارا دن اچھا گزرے اور اگر کسی بدصورت شخص پر صبح سویرے پہلی نظر پڑتی تو ایسے شخص کو نحوست کی علامت سمجھ کر اسکا سر قلم کروا دیتا۔ ایک روز علی الصبح ایک فقیر بوسیدہ کپڑوں میں اسے نظر آیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائےاور بعد ازاں اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ جس روز اس کا سر قلم کیا جانا تھا تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ اس نے کہا کہ وہ بادشاہ سے ملنا چاہتا ہے چنانچہ اسے پردے کی اوٹ سے بادشاہ سے ملوایا گیا تاکہ بادشاہ کی اس پر نظر نہ پڑے۔ فقیرنے بادشاہ سے عرض کی کہ بادشاہ سلامت میں آپ کے لئے منحوس نہیں بلکہ آپ میرے لئے منحوس ہیں کیونکہ اگر میں منحوس ہوتاتو جو مصیبت اس وقت مجھ پر آئی ہے وہ آپ پر آتی جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بادشاہ کو بات سمجھ آگئی کہ یہ سب وہم پرستی ہے اور نحوست کا کسی شخص سے یا اس کی بدصورتی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ بادشاہ نے فقیر کی جان بخشی کی اوراپنی اس روش سے توبہ کر لی۔

اسپین میں اگر مہینے کی 13 تاریخ کو منگل کا دن آ جائے تو اسے قومی طور پر بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ چین میں 8 کا ہندسہ مبارک اور 4 کا ہندسہ منحوس سمجھا جاتا ہے۔ روس میں خالی بالٹی کہیں لے جانے کو برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ اور نیدرلینڈ کے لوگ شادی کے بعد گھر کے باہر صنوبر کا درخت لگاتے ہیں کہ یہ ان کے ازواجی تعلقات میں مضبوطی ڈالے گا۔

توہم پرستی پھیلانے میں میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اخبارات روزانہ قسمت کا حال شائع کرتے ہیں اور ریڈیو ٹیلی وژن پر ’’آپکا ہفتہ کیسا رہے گا‘‘ یا ’’ستاروں کا حال‘‘ قسم کے باقاعدہ پروگرام دکھائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کی گہری دلچسپی ظاہر کرتی ہےکہ ہمارے معاشرے میں جہالت کس حد تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اگر آپ اس پر تحقیق کریں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آسٹرالوجیکل سائنس کی بنیاد یونانی اور ہندوانہ عقائد ہیں جو قصوں، کہانیوں اور توہم پرستی پر مبنی ہیں جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔

اسی طرح بہت سے توہمات ہیں جو نئے سال کے آغاز کے ساتھ منسلک ہیں۔ سپین میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز پرانگور کے بارہ دانے کھانے سے سال کے بارہ ماہ خوشی اور خوشحالی لے کر آتے ہیں، لوگ نئے سال کے آغاز پر اپنے بٹوے پیسوںسے بھر لیتے ہیں اس خیال سے کہ سارا سال ان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہوگی۔ اکثر لوگ سال کے پہلے روز قطعاً ادھار نہیں دیتے اور اسے سال بھر کے مالی معاملات کے لئے بد شگونی سمجھتے ہیں۔ سال کے پہلے روز پیدا ہونے والے بچوں کو خوش قسمت ترین سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح کے اور بہت سے توہمات ہیں جو قریبا دنیا کے ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔

افریقہ بھی توہم پرستی میں اگر سب سے آگے نہیں تو کسی سے پیچھے بھی نہیں۔ افریقہ کا ہر ملک بیسیوں قبائل پر مشتمل ہے اور ہرقبیلے کے اپنے رسم ورواج اور روایات ہیں۔ افریقن قبائل کی توہم پرستی کی بنیادی وجہ بھی جہالت ہی ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ میل جول، تعلیم کی فراہمی اور بہتر سہولیات کی وجہ سے اس میں کافی حد تک کمی آ چکی ہے مگر بعض قبائل اپنی روایات میں بڑے شدت پسند ہیں اور کسی طور انہیں چھوڑنے پر تیار نہیں۔

تنزانیہ مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے جو رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ ہے اور یہ 120 سے زائد قبائل پر مشتمل ہے جن میں SKUMA اور CHAGA قبائل نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان قبائل کی توہم پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ علم کے پھیلاؤ کے نتیجے میں اس میں بہت کمی آچکی ہے اور چند ایک رسومات کےعلاوہ اب یہ ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔

چاگا قبیلہ تنزانیہ کے ریجن Kilimanjaro میں آباد ہے۔ سال کے آغاز پر اس قبیلے کے تمام افراد پورے ملک سے اپنے آبائی علاقےمیں اکٹھے ہوتے ہیں۔ کثرت سے شراب نوشی کرتے ہیں۔ یہ شراب جَو اور کیلوں سے بنائی جاتی ہےجسے MBEGE کہا جاتا ہے اوراسے مخصوص برتن KALABASH میں ڈال کر پیا جاتا ہے۔ ڈھول بجا تے ہیں، گانے گاتے ہیں اور ڈانس کرتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی قبروں پر جانور لے جا کر انہیں ذبح کر کے ان کا خون قبروں پر اور ساتھ اُگے ہوئے درختوں کی جڑوں میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ خون شراب میں یا دودھ میں ملا کر پیتے ہیں۔ بزرگوں کی قبروں پر ان کی روحوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ خدا کے حضور نئےسال کے بابرکت ہونے کے لئے اپنے قبیلے کے واسطے درخواست کریں۔

تنزانیہ کے ریجن MBEYA کے ایک ضلع KEYELA میں آباد قبیلہ WANYAKUA کے لوگ سال کی آخری رات ساری رات جاگتے ہیں اور TUMEVUKA TUMEVUKA کے نعرے مارتے ہیں کہ ہم اس سال سے گذر گئے ہیں، ان نعروں کے ساتھ ساتھ لوہے کے ڈبے یا ٹین وغیرہ کو ڈھول کی طرح پیٹتے ہیں رات کو ایک ایک گھر جاتے ان سے چاول آ ٹا وغیرہ اجناس اکھٹاکرتے ہیں اور صبح اپنے cheif کے پاس لیجا کر وہاں پکاتے کھاتے کہ اس طرح نیا سال اچھا گزرے گا۔

مٹوارا ریجن میں موجود قبائل وایاؤ اور ماکویا کے بزرگ رات کو ایک پرانے درخت کے نیچے اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے قبیلے کےافراد کے ساتھ مل کر گائے یا بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور وہیں پکاکر کھاتے اور کچھ گوشت درخت کے نیچے رکھ دیتے ہیں تا کہ آئندہ سال ان کے رزق میں برکت رہے۔

تنزانیہ کے ریجن ارنگا میں WAHEHE قبیلہ کے لوگ نئے سال کی برکات کے حصول اور مصائب و آفات سے بچنے کے لئے کسی بڑے آدمی کی قبر پر گائے یا بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور جانور کے پیٹ میں سوراخ کر کے دل اور کلیجی نکال کر اس کی قبر پر رکھ کر خاموش ایک طرف کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کوئی کتا یا بلی اس گوشت کو کھانے کے لئے اٹھا لے تو اسے آئندہ سال کے لئےخوش بختی سمجھ کر سیٹیاں بجاتے ہیں اور پھر شراب تیار کر کے اس قبر پر انڈیل دیتے ہیں۔

تنزانیہ میں مقیم واسوکوما قبیلہ اپنے سال کا آغاز کچھ اسطرح سے کرتے ہیں۔قبیلہ کے منتخب لوگ جو کہ جادو ٹونا بھی کرتے ہیں، وہ مشرقی پہاڑوں پر بھیجے جاتے ہیں۔جنہیں نئے سال کی پہلے تاریخ تک واپس آنا ہوتا ہے۔وہ واپس آکر قبیلہ کے سربراہ کو نئے سال میں ہونے والے اچھے برے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آنے والاسال قحط سالی کا ہے یا بیماریوں کا یا خوشحالی کا۔ قبیلہ کا سربراہ ان کی پیشن گوئیاں سننے کے بعد انہیں یہ باتیں عام لوگوں تک اعلان کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ آنے والے حالات کے لئے عام لوگ تیار رہیں۔

31 دسمبر کو نئے سال کی بھرپور تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں اور شہروں میں معمول سے بہت زیادہ رش نظر آتا ہے۔یکم جنوری کی رات اکثر لوگ جاگ کے گذارتے ہیں۔لوگ ٹولیوں کی شکل میں ہر گلی میں نظر آتے ہیں۔12 بجے نئے سال شروع ہوتے ہی مقامی زبان میں گانے اور لوکل رقص شروع ہوجاتا ہے۔خوب شراب پی جاتی ہے۔ اور اسطرح 4 بجے کے قریب جاکر شور شراباکم ہوتا ہے۔صبح سویرے ہر ایک گھر میں اچھا کھانا پکتا ہے۔سب نئے کپڑے پہنے ہیں۔وسعت کے مطابق مرغیاں، بکرے اورگائیں ذبح کی جاتی ہیں اور سب مل کر کھاتے ہیں۔

مضمون کی تمہید میں میں نے لکھا ہے کہ توہم پرستی کی وجوہات جہالت اور خوف ہیں اور اگر ان کا بغور تجزیہ کیا جائے تو بنیادی وجہ جہالت ہی بنتی ہے کیونکہ جہالت خوف کو جنم دیتی ہے اور اگر کسی چیز کے بارہ میں حقیقی علم، معرفت اور یقین حاصل ہوجائے تو خوف ختم ہو جاتا ہے جو توہمات کو نیست ونابود کر دیتا ہے۔ یقین اور ایمان کی قوت انسان کو اُس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں غیر اللہ کا ہر خوف مٹ جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن جو خدا کی وحدانیت اور اس کے علیم و خبیر اور قادر مطلق ہونے پریقین رکھتا ہو وہ کبھی کسی وہم پرستی کا شکار نہیں ہو سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسلئے بھیجا ہے تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اگر کوئی گروہ، فرقہ یا جماعت توہم پرستی سے محفوظ ہےتو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے جس کے افراد ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہیں۔ جماعت احمدیہ کی خواتین بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے توہم پرستی کی لعنت سے اپنے آپ کو بچائے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگرمیں یہاں حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ حضرت حسین بی بی رضی اللہ عنھا کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ حضرت چوہدری صاحب کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ کو پانچ بچوں کی المناک وفات کا صدمہ دیکھنا پڑا۔ آپکے گاؤں ’’داتا زید کا‘‘ میں ایک بوڑھی عورت جے دیوی تھی جسے لوگ ڈائن اور چڑیل بھی کہا کرتے تھے وہ ہر بچے کی پیدائش پرحضرت حسین بی بی کو ایسی توہمانہ رسومات کرنے کا کہتی جو خلاف شریعت اور مشرکانہ تھیں۔ جے دیوی ان رسومات کی ادائیگی کوبچوں کی زندگی اور موت سے وابستہ کر دیا کرتی تھی۔ حضرت حسین بی بی ہر بار اللہ تعالیٰ پر توکل اور کامل یقین کے ساتھ ان توہم پرستانہ رسومات کی ادائیگی سے انکار کر دیتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ایمان کی آزمائش تھی۔ چنانچہ آپ کو پانچ بچوں کی وفات کا دکھ دیکھنا پڑا مگر آپ نے اپنے ایمان کا سودا نہ کیا۔ خدائے بزرگ و برتر کی پاک اور مقدس ذات نے اس انتہائی کڑےامتحان میں کامیابی کا آپ کو وہ اجر دیا کہ ظفراللہ خان جیسا عظیم الشان فرزند عطا کیا جس نے اکناف عالم میں اسلام اور احمدیت کا نام روشن کیا اور اپنے علم اور معرفت سے مخالفین کے منہ بند کر دئیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آئندہ ہزار سال کے لوگ ظفر اللہ خان پر رشک کریں گے۔

جماعت احمدیہ کے افراد کی تربیت اس انداز میں ہوئی ہے کہ پوری دنیا میں سب ایک ہی رنگ میں رنگین ہیں اور وہ رنگ ہے توحیدحقیقی پر ایمان و یقین کا رنگ جس کی وجہ سے جماعت کے افراد ہر قسم کے شرک اور وہم اور توہمانہ رسومات سے اپنے آپ کومحفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ پاک و ہند اور افریقہ جیسے علاقوں میں جہاں توہم پرستی عروج پر ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کےافراد ان بے ہودہ اور مشرکانہ رسومات سے مکمل اجتناب کر کے اپنے ایمان اور یقین کی گواہی رقم کر رہے ہیں۔

نئے سال پر پوری دنیا میں موجود احمدی احباب کی طرح تنزانیہ میں بھی نئے سال کا آغاز نماز تہجد کی ادائیگی، دعاؤں اور صدقات سےکیا جاتا ہے۔ جماعت کی مجموعی تربیت میں حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ایم ٹی اے کے ذریعہ حضرت اقدس براہ راست جماعت کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور التجا ہے کہ مولیٰ کریم ہمیں توحیدحقیقی پر قائم رکھے اور دنیا بھر سے مشرکانہ توہم پرستانہ رسوم کے خاتمے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائےآمین۔

(ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر۔موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ