تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 77
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 14؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’ظلم قیامت کے دن تاریک بن کر آئے گا‘‘ حدیث نبویؐ ۔ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 13؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ20 پر حضرت امیر الموٴمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ دعا کی اہمیت و برکات اور رمضان المبارک سے متعلق ہے۔ اس کا متن بھی اس سے قبل الاخبار کے حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے۔
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 14 تا 20؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اے لوگو! ظلم مت کرو‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون بھی پہلے گزر چکا ہے۔
الاخبار نے اپنی اشاعت 19؍اکتوبر 2011ء میں حضور انور کے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ میں حضور نے دعا کی ماہیت اور کیفیت پر شرح و بسط کے ساتھ تشریح فرمائی۔ اس خطبہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان فرمائی: ’’اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ‘‘
حضور نے فرمایا: نمازیں انسان کو برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہیں لیکن اس قسم کی نماز انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کی خاص مدد شامل حال نہ ہو۔ یعنی ایسی نماز جو بداخلاقیوں، بے حیائیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔ وہ خدا کی مدد کے بغیر ادا نہیں ہوسکتی اور اسے صراط مستقیم خدا کی مدد اور نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
ہمیں ایسی دعاؤں اور عبادت کے حصول کے لئے وہ طریق اختیار کرنا پڑیں گے جن کے اندر ایسی تاثیر ہو کہ انسان خدا کی طرف کھینچا چلا جائے اور پھر اس کے نفس پر ان دعاؤں اور نمازوں کا اثر ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنی پیدائش کے حقیقی مقصد کو بھی سامنے رکھیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ہم سورہ فاتحہ کی دعا کو سب نمازوں میں تکرار کے ساتھ پڑھتے ہیں صرف نمازوں میں ہی نہیں بلکہ نماز کی ہر رکعت میں اور ہر دعا میں اس کو متقدم رکھا جاتا ہے اور اس میں یہ دعا۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا کثرت سے تکرار کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اے ہمارے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہم تیری عبادت خالص ہو کر کریں لیکن ہم اپنے طور پر کچھ بھی ایسا نہیں کر سکتے تاوقتیکہ تو ہماری مدد فرمائے۔ ہم عبادت کا حق پوری طرح ادا نہیں کر سکتے جب تک تیری مدد ہمارے شامل نہ ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ کی یہ ہمارے پر مہربانی ہے کہ ہر سال ہمارے لئے رمضان کا مہینہ بھی برکتوں کے ساتھ آتا ہے جس کا مقصد تقرب الیٰ اللہ ہے اور جس کا مقصد شیطان کو جکڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب انسان خالص نیت کے ساتھ میرے پاس آتا ہے تو میں اپنے فضل سے اس کے لئے قبولیت دعا کے دروازے بھی کھولتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ وہ قلب سلیم لے کر حاضر ہو۔ خالصۃً عبادت خدا کے لئے کرے اور اپنی ساری استعدادوں کو بروئے کار لائے۔ اس ضمن میں حضور انور نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تشریح فرمائی۔
اس کے ساتھ انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے رب کی تمام نعمتوں کا شکر بھی ادا کرے اور اس کی ربوبیت اور رحمانیت کی صفت سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور خدا تعالیٰ سے اپنے ہر معاملہ میں مدد چاہے۔
آدمی جب صبح کو اٹھتا ہے تو اسے خدا کی نعمتوں کا شکرگزار ہونا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر کی ہیں۔ خدا کے حضور عاجزی و انکساری سے جھکتے ہوئے اس سے دعا مانگے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی بھی ترغیب دی ہے کہ ہم اس کے شکر گزار بندوں میں سے ہوں اور صبر و استقلال سے اس پر کاربند رہیں۔
حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے متعلق حوالہ بھی پڑھا اور قرآن قریم کی آیت وَمَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ کی اس ضمن میں تشریح بھی فرمائی۔
الاخبار نے اپنی اشاعت 19؍اکتوبر 2011ء میں انگریزی سیکشن میں صفحہ21 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’9/11 کے موقعہ پر خون کے عطیہ جات دینے اور لوگوں کی جان بچا کر خدمت انسانیت‘‘ اس مضمون میں خاکسار نے جماعت احمدیہ کی طرف سے اس سکیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا ہے کہ 11؍ستمبر کا واقعہ جس میں 3 ہزار سے زائد جانیں تلف ہوئیں۔ ہمیں بھی چاہیئے کہ اس موقعہ کی یاد میں خون کے عطیات دیں اور انسانیت کی خدمت کریں۔
ہفت روزہ پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت 20 تا 26؍اکتوبر 2011ء شکاگو ایڈیشن میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچو! اسلامی تعلیم‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے درج ذیل امور کی طرف توجہ دلائی۔ خاکسار نے لکھا کہ گزشتہ مضامین میں مَیں نے بتایا تھا کہ ظلم مت کرو اور قوم کا رخ کس طرف ہے۔ یہ مضامین انگلستان، امریکہ اور کینیڈا کے اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ جس پر بہت سے قارئین نے ہر ملک سے فون کر کے ان مضامین پر پسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس وقت معاشرہ میں اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ انہیں اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیا جائے کیوں کہ اس وقت وطن عزیز میں ہر طرف فساد ہی فساد نظر آتا ہے جب قوم کو ان کی برائیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ تو پھر اچھے کاموں کی طرف بھی توجہ دلائی جانی چاہیئے۔ تاکہ وہ اعلیٰ اخلاق اپنا سکیں اور تا معاشرے میں اصلاح کے دروازے کھل سکیں۔میں ان سب بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مضامین پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور میں امریکہ، انگلستان اور کینیڈا کے اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہ مضامین شائع کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی ہے کہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتاوہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا۔
آج کے مضمون کے لئے میں فساد اور بغاوت کا عنوان چنا ہے کیوں کہ اس وقت ہر دو بہت عام ہوچکے ہیں۔ ’’جمہوری‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کی آڑ میں ہر وہ کام کر لیا جاتا ہے اور کیا جارہا ہے جس سے اسلام نے منع فرمایا ہے۔ اسلام چونکہ امن و آشتی کا مذہب ہے اس لئے اسلام نے فساد اور بغاوت سےکلّی طور پر منع فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا وَلَا تَبۡغِ الۡفَسَادَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُفۡسِدِیۡنَ (القصص: 78) کہ زمین میں فساد نہ چاہو، فساد پھیلانا پسند نہ کرو یقیناً اللہ فساد یوں کو پسند نہیں کرتا۔
بعض لوگ تو فساد کے نئے نئے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں بعض اپنی شعلہ بیانی سے فساد کرتے ہیں اور اس طرح ان کی زبان ہی فساد کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس لئے سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیئے۔ زبان پر کنٹرول کرنے سے انسان بہت سے فساد سے ویسے ہی بچ جاتا ہے۔ خاکسار نے اس ضمن میں ایک چینی کہاوت بھی لکھی ہے کہ برائی بھی منہ کے ذریعہ آتی ہے اور بیماری بھی منہ کے ذریعہ آتی ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میں تم کو بہترین لوگوں کے بارےمیں نہ بتاؤں؟ اس پر آپ نے فرمایا کہ ایسے لوگ جو تم میں اچھے ہیں وہ جب کوئی ایسا منظر دیکھتے ہیں جو اچھا ہو تو ذکر الٰہی کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو شریر لوگوں سے آگاہ نہ کروں؟ شریر وہ لوگ ہیں جو چغلخوری کی غرض سے چلتے پھرتے ہیں۔ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور فرمانبردار لوگوں کے بارے میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ گناہوں میں پڑ جائیں۔
اسلام اور قرآن تو آیا ہی اس لئے ہے کہ فساد دور کرے اور اگر مسلمان کہلا کر ’’فسادی‘‘ بن جائیں تو کتنے شرم کی بات ہے۔ لوگ ہم سے باربار یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر اسلام واقعی امن کا مذہب ہے تو پھر مسلمان ممالک میں فساد ہی فساد کیوں ہے۔ مارکٹائی، قتل و غارت، بے ایمانی کیوں ہے؟ اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟ جب قرآن کی تعلیم نے مسلمانوں پر تو اثر نہ کیا تو غیر مسلموں پر کیسے اثر انداز ہوگا؟
میں نے یہ بھی لکھا کہ مجھے تو بہت حیرانگی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے علماء جن کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہیں۔ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو قتل کرایا، فلاں کو مروا دیا، فلاں کو قتل کرنے کا حکم دیا، فلاں کو سنگسار کردیا وغیرہ۔ یہ علماء کہلانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس رسالت کے حوالہ سے یہ سب غلط باتیں کرتے ہیں۔ گویا یہی ناموس رسالت ہے کہ ہر ایک کی گردن زنی کی جائے۔
خدا کے لئے علما کو اور دوسرے لوگوں کو اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیئے۔ خاکسار نے طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو واقعہ گزرا لکھ کر بتایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول نے کفار کے حق میں دعائیں کیں۔حالانکہ وہ توہین رسالت کے مرتکب ہوئے تھے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کے آپ نے قتل کی اجازت نہ دی۔
اس قسم کے لوگ رسول سے محبت نہیں کر رہے بلکہ رسول کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں اور یہ بغاوت ہے جس کی نہ خدا کی کتاب اجازت دیتی ہے اور نہ رسول کا اسوۂ حسنہ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ بارہا تمہیں ہدایت کروں کہ تم ہر قسم کے فساد اور ہنگاموں کی جگہوں سے بچتے رہو اورگالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔‘‘
فرمایا: ’’یاد رکھو! وہ دین خدا کی طرف سے نہیں ہوسکتا جس میں انسانی ہمدردی نہیں، خدا نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ زمین پر رحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
خاکسار نے مزید لکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حالات کی پیشگوئی فرمادی تھی کہ ایسا وقت بھی آنے والا ہے جب ملکی قوانین اور بادشاہ تمہارے حقوق تلف کریں گے اپنے حقوق تو تم سے مانگیں گے اور تمہارے حقوق ادا نہ کریں گے۔ اس پر صحابہؓ نےعرض کی کہ یا رسول اللہ پھر ایسے وقت کے آنے پر کیا کیا جائے۔ آپؐ نے یہی جواب دیا تھا کہ تم اپنے حقوق ادا کرنا یعنی اطاعت کرتے رہنا۔ اگر وہ تمہارے حقوق ادا نہ کریں تو اس معاملہ کو خدا کے سپرد کرنا اور دعا کرتے رہنا خدا تعالیٰ خود جب چاہے گا اس بات کا فیصلہ کر دے گا۔ خدا کی عدالت میں دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر نہیں۔ قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے کہ بغاوت کا پھیلانا اور امن میں دخل اندازی کرنا قتل سے بڑھ کر ہے۔
آج وطن عزیز میں انسانی جان کی کوئی قدروقیمت ہی نہیں ہے کہیں بسوں سے اتار کر کہیں کاروں کے اندر، کہیں مساجد پر حملہ کر کے، کہیں مندروں اور چرچوں کو نذر آتش کر کے اور کہیں ناموس رسالت کے نام پر، کہیں بازاروں میں، کہیں سکولوں میں بم گرا کر معصوموں کی جان لے لی جاتی ہے۔
پھر اسلامی حکومتوں میں بھی جو مسند پر بیٹھتا ہے ان کے اندر بھی خدا خوفی نہیں ہےتقویٰ کو بالکل خیر باد کہہ دیا ہوا ہے۔ خاکسار نے لکھا کہ یہ سب باتیں دکھی دل سے لکھی گئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی باتیں لکھ کر یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا کے لئے اپنے اخلاق بدلیں۔ خدا کے لئے نہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور نہ دوسروں کی جانوں پر ظلم کریں۔ خدا کے لئے نہ فساد کریں۔ نہ بغاوت کریں۔ یہ اسلام کی تعلیم بالکل نہیں ہے اور ایسے لوگوں کو جو ایسے گھناؤنے کام کر رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی محبت ہے بلکہ محبت کے لبادہ میں اسلام اور آپؐ سے دشمنی ہے۔ خدا کے لئے اپنی آنکھیں کھولیں۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 21-27؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچو‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل اوپر گذر چکا ہے۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 21؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچو‘‘ خاکسار کی تصویر ساتھ شائع کیا ہے۔ مضمون وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔
ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر کی 27؍اکتوبر 2011ء کی اشاعت میں 1/4 کے صفحہ کا ہمارا تبلیغی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ انگریزی میں شائع ہوا۔ سب سے اوپر ہیڈلائن میں لکھا گیا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی ہیں۔
پھر لکھا گیا ہے کہ جو شخص مسلمان ہونا چاہتا ہے اسے کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ اقرار کرنا پڑتا ہے۔ ترجمہ دیا گیا ہے۔ پھر توحید کے بارے میں ہے کہ خدا کا شریک کوئی نہیں اور شرائط بیعت کا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ لکھا گیا ہے کہ عمدہ اخلاق اپنانے ہیں نیز بدنظری، جھوٹ، خیانت اور قسم کی دوسری بداخلاقیوں سے بچنا ہوگا گویا شرائط بیعت کی پہلی اور دوسری شرط کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے اور نیچے جماعت احمدیہ لاس اینجلس کی مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبرز ہیں اور جماعت کا ماٹو، ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں۔‘‘
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 27؍اکتوبر 2011ء میں صفحہ20 پر حضرت امیر الموٴ منین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے گزشتہ خطبہ جمعہ کا نصف ثانی کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ جس میں حضور انور نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تشریح حضرت مسیح موعودؑ کی تفسیر سے بیان فرمائی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’پھر اللہ تعالیٰ کے الفاظ اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں ایک اور اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے بندوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس کی اطاعت میں انتہائی ہمت اور کوشش خرچ کریں اور اطاعت گزاروں کی طرح ہر وقت لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے اس کے حضور کھڑے رہیں۔ گویا یہ بندے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہم مجاہدات کرنے، تیرے احکامات کے بجا لانے اور تیری خوشنودی چاہنے میں کوئی کوتاہی نہیں کررہے لیکن تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور عُجب اور ریا میں مبتلا ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے ایسی توفیق طلب کرتے ہیں جو ہدایت اور تیری خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو اور ہم تیری اطاعت اور تیری عبادت پر ثابت قدم ہیں۔ پس تو ہمیں اپنے اطاعت گزار بندوں میں لکھ لے……… اور ہم تیری ذات کے سوا اور کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور ہم تجھے واحد و یگانہ ماننے والوں میں سے ہیں……… یہ دُعا تمام بھائیوں کے لئے ہے نہ صرف دُعا کرنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور اس میں اللہ نے مسلمانوں کو باہمی مصالحت، اتحاد اور دوستی کی ترغیب دی ہے اوریہ کہ دعا کرنے والا اپنے آپ کو اپنے بھائی کی خیر خواہی کے لئے اسی طرح مشقّت میں ڈالے جیسا کہ وہ اپنی ذات کی خیر خواہی کے لئے اپنے آپ کو مشقّت میں ڈالتا ہے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا ہی اہتمام کرے اور بے چین ہو جیسے اپنے لئے بے چین اور مضطرب ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان کوئی فرق نہ کرے اور پورے دل سے اس کا خیر خواہ بن جائے۔‘‘ (کرامات الصادقین) حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح سے بھی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تشریح کو بیان فرمایا۔
ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 28؍اکتوبر 2011ء تا 3؍نومبر 2011ء میں صفحہ16 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’عدم برداشت سے بھرا ہوا بے حس معاشرہ اور قوم‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ خاکسار نے اس مضمون میں لکھا کہ ہم اس وقت ایسے دور سے گذر رہے ہیں جو قوموں کی زندگی کے لئے بہت خطرناک ہے۔ مسلمان تو دلیر قوم سمجھی جاتی ہے اور مسلمان نے کبھی بھی کسی دوسری قوم سے شکست نہیں کھائی۔ اگر مسلمان نے شکست کھائی ہے تو صرف اپنے ہی بھائی مسلمان سے شکست کھائی ہے۔ اندلس کی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ بغداد کی تباہی اس پر ناطق ہے ہندوستان کی سلطنت مغلیہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ ایسے المیے ہیں کہ اگر ہم بھلانا بھی چاہئیں تو نہیں بھلا سکتے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے ان واقعات سے عبرت نہیں پکڑی۔ کوئی سبق نہیں سیکھا۔ TV سنیں۔ تو رونا آتا ہے اور وہی احساس تکلیف کی صورت میں کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور اس لئے میں ہمیشہ سب کو یہی کہتا ہوں کہ ’’ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ‘‘
ہمارے وطن عزیز کا معاشرہ بہت ہی بے حس اور عدم برداشت سے بھر گیا ہے۔ آپ نے TV، اخبارات پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا مثلاً ایک ڈاکو پکڑا گیا۔ پکڑنے والے نے پولیس کو دینے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ خود ہی منصف بن کر اس کو مارمار کر ہلاک کر دیا۔ جب پوچھا گیا کہ تم نے اسے پولیس کے حوالے کیوں نہ کیا۔ اس کا جواب تھا کہ پولیس والے نے تو اس سے کچھ لے دے کر چھوڑ دینا تھا۔گویا قانون نافذ کرنے والوں کے بارے میں یہ بداعتمادی کی فضا ہے۔
پھر خاکسار نے ایک اور خبر لکھی کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ہیلتھ سپروائزر خواتین نے چند دن تک تنخواہوں کے نہ ملنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ قوم کی بیٹیاں سڑکوں پر نکل آئیں کس کے خلاف، حکومت کے خلاف، کیونکہ انہیں تنخواہیں نہیں دی گئیں تھیں۔ پھر ٹرینوں کی آمدو رفت میں 12-12گھنٹے تک تاخیر، مسافروں نے ریلوے سٹیشن کے ماسٹر کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ فرنیچر توڑ دیا، شدید احتجاج ہوا۔ پھر ایک اور خبر کہ ملتان میں ڈاکٹر کی مبینہ غلطی اور غفلت سے نومولود نے جان ہار دی۔ کسی نرس اور ڈاکٹر نے بروقت علاج نہیں کیا۔
ایک خبر تعلیمی ادارے سے متعلق بھی لکھ دیتا ہوں کہ۔ ’’انٹر کے نتائج میں غلطیاں‘‘ طلباء نے ہر شہر میں مظاہرے کئے۔ انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، یہ تو عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ کالجوں اور سکولوں کی عمارات کو نقصان، ادھر قوم کی بیٹیاں بھی احتجاج میں شامل ہوگئیں۔ اس سے ٹریفک جام، شہریوں کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔ مظاہرے، جلوس اور ریلیاں حکومت کے خلاف۔ محکمہ تعلیم کے خلاف، ایک نوجوان شہزاد نے تو خودکشی کر لی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
TV پر ایک تجزیہ نگار کے ساتھ میزبان نے سوال کیا کہ جب ہم تبدیلی کا کہتے ہیں تو یہ تبدیلی کون لائے گا۔ کیا یہی لوگ اور یہی چہرے دوبارہ نہ آئیں گے۔ کیا آسمان سے کوئی اترے گا؟ یہ سوال بہت معقول تھے۔ چہرے بدلنے سے انقلاب نہیں آسکتا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کیا کوئی آسمان سے آئے اس کا جواب پاکستان کے آئین کے مطابق نفی میں ہے۔ کیوں کہ 1974ء میں قومی اسمبلی نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کوئی ریفارمر اس امت مرحومہ کے لئے نہیں آسکتا۔
جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ بھی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ابھی آنا ہے۔ اس کے بعد خاکسار نے سورہ ابراہیم کی آیات 20 تا 24 کا ترجمہ لکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تکبر کرنے والوں کے بارے میں ناراضگی کا اظہار اور شیطان کے پیچھے چلنے والوں کا بدانجام کا ذکر ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں اور نیک کام کرنے والوں کے احسن انجام کے بارے میں ذکر ہے اور پھر تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سے ایک اقتباس درج کیا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ ’’قوموں کی تباہی کے متعلق یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے……عذاب سے پہلے لوگ ایک دوسرے کو جرم کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈرو نہیں ہم ذمہ دار ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد سوم سورۃ ابراہیم صفحہ460-462)
یہی کچھ حالات وطن عزیز کے ہیں جرم کی ترغیب دی جارہی ہے۔ مجرم کے ہاتھ مضبوط کئے جارہے ہیں۔ جیسا کہ ناموس رسالت کے نام پر سلمان تاثیر کا قتل ہوا۔ اگرچہ قاتل کو سزا ہوئی مگر قاتل کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے عوام الناس اس کی تائید میں کھڑی ہوئی، وکلاء، علماء سب قاتل کی طرف داری کر رہے تھے۔ نہ تو یہ انصاف ہے اور نہ ہی ناموس رسالت سے محبت، جن جرائم کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ سب مسلمان ہی تو کر رہے ہیں۔ سب کچھ ناموس رسالت کی خاطر ہی کیا جا رہا ہے۔ جج صاحبان بھی انصاف سے کام نہیں لیتے اگر سزا سنا بھی دی تو پھر عوام جج کو دھمکیاں دیتی ہے۔ جس سے جج مرعوب ہو کر ان کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
خدارا! اپنی بے حسی کو دور کریں۔ شعور پیدا کریں اور جہالت کا خاتمہ کریں۔ اسی لئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور اب آخری زمانے میں اس کام کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام نے آنا تھا۔ انہوں نے ہی انقلاب لانا تھا لیکن خون خرابہ کر کے نہیں بلکہ امن، محبت، ہمدردی اورپیار کے ذریعہ۔
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)