• 29 اپریل, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 6)

قرآنی انبیاء
عظیم قربانی
قسط 6

کیا آپ ہمیں یہاں تنہا چھوڑکر خودواپس چلے جائیں گے۔ بیوی نےحیرت سے پوچھا۔ آپ نے چاہاکہ بیوی کو ساری بات بتا دیں لیکن غم کی شدت کی وجہ ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔ بیوی نے دوبارہ پوچھا کیا آپ ہمیں اپنی مرضی سے یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں یا خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا کر نے کا حکم دیا ہے۔ آپ سے پھر جواب نہ دیا گیا۔آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے۔ یہ بتا نے کے لیے کہ خدا تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔

ایک بزرگ نبی کا واقعہ جنہوں نے ایک بہت بڑے مقصد کے لئے قربانی دی۔

چاروں جانب ایک ہول ناک خاموشی تھی دور دور کوئی آدمی یاجانورنظرنہ آتا تھا۔ اس ہولناک سناٹے کو ریگستان میں چلنے والی ہوا ئیں کبھی کبھی تو ڑدیتی تھی لیکن ہوا رکتے ہی ریگستان دوبارہ مردہ سا ہو جاتا تھا۔ دور ریت پر ایک بچہ پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ اس کے رونے کی آواز ہوا کی لہروں کے ساتھ سفر کر تے ہوئے تھوڑی دور تک جاتی تھی لیکن اس ریت کے سمندر میں جو چاروں طرف پھیلا ہوا تھا کوئی اس کی فریاد سننے والا نہیں تھا۔ گو بچے کے ساتھ اس کی ماں بھی موجود تھی لیکن وہ اس صحرا میں پانی کہا ں سے فراہم کر سکتی تھی۔ ماں نے بے چارگی کے ساتھ بلکتے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور پھر اپنے مشکیزے کی طرف نگاہ دوڑائی جو کب کاپانی سے خالی ہو چکا تھا۔کھانے پینے کا تمام سامان ختم ہو چکا تھا اور اب یہ ماں بیٹا اس وسیع صحرا میں بالکل بے یار و مدرگار پڑے ہوئے تھے۔

بچے کے رونے میں شدت آتی جارہی تھی اور ماں اس کی آواز سن کر تڑپ تڑپ جا رہی تھی۔ لیکن میں کیا کروں؟ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ کوئی صورت بھی تو نہیں ہے۔ دور دور تک کوئی آبادی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اب تو صرف خدا تعالیٰ ہی ہے جو ہمیں ہلاک ہو نے سے بچا سکتا ہے۔ ورنہ پھر جیسے اس کی مرضی! ہم اس کی رضا پر راضی ہیں۔

بچے کے رونے کی آواز ماں کو چین سے بیٹھنے نہ دے رہی تھی وہ اٹھی اور قریب کی پہاڑی پر چڑھ کر اس کے ارد گرد دیکھنے لگی۔ شاید کوئی صورت نکل آئے۔ اس نے اپنے دل میں سو چا اور اس پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہاڑی کے جانب دوڑی، وہاں سے بھی کوئی صورت نظر نہ آئی تو واپس پہلی پہاڑ کے جانب پلٹی۔ ماں آخر ماں ہو تی ہے۔ بچے کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی اس لئے پانی کی تلاش میں وہ کبھی ادھر کبھی ادھر بھاگنے لگی۔ یہ بھاگ دوڑ شاید ابھی جاری رہتی کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے نتیجہ میں ماں کی نظر بچے کی طرف گئی اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچا جہاں پیاس کی شدت سے ایڑیاں رگڑ رہاتھا وہاں سے پانی بہنا شروع ہو گیا تھا اور پانی ابل ابل کر ارد گرد کی زمین کو بھی سیراب کر رہا تھا۔ گو یا ایک چشمہ جسے زم زم کہا جا تا ہے پھوٹ پڑا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہماری فریاد سن لی اور ہمیں ہلاکت سے بچا لیا، ماں نے اپنے دل میں سوچا اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے بچے کی جانب بڑھ گئی۔

حضرت ابرہیم علیہ السلام کے متعلق ہم تفصیلی طور پر پڑھ چکے ہیں اور یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اللہ تعا لیٰ نے ان کی بیوی ہاجرہ کے بطن سے ایک بیٹا عطا کیا تھا۔ جن کا نام اسماعیل رکھا گیا تھا۔ جس کا مطلب ہے خدا تعالیٰ کا سننا یعنی خدا تعالیٰ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی دعاؤں کو سن کر آپ کو ایک نیک اور پاک بیٹا عطا کیا۔ اس لئے آپ نے اس کا نام اسماعیل رکھا۔ یہ وہی اسماعیل ہیں جو بڑے ہو کر خدا تعالیٰ کے نبی اور پیغمبر بنے اور سب سے خاص بات آپ کی یہ ہے کہ آپ کی نسل میں سے یعنی آپ کی اولاد میں سے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ پیدا ہوئے اور یہ سب سے عظیم اعزاز ہے جو دیگر اعزازات کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نصیب ہوا۔

اسماعیل علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بڑھا پے کی اولاد تھے۔ شادی کے بعد لمبے عرصہ حضرت ابرہیم ؑ بے اولاد رہے۔ تو آپ نے درد اور الحاح کے ساتھ خدا تعالیٰ سے نیک اور پاک اولاد کے لئے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حالت سے واقف تھا مگر ابھی دعا کی قبولیت کا وقت نہیں آیا تھا۔ اس لیے دیر ہوتی جا رہی تھی۔ پھر بالآخر وہ وقت آگیا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں آپ کو ایک عظیم فرزند کی بشارت دی اور حضرت ہاجرہ ؑ کے بطن سے حضرت اسماعیلؑ پیدا ہوئے۔ حضرت ہاجرہ ؑ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی بیوی تھیں اور آپ مصر کے بادشاہ کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ بادشاہ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام سے تعلق اور رشتہ داری قائم کر نے کے لئے حضرت ہاجرہ ؑ کی شادی حضرت ابرہیم علیہ السلام سے کر دی تھی اور آپ کو یہ اعزاز ملا کہ آپ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کی ماں بنیں۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ایک اور بیوی سارہ بھی تھیں جو آپ کے ماموں کی بیٹی تھیں۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ آپ ایک لمبے عرصہ کے لئے بے اولاد رہیں لیکن جب حضرت ہاجرہ ؑ کے ہاں حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو اس کے کچھ سال بعد حضرت سارہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحاق ؑ رکھا گیا۔ یہ اسحاق بھی بڑے ہو کر اللہ کے نبی بنے۔

اب سارہ اور ہاجرہ دونوں کے ہاں اولاد ہو چکی تھی اور دونوں بچے یعنی اسماعیل اور اسحاق بھی بڑے ہو رہے تھے۔ انہی دنوں ایک خواب نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو پریشان کر دیا۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ہاتھوں سے اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔ آپ یہ خواب دیکھ کر بہت پریشان ہوئے لیکن خواب کا منظر اتنا واضح اور اثر کرنے والا تھا کہ آپ اسے نظر انداز بھی نہ کر سکے۔ آپ کو یقین ہو گیا کہ خدا تعالیٰ میرے بیٹے اسماعیل کی جو میرا بڑا بیٹا ہے قربانی چاہتا ہے۔ سارہ جو حضرت اسحاق کی والدہ تھیں وہ بھی اس بات کو پسند نہ کرتی تھیں کہ اسماعیل ؑ بڑا ہو کر باپ کا وارث بنے۔ وہ خود چونکہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کے خاندان میں سے تھیں اور حضرت ہاجرہ ؑ مصری تھیں اس لئے وہ گھر پر اپنا حق زیادہ سمجھتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اسحاق باپ کا وارث بنے اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ حضرت اسماعیل وہاں موجود نہ رہتے۔ بالآ خر ایک دن سارہ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے اسماعیل کو گھر سے نکال دیں۔

حضرت ابرہیم علیہ السلام یہ بات سوچ بھی نہ سکتے کہ اپنے جگر گوشے، اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو گھر سے نکال دیں لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کچھ اور ہی رنگ دکھانا چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو مکہ سے ظاہر کرنا چاہتا تھا جس کے لئے اسماعیل علیہ السلام کا گھر سے نکالا جانا ضروری تھا۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے متواتر آپ کو وحی کی کہ اے ابراہیم! اپنے بیٹے کی قربانی کر اور اس کی ماں کو عرب کے صحرا میں چھوڑ آتا کہ لوگوں سے دور میری حفاظت اور نگرانی میں ایک پودا لگا یا جائے۔ نیکی اور تقویٰ کا پودا۔اور ایک چشمہ نکالا جائے، پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ۔ تو آپ کو یہ بات سمجھ آگئی کہ خدا تعالیٰ اسماعیل کے ذریعے کوئی عظیم انقلاب برپا کر نا چاہتا ہے۔ اس لئے آپ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہ ؓ کو عرب کے صحرا میں چھوڑ آنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ آپ نے دونوں کو ساتھ لیا اور اس ویران اور سنسان صحرا میں اپنے بیٹے اور بیوی کو لا کر چھوڑ دیا تا کہ خدا تعالیٰ کا حکم پورا کر سکیں۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور اس ماں اور بچے کو دے دئیے تا کہ وہ کچھ دیر گزارا کر سکیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ پانی اور کھجور آخر کتنی دیر چلیں گی؟ اور جب یہ ختم ہو جائیں گی تو پھر؟ پھر یہ ریت اور صحرا میری بیوی اور بچے کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کریں گے۔ یہ سوچ کر حضرت ابراہیم ؑ پر رقت طاری ہو گئی اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ حضرت ہاجرہؑ ایک سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کے آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سمجھ گئیں کہ ضرور معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرف بڑھیں اور پوچھا کہ بات کیا ہے؟ کیا آپ ہمیں یہاں تنہا چھوڑ کر خود واپس جا?رہے ہیں؟ یہاں تو نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ کھانے کے لئے کو ئی غذا میسر ہے؟ ہم کیسے زندہ رہیں گے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے چاہا کہ حضرت ہاجرہ کو ساری بات بتائیں لیکن شدت غم کی وجہ سے آپ سے بولا نہ گیا اور آپ کے ہونٹ کانپ کر رہ گئے۔ حضرت ہاجرہ ؑ نے پوچھا کہ کیا آپ اپنی مرضی سے ہمیں یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں یا خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا کر نے کا حکم دیا ہے۔ آپ سے پھر نہ بولا گیا اور آپ نے صرف دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے یہ بتا نے کے لئے کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ایسا کیا جا رہا ہے۔

حضرت ہاجرہ ؑ ایک نیک اور پاک خاتون تھیں۔ آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان اور توکل تھا۔ آپ نے جب یہ جواب سنا تو مطمئن ہو گئیں اور بڑے صبر کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ سے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر آپ بے فکر رہیں۔ خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔

حضرت ابرہیم ؑ اپنے جگر گوشے اسماعیل ؑ اورحضرت ہاجرہ کو صحرا ئے عرب میں چھوڑ کر خود واپس روانہ ہو گئے۔ ایک محبت کر نے والا باپ اپنے پیارے بیٹے کو قربان کر کے واپس لوٹ رہا تھا۔ آپ نے اپنا خواب پورا کر دیا تھا۔ جس میں آپ سے کہا گیا تھا کہ اپنے بیٹے کو قربان کر دو۔ یہ عظیم ماں اپنے جگر گوشے کے ساتھ اس لق ودق صحرا میں زندگی کے دن گزارنے لگیں۔

پانی کا مسئلہ تو حل ہو چکا تھا۔ صحرا میں زم زم جاری ہونے کی وجہ سے پانی وافر مقدار میں مل سکتا تھا لیکن غذا کا مسئلہ اب بھی موجود تھا۔ اس کیلئے اللہ نے یہ انتظام فرما دیا کہ ایک قافلہ جو صحرا میں سفر کر رہا تھا راستہ بھول گیا۔ انہیں پانی کی سخت ضرورت تھی لیکن صحرا میں پانی کہاں سے ملتا۔ وہ اسی پریشانی میں صحرا میں پانی کی تلاش کر رہے تھے کہ اتفاق سے وہ اس طرف آنکلے اور ان کی نظر حضرت ہاجرہؓ اور چاہ زم زم پر پڑی انہوں نے جب پانی دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور حضرت ہاجرہ ؑ سے درخواست کی کہ یہ بہت اچھی جگہ ہے۔ پانی بھی وافر مقدار میں یہاں موجود ہے۔ اگر آپ ہمیں یہاں بسنے کی اجازت دیں تو ہم آپ کی رعا یا بن کر رہیں گے اور آپ کی ہر بات مانیں گے۔ حضرت ہاجرہؑ تو پہلے ہی کسی کی مدد کا انتظار کر رہی تھیں۔ خدا کی طرف سے ایسا اچھا انتظام دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئیں اور قافلے والوں کو وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ یوں وہ حضرت ہاجرہؑ اور اسماعیل ؑکی رعایا بن کر رہنے لگے۔ اب اس صحرا میں نہ کھانے پینے کا کوئی مسئلہ تھا اور نہ کسی قسم کا کوئی خوف تھا۔ اللہ نے جو چھوٹی سے چھوٹی قربانی کو بھی ضائع نہیں کرتا حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی بہت قدر فرمائی اور اسماعیل کو جوانی سے پہلے ہی بادشاہ بنا دیا اور صحرا میں ایک قوم آپ کی رعایا بن کر رہنے لگی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں آجکل مکہ آباد ہے اور تمام دنیا کے مسلمان حج کرنے کے لئے آتے ہیں۔ آج تک حج کے دوران حضرت ہاجرہ ؓکے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی یاد میں صفا اور مروہ پہاڑیوں پر ہر حاجی سات مرتبہ دوڑتا ہے۔ جس سے مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں بھی خدا کے لئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑنا پڑا تو ہم بھی حضرت ابراہیم ؑ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے نقش قدم پر چلیں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ بہر حال قافلہ کی آمد سے یہ جگہ آباد ہو گئی اور حضرت اسماعیل کی پرورش اچھے طریق پر ہو نے لگی اور مکہ کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔

خانہ کعبہ کے نام سے تو ہم سب واقف ہیں۔ یہ وہی مقام ہے جس کی طرف منہ کر کے تمام مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ حج کے موقعہ پر اس کا طواف کرتے ہیں اسے بیت اللہ یعنی اللہ گا گھر بھی کہتے ہیں۔ یہ گھر حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے۔ اسی وجہ سے اس بیت عتیق یعنی بہت پرانا گھر بھی کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں خانہ کعبہ مختلف وجوہات کی بناء پر متروک ہو گیا تھا اور سب اس سے غافل ہو چکے تھے۔ جب حضرت اسماعیلؑ نے اس علاقہ کو آباد کیا تو اللہ نے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو حکم دیا کہ میرے اس گھر کو دوبارہ تعمیر کرو اور اسے عبادت کرنے والے لوگوں کے لیے پاک صاف کرو۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے نیک اور سعادت مند بیٹے کے ساتھ مل کر پرانے نشانوں پر خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی اور دعائیں کرتے ہوئے خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کر دیا۔

حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ آپ آنحضرت ﷺ کے آباو اجداد میں سے تھے اور آپ کی نسل میں سے حضرت مصطفیٰ ﷺ پیدا ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اپنی بعثت کا بہت بڑا مقصد پوارا کر دیا۔ یعنی ایک تو وہ شہر تعمیر کر دیا جس میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے پیدا ہو نا تھا اور دوسرے خانہ کعبہ جس نے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں تمام دنیا کے مومنوں کا قبلہ بننا تھا اس کی بھی نئی تعمیر کردی۔ یہ ایک بہت بڑا کام تھا جو اللہ نے حضرت اسماعیل ؑ کے ذریعے سے کروایا۔ گو حضرت ابراہیمؑ ایک رنگ میں اپنا خواب پورا کر چکے تھے لیکن اب بھی اکثر اوقات آپ سوچا کرتے تھے کہ خدا نے روٴیا میں تو مجھے اپنا بیٹا ذبح کر نے کا ارشاد فرمایا تھا شائد خدا کی یہ مرضی ہو کہ میں اپنے بیٹے کو سچ مچ ذبح کر دوں۔ چنانچہ ایک موقعہ پر آپ نے حضرت اسماعیل سے اس موضوع پر بات کی۔ حضرت اسماعیلؑ جیسا نیک اور فرمانبردار بیٹا خدا کی راہ میں قربانی سے بھلا کب دریغ کر سکتا تھا۔ اسماعیلؑ نے فور ًاپنے والد ابراہیم سے کہا ابا آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ بلکہ جو خدا نے آپ کو حکم دیا ہے ویسا کریں۔ میں خدا کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر نے کو تیار ہوں۔

یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔ ایک عظیم قربانی کا فیصلہ جو حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ نے مل کر کیا تھا وہ دونوں خدا کی راہ میں قربانی کے لئے تیار ہو گئے۔ اپنے چاند سے بیٹے کو لٹا یا اور اور چھری ہاتھ میں پکڑی تب اس وقت خدا نے حضرت ابراہیمؑ کو الہاما ًبتا یا کہ اے ابرہیم !! تو تو کب كا اپنی خواب پوری کر چکا ہے۔اسماعیل کو اس ویران صحرا میں چھوڑنا ہی دراصل وہ قربانی تھی جو ہم چاہتے تھے۔ ظاہری طور پر اسماعیل کو ذبح کروانا ہمارا مقصد نہیں تھا۔

چنانچہ یوں ابراہیمؑ او ر اسماعیلؑ دونوں کی قربانی خدا نے قبول کی اور انہیں ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں میں شامل کر لیا۔ آج بھی تمام دنیا میں عیدالاضحٰی کے موقعہ پر حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑ کی اس قربانی کی یاد میں تمام دنیا کے مسلمان قربانی کر تے ہیں اور اس طرح رہتی دنیا تک آپ کا نام زندہ وتابندہ رہے گا۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

اجتماع خدام الاحمدیہ مونٹسیراڈو کاؤنٹی، لائبیریا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2022