• 29 اپریل, 2024

حقیقی پاکیزگی نور پیدا کرتی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اَور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبّر اور فخر نہ کرے نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی۔ جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔ آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جبتک سُورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظُلمت کو دُور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کردے۔

پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئ محض سمجھے اور آستانۂ اُلوہیّت پر گِر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نُورِ معرفت کو مانگے جو جذباتِ نفس کو جلا دیتاہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوّت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حِصّہ مِل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرحِ صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبّر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو۔ کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اُتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقید ہ رکھے گا تو اُمیدہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دُنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبّر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دُوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ213 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

جدید طبیعیات پر ایک تعارفی نظر Theory of Relativity

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2022