لطف کر بخش دے خطاؤں کو
دور کر دے سبھی بلاؤں کو
ہر طرف موت کی تمازت ہے
اک اشارہ ہو نم ہواؤں کو
ہیں سزاوار تیری رحمت کے
روک دے قہر کی گھٹاؤں کو
ماں سے بڑھ کر تو پیار کرتا ہے
چھوڑ جانے بھی دے سزاؤں کو
لمحہ لمحہ سنبھالتا ہے تو
جانتا ہوں تری وفاؤں کو
یہ خدائی تجھے ہی زیبا ہے
عقل دے دہر کے خداؤں کو
آسمانی ہے سائبان اپنا
جاودانی ہو ایسی چھاؤں کو
چشم پر نم کو اس کی دیکھتے ہیں
اس کی سن لے سبھی دعاؤں کو
اس کے در پر جھکے رہو ناصر
ٹال دیتا ہے وہ قضاؤں کو
(تنویر احمد ناصر۔قادیان)