• 20 اپریل, 2024

جماعت برکینا فاسو کی خلافت سے اخلاص و وفا کی داستانیں

جماعت برکینا فاسو کی خلافت سے اخلاص و وفا کی داستانیں
بزبان مبارک خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

’’نظام خلافت‘‘ جماعت احمدیہ کا طرہٴ امتیاز ہے۔ اس آسمانی نظام سے عشق و وفا کی داستانیں بھی عجیب ہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں خلافت کے عشاق نے اخلاص و وفا کی نئی تاریخ قم کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا شعر ہے:؎

کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا
ہیں سچے دل اس کی دولت، اخلاص اس کا سرمایا ہے

(کلام طاہر ایڈیشن 2004ء صفحہ56)

آج دنیا کے کونے کونے میں یہ سچے اور مخلص دل صداقت حضرت مسیح موعود ؑ کے گواہ بن کر خلافت احمدیہ کے گرد ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ برکینا فاسو کے دوردراز صحرائی ملک میں بھی ان ایمان والوں کی لہلاتی فصل صحرا میں لالہ زار کا سماں پیدا کئے ہوئے ہے۔ اس ملک کی اور اس میں بسنے والے خلافت کے پروانوں کی خوش بختی ہے کہ تاجدار خلافت کی زبان مبارک سے عشق ووفا کی ان داستانوں کی ذکرہو کر رہتی دنیا تک محفوظ ہو گیا۔خلافت رابعہ کے دور میں قائم ہونے والی اس جماعت نے صرف دو ہی دور خلافت دیکھے ہیں۔ یہ اس جماعت کی خوش بختی ہے کہ دونوں ادوار میں خلیفہٴ وقت کی زبان مبارک سے اس جماعت اور یہاں کے مخلصین کا تذکرہ متعدد باربار ہوچکا ہے۔ بلکہ برکینا فاسو کے خدامِ خلافت کی داستانِ عشق بطور مثال دوسروں کے لئے مشعل راہ بن گئی ہے۔

سیدنا حضرت امیرالموٴمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ برکینافاسو کے عشاق خلافت کے سر کا تاج ہیں:
’’یہ لوگ اخلاص و وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘

سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مئی 2020ء میں یوم خلافت کے حوالے سے خطبہ ارشاد فرما کر دنیا بھر کے احمدیوں کے سامنے خلافت سے عشق و وفا کی کچھ داستانوں کا تذکرہ پیش فرمایا۔ برکینا فاسو کی خوش قسمتی ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہاں کی مثالوں کو ایک بار پھر دہرا کرتازہ کر دیا۔ بارہ سال پہلے کےواقعات پھر دنیا کے سامنے آگئے۔ ان شاء اللّٰہ جب تک احمدیت قائم ہے یہ روشن مثالیں مینارہ روشنی بنی رہیں گی۔

سیّدنا امیر الموٴمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء میں اپنے تاریخی سفر گھانا 2008ء کا ذکر فرمایا۔ اس سفر کے روح پرورو ایمان افروز نظاروں اور عشق و وفا کی داستانوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’خلافت سے اخلاص کا تعلق اور جو محبت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان لوگوں نے جنہوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا بھی نہیں براہ راست جب دیکھا تو ایسا اظہار کیا کہ حیرت ہوتی تھی۔ واپسی کے وقت دعا میں بعض خواتین اور لوگ اتنے جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ حیرت ہوتی تھی اور یہ محبت صرف خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہی ہوسکتی ہے۔

مولوی کہتے ہیں کہ ہم نے افریقہ کے فلاں ملک میں جماعت کے مشن بند کروا دئیے اور فلاں میں ہمارے سے وعدے ہو چکے ہیں کہ مشن بند ہو جائیں گے اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ بڑی بڑیں مارتے رہتے ہیں لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ یہ اخلاص و وفا جو وہاں کے لوگ دکھاتے ہیں اور یہ چہرے جو ایم ٹی اے اب تو دنیا کو بھی دکھانے لگ گئی ہے اور پھر ہم خود بھی وہاں جا کر دیکھ رہے ہیں یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا یہ مشن بند کرانے کا نتیجہ ہے۔ بہرحال انہوں نے تو اپنی بڑیں مارنی ہیں مارتے رہیں لیکن یہ باتیں ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہیں اور اس میں زیادتی کا باعث بنتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

کھانا نہیں بھی ملا تو پرواہ نہیں

سیدنا حضرت امیر الموٴ منین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’گھانا کا دورہ تھا جو 2008ء کا دورہ تھا۔۔۔برکینا فاسو سے بھی لوگ وہاں آئے ہوئے تھے۔ دوسرے ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ مجھے پتا لگا کہ برکینا فاسو سے جو قافلہ آیا ہوا ہے بہت بڑا تھا ان میں بعض لوگوں کو کھانا نہیں ملا، تین ہزار کے قریب ان کی تعداد تھی۔ سب سے بڑی تعداد انہی کی تھی جو وہاں گئی تھی۔ تین سو خدام سائیکلوں پر بھی سولہ سو کلو میٹر کا سفر کر کے وہاں آئے تھے۔

بہرحال وہاں کے ایک مبلغ کو مَیں نے کہا ان کو کھانا نہیں ملا۔ ان سے معذرت کر دیں اور آئندہ آپ لوگوں نے ان کا خیال بھی رکھنا ہے۔ جب انہوں نے ان کو معذرت کا پیغام پہنچایا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم جس مقصد کے لیے آئے تھے وہ ہم نے حاصل کر لیا۔ کھانے کا کیا ہے وہ تو روز کھاتے ہیں۔ اب یہ غریب لوگ بیچارے روز بھی کیا کھاتے ہوں گے۔ انہوں نے کہا جو کھانا ہم اس وقت کھا رہے ہیں، روحانی فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ روز روز کہاں ملتا ہے۔‘‘

اخلاص و وفا اور محبت میں
ترقی کرنے والی جماعت

’’برکینا فاسو کی جماعت اب بھی اتنی پرانی نہیں ہے۔ جب میں دورے پر گیا ہوں تو اس وقت میرا خیال ہے دس پندرہ سال پرانی تھی۔ اب تیس سال پرانی ہو گئی ہو گی لیکن یہ لوگ اخلاص و وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غربت کا یہ حال ہے کہ بعض لوگ ایک جوڑا جو کپڑے پہن کے آئے تھے وہی کپڑے ان کے پاس تھے، اسی میں تین چار دن یا پانچ دن یا ہفتہ گزارا اور پھر سفر بھی کیا۔ پیسے جوڑ جوڑ کے جلسے پر پہنچے تھے کہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اور خلیفۂ وقت کی موجودگی میں ہو رہا ہے اس لیے ہم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔ پس ایسی محبت خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کون پیدا کر سکتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں

برکینا فاسو کے خدام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’جو خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے ان کے اخلاص کا اندازہ بھی اس بات سے ہوتا ہے کہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے۔ ان سائیکل سواروں میں بعض پچاس ساٹھ سال کی عمر کے لوگ بھی تھے اور تیرہ چودہ سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔ وہاں کے خدام الاحمدیہ کے جو صدر صاحب تھے، انہوں نے کسی کے پوچھنے پر کہ کس طرح ہوا؟ بڑی مشکل ہو ئی ہو گی؟ جواب دیا کہ ابتدائی مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جوبلی کے سلسلے میں کوئی ایسا پروگرام کیا جائے جس سے خلافت کے ساتھ ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار ہو اور ہم خلیفۂ وقت کو بتائیں کہ ہم قربانی کے لیے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط ہے

برکینا فاسو کے سائیکل سواروں کا ذکر محبت سے کرتے ہوئے فرمایا:
’’جب یہ سائیکل سوار سفر شروع کرنے لگے تھے تو ٹی وی کے نمائندے نے وہاں ان سے پوچھا کہ سائیکل تو آپ لوگوں کے بہت خستہ حالت میں ہیں۔ یہاں کے یورپ کے سائیکلوں کی طرح تو نہیں۔ ٹوٹے ہوئے سائیکل ہیں اور عام سائیکل ہیں کس طرح اتنا بڑا سفر کریں گےتو جماعتی نمائندے نے ان کو کہا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم ہمارا بہت بڑا ہے۔ ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کر رہے ہیں اور جب نیشنل ٹی وی نے یہ خبر نشر کی تو اس ٹی وی نے اس خبر کا آغاز بھی اس طرح کیا، جو سرخی پڑھی گئی وہ اس طرح تھی کہ اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لیے واگا سے اکرا کا سفر۔ واگا برکینا فاسو کا دارالحکومت ہے اور اکرا گھانا کا دارالحکومت ہے اور لکھا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط ہے۔ اخبار نے جو خبر دی تو یہ سرخی جمائی:

’’چٹانوں کی طرح مضبوط عزم‘‘

یہ احمدی کوئی پیدائشی احمدی نہیں ہیں، کوئی صحابہ کی اولاد میں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بعض ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور بعض جگہ سڑکیں بھی نہیں ہیں۔ ایسی جگہوں پر رہنے والے لوگ جہاں پانی بجلی کی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ ان لوگوں نے چند سال پہلے احمدیت قبول کر کے پھر اخلاص و وفا کے ایسے نمونے دکھائے کہ حیرت ہوتی ہے۔ بعض جگہ ان کو غربت و افلاس نے بالکل بے حال کیا ہوا ہے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہوا یا جب بھی سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لیے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں۔ پس ہمیشہ ہمیں دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بھی بڑھائے اور ہم سب کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

خلافت سے محبت آنسوؤں کی شکل میں

’’برکینا فاسو کے ایک دوست عیسیٰ صاحب تھے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں نے 2005ء میں بیعت کی تھی اور جب ان سے پوچھا گیا تو اس وقت تین سال ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ بتایاکہ تین سال تو ہو گئے ہیں لیکن مجھے آج پتا چلا ہےکہ میں کیا ہوں اور کتنا خوش قسمت ہوں اور میں نے کیا پایا ہے۔ اپنی خوشی کا اظہار میرے بیان سے باہر ہے کیونکہ آج میں نے خلیفۂ وقت کو دیکھا اور ملاقات کی۔ بعض کی خلافت سے محبت آنسوؤں کی شکل میں ان کی آنکھوں سے بہ رہی تھی۔ تو یہ اخلاص ووفا ہے جو نئی قائم ہونے والی جماعتوں میں ہے۔‘‘

(ماخوذ از خطبات مسرور جلد ششم صفحہ181-186)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ خلافت سے کبھی علیحدہ ہوں

برکینا فاسو کے عشاق خلافت کی موجودہ نسل کے اخلاص و وفا کو تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’گزشتہ سال کسی فتنہ پرداز کی وجہ سے کہ اس نے ایک غلط فہمی کو پکڑ کر فتنہ پھیلانے کی کوشش کی تو جماعت کے بعض مخلصین بھی، نوجوان مخلصین تو تھے لیکن نوجوانوں میں زیادہ تر اس کی باتوں میں آ گئے اور ان کا رویہ ذرا عجیب ہو گیا۔ اپنے آپ کو احمدی کہتے تھے لیکن نظام سے علیحدہ ہو رہے تھے۔ بہرحال مالی سے میں نے ان کے ایک مقامی مبلغ معاذ صاحب کو وہاں بھیجا۔ انہوں نے وہاں جا کے ان کو سمجھایا۔ جب بتایا کہ تم ایک طرف کہتے ہو خلافت سے تمہاراتعلق ہے اور دوسری طرف نظام سے ہٹ رہے ہو تو یہ درست نہیں ہے تو تقریباً تمام نے معافی کے خطوط لکھنے شروع کر دیے اور انہوں نے کہا کہ ہم غلط فہمی کی وجہ سے اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ان باتوں میں آ گئے تھے۔ ہمارا خلافت کے ساتھ وفا کا مکمل تعلق ہے اور ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ خلافت سے کبھی علیحدہ ہوں۔ چنانچہ دوبارہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظامِ جماعت کا حصہ بن گئے۔ تربیت کی کمی تھی تو اُکھڑے۔ جہاں احساس دلایا گیا تو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور خلافت سے کامل وفا کے تعلق کا اظہار کیا اور کہا کہ جب ہم علیحدہ تھے تب بھی ہم خلافت سے علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔ ہم تو بعض عہدے داروں سے علیحدہ ہوئے تھے۔ تو بہرحال یہ ان کی وفا اور اخلاص کا معیار ہے، تعلق ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء)

اور آج ایک مرتبہ پھر جماعت احمدیہ برکینا فاسو کے لیے ہمارے پیارے امام کے یہ الفاظ کسی بھی قیمتی مطاع سے زیادہ عزیز ہیں۔ حضور فرماتے ہیں:
’’افریقہ کی جماعتوں میں برکینا فاسو کے احمدیوں میں میں نے ایک خاص بات دیکھی ہے کہ ملاقات کے وقت ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ مجھ سے گلے لگے اور پھر ان لوگوں کی محبت جو تھی وہ بھی دیکھنے والی ہوتی تھی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20؍جنوری 2023ء)

(نعیم احمد باجوہ۔ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

شہداء احمدیت برکینا فاسو کے نام

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی