قلم کی نوک پر اقرار کے ہیں
ارادے جرأتِ اظہار کے ہیں
اندھیرے میں اجالے یار کے ہیں
زباں پر تذکرے شہکار کے ہیں
کسوٹی پر وہی معیار کے ہیں
ملے تمغے جنہیں کردار کے ہیں
کرم سے اُس کے تپتے صحرا میں بھی
ملے سائے ہمیں اشجار کے ہیں
ہیں جن کے نامۂ اعمال خالی
وہی اب لوگ یاں گفتار کے ہیں
خدا کی یاد کے بن دن جو گزرے
وہی لمحے فقط بیکار کے ہیں
کرو بخشش طلب بشرؔیٰ! خدا سے
ملے موقعے بھی استغفار کے ہیں
(بشریٰ سعید عاطف۔ مالٹا)