• 7 مئی, 2024

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات (قسط چہارم)

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات
اور نظریہٴ وحدت الوجود کا تدریجی ارتقاء
(قسط چہارم)

مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی
تنقید اور نظریہٴ وحدت الشہود

دسویں صدی ہجری میں اسلامی تعلیمات میں بہت بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔ ہر قسم کی بدعات، شرک اور بد رسوم مسلمانوں میں رواج پکڑ چکی تھیں۔ خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں پر ان کا بہت اثر تھا۔ یہ دور مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کا تھا۔ اکبر 964ھ میں تخت نشیں ہوا اور 1014ھ تک مسلسل پچاس برس اس نے حکومت کی۔ اکبر کے دور میں ہندوانہ رسم ورواج کو سرکاری سرپرستی میں بہت عروج ملا۔ اکبر نے اسلامی عقائد کو مسخ کر کے ایک نئے دین کی بنیاد رکھی جسے دین اکبری یا دین الہی کا نام دیا گیا۔

اس دور کا دوسرا بڑا فتنہ وحدت الوجود کا نظریہ تھا جو بڑی شدت سے مسلمانوں پر اور علماء اور صوفیاء کے خیالات پر حاوی ہو چکا تھا۔ اسے عمومی طور پر ’’ہمہ اوست‘‘ کی صورت میں قبول کر لیا گیا۔ غلام احمد پرویز اپنے مضمون وحدت الوجود میں لکھتے ہیں:
’’پہلا مسلمان دانشور جس نے مسلمانان ہند کو ہندو تصوف ویدانت سے متعارف کروایا وہ ابو ریحان البیرونی تھا جو غزنوی دور حکومت میں ہندوستان آیا اور ہندؤوں کی بیشتر کتابوں کا عربی اور فارسی میں ترجمہ کیا۔ بیرونی کے بعد شہنشاہ اکبر نے مہا بھارت، رامائن اور دیگر کتب کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کروایا۔ لیکن اس باب میں سب سے زیادہ نقصان دارا شکوہ نے پہنچایا۔ اس نے بنارس پنڈتوں کی مدد سے اُنشندوں کا ترجمہ فارسی میں کرایا اور اس کا نام سر اکبر رکھا۔ وہ اس کے مقدمہ میں لکھتا ہے کہ قرآن کریم میں جس کتاب مکنون کا ذکر آیا ہے وہ اُنشند ہیں۔ اس نے یوگ بششٹ کا فارسی ترجمہ ’’منہاج السالکین‘‘ کے نام سے کروایا۔ ان کتابوں میں وحدت الوجود کا فلسفہ اس کی شدید ترین شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا:

؎ تخم الحادے کہ اکبر پر درید
باز اندر فطرت دارا دمید
؎ شمع دل در سینہ ہا روشن نبود
ملت ما از فساد ایمن نہ بود

(رموز بیخودی)

یہ ٹھیک ہے کہ اکبر نے الحاد کا بیج بویا تھا لیکن اس کے تُخم الحاد اور دارا شکوہ کے شجر الحاد میں بڑا فرق ہے۔ اکبر کا الحاد برہنہ سامنے آیا تھا اس لئے اس سے ملت اسلامیہ نے فریب نہیں کھایا۔ لیکن دارا شکوہ کے الحاد نے تصوف کے نقاب میں یلغار کی اور اس متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی۔

(وحدت الوجود از غلام احمد پرویز)

یہ وہ دور تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجدید دین کے لئے مجددین کے ظہور کی پیشگوئی ایک بار پھر بڑی شان سے پوری ہوئی اور حضرت شیخ احمد سرہندی کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح اُمت کے لئے کھڑا کیا۔ آپ 971ھ کو سرہند میں پیدا ہوئے اور 1033ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔

ابن عربی کی وفات اور آپ کی ولادت کے درمیان سوا تین سو سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ان تین صدیوں میں نظریہ وحدت الوجود کا طلسم پوری شدت سے مسلم ذہنوں پر اثر انداز ہو چکا تھا۔ وجودیوں اور متکلمین کے درمیان مناظروں، مباحثوں اور تکفیر بازی کا سلسہ جاری تھا۔

حضرت مجدد الف ثانی نے ان دونوں محاذوں (یعنی بدعات اور وحدت الوجود) پر بڑا زبردست کام کیا۔ اس جہاد میں آپ کو مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑی۔ آپ نے نظریہ وحدت الوجود کی ہمہ اوست کی تعبیر کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دیا اور اس کے مقابل پر اپنا نظریہ پیش کیا جسے وحدت الشہود کا نام دیا گیا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ محی الدین ابن عربی نے اپنے نظریہ وحدت الوجود کی بنیاد اپنے کشف پر رکھی اور مجدد الف ثانی نے اپنے نظریہ وحدت الشہود کی بناء بھی اپنے کشف پر رکھی۔

وحدت الوجود بمقابلہ وحدت الشہود

؎ جگ میں آ کر ادھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
؎ جان سے ہو گئے بدن خالی
جس طرف تُو نے آنکھ بھر دیکھا

(میر درد)

ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود خالق اور مخلوق کے درمیان اتحاد اور وحدت کا نظریہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ ابن عربی کائنات کو خارج میں تسلیم نہیں کرتے اور اسے خدا کے خیال میں قائم سمجھتے ہیں جبکہ وحدت الشہود کے مطابق کائنات حقیقت میں خارج میں موجود ہے اور وحدت صرف مشاہدے ہیں ہے۔

اسے یوں سمجھ لیں جیسے آسمان پر ستارے موجود ہونے کے باوجود سورج کی موجودگی میں نظر نہیں آتے۔ یا ایسے وقت میں جب آپ ارد گرد کی اشیاء دیکھ رہے ہوں اور یکدم آپ کی آنکھوں میں تیز روشنی ڈال دی جائے تو آپ کو سوائے اس روشنی کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ مجدد الف ثانی کا کہنا تھا کہ عشق خداوندی میں وہ مقام آتا ہے جب خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ ہر شے میں خدا کا نور جھلکتا نظر آتا ہے۔ یعنی کہ وحدت وجود میں نہیں بلکہ شہود اور مشاہدے میں ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غالب کہتا ہے

؎ اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

اب میں یہاں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی حقیقت اور ان دونوں میں فرق کو خود حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں۔

(قارئین سے درخواست ہے کہ حضرت مجدد کے اس بیان کو مراتب اور تنزیلات کے اُس چارٹ کو ذہن میں رکھ کر پڑھیں جو میں اوپر درج کر چُکا ہوں)۔ آپ لکھتے ہیں:۔

وحدت الوجود

’’سب سے پہلے شیخ محی الدین ابن عربی جو صوفیائے متاخرین کے امام و مقتداء ہیں اس مسئلہ میں ان کا مذہب بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ اس فقیر پر منکشف ہوا ہے تحریر کیا جائے گا تا کہ دونوں مذہبوں کے درمیان پورے طور پر فرق ظاہر ہو جائے اور باریک دقائق کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ غلط ملط نہ ہوں۔

شیخ محی الدین اور ان کے متبعین فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ جل وعلا کے اسماء و صفات ذات واجب تعالیٰ کا بھی عین ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کا بھی عین ہیں۔ مثلاً علم و قدرت جس طرح حق تعالیٰ کا عین ذات ہیں اسی طرح ایک دوسرے کا بھی عین ہیں۔ لہٰذا اس مقام میں کسی اسم اور رسم یعنی نشان کی کوئی تعداد اور کثرت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تمائز و تبائن یعنی تمیز و فرق ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان اسما و صفات اور شیون اعتبارات نے حضرت علم میں اجمالی اور تفصیلی طور پر تمائز و تبائن پیدا کیا ہے۔ اگر اجمالی تمیز ہے تو وہ تعیین اول سے تعبیر کی جاتی ہے اور اگر وہ تفصیلی تمیز ہے تو وہ تعیین ثانی سے موسوم ہے۔

تعیین اول کو وحدت کہتے ہیں اور اسی کو حقیقت محمدی سمجھتے ہیں۔ اور تعیین ثانی کو واحدیت کہتے ہیں اور تمام ممکنات کے حقائق گمان کرتے ہیں۔ اور ان حقائق ممکنات کو اعیان ثابتہ جانتے ہیں۔ اور یہ دو علمی تعیین جو کہ وحدت اور واحدیت ہیں ان کو مرتبہ وجوب میں ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان اعیان ثابتہ نے وجود خارجی کی بُو تک نہیں پائی اور خارج میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ اور یہ کثرت جو خارج میں ظاہر ہوتی ہے ان اعیان ثابتہ کا عکس ہے جو ظاہر وجود کے آئینے میں منعکس ہوا ہے جس کا کوئی جزو بھی خارج میں موجود نہیں ہے اور خیالی وجود پیدا کر لیا ہے جس طرح ایک شخص کی صورت آئینے میں منعکس ہو کر وجود تخیلی پیدا کرے۔ اس عکس کا وجود صرف تخیل میں ثابت ہے اور آئینے میں کسی شے نے حلول نہیں کیا ہے اور نہ ہی آئینے کی سطح پر کوئی چیز منقش ہوئی ہے۔ بلکہ اگر کچھ منقش ہے تو صرف خیال میں ہے جو آئینے کی سطح پر متوہم ہو گیا ہے۔ یہ کثرت جو خارج میں ظاہر ہوتی ہے تین قسموں میں منقسم ہے۔

قسم اول تعیین روحی ہے اور قسم دوم تعیین مثالی اورقسم سوم تعیین جسدی کہ جس کا تعلق عالم شہادت سے ہے۔ ان تینوں تعینات کو تعینات خارجیہ کہتے ہیں اور امکان کے مرتبہ میں ثابت کرتے ہیں۔ تنزلات خمسہ سے مراد یہی تعینات پنجگانہ ہیں اور ان تنزلات کو حضرات خمس بھی کہتے ہیں۔ اور چونکہ علم اور خارج میں سوائے ذات واجب تعالیٰ اور اسماء و صفات جل سلطانہُ کے جو عین ذات تعالیٰ و تقدس ہیں ان کے نزدیک ثابت نہیں اور انہوں نے صورت علمیہ کو ذی صورت کا عین گمان کیا ہے نہ کہ شبہ یعنی جسم اور امثال۔ اور اسی طرح اعیان ثابتہ کی صورت منعکسہ کو جو ظاہر ہوئی ہے انہوں نے ان اعیان کا عین تصور کر لیا ہے نہ کہ ان کی شبہ۔ اس لئے انہوں نے اتحاد کا حکم لگا دیا اور ’’ہمہ اوست‘‘ کہا ہے۔ یہ ہے وحدت الوجود میں شیخ محی الدین ابن عربی کے مذہب کا اجمالی بیان۔

(مکتوبات امام ربانی دفتر دوم مکتوب اول صفحہ20۔ 21)

وحدت الشہود:
(اعدام متقابلہ بمقابلہ اعیان ثابتہ)

اس کے بعد حضرت مجدد الف ثانی اپنے نظریہ وحدت الشہود کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’واجب جل سلطانہُ کے اسماء و صفات خانہء علم میں بھی تفصیل و تمیز رکھتے ہیں اور منعکس ہو گئے ہیں۔ اور ہر اسم و صفت کی تمیز کے لئے مرتبہء عدم میں ایک مقابل اور ایک نقیض ہے۔ مثلا ًمرتبہ عدم میں صفت علم کا مقابل اور نقیض عدم علم ہے جس کو جہل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور صفت قدرت کے مقابل عجز ہے جس کو عدم قدرت ہے علی ھٰذالقیاس۔ ان عدمات متقابلہ نے بھی علم واجبی جل شانہُ میں تفصیل و تمیز پیدا کی ہوئی ہے۔ اور اپنے متقابلہ اسماء و صفات کے آئینے اور ان کے عکسوں کے ظہور اور جلوہ گاہ بن گئے ہیں۔ فقیر کے نزدیک وہ عدمات ان اسماء و صفات کے عکوس کے ساتھ ممکنات کے حقائق ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ وہ عدمات ان ماہیتوں کے لئے اصول اور مواد کے رنگ میں ہیں اور وہ عکوس ان مواد میں حلول کرنے والی صورتوں کی مانند ہیں۔ شیخ محی الدین کے نزدیک ممکنات کے حقائق وہ تمام اسماء و صفات ہیں جو مرتبہء علم میں امتیازی کیفیت رکھتے ہیں اور فقیر کے نزدیک ممکنات کے حقائق وہ عدمات ہیں جو اسماء و صفات کے نقائض یعنی ضد ہیں۔ مثلا ًممکن کا علم واجب تعالیٰ و تقدس کے علم کا ایک پرتو اور ظل ہے جو اپنے مقابل میں منعکس ہوا ہے اور ممکن کی قدرت بھی ایک ظل ہے جو عجز میں اس کے مقابل ہو کر منعکس ہو گئی ہے۔ اور اسی طرح ممکن کا وجود حضرتِ وجود کا ایک ظل ہے جو عدم کے آئینے میں اس کے مقابل ہو کر منعکس ہو گیا ہے۔ لیکن فقیر کے نزدیک کسی شے کا ظل اس شے کا عین نہیں ہوتا بلکہ اس کا شبہ اور مثال ہے اور ایک کا دوسرے کے ثبوت میں پیش کرنا ممتنع اور محال ہے۔ لہذا فقیر کے نزدیک ممکن، واجب کا عین نہیں ہے کیونکہ ممکن کی حقیقت عدم ہے اور اسماء و صفات کا وہ عکس ہے جو اس عدم میں منعکس ہو گیا ہے اور ان اسماء و صفات کی شبہ اور مثال ہے نہ کہ ان صفات کا عین۔ لہذا ہمہ اوست کہنا درست نہیں بلکہ ہمہ از اوست کہنا درست ہے۔ لہذا معلوم ہو گیا کہ عالم خارج میں وجود بلی کے ساتھ موجود ہے جس طرح حضرت حق سبحان وجود اصلی کے ساتھ بلکہ اپنی ذات کے ساتھ خارج میں موجود ہے۔ اگر کہا جائے کہ شیخ محی الدین اور ان کے متبعین بھی عالم کو حق تعالیٰ کا ظل جانتے ہیں تو پھر فرق کیا ہوا؟ یہ لوگ چونکہ ظل کے لئے وجود خارجی ثابت نہیں کرتے اس لئے اصل پر محمول کرتے ہیں اور یہ فقیر چونکہ ظل کو خارج میں موجود جانتا ہے اس لئے اس پر حمل کرنے کی پیشقدمی نہیں کرتا۔ ظل سے اصلی وجود کی نفی میں یہ فقیر اور وہ سب شریک ہیں اور وجود ظلی کے اثبات میں بھی متفق ہیں۔ لیکن یہ فقیر وجود ظلی کو خارج میں ثابت کرتا ہے اور وہ وجود ظلی کو وہم اور تخیل میں گمان کرتے ہیں اور خارج میں احدیت مجردہ کے سوا کچھ موجود نہیں جانتے اور صفات ثمانیہ یعنی آٹھ صفات کو بھی جن کا وجود اہل سنت والجماعت کی آراء کے موافق خارج میں ثابت ہو چکا ہے ان کو بھی علم کے سوا ثابت نہیں کرتے۔ اور جو کچھ فقیر نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ممکن پر وجود کا اطلاق بطریق حقیقت ہے نہ کہ بطریق مجاز، وہ بھی اس تحقیق کے منافی نہیں کیونکہ ممکن خارج میں ظلی وجود کے ساتھ بطریق حقیقت موجود ہے نہ کہ توہم اور تخیل کے طور پر جیسا کہ یہ گمان کرتے ہیں۔‘‘

(مکتوبات امام ربانی دفتر دوم مکتوب نمبر1 صفحہ23۔ 25)

حضرت مجدد الف ثانی پر وحدت الوجود کی حقیقت کشفی طور پر ظاہر ہوئی۔ اسے بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
’’یہ فقیر بچپن سے توحید وجودی کے مشرب پر کاربند رہا۔ فقیر کے والد بزرگوار قدس سرہُ کا بھی یہی مشرب رہا ہے اور ان کا طریق اشتغال بھی ہمیشہ یہی رہا ہے۔ تھوڑی مدت کی مشق کے بعد توحید وجودی کے جملہ حقائق و معارف اس فقیر پر روشن ہو گئے اور اس مقام پر ابن عربی کو جو حقائق و دقائق حاصل ہوئے وہ سب مجھے حاصل ہو گئے۔ یہ حال ایک مدت تک رہا اور مہینوں سے سالوں تک طول پکڑ گیا۔ ناگہاں رحمت الہٰی دریچہٴ غیب سے میدان میں نمودار ہوئی اور بے چونی اور بے چگونی کے چہرہ کو ڈھانپنے والے پردہ کو اتار پھینکا اور سابقہ علوم جو اتحاد اور وحدت وجود کی خبر دیتے تھے زائل ہونے لگے اور احاطہ و سریان اور قرب و معیت ذاتیہ کے جو کوائف اس مقام میں منکشف ہوئے تھے پوشیدہ ہو گئے اور یقینی طور پر معلوم ہو گیا کہ صانع عالم کو ان مذکورہ نسبتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حق تعالیٰ کا احاطہ اورقرب علمی ہے جیسا کہ اہل حق کے ہاں ثابت و مسلم ہے۔ حق تعالیٰ کسی شے سے متحد نہیں ہے۔ خدا خدا ہے اور عالم عالم، واجب ممکن کا عین اور قدیم حادث کا عین ہر گز نہیں ہو سکتا۔ توحید وجودی کے مشرب کے مخالف علوم و معارف کے حصول کے بعد فقیر بہت بے قرار ہوا کیونکہ اس توحید سے بڑھ کر کوئی اور اعلیٰ امر نہ جانتا تھا اور عاجزی اور انکساری سے دعا کرتا تھا کہ یہ معرفت زائل نہ ہو جائے یہاں تک کہ سارے حجابات نظروں کے سامنے سے ہٹ گئے اور حقیقت پورے طور پر منکشف ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ عالم ہر چند صفات کمالات کا آئینہ اور ظہور اسماءالہی کی جلوہ گاہ ہے لیکن مظہر ظاہر کا عین اور ظل نہیں ہے جیسا کہ توحید وجودی والوں کا مسلک ہے۔‘‘

(مکتوبات دفتر اول مکتوب نمبر 31)

حضرت مجدد الف ثانی نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بڑی واضح تشریح فرمائی ہے۔ دونوں نظریات کے مطابق اس کائنات کا وجود ظلی اور مجازی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ابن عربی ممکن یا حادث کو خارج میں تسلیم نہیں کرتے اور اسے صرف خدا کے تخیل میں مانتے ہیں جبکہ مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ ممکن اپنے مجازی اور ظلی وجود کے ساتھ خارج میں بطریق حقیقت موجود ہے۔ پہلے جو بحثیں متکلمین اور وجودیوں کے درمیان تھیں اب یہ جھگڑا وجودیوں اور شہودیوں کے درمیان شروع ہو گیا۔ جب یہ جھگڑے طول پکڑ گئے تو اس تنازع کے حل کے لئے ایک اور بڑی شخصیت میدان میں اُتری اور یہ شخصیت تھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تھی۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تطبیق

حضرت شاہ ولی اللہ مجددالف ثانی کی وفات کے 80 سال بعد مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ یہ دور مسلمان حکومت کے زوال کا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کی اصلاح و تربیت کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی ان کی راہنمائی کی۔ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کیا۔ ان کی مشہور کتاب ’’اَلْحُجَّۃُ الْبَالِغَہ‘‘ ہے جسے امام غزالی کی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ کی طرح بڑا علمی مقام حاصل ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے دور میں بھی وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے جھگڑے عروج پر تھے۔ آپ نے کوشش کی کہ ان میں تطبیق پیدا کی جائے۔ چنانچہ اپنے ایک مکتوب (مکتوب مدنی) بنام اسمعیل آفندی بن عبد اللہ رومی المدنی تحریر فرماتے ہیں:
’’مجھے آپ کا مراسلہ مل گیا ہے جس میں آپ نے شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اور شیخ مجدد احمد سرہندی کے اقوال کی روشنی میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے متعلق سوال کیا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ان دونوں بزرگوں کے اقوال میں تطبیق دی جا سکے۔

اور جان لو کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود دو لفظ ہیں جن کا استعمال دو مختلف مواقع پر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی ان دونوں لفظوں کو سیر الی اللہ کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہا جاتا ہے کہ فلاں سالک کا مقام وحدت الوجود ہے اور فلاں سالک وحدت الشہود کے مقام پر ہے۔ چنانچہ یہاں وحدت الوجود سے مراد ایک خاص استغراق ہے جو تمام عالم کی اس جامع حقیقت کی معرفت میں حاصل ہوتا ہے جس کی رُو سے فرق اور امتیاز کے ایسے تمام احکام ساقط ہو جاتے ہیں جن کی بناء پر خیر اور شر کا باہمی تعلق قائم ہے۔ یہ مقام بعض سالکین کا درپیش ہوتا ہے اور وہ اسی حالت میں رہتے ہیں تا وقتیکہ اللہ تعالیٰ ان کو اس مقام سے خلاصی بخش دے۔ اور وحدت الشہود وہ مقام ہے جہاں جمع اور تفرقہ دونوں بیک وقت نظر میں رہتے ہیں۔ چنانچہ اس مقام کے سالک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشیاء ایک خاص نقطہ پر تو واحد ہیں لیکن ایک دوسرے نقطہ نظر سے باہم مختلف ہیں اور کثرت اسی وجہ سے ہے۔ چنانچہ یہ مقام پہلے والے مقام سے زیادہ بلند اور کامل تر ہے۔‘‘

’’اور ہمارے نزدیک واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں جو مکشوف ہوئی ہیں اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:۔
’’شیخ مجدد احمد سرہندی نے اپنے مکتوبات میں صفات ثمانیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی آٹھ اُمہات صفات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ صفات خارج میں موجود ہیں۔ چنانچہ لازم ٹھہرا کہ وہ صفات خارج میں ذات واجبہ سے علیحدہ اور ممیز ہوں اور یہ بھی کہا کہ ہر صفت کے بالمقابل ایک عدم ہے۔ چنانچہ صفت علم کے مقابل جو عدم ہے اسے جہل سے موسوم کریں گے۔ اور صفت قدرت کے مقابل عدم کو عجز کہیں گے اور تمام عدمات کو علم حق میں علیحدہ علیحدہ تشخص حاصل ہے۔ پس ممکنات کے حقائق دراصل اسماء و صفات کے عکوس ہیں جو ان کے متعلقہ اعدام میں ظاہر ہوئے۔ پس یہ اعدام ماہیات کے لئے ایک مادے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسماء و صفات کے عکوس گویا مادے میں حلول کی ہوئی صورتوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘

حضرت مجدد اور حضرت شاہ ولی اللہ کے ان ارشادات سے جو خاص بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ دونوں حضرات کے نزدیک عدم مطلق یا عدم محض کوئی شے نہیں بلکہ عدم بھی وجود رکھتا ہے اور اعدام متقابلہ کے لئے وہ مادہ مہیا کرتا ہے جس میں صفات باری تعالیٰ منعکس ہو کر انہیں خارج میں ظلی وجود کے طور پر ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ صفات باری تعالیٰ خدا تعالی ٰکا عین نہیں بلکہ غیر ہیں۔ جبکہ شیخ ابن عربی فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی جملہ صفات کے مجموعے کا نام ہے جو خدا کا عین ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام (حکم و عدل) کے فیصلہ کُن ارشادات

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالی نے اس اُمت کے لئے حکم اور عدل بنا کر مبعوث فرمایا۔ اُمت میں جاری تنازعات کا جو فیصلہ آپ فرمائیں گے وہی قابل قبول ہو گا۔ چنانچہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے جھگڑے میں آپ نے وحدت الوجود کے ہمہ اوست نظریے کو کُلیتاً رد فرماکر وحدت الشہود کو توحید کی بنیاد قرار دیا۔ آپ اپنے ایک خط بنام میر عباس علی لدھیانوی تحریر فرماتے ہیں:
’’اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین ابن عربی کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی جو اس طرح کے خیالات سے بھرے ہوئے ہیں اور خود عقل خداداد کی رُو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعویٰ کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اُٹھ نہیں سکتیں۔ اول بڑی بھاری دلیل مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر یک کے لئے جو حق پر قدم مارنا چاہتا ہے قرآن شریف ہے۔ کیونکہ قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالم میں اور نہ دوسرے عالم میں منقطع ہو گی۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول مکتوب نمبر 41)

اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام اپنے ایک مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب مسئلہ وحدت الوجود کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’بینات قرآنیہ ہر گز اس مسئلہ کی تائید نہیں کرتیں بلکہ قرآن شریف نے جا بجا امتیاز حقیقی خالق اور مخلوق میں بتایا ہے۔ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ (الشوری: 12) لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ (الانعام: 104) یہ کہاں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مخلوق خالق کا حقیقت میں عین ہی ہے صرف تغائر اعتباری ہے۔ سو میں اب بھی کہتا ہوں اور باصرار کہتا ہوں کہ قرآن شریف پر وجودیوں کی یہ تہمت ہے۔ بینات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرنا کج دل آدمیوں کا کام ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول)

پھر فرمایا: ’’وجودیوں کے مذہب کا لُب لُباب یہ ہے کہ ہم اور خُدا ایک ہی ہیں صرف درمیان میں اعتباری تغائر ہے جیسا کہ اپنے خط میں آپ خود تسلیم کر چکے ہیں اور محی الدین ابن عربی صاحب جا بجا اپنی تالیفات میں اسی پر زور دیتے ہیں کہ الخالق عین مخلوقہُ دیکھو فصوص الحکم کے پہلے صفحات پر۔ پس جب کہ وجودی بزعم خود خدا ہوئے تو اب کس قدر ان پر اعتراض ہوتے ہیں۔ کیا کوئی گن سکتا ہے؟ کیا خدائے عز وجل کی روح کبھی خدائی کے مرتبہ سے تنزل بھی کرتی ہے۔‘‘

’’رومی (مولانا روم) کی عبارت سے صرف توحید شہودی معلوم ہوتی ہے اس کو جاہل وحدت وجودی سمجھتے ہیں۔ محی الدین نے غلطی کھائی ایک بشر تھا بھول گیا اس کا بوجھ اس پر اور تمہارا تُم پر۔ اور سید گیلانی (شیخ عبد القادر گیلانی) پر وجودیت کی تہمت ہے ان کا قول ہے کل حقئقتہ ردتھا الشریعت فھو زندقہ۔ فتوح الغیب کو آپ نے نہیں پڑھا یا اگر پڑھا ہے تو نہیں سمجھا۔ فتوح الغیب تو وجودیوں کی جڑ کاٹتی ہے اس کو غور سے پڑھو تا معلوم ہو۔‘‘

’’حضرت محی الدین صاحب فصوص میں فرماتے ہیں۔ بَلْ ھُوَ عَیْنٌ لَا غَیْرُھَا۔ اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ وجودی مخلوق کو عین خالق کا سمجھے ہوئے بیٹھے ہیں حقیقی طور پر نہ مجازی طور پر۔ کیونکہ اگر اس جگہ کسی مجاز کو دخل ہو تو پھر وہ توحید شہودی ہو گی نہ وحدت وجودی۔‘‘

پھر فرمایا:۔ ’’جن بزرگوں کو اپنے سلوک ناتمام اور کشف خام کی وجہ سے یہ دھوکا لگا ہے وہ تو ایک وجہ سے معذور بھی تھے۔ اسی وجہ سے ہماری تمام ملامت سے جو اس خط میں ہم نے کی ہے وہ مستثنی ہیں۔ اور باوجود اس خطا کے ہم ان کو بزرگ ہی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی کے لطف و مرحمت نے اس غلطی پر انجام کار گو قریب موت ہی ہو ان کو متنبہ کر دیا ہو گا جیسا کہ عین موت کے وقت مجدد سرہندی کے مرشد اس غلطی پر متنبہ کئے گئے اور اپنے آخری وقت میں اس ضلالت کے خیال سے توبہ کی اور لوگوں کو اس توبہ کا گواہ کیا۔ سو ہمارا دل بڑے استحکام سے شہادت دیتا ہے کہ محی الدین ابن العربی صاحب نے بھی اپنے آخری وقت میں توبہ کی ہو گی اور اپنے اقوال مردودہ سے رجوع کر لیا ہو گا۔‘‘

(مکتوب بنام شیخ مظہر حسین۔ مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 669)

شطحیات

بعض بزرگوں کی طرف ایسے کلمات منسوب ہیں جن کی اگر تاویل نہ کی جائے تو وہ صریحا ً کفریہ اور شرکیہ معلوم ہوتے ہیں۔ ان اقوال کی وجہ سے عوام الناس نے بڑا دھوکا کھایا ہے اور انہیں وحدت الوجود کے لئے سند پکڑا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان کلمات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اگرچہ یہ کلمات عشق کی شدت کی حالت میں نکلے جو دراصل وحدت شہودی کی طرف اشارہ کرتے ہیں مگر بظاہر وحدت الوجود کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں۔ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’لوگ توحید شہودی کے معنوں کو بگاڑ کر خونخواہ وحدت وجودی کی طرف لے آتے ہیں۔ چنانچہ کسی کا سکر اور فنائے نظری کی حالت میں اَنَا الْحَقّ کہنا، ہمہ اوست کا کلمہ زبان پر لانا یَا سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَأْنِیْ مِنْہٗ سے نکلنا یہ سب کلمات عشقی محویت کی حالت میں توحید شہودی کے چشمہ سے نکلے ہیں اور وجودیوں کی یہ ناقص العقلی اور خباثت الباطنی ہے جو کہ ان عاشقانہ کلمات کو وحدت وجودی پر نازل کرتے ہیں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ652)

’’وہ کلمات توحید شہودی کے پاک چشمہ سے تھے نہ مکدر نہ مغشوش چشمہ وحدت وجود سے۔ کیونکہ فنا اور محویت عشقی کا نتیجہ توحید شہودی ہے نہ وجودی۔ جو شخص غلبہء عشق سے فانی اور محو ہو گیا ہے اس کو اس تحقیق سے کیا غرض کہ واقعی امر ہمہ اوست ہے یا ہمہ از اوست۔ وہ تو محویت عشقی کے جوش سے کہتا ہے من تو شدم تو من شدی عشق آمد شد خودی۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ653)

’’کبھی عارف خدا تعالی کی محبت اور عشق میں ڈوب کر ایک طرفۃ العین کے لئے اس کے رنگ سے رنگین ہو جاتا ہے اور اس عاشقانہ بے تمیزی میں الوہیت کی چادر اپنے اوپر لپیٹ لیتا ہے اور بیخودی کی حالت میں اَنَا الْحَقُّ یَا سُبْحَانِیْ مَآ اَعْظَمَ شَأْنِیْ کے مثل الفاظ اپنے منہ سے نکالتا ہے۔ تب جاہل یا تو اس کو کفر کی طرف منسوب کرتا ہے اور یا اس کے مستانہ قول کو فرقہ ضالہ وحدت الوجود کے لئے سند پکڑتا ہے۔ اگرچہ کسی اہل اللہ کے منہ سے اَنَا الْحَقُّ وغیرہ نکلنا اس کے ضعف اور کمزوری کی نشانی ہے اور اس بات پر دال ہے کہ ابھی وہ شخص عبودیت کے اعلیٰ ترین مقام پر جو منتہائے دائرہ کمالات انسانی ہے نہیں پہنچا۔ لیکن ایسے ایسے الفاظ میں یہ نقصان ہے کہ ان سے بہت سے لوگ فتنہ میں پڑتے ہیں اور ہلاک ہوتے ہیں۔ سو ذاتی اور اخلاقی لیاقت عارف کی یہی ہے کہ ایسے جوشوں کو دبا رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیوں کے منہ سے ایسے ایسے شطحیات ہر گز نہیں نکلے۔ لیکن ناتمام عارفوں کی مستانہ بکواس سے نادانوں کو بہت نقصان پہنچا اور جس نشہ کی ایک باافراط جوش نے ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکالے تھے اس کی طرف جاہلوں کا خیال نہیں آیا اور اس شک میں پڑ گئے کہ درحقیقت مخلوق خالق کا عین ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ666)

شطحیات پر امام غزالی کا بیان:
’’عارفوں نے حقیقت کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کے بعد بالا تفاق یہ بات کہی ہے کہ انہوں نے وجود واحد یعنی حق تعالیٰ ہی کو دیکھا۔ لیکن ان میں سے کچھ کے لئے یہ حالت علمی عرفان کی ہے اور کچھ کے لئے خالص ذوقی و حالی ہے۔ ان کی نظروں میں کثرت بالکلیہ معدوم ہو جاتی ہے اور وہ وحدانیت محض میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس میں ان کی عقلیں گُم ہو کر رہ جاتی ہیں اور وہ آئینہ حیرت بن کر رہ جاتے ہیں۔ نہ انہیں خود اپنا ہوش رہتا ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کی یاد سمائی ان کے اندر باقی رہتی ہے۔ وہ فی الواقع مدہوش ہو جاتے ہیں اور ان کی عقلیں ان سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے کوئی اَنَا الْحَقّ پکار اٹھتا ہے کوئی سُبْحَانَ مَآ اَعْظَمَ شَأْنِیْ اور کسی کی زبان سے مَا فِی الْجُبَّۃِ اِلَّا اللّٰہُ کا فقرہ نکل جاتا ہے۔ عاشقوں کے کلام کو جو حالت سکر میں ان سے صادر ہوتا ہے لپیٹ کر رکھ دینا چاہئے اس کا بیان نہیں کیا جانا چاہئے۔ جب وہ حالت سکر سے باہر آتے ہیں تو وہ جان لیتے ہیں کہ فی الواقع اتحاد نہیں تھا بلکہ اس سے ملتی جلتی حالت تھی۔‘‘

(مشکوۃ الانوار صفحہ19)

نظریہ وحدت الوجود کے رد میں
حضرت مصلح موعو رضی اللہ تعالی ٰعنہُ کے دلائل

جلسہ سالانہ 1921ء کے موقع پر حضور نے ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی جو اسی عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہے۔ اس میں جہاں آپ نے ہستی باری تعالیٰ کے زبردست دلائل دئیے وہاں وحدت الوجود کے حامیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی تاویلات اور تشریحات کو قوی دلائل سے نمبر وار توڑ کر رکھ دیا۔ میں قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔

اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے مجھے امید ہے کہ قارئین کو وحدت الوجود، وحدت الشہود اور دونوں میں فرق وضاحت سے سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہاں وحدت الشہود کے بارہ حضرت امام الزماں علیہ السلام کا ایک نہایت پُر معارف ارشاد اور چند اشعار بھی پیش کردوں تاکہ کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔

حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’اس جگہ ایک قرآنی نکتہ کہ جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو اس کی آفتاب پرستی کی غلطی پر آگاہ کرنے کے لئے صرح ممرد کی شکل میں دکھایا یاد رکھنے کے قابل ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ۔ (النمل: 45) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ اجرام علوی واجسام سفلی میں نظر آتا ہے جن میں سے بعض کی جاہل لوگ پرستش بھی کرتے ہیں تمام یہ چیزیں ہیچ اور معدوم محض ہیں۔ پرستش کے لائق نہیں اور جو کچھ بظاہر ان میں طاقتیں نظر آتی ہیں ان کی طرف منسوب کرنا ایک دھوکا ہے بلکہ ایک ہی طاقت عظمی ان سب کے نیچے پوشیدہ ہے کہ جو درحقیقت ان سے الگ ہے اور وہی یہ سب کرشمے دکھلا رہی ہے۔ جیسا اس صرح ممرد کے نیچے پانی تھا اور اس صرح کا عین نہیں تھا بلکہ اس سے الگ تھا مگر بلقیس کی نظر سقیم میں عین دکھائی دیا تب ہی اس نے ان شیشوں کو بہتے پانی کے دریا کی طرح سمجھا اور اپنی پنڈلیوں پر سے پاجامہ اٹھا لیا۔ یہ اس کو ایسا ہی دھوکا لگا تھا جیسا اس کو آفتاب پرستی میں لگا تھا کہ وہ طاقت عظمی اس کو نظر نہ آئی کہ جو درپردہ آفتاب سے عجائب کام ظہور میں لاتی اور اس سے الگ تھی۔ اسی طرح دنیا ایک ایسے شیش محل کی طرح ہے جس کی زمین کا فرش نہایت مصفا شیشوں سے کیا گیا اور پھر ان شیشوں کے نیچے پانی چھوڑا گیا ہے جو نہائت تیزی سے چل رہا ہے۔ اب ہر ایک نظر جو شیشوں پر پڑتی ہے وہ اپنی غلطی سے ان شیشوں کو بھی پانی سمجھ لیتی ہے اور پھر انسان ان شیشوں پر چلنے سے ایسا ڈرتا ہے جیسے پانی سے حالانکہ وہ درحقیقت شیشے ہیں۔ سو یہ نکتہ کہ جو تمام عالم کے انکشاف حقیقت کے لئیے عمدہ ترین اصول ہے اہل اللہ سے بہت مناسبت رکھتا ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ665)

حضرت اقدس علیہ السلام کا منظوم کلام
حمد رب العالمین

؎کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدأ الانوار جا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا
اُس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
چشمہء خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا
خوبرویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا
چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز
جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا

کلام حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا

؎مجھے دیکھ طالب منتظر مجھے دیکھ شکل مجاز میں
جو خلوص دل کی رمق بھی ہے ترے ادعائے نیاز میں

ترے دل میں میرا ظہور ہے ترا سر ہی خود سر طور ہے
تری آنکھ میں مرا نور ہے مجھے کون کہتا ہے دور ہے
مجھے دیکھتا جو نہیں ہے تو یہ تری نظر کا قصور ہے

مجھے دیکھ رفعت کوہ میں مجھے دیکھ پستئ کاہ میں
مجھے دیکھ عجز فقیر میں مجھے دیکھ شوکت شاہ میں
نہ دکھائی دوں تو یہ فکر کر کہیں فرق ہو نہ نگاہ میں

مجھے ڈھونڈ دل کی تڑپ میں تو مجھے دیکھ روئے نگار میں
کبھی بلبلوں کی صدا میں سُن کبھی دیکھ گُل کے نکھار میں
میری ایک شان خزاں میں ہے میری ایک شان بہار میں

میرا نور شکل ہلال میں میرا حُسن بدر کمال میں
کبھی دیکھ طرز جمال میں کبھی دیکھ شان جلال میں
رگ جاں سے ہوں میں قریب ترا دل ہے کس کے خیال میں

(ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر۔ موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

جدید طبیعیات پر ایک تعارفی نظر Theory of Relativity

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2022