کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 30
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُر آشوب زمانہ میں جبکہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے وہ تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے۔ دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصے کو ترک کر دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں۔ جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصص میں دیکھی جاتی ہیں۔ لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوئے ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کہ خدا نے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری دفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ بالکل اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کا (سچا تقویٰ اور ایمان کا) تخم ہرگز ضائع نہ کرے۔ جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آئی ہے تو اور فصل پیدا کر دیتا ہے۔
وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ (الحجر: 10) بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کے الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دور رہیں اس لئے اب ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ55۔ 56، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
خدا کی رحمت کے سرچشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے اس (انسان) کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خدا کا قدم بڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں اور اسی لئے جن پر یہ ہوتی ہیں۔ ان کے لئے وہ نشان بولی جاتی ہیں۔ (اس کی نظیر دیکھ لو) کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتی کہ قتل کے منصوبے کئے مگر آخر ناکامیاب ہی ہوئے۔ خدا تعالیٰ یہ تجویز پیش کرتا ہے (اس خاص رحمت کے حصول کے واسطے جو اخلاق وغیرہ حاصل کئے جاویں تو) ان امروں کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاوے نہ کہ ہمارے سامنے۔ اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے۔ کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں۔ اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے مگر نماز ہے کہ ہر ایک (حیثیت کے آدمی) کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔ اُسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اُسی سیکنڈمیں۔ کیونکہ دوسرے دنیاوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے کہ اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے دیوے۔ بڑی تضرع سے دعا کرے۔ ناامید اور بدظن ہرگز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لیوے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہئے مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خدا کو کیوں ہو۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ61۔ 62، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
نفس کے ہم پر حقوق
خدا کے کلام کو اسی کی زبان میں پڑھنا چاہئے اس میں بھی ایک برکت ہوتی ہے خواہ فہم ہو یا نہ ہو اور ادعیہ ماثورہ بھی ویسے ہی پڑھے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے نکلیں۔ یہ ایک محبت اور تعظیم کی نشانی ہے۔ باقی خواہ ساری رات دعا اپنی زبان میں کرتا رہے۔ انسان کو اوّل محسوس کرنا چاہئے کہ میں کیسے مصیبت زدہ ہوں۔ اور میرے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں۔ کیسے کیسے امراض کا نشانہ ہوں اور موت کا اعتبار نہیں ہے۔ بعض ایسی بیماریاں ہیں کہ ایک آدھ منٹ میں ہی انسان کی جان نکل جاتی ہے۔ سوائے خدا کے کہیں اس کی پناہ نہیں ہے۔ ایک آنکھ ہی ہے جس کی تین سو امراض ہیں۔ ان خیالوں سے نفسانی زندگی کی اصلاح ہو سکتی ہے اور پھر ایسی اصلاح یافتہ زندگی کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک دریا سخت طغیانی پر ہے۔ مگر یہ ایک عمدہ مضبوط لوہے کے جہاز پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور ہوائے موافق اسے لے جارہی ہے۔ کوئی خطرہ ڈوبنے کا نہیں لیکن جو شخص یہ زندگی نہیں رکھتا۔ اس کا جہاز بودا ہے۔ ضرور ہے کہ طغیانی میں ڈوب جاوے۔ عام لوگوں کی نماز تو برائے نام ہوتی ہے۔ صرف نماز کو اٹیرتے ہیں اور جب نماز پڑھ چکے تو پھر گھنٹوں تک دعا میں رجوع کرتے ہیں۔
ایک صاحب نے اٹھ کر عرض کی کہ جب تک حرام خوری وغیرہ نہ چھوڑے تب تک نماز کیا لذت دیوے اور کیسے پاک کرے۔
حضرت اقدس نے فرمایا :۔ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (ھود: 115) بھلا جو اوّل ہی پاک ہو کر آیا اسے پھر نماز کیا پاک کرے گی۔
حدیث میں ہے کہ تم سب مردہ ہو مگر جسے خدا زندہ کرے۔ تم سب بھوکے ہو مگر جسے خدا کھلاوے الخ۔ ایک طبیب کے پاس اگر انسان اوّل ہی صاف ستھرا اور مرض سے اچھا ہو کر آوے تو اس نے طبابت کیا کرنی ہے اور پھر خدا تعالیٰ کی غفوریت کیسے کام کرے۔ بندوں نے گناہ کرنے ہی ہیں تو اس نے بخشنے ہیں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ وہ گناہ نہ کرے جس میں سرکشی ہو ورنہ دوسرے گناہ جو انسان سے سرزد ہوتے ہیں۔ اگر ان سے بار بار خدا سے بذریعہ دعا تزکیہ چاہے گا تو اسے قوت ملے گی۔ بلا قوت اﷲ تعالیٰ کے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ اس کا تزکیہ نفس ہو اور اگر ایسی عادت رکھے کہ جو کچھ نفس نے چاہا اسی وقت کر لیا تو اسے کوئی قوت نہیں ملے گی۔ قوت اس وقت ملے گی جب ان جوشوں کا مقابلہ کرے اور گناہ کی طاقت ہوتے ہوئے پھر گناہ نہ کرے ورنہ اگر وہ اس وقت گناہ سے باز آتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ نے طاقتیں چھین لی ہیں تو اسے کیا ثواب ہوگا۔ مثلاً آنکھوں میں بینائی نہ رہے تو اس وقت کہے کہ اب میں غیر عورت کو نہیں دیکھتا تو یہ کیا بزرگی ہوئی۔ بزرگی تو اس وقت تھی کہ پیشتر اس کے کہ خدا اپنی دی ہوئی امانتیں واپس لیتا وہ اس کے بے محل استعمال سے باز رہتا۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ34۔ 35، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
نیکی کے ذکر پر فرمایا کہ:۔
نیکی کی جڑ یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذات اور شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حد اعتدال سے زیادہ نہ لیوے جیسا کہ کھانا پینا اﷲ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنا لیا ہے۔ اس کا نام دین پر بڑھانا ہے ورنہ یہ لذات دنیا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے وہ کمزور نہ ہو۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے یکہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو سات یا آٹھ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کر کے اسے دَم (دِلا) دیتے ہیں اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں۔ تاکہ اس کا پچھلا تکان رفع ہو جاوے تو انبیاء نے جو حظّ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپرد تھا۔ اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے۔ اس واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی وقت عائشہؓ کے زانو پر ہاتھ مار کر فرماتے کہ اے عائشہ راحت پہنچا۔ مگر انبیاء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے۔ انہماک بے شک ایک زہر ہے ایک بدمعاش آدمی جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں۔ جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے۔ خدا کو اس کا ضرور پاس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی (المائدۃ: 9) تنعم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔ چوری نہ کرے بلکہ جائز امور میں بھی حد اعتدال سے نہ بڑھے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ37، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
علالت طبع پر فرمایا کہ:۔
اب دو تین دن سیر بند رہے گی۔ کیونکہ آج کل بارشیں نہیں ہوئیں۔ اس لئے راستہ میں خاک بہت اڑتی ہے اور اسی سے میں بیمار بھی ہو گیا تھا۔
ایک صاحب نے کہا کہ چونکہ لوگ حضور کے آگے آگے چلتے ہیں۔ اس لئے خاک بہت اڑ کرآپ پر پڑتی ہے۔ لیکن اس مجسم رحم انسان نے جواب دیا کہ:۔
نہیں۔ بارش کے نہ ہونے سے یہ تکلیف ہے۔
(اﷲ اﷲ !کیا رحم ہے اور حسن ظن ہے کہ اپنے احباب کو ہرگز ملزم نہیں ٹھہراتے)
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 54، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ (اس کے لئے حضرت اقدس کی تصنیف اسلام کی فلاسفی اور کشتی نوح مطالعہ کرنی چاہئے) لوگوں سے مروّت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔ وہی اصل متقی ہوتے ہیں (یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ: 63) ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ (الاعراف: 197) حدیث شریف میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے۔ جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے طیار رہو۔ اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی بچہ اس کا چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ60۔61، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ادنیٰ سی نیکی بھی ہو تو اس کا ثمرہ دیتا ہے۔ میں نے ایک کتاب میں نقل دیکھی ہے کہ ایک شخص نے اپنے ہمسایہ آتش پرست کو دیکھا کہ چند روز کی برسات کے بعد وہ اپنے کوٹھے پر جانوروں کو دانے ڈال رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا کہ جانوروں کو دانے ڈال رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ تیرا عمل بیکار ہے۔ اس گبر نے اس کو کہا کہ اس کا ثمرہ مجھے ملے گا۔ پھر وہی بزرگ کہتے ہیں کہ جب دوسرے سال میں حج کرنے کو گیا تو دیکھا وہی گبر طواف کر رہا ہے اس نے مجھے پہچان کر کہا کہ ان دانوں کا ثواب مجھے ملا یا نہیں؟
ایسا ہی ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں سخاوت کی تھی یا رسول اللہ مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسی سخاوت نے تو تجھے مسلمان کیا۔
ہزاروں آدمی بغیر دیکھے گالیاں دینے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب دیکھتے ہیں اور آتے ہیں تو وہ ایمان لاتے ہیں۔ میرا یہ مذہب نہیں کہ انسان صدق اور اخلاص سے کام لے اور وہ ضائع ہو جاوے۔
پھر حضرت حجۃ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کا قصہ بیان کیا جو کئی بار ہم نے الحکم میں درج کیا ہے اور اس بات پر آپ نے تقریر کو ختم کیا۔
؎ مردانِ خدا خدا نہ باشند
لیکن از خدا جُدا نہ باشند
(ملفوظات جلد4 صفحہ219، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)