• 19 اپریل, 2024

مہدی آباد کے شہید

روشنی کے مینار
مہدی آباد کے شہید

فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ

(الاحزاب: 24)

خاکسار دس سال تک اس صحرا میں مسیح پاک ؑ کی تبلیغ کرنے کی توفیق پاتا رہا۔ یہ تماشق قبیلے کے لوگ یہ بربری زبان بولنے والے لوگ یہ طارق بن زیاد کی اولاد کیونکہ وہ بھی بربر تھا آغوش احمدیت میں جب سے آئے تھے انہوں نے اسقامت دکھا کر بہت سے حاسدوں کو، نکتہ چینی کرنے والوں کو، گھٹیا سوچ رکھنے والوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ کسی لالچ میں آکر یہ آغوش احمدیت میں آتےہیں۔ دُشمن یا منافق ان کے پہنے ہوئے چیتھڑوں کو دیکھ کر زیادہ سےزیادہ یہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاید کوئی لالچ ہو۔ مگر ان جواں مردوں نے شجاعت کے پیکروں نے ان بہادروں پہاڑ جیسی استقامت رکھنے والے صحرا کے خانہ بدوشوں نے موت کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا اس سے گفتگو کی اور صاف صاف کہہ دیا جو کرنا ہے کر گزرو مگر احمدیت سے دُوری ہی ہماری اصل موت ہے مگر جس موت کی تم دھمکی دیتےہو دے کر دیکھ لو۔

دُشمن پہلے مینار کو گراتا ہے پھر دوسرے سے پوچھتا ہے مگر جواب ایک ہی ہے۔ نو انصار احمدیت جان کا نذرانہ پیش کر دیتےہیں۔

اے بلال! تو آج بھی زندہ ہے اے خبیب! اے خباب! اے حضرت سُمیہ! تو دیکھ تیرے سپوت بھی کچھ کم نہیں یہ آ خرین اوّلین ہیں کہ نہیں؟

ان کے پاک صاف دلوں نے گواہی دے دی ہے۔ ان کے دمکتے نورانی چہروں جو آج بھی میری آنکھوں کے سامنے مسکراتے ہیں نے واقعی گواہی دے دی ہے کہ یہ لوگ مسیح پاک پر پہاڑ جیسا غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے۔

گہرے غم سے میری آ نکھیں بار بار ڈوبتی رہیں۔ میری روح ایک ایک چہرے کے بار بار بوسے لیتی رہی کیونکہ یہ بھی مسیح پاک کے درخت وجود کے خوبصورت پھول تھے جن کا حسن و خوشبو کھلنے کے بعد ہی فضاؤں کو معطر کرتاہے۔ یہ خوشبو شہادت کے پھولوں کی ہے جو نہ ختم ہونے والی ہے۔ قیامت تک پائندہ وتابندہ رہے گی۔

دُکھ کے ساتھ مجھے فخر بھی ہے کہ یہ پودے خاکسار کےہاتھوں سے لگے۔ ان کے ساتھ مجھے رہنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا موقع ملا۔ یہی لوگ میرے دست و بازو تھے۔ خلافت سے بے پناہ محبت رکھنے والے تھے۔ امام ابراہیم بی دیگا صاحب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ سے ملاقات کے بعد جب نکلے تو مجھے کہنے لگے آنحضرتؐ کے نور کے متعلق تو ہم سُنتے اور پڑھتے تھے مگر کبھی دیکھا نہیں تھا۔ آج اس کے غلام ابن غلام میں اُس کو دیکھا ہے اور لذت ملی ہے جب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی تو پھر بھی یہی کہا دیکھو! نور وہی ہے اور لذت بھی وہی مگر میں سیر نہیں ہو سکا۔ خلیفہٴ وقت سے چھوئے ہوئے ہاتھ اپنے جسم پر اور اپنے بچوں پر ملتے رہے۔

اے خاک آ لودہ پراگندہ بال! پیوند لگے قبائیں پہنے وجودو! تم پر سلام۔ آ پ نے جو قربانی کی تاریخ رقم کی ہے یہ قیامت تک مغربی افریقہ کی جماعتوں کے لیے مشعل راہ رہے گی۔

برکینا فاسو کے صحرائی لوگ اپنے ایمان میں یقین میں اس قدر بڑھ جائیں گے حتٰی کہ اپنی جان جیسی قیمتی چیز کو بھی اس راہ میں قربان کر دیں گے۔ جب کہ ایک طرف موت نظر آرہی تھی کہ دشمن بندوقیں تان کر کھڑے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار کر دو یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ان جوان مردوں نے واقعی شہادت دے کر مغربی افریقہ میں اپنے لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔

خاکسار کو یہ خبر سن کر جہاں یہ تکلیف ہوئی وہاں یہ خوشی بھی ہوئی کہ انہوں نے ان لوگوں کے منہ پر خاک پھینک دی جو یہ کہتے ہیں کہ ہم افریقہ کے لوگوں کو لالچ دے کر احمدیت میں داخل کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب ایمان والوں کو استقامت بخشے۔ آمین

شہید ابراہیم بی دیگا صاحب کے بعض واقعات پیش ہیں۔

ابراہیم بی دیگا صاحب کی ذہانت اور حکمت

ایک دفعہ وہابیوں نے سنپیلگا میں جماعت کے خلاف جلسہ کیا۔ آپ کو علم ہوا تو رات کو ہی آپ میرے پاس تشریف لے آئے۔ کہنے لگے ساری رات انہوں نے ہمارے خلاف زہر اُگلنا ہے اور نفرت دلائیں گے۔ میں نے کہا پھر ہم کیا کریں۔ کہنے لگے علی الصبح جب سورج نکل رہا ہو تو ہم ناشتے کے وقت پہنچ جائیں تو بڑے ادب سے گزارش کریں کہ رات جو بھی آپ کے سوالات تھے اس کے جواب دینے آئے ہیں۔ اگر قبول کر لیں گے تو ہماری فتح ہو گی۔ انکار کر دیں گے تو بھی ہماری فتح ہو گی۔

چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ ہم وہاں پہنچے خاکسار ان کے پاس ان کے علما کے درمیان جا بیٹھا اور میں نے کہا کہ مجھے علم ہوا ہے کہ رات کو آپ نے کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں۔ میں اس کا جواب دینے آیا ہوں۔ لوگ ہمارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔آدھے کہنے لگے کہ ہم سنیں گے۔ آدھے جو علما کے گروپ کے تھے سختی سے کہنے لگے کہ آپ کو ہرگز نہیں بولنے دیں گے۔ حتٰی کہ سخت طیش میں آگئے اور علما اٹھ گئے اور مخالفین نے میرے نیچے سے چٹائی کھینچ لی۔ میں نے ڈرائیور کو کہا کہ گاڑی سے اپنی چٹائی لے آؤ اور میں دوبارہ زمین پر بیٹھ گیا۔ ابراہیم بی دیگا صاحب نے میرے کان میں کہا کہ ہم جیت گئے ہیں۔ میں نے کہا گفتگو تو ہوئی نہیں۔کہنے لگے یہ دو گروپس میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ آدھے کہہ رہے ہیں کہ جو باتیں آپ نے رات کو ان کے متعلق کی ہیں ہم ضرور پوچھیں گے دوسرے کہتے ہیں ہرگز نہیں۔ اس اختلاف سے رات کے زہر کا اثر زائل ہو گیا ہے۔ چنانچہ فتح ہماری ہے۔

قرض کےلین دین میں پابندی

قرض کے لین دین میں آپ بڑے سخت پابند تھے جب خاکسار افریقہ آیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں قرض لے کر واپس نہیں کرتے۔ مگر خاکسار نے اپنے اس علاقے میں دیکھا کہ جس نے بھی قرض لیا واپس کیا گیا۔ جب خاکسار نے ریجن چھوڑنا تھا تو آپ نے اعلان کیا کہ جس کسی نے بھی مشنری سے قرض لیا ہے وہ جلد واپس کر دے وہ جا رہے ہیں۔ عین ایک دن قبل ایک شخص اپنا پورا قرض واپس کر گیا۔ اس چیز نے خاکسار کو بہت متاثر کیا۔

نماز تہجد کی عادت

بیعت کرنے کے بعد امام ابراہیم بی دیگا صاحب نماز تہجد میں بے حد باقاعدہ تھے۔جب بھی خاکسار کا ان کے ہاں دورہ ہوتا تو نماز عشاء کے بعد دیرتک مجلس سوال و جواب جاری رہتی۔ یہاں تک کہ رات کاایک بج جاتا۔خاکسار کا خیال ہوتا کہ شاید یہ لوگ نماز فجر پر نہ آسکیں مگر میرا خیال ہمیشہ انہوں نے غلط ثابت کیا۔ دو تین گھنٹے میں سونے کے بعد یہ لوگ مسجد میں آنا شروع کر دیتے اور تہجد کے نوافل ادا کر رہے ہوتے۔ ان بادیہ نشینوں کے ہر کام میں ایک سلیقہ اور وقار تھا۔ بے شک یہ لوگ سارا دن اپنے کھیتوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال میں تھکے ہوتے مگر نماز کی ضرور پابندی کرتے تھے۔

قول و فعل میں برابری

آپ ایک سچے انسان تھے اور اسی سچائی کی وجہ سے آپ بہادر تھے۔آپ جو کہتے تھے وہی کرتے تھے۔ آپ کے قول وفعل میں کبھی کوئی تضاد نہیں دیکھا۔جس کی وجہ سے سارے لوگ آپ سے محبت اور احترام سے پیش آتے تھے۔جیسے ہی آپ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو سمجھ لیا اور لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ سب سے پہلے قبول کیا۔ایک مرتبہ الحاجی محمود صاحب نے جوکہ آپ سے آٹھ نو ماہ بعد احمدیت میں داخل ہوئے، نے پوچھا کہ الحاجی کیا آپ نے احمدیت کو قبول کرلیا اور ہم سے مشورہ تک بھی نہ کیا۔ آپ نے جواب دیا۔ جب کسی کو سونا ملے یا جواہرات مل جائیں کیا وہ حاصل کرنے سے پہلے مشورہ کرے گا۔میں قبول کرچکا ہوں۔ باقی آپ جانیں۔ اگر کرنا ہے تو کریں نہیں کرنا ہے تو آپ کی مرضی۔آپ کو گزشتہ کچھ عرصہ سے دھمکیاں بھی ملیں مگر وہ گھبرائے نہیں اور نہ پیچھے ہٹے۔بلآخر دشمن آپ تک پہنچا اور آپ کو للکارا کہ شاید آپ کو احمدیت سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا مگر وہ ناکام ہوکرداخل جہنم ہوئے اور آپ کو ایک عظیم انعام سے نواز دیا گیا۔

(ناصر احمد سدھو۔ امیر جماعت احمدیہ سینیگال)

پچھلا پڑھیں

شہداء احمدیت برکینا فاسو کے نام

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی