کورونا وائرس کی وباء نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ معمولاتِ زندگی یکسر تبدیل ہوچکے ہیں ۔سکول جانے والے بچے گھروں میں مقید ہیں تو والدین بھی لاک ڈاؤن اور ہنگامی حالت کے نفاذ کی وجہ سے چاردیواری تک محصور ہو چکے ہیں ۔کہیں ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے تو کئی ممالک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشکلات اور تکلیف کی ان گھڑیوں میں راحت وسکون کے حصول کا ایک سنہری موقع ہمیں عطا ہوا ہے۔ یعنی ماہِ صیام کے مبارک ایام ۔جن کے بارہ میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان مبارک دنوں کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ کو خوشخبری کے انداز میں بتلایا کرتے تھے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آچکا ہے وہ مہینہ جو برکت والا ہے۔ وَھُوَ یُبَشِّرُ اَصْحَابَہٗ قَدْ جَآءَکُمْ رَمَضَانَ ۔ شَھْرٌ مُبَارَکٌ
(فضائل رمضان ۔ لابن ابی دنیا ۔ صفحہ 40حدیث نمبر 15)
پھر ماہ صیام کے مبارک ایام کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں۔ شقِيَ عبدٌ أدْرَكَ رَمَضَانَ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ۔ بدنصیب ہے وہ انسان جس نے رمضان کو پایا اور وہ گزربھی گیا لیکن وہ اپنے گناہ نہ بخشوا سکا ۔
(الادب المفرد ۔باب من ذکرعندہ النبی ؐ فلم یصل علیہ)
ان مبارک ایام کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئےسیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں۔
’’غرض رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے اور جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
(تفسیر کبیرجلد دوم صفحہ393)
گھروں میں محصور افراد کے لئے نادر موقع
ماہِ صیام کے روزے ہر بالغ، عاقل، صحت مند اور مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورخواتین پر فرض ہیں۔ آجکل گھروں میں محصور ہونے کی وجہ سے اور لاک ڈاؤن کی صورت حال کے باعث اکثریت گھروں میں مقیم ہے اور ایسے حالات کا سامنا ہے کہ سفر ویسے ہی ممکن نہیں ۔ پس آجکل زمانے کے حالات کی وجہ سے ایسی صورتحال درپیش ہے کہ دنیا کی اکثریت گھروں میں رہنے پر مجبورہے ۔گوکہ وبائی ایام کی وجہ سے یہ وقت دنیا کے لئے مشکل اور پریشانی کا وقت ہے لیکن رمضان کے ان بابرکت ایام کو اللہ تعالیٰ کے حکموں اور رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں بسر کرکے ہم ہزاروں برکات سے فیضیاب ہوسکتے ہیں۔
مریض روزہ نہ رکھیں
اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و شفقت سے مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سال کے بقیہ دنوں میں صحت و تندرستی کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت عطا فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ
(البقرہ:185)
تم میں سے جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ بعد کے دنوں میں گنتی پوری کرے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ مسکین کو کھانے کے برابر فدیہ ادا کریں ۔
آجکل وبائی مرض کے ایام میں ایسے احباب کو روزہ سے اجتناب کرنا چاہئے جنہیں کوئی بیماری لاحق ہو ۔ یا کوئی ایسا عارضہ ہو جس سے کسی بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو ۔ ہمارے آقا و پیشوا ﷺ نے ہمارے لئے نہایت پاکیزہ اسوہ چھوڑا ہے ۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے سبب پوچھا توعرض کی گئی کہ روزہ دار کو سایہ کیا جا رہاہے۔رسول اللہ ﷺ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ اَلصَّوْمُ فِی السَّفَر‘‘ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔
(الجامع الصحیح للبخاری کتاب الصوم)
رخصت پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رخصت سے فائدہ اٹھانے کو تقویٰ سے تعبیر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے ۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہئے ۔ مَیں نے پڑھاہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگرکوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتاہے تو یہ معصیت ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے ۔ جوحکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پرحاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیاہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو، میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔‘‘
(الحکم جلد 11 نمبر 4 مورخہ 31جنوری 1907ء)
مریض روزہ نہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرادری کریں
’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کازور دکھاکر کوئی نجات حاصل کر سکتاہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمباہو۔ بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کافتویٰ لازم آئے گا ۔‘‘
(بدر جلد6 نمبر42 مورخہ 26ستمبر 1907ء)
روزہ سے محروم افراد یہ دعا کریں
ایسے تمام افراد جو عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے یا موجودہ وبائی ایام میں انہیں کوئی ایسا امر مانع ہے کہ وہ اس برکت سے محروم ہیں تو ایسے افراد کو امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کے مطابق دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرنی چاہئے ۔
’’پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعاکرے کہ الٰہی! یہ تیرا مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیامعلوم آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ، یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اُس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خداطاقت بخش دے گا‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ563)
رمضان کا انتظار کرنے والے روزہ دار شمار ہوں گے
آجکل وبائی مرض کے ایام میں جو احباب کسی تکلیف میں سے گزر رہے ہوں انہیں بشارت ہو کہ امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ تعلیم ایسے دلوں کی مسیحائی کررہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور مَیں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھروہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 564)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’جو شخص کہ روزہ سے محروم رہتاہے مگر اس کے دل میں نیت دردِ دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لئے روزہ رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جُو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 26جنوری 1996ء)
روزہ سے محروم احباب فدیہ ادا کرکے برکات سے فیضیاب ہوں
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدۡیَۃٌ طَعَامُ مِسۡکِیۡنٍ کہ جو لوگ روزہ کی توفیق نہ پاسکیں وہ مسکین کو کھانا کھلانے کے برابر فدیہ ادا کریں۔ (البقرة:185) اس سلسلہ میں امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے ۔تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تا کہ روزے کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شئے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزے کی طاقت عطا کر سکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 258۔259)
اہل خانہ کے ساتھ نوافل اور تہجد کی برکت سے فیضیاب ہوں
ویسے تو نماز تہجد انفرادی عبادت ہے۔ لیکن میاں بیوی کا ایک دوسرے کو نماز کے لئے جگانا ایک ایسا عمل ہے جسے رسولِ خدا ﷺ نے بہت پسند فرمایا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔‘‘
(سنن ابی داؤد۔كتاب تفريع أبواب الوتر)
رمضان کے مبارک ایام میں آنحضور ﷺ کی کیفیات بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں۔
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ
یعنی جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنی کمر ہمت کس لیتےاور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے تھے۔
آجکل بچوں کے سکولوں کی چھٹیوں کے ایام میں والدین کے لئے نہایت بیش قیمت موقع ہے کہ سب اہل خانہ شب بیداری کا اہتمام کریں اور نماز تہجد اور نوافل کی ادائیگی کے ذریعہ رمضان کی برکات سے بھر پور رنگ میں فیضیاب ہوں۔
نماز تراویح کے بارہ میں رہنما ارشاد
اصل نماز تو تہجد ہی ہے ،لیکن جو لوگ صبح اٹھ نہیں سکتے وہ نماز تراویح پڑھ لیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’تراویح بھی سنت ہے۔ پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے۔ کوئی نئی نماز نہیں ہے۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو۔‘‘
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 22۔ ایڈیشن 1985ء)
اسی طرح تراویح کے بارے میں بعض سوال ہیں۔ اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموماً محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجا لانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائے تو کیا جائز ہو گا؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ’’کچھ حرج نہیں۔ پڑھ لیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 9 صفحہ 65۔ ایڈیشن 1985ء)
اہل خانہ کے ساتھ سحری کا نایاب موقع
رمضان میں مسلمان کا ہر عمل نیکی متصور ہوتا ہے ۔حتی کہ سحری اور افطاری کا کھانا بھی باعث برکت قرار دیا گیا ہے۔ آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃٌ‘‘ یعنی سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہیں اور سکولوں سے بھی چھٹیاں ہیں۔ لہٰذا یہ بہت ہی نایاب موقع ہے کہ سب گھر والے سحری کے بابرکت کھانے میں شامل ہوں ۔
آج کل سکولوں میں چھٹیوں اوربعض جگہ کام کی بندش کی وجہ سے بعض طبائع میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ رات دیر گئے تک جاگنا ہے تو سونے سے پہلے رات ہی کو سحری کھالی جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اصل برکت رسول اللہ ﷺ کی سنت اور ارشاد کی پیروی میں ہے اور آپ کا مبارک طریق یہ تھا کہ ایک موقع پر آپ ؐنے فرمایا: ’’صبح کا یہ مبارک کھانا رات کے آخری حصہ میں کھایا کرو.‘‘
(الجامع الصغیرالجزء الاول حدیث 3292)
فجر کے بعد تلاوت کی سنت کو زندہ کریں
اللہ تعالیٰ نے فجر کے وقت تلاوتِ قرآن کریم کو إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل:79) کے الفاظ میں ایک نہایت مقبول عمل قرار دیا ہے ۔ رمضان اور قرآن کریم کا بھی باہم گہرا تعلق ہے۔ اسی برکت والے مہینہ میں نزول قرآن شروع ہوا ۔ اسی طرح احادیث کے مطابق رمضان کے ایام میں جبرئیل علیہ السلام ہر رات آنحضور ﷺ کے پاس آتے اور قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق ہر سال ایک دفعہ قرآن کریم دہرایا جاتا لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال جبرئیل نے آپ کے ساتھ مل کر دو دفعہ قرآن کریم کا دور مکمل کیا۔سیدنا حضور انور ایدہ اللہ بنصر العزیز فرماتے ہیں۔
پس یہ سنّت ہے جس کو مومن جاری رکھتے ہیں اور رمضان میں کم از کم ایک یا دو دفعہ قرآن کریم کا دور مکمل کرتے ہیں۔ جن کو توفیق ہو وہ دو دفعہ سے زیادہ بھی پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اتنی جلدی بھی نہیں پڑھناچاہئےکہ سمجھ ہی نہ آئےکہ کیاپڑھ رہے ہیں۔ آنحضرتؐ کے صحابہ ؓ جو اہل زبان تھے، عرب تھے ان کو بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ بھی نہیں سمجھا۔‘‘
(خطبہ جمعہ 21۔اکتوبر 2005ء)
افطاری کا وقت دعاؤں اور تربیت اولاد میں گزاریں
رمضان کے مبارک ایام میں افطاری کا وقت نہایت بابرکت لمحات ہوتے ہیں ۔ اس وقت کو نہایت توجہ سے دعاؤں میں گزارنا چاہے ۔ آنحضرت ﷺ غروب آفتاب کے بعد روزہ جلد افطار فرما لیتے اور روزہ افطار کرنے میں بھی کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجور کے چند دانوں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اگر تازہ کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کھا کر ہی روزہ کھول لیتے اوراگر خشک کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند چلو بھر کر افطاری کرلیتے۔
(ابوداؤد ،کتاب ا لصوم، باب ما یفطر علیہ)
آنحضرت ﷺ نے روزہ افطار کروانے کی بھی ترغیب دلائی ہے اور اس عمل کا اجروثواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ہےکہ جو روزہ افطار کرائے اسے روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
(ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب من فطر صائما)
آج کل وبائی مرض کے ایام میں دیگر عزیز واقارب کے ساتھ افطاری کے مواقع تو کم ہوں گے لیکن والدین کو چاہیے کہ اس وقت بچوں کی تربیت کے لئے استعمال کریں ۔ بچیوں اور بچوں کو افطاری کا کھانا تیار کرنا اور پیش کرنا سکھلائیں ۔ اسی طرح ان ایام میں سب گھر والوں کے پاس یہ موقع بہم ہوگا کہ مل کر کھانا کھائیں اور افطاری سے پہلے کچھ وقت دعائیں پڑھنے اور بچوں کو نئی نئی دعائیں یاد کروانے میں صرف کیا جائے۔
اعتکاف کی سنت پر عمل کے لئے بہترین موقع
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیاکرتے تھے اور وفات تک آپ کا یہی معمول رہا۔ اس کے بعد آپ کی ازواج بھی انہی دنوں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں۔
(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف فی العشرالاواخر)
مسنون اعتکاف تو یہی ہے کہ مرد حضرات ایسی مسجد میں اعتکاف کریں جہاں نمازیں اور نماز جمعہ ہوتی ہے اور خواتین کو سہولت ہے کہ وہ گھروں میں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں ۔ لیکن موجودہ ایام میں جب کہ زیادہ تر لوگ گھروں میں محصور ہیں تو زیادہ سے زیادہ وقت عبادات،دعاؤں اور ذکر الہٰی میں گزراتے ہوئے اعتکاف کے مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
رمضان ہمدردی کا مہینہ ہے
موجودہ وبائی ایام کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ نے تلقین فرمائی ہے۔
’’یہی انسانیت کی خدمت کے دن ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تلقین فرمائی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو ۔ حقو ق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی دن ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ مؤرخہ 10۔اپریل 2020ء)
رمضان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمدردی و مواخات کا مہینہ قرارد یا ہے ۔ پس یہ ایام تقاضا کرتے ہیں کہ ہم دعاؤں، صدقہ وخیرات اور ضرورتمندوں کی مدد کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
رمضان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو خوشخبری
رمضان کے ایام اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے خاص دن ہیں۔ ان کا اجر وثواب غیر معمولی ہے۔ گویا یہ محنت کے وہ ایام ہیں جن میں مسلمان روزہ رکھ کر دعاؤں، عبادات، ذکر الہٰی، تلاوت قرآن کریم اور صدقہ وخیرات سے اتنی نیکیاں جمع کر سکتا ہے کہ وہ سارا سال اس کے کام آتی رہیں ۔جب انسان اخلاص اور محبت کے ساتھ ان مبارک ایام کو گزار لیتا ہے تو یہ دن اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں۔
مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت ﷺ کویہ کہتے سنا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اور ان کو پورا کیا اورجو رمضان کے دوران اُن تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے اس کو محفوظ رہنا چاہئے تھا یعنی جس نے ہر قسم کے گناہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو ایسے روزے دار کے لئے اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 26۔جنوری 1996ء)
(انیس احمد ندیم۔ جاپان)