لفظ رمضان کے پانچ معانی
جو اس کی برکات پر دلالت کرتے ہیں
دین اسلامی کی عمارت پانچ ستونوں پر استوار ہے۔ جن میں سے ایک ماہ رمضان میں روزے رکھنا ہے۔ اس مہینے کا نام رمضان رکھنے میں بھی حکمت الٰہی کارفرما ہے جس نے اس نام میں اس مہینے کی اہمیت اور برکات کی طرف رہنمائی عطا فرما دی ہے۔
رمضان المبارک وہ اعلیٰ اقدار کا حامل مہینہ ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے اور ایک روحانی ذوق اور سرگرمی کے ساتھ عبادات میں ترقی کرتا ہے اس طرح اس کے اعمال میں ایک روحانی اور جسمانی حرارت پیدا ہوتی ہے اوریہ محنت ترقیات کا باعث بنتی ہے۔ روزہ رکھنے سے بعض دفعہ انسان کو مشکلات سے بھی گزرنا پڑتا ہے بھوک پیاس کی سختیاں جھیلنا پڑتی ہیں رات کی عبادات کی خاطر اپنی نیند کی قربانی دینا ہوتی ہے لیکن خدا کے پاک دل لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ان قربانیوں کے اجر خدا تعالیٰ کی طرف سے کئی گنابڑھ کر فضلوں کی شکل میں نازل ہوں گے۔ اسی لئے سچے مومن تو سارا سال ہی اس روحانی بہار کا انتظار کرتے ہیں اس انتظار کے ساتھ ساتھ اس خدائی فضل کو جذب کرنے کی تیاری بھی کرتے ہیں اور اپنے روحانی اعمال کو تسلسل سے جاری رکھتے ہیں تا اس بابرکت مہینے میں ان اعمال کو تیز تر کر سکیں اور جب یہ مہینہ ان مومنوں پر سایہ فگن ہوتا ہے تو بے پرواہ ہو کر اپنے خدا کی رحمتوں کی بارش کی خاطرسخت محنت شاقہ کرنےسے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہی معانی کو خدائے حکیم نے لفظ رمضان میں ہمارے لئے بطور درس رکھ دیا ہے۔ جن کا بیان اگلی چند سطروں میں کیا جا رہا ہے۔
رمضان کا نام کب اور کیوں رکھا گیا
بعض اہل لغت کے مطابق رمضان کا پرانا نام ناتق تھا۔ عربی زبان کی لغت تاج العروس میں زیر کلمہ ’’رمض‘‘ لکھا ہے: (فوَافَقَ نَاتِقٌ، أَيْ هذَا الشَّهْرُ وَهُوَ اسْمُ رَمَضَانَ فِي اللُّغَةِ القَدِيمَةِ). اس مہینے کا نام پہلے پرانی زبان میں ناتق تھا جو بعد میں رمضان رکھ دیا گیا۔ اسی طرح لسان العرب میں زیر کلمہ ’’نتق‘‘ لکھا ہے: (نَتَقَ الشيءَ نَتْقاً) کہیں تو اس کا معنی (جَذَبَهُ وَاقْتَلَعَهُ) کے ہیں یعنی کھینچ کر ایک جگہ سے اکھیڑ دینا. قرآن کریم میں ہے: (وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ) (الاعراف: 172)؛ (أَيْ زَعْزَعْناه وَرَفَعْنَاهُ)، یعنی اسے ہلایا اور بلند کیا۔ ناتقٌ: شَهْرُ رَمَضَانَ۔ وناتِق مِنْ أَسماء رَمَضَانَ۔ ناتق رمضان کا مہینہ ہے اور ناتق رمضان کے مہینے کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
رمضان كا لفظ عربى زبان سے لیا گیاہےجو اسلامی ہجری کیلنڈر کے مہینوں میں سے نویں مہینے کا نام ہے۔اس مہینے کے نام پر زیادہ عرب قبائل کا اتفاق کلاب بن مرہ کے وقت میں تقریباً 412ء میں ہوا تھا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے یہ واقعہ پیش آیا۔ کلاب بن مرہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےنسب میں پانچویں جد امجد ہیں۔
(موسوعہ عربیہ عالمیہ، جلد 11، ص285، طبعہ ثانیہ موسسہ اعمال الموسوعہ للنشر والتوزیع۔ ریاض1999ء)
اس مہینے کا نام رمضان رکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ ابن درید (أبو بكر محمد بن الحسن بن دريد الأزدي , المتوفى: 321ھ) اپنی تالیف جمہرۃ اللغۃ میں اور علامہ جوہری (أبو نصر إسماعيل بن حماد الجوهري الفارابي، المتوفى: 393ھ) اپنی کتاب الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیہ میں زیر مادہ ’’رمض‘‘ لکھتے ہیں: (سمّوها بالأزمنة الَّتِي هِيَ فِيهَا فَوَافَقَ رمَضانُ أيامَ رَمَض الحرِّ) یعنی جب عربی نام رکھے گئے تو جس موسم سے موافق ہوئے ان کو نام دیا گیا اسی طرح رمضان گرمی کے مہینے میں آیا اس لئے رمضان کہلایا۔
مگر اہل عرفان کو اس سے اتفاق نہیں وہ اسے خدا کی خاص تقدیر کے ماتحت سمجھتے ہیں اور اسے روحانی حرارت کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہیں جیسےاس زمانے کے حکم و عدل سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینے میں آیا اس لئے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ عرب کے لئے خصوصیت نہیں ہوسکتی۔ روحانی رمضان سے مراد روحانی ذوق شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 136)
لفظ رمضان کا پہلا معنی۔روحانی حرارت
عربی زبان کی لغات لسان العرب اور تاج العروس میں زیر کلمہ ’’رمض‘‘ لکھا ہے کہ: (الرَّمَضُ والرَّمْضاءُ: شِدّةُ الحَرّ.) یعنی رمض سخت گرمی کو کہتے ہیں۔ (والرَّمَضُ: حَرُّ الْحِجَارَةِ مِنْ شِدَّةِ حَرّ الشَّمْسِ) اسی طرح رمض سورج کی شدید گرمی سےپتھروں کے گرم ہونے کو بھی کہتے ہیں۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’رمضان سورج کی تپش کوکہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتاہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتاہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا ۔۔۔۔ رمضان اس حرارت کوبھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہوجاتے ہیں‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 136)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’اس اقتباس میں آپ نے فرمایا کہ رمضان سورج کی تپش کو کہتے ہیں اور سورج کی تپش سے جو گرم ممالک ہیں ان کو علم ہے کہ کیاحال ہوتاہے اور پھر اگر حبس بھی شامل ہو جائے اس میں تواور بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ گرمی دانے وغیرہ نکل آتے ہیں اور جن بیچاروں کے پاس اس گرمی کے توڑ کے لئے ذرائع نہیں ہوتے، سامان میسر نہیں ہوتے وہ اس حالت میں جسم میں جلن اور دانوں میں خلش وغیرہ محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ناقابل برداشت ہو جاتاہے۔ اب توخیر یہاں یورپی ممالک میں بھی گرمی اچھی خاصی ہونے لگی ہے اور ذرا سائے سے باہر نکلیں تو دھوپ کی چبھن حال خراب کردیتی ہے تو یہ جو تکلیف ہورہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے کھانے پینے کو چھوڑکر، جسمانی لذتوں کو چھوڑ کر، میری خاطر کچھ وقت تکلیف برداشت کرو یہ بھی اسی طرح کی تکلیف بعض اوقات ہو رہی ہوتی ہے۔ اور فرمایاکہ جب خدا تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کرتے ہو تو پھر تمہارے اندرسے بھی ایک جوش پیدا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی پیدا ہونی چاہئے۔ اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ تو بیرونی تکلیف بھوک پیاس کی اور اندرونی جوش اللہ تعالیٰ کی محبت کی گرمی اکٹھی ہو جائیں تو اسی کانام رمضان (یعنی دو گرمیاں) ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍اکتوبر 2003ء)
رمضان کادوسرا معنی۔ روحانی امراض
اور دردوں سے نجات
عربی زبان کی لغات لسان العرب اور تاج العروس میں دوسرے معنے لکھے ہیں۔ (الإِرْماضُ) کے معنے (كلُّ مَا أَوْجَع) یعنی ’’ہر وہ چیز جو تکلیف دے‘‘ کے ہیں۔ جس طرح اگر کہا جائے (أَرْمَضَني) تو اس کا مطلب (أَوْجَعَني) ہے یعنی اس نے مجھے درد دیا یا تکلیف دی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کمزور مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ اچھے خاصےموٹے ہٹے کٹے ہوتے ہیں مگر روزہ نہیں رکھتے جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ روزے اس لئےآتے ہیں کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ روزے تو آتے ہی اس لیے ہیں کہ تکلیف دی جائے اور وہ تکلیف بھی جودی جاتی ہے اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دیکھو ایک شخص کو بخار ہو تو اس کو کونین دی جاتی ہے اور جب کونین کھائی جائے گی تو منہ ضرور کڑا ہوگا۔ لیکن کو نین اس لیے نہیں کھائی جاتی کہ کھانے والے کامنہ کڑوا ہو۔ ہاں منہ ضرور کڑوا ہو گا مگر بخاربھی اتر جائے گا۔ اسی طرح ڈاکڑ اس لیے نشتر نہیں لگا تاکہ مریض کودکھ دے، بلکہ اس کی یہ غرض ہوتی ہے که آرام ہو لیکن نشتر سے دکھ پہنچناضروری ہے۔ اسی طرح روزوں کی غرض یہ نہیں کہ تمہیں دکھ دیا جائے لیکن اس میں شک نہیں کہ روزوں سے تکلیف ضرور ہوتی ہے۔۔۔۔ اسی طرح روزہ بے شک تکلیف دیتا ہے لیکن یہ نشتر ہے ان ہزاروں پھوڑوں کے دور کرنے کا جو انسان کی روح میں ہوتے ہیں۔۔۔۔ پس جو روزه اس لیے نہیں رکھتا کہ تکلیف ہوتی ہے۔ وہ گویا علاج سے بچنا چاہتا ہے‘‘
(خطبات محمود جلد 6 صفحہ 460)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’رمضان کا لفظ رَمَضٌ سے نکالا ہے اور جب ہم رَمَضٌ کے مختلف معانی پر غور کرتے ہیں تو اس کےبہت سے معنی ایسے ہیں جن کا ماہ رمضان سے تعلق واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب عربی میں (أرْمَضَ الشيئُ) کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں (أحْرَقَهُ) اسے جلا دیا۔ اس لفظ میں سوزش کا تصور پایا جاتا ہے۔ اگر کہاجائے (أرْمَضَ الرَّجُلُ) تو اس کے معنی ہوتے ہیں (أو ْجَعَهُ) اس کو دکھ پہنچایا۔ تکلیف دی۔ جب ہم ان دومعانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ماہ رمضان سے تعلق ہے۔ اس طرح پر کہ وہ لوگ جودین اسلام کے منکر ہیں یا اسلام میں تو داخل ہیں لیکن ان کے اندر روحانی کمزوری ہے۔ وہ اس مہینہ کومحض دکھ اور درد، بھوک اور پیاس اور بے خوابی کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی برکات سے وہ کوئی حصہ لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے جو نیک اور مومن بندے ہیں وہ اس مہینہ کی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ 54-55)
رمضان کا تیسرا معنی۔ جنت کا انتظار
تیسرے معنے بیان کرتے ہوئے اہل لغت لکھتے ہیں: جب کہا جائے (أَتيته فَلَمْ أَجِدْه فرَمَّضْتُه تَرْمِيضاً) تو اس کے معنے (أَن تَنْتَظِرَهُ شَيْئًا ثُمَّ تَمْضي) ہوتے ہیں. یعنی کسی کا کچھ انتظار کرنے کے لئے رکنا پھر چلے جانا۔
رمضان کے مہینے کے لئے سارا سال جنت کو سجایا جانا اس بابرکت مہینے کا انتظار ہی ہے حدیث میں آتا ہے:
’’إِنَّ الجَنَّةَ لَتُزَخْرَفُ لِرَمَضَانَ مِنْ رَأْسِ الحَوْلِ إِلى الحَوْلِ المُقْبِلِ‘‘
(شعب الإيمان، كتاب الصيام باب فضائل رمضان، والمعجم الكبير للطبراني، مسند عبد الله بن عمر الخطاب رضي الله عنهما، جلد 13، 14، صفحہ: 37)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ماہ تین روزے رکھنا گویا اس مہینے کے تیس دنوں کا انتظار کرنا ہے جيسا كہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلاَثٍ: ’’صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ‘‘۔
(صحيح بخاري، كتاب الصوم بَابُ صِيَامِ أَيَّامِ البِيضِ: ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ)
میرے حبیب نے مجھے تین باتوں کی نصیحت کی ہے ان میں ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا چاشت کی نماز ادا کرنا اوررات سونے سے پہلے وتر پڑھ کر سونا شامل ہیں۔اسی طرح معاذۃ عدویہ نے بیان کیاکہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے دریافت کیا: ’’أَكَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟‘‘ قَالَتْ: ’’نَعَمْ‘‘، فَقُلْتُ لَهَا: ’’مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ؟‘‘ قَالَتْ: ’’لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ
(صحيح مسلم كتاب الصيام بَابُ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)
یعنی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین روزے رکھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ تو میں نے عرض کیا: مہینے کے کونسے دنوں کے روزے رکھتے تھے؟ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے کہ کن دنوں میں روزہ رکھیں یعنی مختلف دنوں میں روزے رکھتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ پورا سال رمضان کے مہینے کی برکات کو زندگی کا حصہ بنانے کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’پس وہ ہاتھ جو دعا کے لئے اٹھیں، جو لقائے باری تعالیٰ مانگیں وہ حقیقت میں ایک ایسی چیز مانگتے ہیں جس کی لقاء کا سفر کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر منزل کے بعد ایک اور منزل ہے لیکن ہر منزل کچھ لقاء کالطف ضرور دیتی ہے۔ یہ ایسا دور کا وعدہ نہیں کہ اس کی پیروی میں آپ مسلسل سفر کرتے رہیں اور جب تک وہ آخری مقام نہ پہنچے آپ سیراب نہیں ہو سکتے۔۔۔ تو یہ دعا کریں کہ اے خدا! اس رمضان میں ہمیں وہ لقاء نصیب فرما جو جاری و ساری لقاء ہے جس کا سفر کہیں ختم نہیں ہوتا۔ کسی منزل پربھی اس لقاء کو ہم ایک آخری منزل مراد قرار نہیں دے سکتے۔ یہ وہ منزل مراد ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے، ہرقد م منزل مراد کی طرف اٹھ رہا ہے اور ہر قدم منزل مراد کو پا بھی رہا ہے۔۔۔ فی الحقیقت اگر آپ گناہوں کا شعور حاصل کریں تو کبھی بھی یہ ممکن نہیں کہ کلیۃً گناہوں کے داغ دھونے کے بعد اس شہر کو جو دل میں بستا ہے نیکی کا شہر قرار دے سکیں۔ مگر ہر قدم جو اٹھتا ہے وہ کچھ فرحت، کچھ مغفرت کے وعدے لے کر ضرور آتا ہے۔۔۔ تم سفر شروع کر دو۔ یہ سفرنہ ختم ہونےوالا ہے مگر اللہ اپنی مغفرت اور رحمت سے جس طرح پیمائشیں کرتا ہے اس پہلو سے ہر مسافر، ہر مقام پرجہاں بھی وہ مرتا ہے بخشش کی حالت میں جان دیتا ہے۔پس اے گناہ گار بندو!۔۔۔ خدا کی بخشش سے مایوس نہ ہو اور ان امور کا شعور حاصل کر کے ان کا عرفان حاصل کر کے اپنے رمضان کوزندہ کر دو اور جگادو اور اس حالت میں اس رمضان سے باہر نکلو کہ اس کی برکتیں تمہارا ساتھ نہ چھوڑیں اور وہ نیکیاں جو اس رمضان میں تم کمالو وہ پیچھے رہ جانے والی نہ ہوں بلکہ قدم قدم تمہارے ساتھ آگےبڑھیں۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 27 جنوری 1995ء، خطبات طاہر جلد 14 صفحہ 74 و 75)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اگر تم ماه رمضان کی برکات سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہتے ہو اور اس کے لئے اپنی عمرکو خرچ کرتے ہو تو دیگر برکات کے علا وہ تمہیں ایک یہ برکت بھی حاصل ہو گی کہ تمہیں الله تعالیٰ دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق دے گا اور اس مہینہ کے بعد جو گیارہ ماہ اور تمہاری زندگی میں آنے والے ہیں وہ بھی حقیقی معنی میں تم خدا کی راہ پر خرچ کرنے والے ہو گے۔ توجو شخص رمضان شریف کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ گزارتا ہے تو بقیہ سال کے گیارہ مہینوں میں بھی وہ الله تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کی تو فیق پا تا ہے اور اس طرح اس کی ساری زندگی نیکیوں میں گزرتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی ساری عمر اس مقصد کے لئے گزاری جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا تھا‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ 61)
رمضان کا چوتھا معنی۔نیکیوں میں بڑھنا
اور تیزی اختیار کرنا
چوتھے معنے بیان کرتے ہوئے لغت والے لکھتے ہیں: جب کہا جائے (رَمَضَ النَّصْلَ يَرْمِضُه ويَرْمُضُه رَمْضاً) تو اس کا مطلب (حَدَّدَهُ) ہے یعنی اس نے کسی چیز کو تیز دھار کیا۔ اسی طرح کہتے ہیں (كُلُّ حادٍّ رَمِيضٌ) ہر تیز دھار چیز کو رمیض کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے (إِذا مَدَحْتَ الرَّجُلَ فِي وَجْهِهِ فكأَنما أَمْرَرْتَ عَلَى حَلْقَهِ مُوسَى رَمِيضاً) کہ جب تم کسی شخص کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہو تو گویا تم اس کے گلے پر تیز دھارریزر پھیر دیتے ہو۔
رمضان نیکیوں میں تیزی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس مہینے میں خیرات میں آگے بڑھنے کا ایک بہترین اور سازگار ماحول بن جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ:
’’كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، حَتَّى يَنْسَلِخَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ أَجْوَدَ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ‘‘
(صحیح البخاری، کتاب الصیام، بَابٌ: أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیکیاں کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب جبریل آپ سے ملتے تھے تو آنحضرتؐ بہت ہی سخاوت کرتے تھے اور جبریل آنحضرتؐ سے رمضان کی ہر رات ملا کرتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہو جاتا اور وہ آنحضرتؐ کے ساتھ قرآن دہراتے جب جبریل آپؐ سے ملتے تو آپؐ نیکیوں میں تیزچلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جایا کرتے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’رمض النصل کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تیر کے پھل کو، یا نیز ے کے پھل کو یا چھری کے پھل کو پتھر پر رگڑ کر تیز کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس مہینہ کے اندر اپنے سهام الیل یعنی رات کے تیروں کو جو دعاؤں کی صورت میں آسمان کی طرف چلا رہے ہوتے ہیں تیز کرتے ہیں اس طرح ان تیروں کا اثر اس ماہ میں بڑھ جاتا ہے۔ اور ان کی کاٹ تیز ہو جاتی ہے۔ اور جن اغراض کیلئے ان تیروں کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اغراض اس ماہ میں بطریق احسن حاصل ہو جاتی ہیں‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ 55)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان میں روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ تم سہام اللیل یعنی دعاؤں کے پھلوں کو تیز کرو اور اپنے مطلوب یعنی رضائے الٰہی کی تلاش میں نکلو۔ پیاس اور بھوک کو برداشت کرو۔ اور بے خوابی کو خدا تعالیٰ کا فضل سمجھو کیونکہ یہ ایسا برکتوں والا مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم جیسا کلام الٰہی نازل کیا گیا ہے۔۔۔ یہ جوتنگیاں تمہیں نظر آتی ہیں کہ صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑنا جس کی وجہ سے بھوک اور پیاس لگتی ہے پھر سخت گرمی کے موسم میں اور سخت سردی کے موسم میں کچھ اور تکالیف پیش آتی ہیں۔ فرمایا یہ جو تکالیف تمہیں پیش آتی ہیں یہ محض عارضی اور وقتی ہیں۔ اتنا پیارا خدا! اتنا پیارا رب! جس نے قرآن کریم جیسی اعلیٰ تعلیم تم پر نازل کی اور بے شمار دنیوی نعمتوں سے تمہیں محض اپنے فضل سے نوازا، وہ ہرگز پسند نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں ان تکالیف میں اس لئے مبتلا کرے کہ تا تمہیں دکھ پہنچائے۔ نہیں، بلکہ وہ تو تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر تم ان خفیف سی وقتی تکالیف کو برداشت کر لو گے تو ان کے بدلے میں وہ تمہیں وہ انعام اور اکرام بخشے گا کہ انہیں پا کر تمہیں یہ دکھ،دکھ ہی نظر نہ آئے گا‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ60 خطبہ جمعہ 24 دسمبر 1965ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سارا سال نیکیوں میں بہت تیز رفتار تھے تو رمضان میں کیا اسی رفتار سے چلتے تھے یا اس میں ایک نئی شان پیدا ہو جاتی تھی نئی جان آ جاتی تھی۔ حدیثیں بتاتی ہیں کہ ان نیکیوں میں جو روز مرہ آپ کی عادت تھی ان میں ایک نئی جلاء پیدا ہو جاتی تھی، ایک نیا جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ پہلے سے بڑھ کر تیزی سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روزمره کی نیکیوں میں بڑھ جایا کرتے تھے۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ رمضان میں وہ نیکیاں جو ہم نے سارا سال کی تھیں ان میں ایک نئی جلا پیدا ہوئی ہے۔ کیا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پہلے جس طرح عبادت کیا کرتے تھے اس سے زیادہ بڑھ کر اس سے زیادہ توجہ سے عبادت کررہے ہیں، جس طرح پہلے صدقہ دیا کرتے تھے اس سے زیادہ توجہ کے ساتھ اور دلی خواہش کو ملا کر صدقے دیتے ہیں۔ محض بوجھ اتارنے کےلئے نہیں بلکہ محبت کے جذبے کے ساتھ۔ جیسے محبت کے جذبے سےجب تحفے پیش کئے جاتے ہیں تو بعض دفعہ بڑے بڑے خوبصورت کاغذوں میں یا ڈبوں میں لپیٹ کر دیئے جاتے ہیں بعض دفعہ تو اتنے زیا وہ خوبصورت کردئے جاتے ہیں کہ اندرکاتحفہ کم اور باہر کی سجاوٹ زیادہ۔ لیکن اللہ کے حضور بھی کسی حد تک سجاوٹ تو ضروری ہے اور وہ سجاوٹ جو ہے وہ خداتحفوں کی طرح قبول فرماتا ہے وہ اس کو جزا بنا دیتا ہے‘‘
(خطبات طاہر جلد15 صفحہ107، خطبہ جمعہ فرمودہ 9 فروری 1996ء)
رمضان کا پانچواں معنی
تکالیف کی پروا کئے بغیر رحمت کی تلاش
سعيد بن عبد الله الشرتونی (1847–1912ء) اپنی کتاب ’’أقْرَبُ الْمَوَارِد في فُصَحِ العربية والشوارد‘‘ میں زیر لفظ ’’رمض‘‘ لکھتے ہیں: (الرَّمْضُ) کا معنی (الْمَطَر يَأْتِي قبل الخريف فيجد الأَرْض حارة محترقة) کے ہیں یعنی وہ بارش جو خزاں کے موسم سے پہلے آتی ہے تو زمین کو گرم اور جلتا ہوا پاتی ہے۔ اسی طرح اگر (تَرَمَّضَتِ الصَّيْدُ) کہا جائے تو اس کا مطلب ہے (صَاده فِي الرمضاء) یعنی شکاری سخت گرمی میں شکار پر نکلا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’پھر لغت میں (تَرَمَّضَ الصَّيْدُ) کا محاورہ بھی لکھا ہے۔ یعنی جنونی شکاری شدت گرما کی پرواہ نہ کرتے ہوئے۔ گرمی کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں نکلا۔ گو یا الله تعالیٰ کا مومن بندہ بھوک اور پیاس اور دوسری سختیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے۔ گرمی کی شدت یا تکلیف، یا بھوک اور پیاس، یا بے خوابی وغیرہ اس کے راستے میں روک نہیں بن سکتیں۔ اور وہ جو کچھ تلاش کرتا ہے اس کا مفہوم بھی ہمیں اسی لفظ سے ہی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کا مطلوب ہرن اور تیتر کا شکار نہیں ہوتا۔ چنانچہ (الرمض) کے ایک اور معنی عربی میں (المطر يأتى قبل الخريف يجد الارض حارۃ محترقة) (اقرب) ہیں یعنی وہ بارش جوگرمی کی شدت کے بعد اور موسم خزاں سے پہلے آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ نازل ہوتی ہے تو زمین پوری طرح تپی ہوئی اورجلی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب وہ بارش نازل ہوتی ہے تو اس تپش کو دور کر دیتی ہے۔ اس جلن کو مٹا دیتی ہے اور سکون کے حالات پیدا کر دیتی ہے۔ تو یہاں سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہو سکتی میرے اندر جو آ گ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک کہ مجھ پر الله تعالیٰ کی رحمت کی بارش نازل نہ ہو پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔ پس الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہئے کہ وہ راتوں کے تیروں یعنی دعاؤں کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنوں سے بھی زیادہ جنوں رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں نکل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہوگی اور میرے قرب کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی‘‘
(خطبات ناصر جلد اول صفحہ 54)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے فضل سے اس بابرکت مہینے میں رحمت کی تسکین بخش بارش عطا فرما دے اور اپنے قرب میں جگہ دے اس بابرکت مہینے میں دعائیں کرتے ہوئے بلند سے بلند تر روحانی درجات کو پانے والے بن جائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائےآمین۔
(مرزا خلیل احمد بیگ۔جامعہ احمدیہ گھانا)