• 11 جولائی, 2025

رمضان ۔ جامع رشد و خیر

رمضان کی آمد سے گلستان روحانیت میں پھر بہار آجاتی ہے۔ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی رحمتوں کا دامن بھی کتنا وسیع ہے۔ آپؐ نےہمارے لئے نہ صرف رمضان المبارک کے احکام وفضائل بیان فرمائے بلکہ رمضان گزارنے کے خوبصورت اسلوب اور قرینےبھی ہمیں سکھائے۔ آپؐ تو رمضان کے چاند سے بھی کئی ماہ پہلے یہ دُعا شروع کردیتے کہ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ (الدعاء للطبراني ص284) کہ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں بھی برکت دے اور ہمیں اس رمضان تک بھی رسائی نصیب ہوجائے (کہ شاید یہی مغفرت کا ذریعہ بن جائے)۔

روزہ کی فرضیت

ہجرت مدینہ کے دو سال بعدجب سورة البقرة کی آیات 184 تا 188 نازل ہوئیں تو ہرصحت مندعاقل بالغ مسلمان مرد اورعورت پر ماہ رمضان کےروزے فرض ہوئے۔روزہ کا مقصد تقویٰ یعنی جسمانی و روحانی بیماریوں سے بچنا بیان ہوا۔ مریض یا مسافرکویہ سہولت دی گئی کہ اگر وہ رمضان میں روزے نہ رکھ سکے تو بعد میں پورے کرلے،دائم المریض اور پیرفرتوت کوروزے نہ رکھ سکنے کی صورت میں فدیہ (روزانہ ایک مسکین کا کھانا) دینا واجب ٹھہرایا۔ مگر صحت مند کے لئےروزہ رکھنا ہی موجب خیروبرکت قرار دیا۔ الغرض جسمانی وروحانی ترقی کے لئے رمضان سے بڑھ کر کوئی عمدہ مشق اورنصاب نہیں ہے۔

فضائل رمضان

رمضان خیروبرکت اور فضیلتوں کا مجموعہ ہے۔ فضائل رمضان کے بارہ میں حضرت سلمان فارسیؓ کی یہ مفصل روایت رسول اللہ ﷺ کے ایک لطیف خطاب پر مشتمل ہے جو آپؐ نے رمضان کے شروع ہونے سے ایک روز قبل فرمایاکہ ’’اے لوگو!تم پر ایک بڑی عظمت (اور شان) والا، مہینہ سایہ کرنے والا ہے۔ ہاں ایک برکتوں والا مہینہ جس میں ‌ایک ایسی رات ہےجو (ثواب و فضیلت کے لحاظ سے) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزے فرض کئےہیں اور اس کی رات کی عبادت کو نفل ٹھہرایا ہے۔ اس مہینہ میں جو شخص کسی نفلی عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اُسے اس نفل کا ثواب عام دنوں میں فرض ادا کرنے کے برابر ملے گا اورجس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا اُسے عام دنوں کےستر فرض کے برابر ثواب ملے گا۔

اوریہ مہینہ صبر کا (مہینہ) ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا یا جاتا ہے اور جو شخص اس مہینہ میں روزہ دار کی افطاری کرواتا ہے تو یہ عمل اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بن جاتاہےاور اُسے آگ سے آزاد کیا جاتا ہے اور اُسے روزہ دار کے اَجر کے برابر ثواب ملتا ہے بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اَجر میں کچھ کمی ہو۔صحابہ کرامؓ بیان کرتے ہیں ہم نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ ہم میں سے ہر ایک کی اتنی توفیق نہیں کہ روزہ دار کی افطاری کا انتظام کرسکے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ افطاری کا یہ ثواب اُس شخص کو بھی عطا کرتا ہے جو روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ میں پانی (دودھ کی کچی لسی) سے یا کھجور سے یا پانی کے ایک گھونٹ سےہی روزہ کھلواتا دیتا ہے اور جو روزہ دار کو سیر کرکے پیٹ بھر کے کھلائے گا تواللہ تعالیٰ اُسے میرے حوض سے ایسا شربت پلائے گا کہ اُسے کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔

اوریہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتداءنزول رحمت ہے اور جس کا وسط مغفرت کا وقت ہےاور جس کا آخر کا مل اَجر پانے یعنی آگ سے آزادی کا زمانہ ہےاورجو شخص اس مہینے میں اپنے مزدور یا خادم سے اُس کے کام کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اور کم خدمت لیتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس شخص کو بھی بخش دے گا اور اُسے آگ سے آزاد کردے گا۔‘‘

(شعب الايمان للبیھقی جزء5 ص224)

اس حدیث کے آخر میں جو رحمت و مغفرت کا ذکر ہے، اس سے تینوں عشرے بھی مرادلئے گئےہیں۔ یعنی پہلا عشرۂ رمضان رحمت کا، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا آگ سے آزادی سے خاص ہے۔ جیسا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ میں بھی رمضان کے بارہ میں بیان فرمایا ہے کہ

’’وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19 ستمبر 2008ء)

علامہ سرخسی نے مذکورہ حدیث کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہر عشرہ رمضان اپنی ایک علیحدہ فضیلت کے لئے خاص ہے۔‘‘

(المبسوط للسرخسي جزء2 ص 146)

عملی طور پربھی دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کے آغاز سے ہی رحمتِ عام کی کوئی ایسی ہوا چلتی ہے کہ مساجد نمازیوں سے بھرجاتی اور فرض نمازوں کے علاوہ تراویح سے بھی خانہ ہائے خدا آباد ہوجاتے ہیں۔ تب خدائے رحیم اپنے عاجز بندوں کے ان اعمال کی وافر جزا کے ساتھ اُن پر رجوع برحمت ہوتا ہے۔ پس اس عشرہ میں خصوصیت سے اپنے مولیٰ سے اُس کی رحمت کا واسطہ دے کر دُعا کرنی چاہئے جیسے رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (المومنون: 119) کہ اے مىرے ربّ! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں مىں سب سے بہتر ہےاورجب خدا کا رحم جوش میں ہوتا ہے تو محبتِ الٰہی کی یہ دعا اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَكَ، اَللّٰهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيمَا تُحِبُّ، اَللّٰهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاغًا لِي فِيمَا تُحِبُّ

(ترمذی، کتاب الدعوات باب 74)

کہ اے اﷲ!مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت بھی جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اﷲ! میری محبوب چیزیں جو تو مجھے عطا کرے اُن کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جوپیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے اُن کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرمادے۔ اور يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ (ترمذی، کتاب الدعوات باب 92) کہ اے زندہ وقائم خدا! تیری رحمت کا واسطہ، مَیں مدد کا طالب ہوں۔

پہلے عشرہ کی یہ رحمتیں سمیٹ کر انسان دوسرے عشرہ مغفرت میں داخل ہوتا ہےتواس پاکیزہ زندگی کا لُطف اُٹھا کر گزشتہ گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا اور نئے پاکیزہ عہد کرتا ہے۔ اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت کا واسطہ دے کر دُعائیں مفید و مقبول ہوجاتی ہیں، اس لئے استغفارکا وِردکثرت سے کرنا چاہئے۔ خصوصاً یہ سید الاستغفار اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَاَنَا عَبْدُكَ وَاَنَا عَلَی عَهْدِكَ وَ وَعْدِكَ مَااسْتَطَعْتُ اَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ اِلَّا اَنْتَ۔

(بخاری، کتاب الدعوات بَابُ اَفْضَلِ الِاسْتِغْفَارِ)

ترجمہ :اے اﷲ! تو میرا ربّ ہے ،تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے اور مَیں تیرا بندہ ہوں، اور مَیں حسبِ توفیق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، مَیں اپنے عمل کے شرّ سے تیری پناہ میں آتا ہوں، مَیں اپنے اوپر تیری نعمتوں اور احسانوں کا اعتراف کرتا ہوں اور تیرے سامنے اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں پس تُو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔

اسی طرح یہ دعا اَللّٰھُمَّ مَغْفِرَتُکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِیْ وَ رَحْمَتُکَ اَرْجٰی مِنْ عَمَلِیْ۔ (مستدرک جلد 1 صفحہ 728) کہ اے اﷲ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے اور مجھے اُمید اپنے عمل کی نسبت تیری رحمت پرزیادہ ہے۔

اور روزہ افطار کرنےکی یہ دُعا جس میں خاص بخشش کا ذکر ہے اَللّٰھُمَّ اِ نِّیْ اَسْاَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیٍٔ اَنْ تَغْفِرَ لِیْ ذُنُوْبِیْ۔

(مستدرک حاکم جلد1 ص583)

ترجمہ: اے اﷲ! مَیں تجھ سے تیری اس رحمت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو ہر چیز پر حاوی ہے کہ تو میرے گناہ بخش دے۔

پھر تیسرا عشرہ آئندہ کی دائمی اور کامل مغفرت کی نویدبن کر آتا ہے کہ اس میں اعتکاف اور لیلۃ القدر کے علاوہ رمضان کی آخری شب بھی خاص مغفرت کا موقع ہے۔ اس عشرہ میں آگ سے نجات اور انجام بخیرکی دُعائیں مفید ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ (ابو داؤد کتاب الادب باب مایقول اذا اصبح) کہ اے اﷲ! مجھے آگ سے پناہ دے۔ اَللّٰهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ۔

(المستدرك على الصحيحين للحاكم جزء3 صفحہ 683)

کہ اے اﷲ!سب کاموں میں ہمارا انجام بخیر کر اور ہمیں دُنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔

عشرہ ہائے رمضان کی یہ تقسیم ان کی خصوصیت نمایاں کرنے کے علاوہ رمضان کی اہمیت و برکت بھی ظاہرکرتی ہے۔ تاہم عشرہ ہائے رمضان کی اس نسبتی تقسیم کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اگر پہلا عشرہ رحمت سے خاص ہے تو باقی عشروں کارحمت سے تعلق نہیں بلکہ جیساکہ رسول اللہ ﷺ نےخود وضاحت فرمائی کہ رمضان کی آمد پررحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں (بخاری کتاب الصیام) جو ظاہر ہے سارا رمضان ہی کھلے رہتے ہیں۔ اسی طرح ماہِ رمضان کی مقبول عبادات کا نتیجہ بھی مغفرت اور آگ سے آزادی ہے۔ یہ دونوں باتیں بھی حصول رضائے باری کو ظاہر کرتی ہیں۔ اسی طرح لیلۃالقدر جو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے اس کی جو خاص دُعا رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو سکھائی، وہ عفو و مغفرت پر ہی مشتمل ہے۔

(ترمذی ابواب الدعوات باب 85،سنن ابن ماجہ ابواب الدعاء باب الدعاء بالعفو والعافیۃ)

اس لحاظ سے سارے ماہِ رمضان کو بھی رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ علامہ حمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں کہ ’’دراصل رمضان کا سارا مہینہ ہی مغفرت و رحمت اور آگ سے آزادی کا مہینہ ہے جیساکہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان کی ہر رات میں کئی لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے۔‘‘

(فقہ الصیام والحج من دلیل الطالب جزء10 صفحہ24)

چنانچہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إِنَّ لِلّٰهِ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ۔ (ابن ماجہ ،کتاب الصیام) کہ اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت لوگوں کو (جہنم سے) آزاد فرماتا ہے اور یہ (رمضان کی) ہر رات میں ہوتا ہے۔

دراصل حدیث زیرنظرمیں تینوں عشروں کی منفرد اہمیت جتلانے کے علاوہ رمضان کی تین خصوصیات کی طرف بھی رہنمائی مقصود ہے۔ پہلی خصوصیت رحمت یعنی محبت ہے۔ جس سے رمضان کا آغاز ہوتا ہے۔اس مہینہ میں ایک طرف انسان (جو دو انس سے مرکب ہے، یعنی خالق اور مخلوق سے محبت کا مجموعہ) وہ محبت الٰہی اور ہمدردیٔ خلق کے جوش میں نیک اعمال بجالاتا ہے تو دوسری طرف خدائے رحیم بھی پہلے سے بڑھ کر رجوع برحمت ہوتا ہے۔

اسی طرح ’’رمضان‘‘ بھی رمض سے نکلا ہے جس کے معنے تپش کے ہیں اور دو گرمیوں اور تپش سے مُراد خالق اور مخلوق کی دونوں محبتوں کا جوش مارنا ہے۔ جیساکہ اللہ کی رحمت اس مہینہ میں عروج پر ہوتی اور اپنے بندوں پر انعام و اکرام کے بہانے ڈھونڈتی اور مخلوق کا سفر اپنے خالق کی طرف آسان کرتی ہے۔دوسری طرف بندہ بھی جوش محبت میں اس مہینہ میں کئی مشکل چوٹیاں سرکرلیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ رمضان کا نام اس لئے رمضان ہے کہ یہ گناہوں کو جلد خاکستر کردیتا ہے۔

(جامع الاحادیث للسیوطی جزء31 صفحہ171)

نیز فرمایا کہ جو شخص اس مہینہ میں خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنے کے لئے کوئی نفلی عبادت بجالاتا ہے اُسے فرض کی ادائیگی کا ثواب ملتا ہے اور جو فرض ادا کرتا ہے اُسے ستر فرض کے برابر ثواب ملتا ہے۔

(شعب الایمان للبیہقی کتاب الصیام باب فضائل شہر رمضان)

حضرت ملّا علی قاری زیرنظر حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں۔
’’رمضان ایسا مہینہ ہے کہ اس کا آغاز رحمت ہے یعنی اس وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت عام نازل ہوتی ہےاور اس مہینہ کا وسط مغفرت ہے یعنی رحمت الٰہی کے نتیجہ میں مغفرت کا دَور میسر آتا ہے کیونکہ بعض دفعہ مزدور فراغت سے پہلے ہی اپنی اُجرت سے کچھ حصہ پالیتا ہے اور اس کا آخر آگ سے آزادی ہے یعنی مکمل اَجر آگ سے آزادی کی صورت میں میسر آجاتا ہے۔‘‘

(مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح جزء4 صفحہ1369)

اس حدیث کے مطابق رمضان کی دوسری خصوصیت مغفرت ہے۔ جیساکہ فرمایا وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ اوسط کے ایک معنی ’’اعلیٰ‘‘ کے بھی ہیں یعنی رمضان کی اعلیٰ برکت حصول مغفرت الٰہی ہے۔ رمضان کی اسی برکت کا ذکرکرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بڑا بدنصیب ہے وہ شخص جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی بخشا نہ گیا۔

(الادب المفرد صفحہ 224)

اس سے بھی ظاہر ہے کہ مغفرت کا تعلق سارے ماہِ رمضان سے بھی ہے جس میں مقبول عبادات کے نتیجہ میں انسان کے گناہ معاف کئے اور درجات بلند ہوتےہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الطھارة)

یعنی اگر انسان سچے دل اور تقویٰ سے رمضان کی عبادات بجالائے تو رمضان ایسے اثرات چھوڑ جاتا ہے اور ایسی نیکیوں کی عادت ڈال جاتا ہے جو اس کے گناہوں کا کفار ہ ہوجاتی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہےکہ جب رمضان سلامتی سے گزرجائے تو سمجھو سارا سال سلامت ہے۔

(شعب الايمان جزء5 ص285)

پھررسول اللہ ﷺ نے رمضان کی آمد پر کیسی پیاری یہ دُعا سکھائی۔ اَللَّهُمَّ سَلِّمْنِي لِرَمَضَانَ وَسَلِّمْ رَمَضَانَ لِي وَتَسَلَّمْهُ مِنِّي مُتَقَبَّلًا

(للطبرانی ص: 284)

کہ اے اللہ! رمضان کو میرے اور مجھے رمضان کے سپرد کردے اور مجھ سے اس مہینہ کی عبادات قبول فرمالے۔

پس رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرناچاہئے تاکہ جسمانی، روحا نی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان کی یہ کیفیت طاری ہوکرہمارے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہےاور یہ بابرکت مہینہ سارےسال کے شرورومعاصی کےازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے۔

روزہ کی برکت

رمضان کی عبادات میں سب سے اہم توروزہ ہے جس میں انسان خدا کے حکم سے جائز چیزوں سے رُک کر حرام چیزوں سے بدرجۂ اولیٰ رکنے کی مشق کرتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ کئی نیکیوں کو جمع کرنے کا موجب بنتا ہے کیونکہ انسان اس میں صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ ہرقسم کے جھوٹ، فریب اور بُرائی کو ترک کرنے کی توفیق پاتا ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهٖ

(الترمذی، ابواب الصوم)

روزہ خالصتاً میرے لئے ہے اور روزہ دار کی جزا میں خود بنوں گا یعنی روزہ کے نتیجہ میں دیدار ِالٰہی اور وصال ربّ العزت روزہ دار کو نصیب ہوگا۔ اسی طرح حدیث میں ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اُسے اُس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اُس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے اپنے رب سے وہ ملاقات کرے گا۔

(بخاری، کتاب الصوم)

روزہ اور نماز

روزہ کے ساتھ جس عبادت کا چولی دامن کا ساتھ ہے وہ نماز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’صلٰوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلیٔ قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مُراد یہ ہے کہ نفسِ امّارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلیٔ قلب سے مُراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے‘‘

(ملفوظات جلد 2ص561)

پس جب روزہ کی حالت میں انسان پنجوقتہ نمازوں کی نہر میں غوطہ زن ہوکر قرب الٰہی حاصل کرنے کا خواہاں ہوتا ہے تو روزہ اُس میں ممد و معاون ہوتا ہے۔

حضرت عائشہ رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول بیان فرماتی تھیں کہ نماز کیلئے بلالؓ کی اطلاعی آواز پر آپؐ بلا توقّف مستعد ہوکر اُٹھتے اور نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔

(بخاری، کتاب التہجد باب15)

اور رمضان میں تو اس کا اہتمام اور زیادہ ہو جاتا تھا، یہی پاک اُسوہ آج بھی ہمارےلئے بہترین نمونہ ہےکہ نہ صرف پنجگانہ نمازوں کا التزام بلکہ نماز میں انہماک اور خشوع و خضوع کی کیفیت بھی روزے کے نتیجہ میں ترقی پذیر ہونی چاہئے۔ تاکہ روزے اور نماز کا حقیقی مقصد حاصل ہو۔ قرآن کریم کا پہلا حکم سورة البقرہ آیت 22 میں عبادت کا ہے اور اس کا مقصد حصول تقویٰ بتایا ہے۔ اسی طرح سورة البقرہ آیت 184 کےمطابق روزہ کا مقصدبھی یہی تقویٰ ہی ہے جس سے انسان بُرائیوں سے محفوظ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے روزہ کومومن کی ایک ڈھال قرار دیا۔ (بخاری کتاب الصوم) جس سے وہ شیطان کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

قرآن کریم کے نازل ہونے کےایّام

رمضان کا مہینہ اُن مقدس ایّام کی بھی یاددلاتا ہے جن میں قرآن کریم جیسی کامل کتاب کا دُنیا میں نزول ہوا۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مرض الموت میں حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ جبرائیل ہر سال رمضان کے مہینہ میں تمام قرآن کریم کا میرے ساتھ ایک دفعہ دَورکیا کرتےتھے مگر اس سال انہوں نے دو دفعہ دَور کیا جس سے میں سمجھتاہوں کہ اب میری وفات قریب ہے۔

(زرقانی جلد8 ص250)

بے شک رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی قرآ ن نازل ہوا ہے مگر رمضان المبارک کی یہ خصوصیت ہےکہ اس میں جس حد تک قرآن کریم نازل ہوچکا ہوتا تھا جبریلؑ اس کا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مِل کر دَور کیا کرتے تھے گویا دوسرے الفاظ میں دوبارہ تمام قرآن کریم آپ پر نازل کیاجاتا۔ پس اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہےکہ سارا قرآن کریم ہی رمضان میں نازل ہوا۔

اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ دورانِ ماہ اُسے باربار پڑھا جائے، اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور رمضان میں خاص طور پر سنت نبویؐ کے مطابق دو دفعہ اس کا دَور مکمل کرنے کی کوشش کی جائے اور کیا خوب ہو جو یہ دور ترجمہ کے ساتھ ہو۔

نماز تہجد اور نوافل

رمضان کا بہترین تحفہ اورسحری کے کھانے سے بھی کہیں لذیذ نماز تہجد ہے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان المبارک کا ذکر کیا اور اُسے تمام مہینوں سے افضل قرار دیتے ہوئے فرمایا:جو شخص رمضان کے مہینہ میں حالت ایمان میں ثواب اور اخلاص کی خاطر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اُس روز تھا جب اس کی ماں نےاُسے جنا۔

(سنن نسائی کتاب الصیام)

آنحضرت ﷺ کی روزمرہ عبادت کاہی یہ حال تھاکہ آپؐ ساری ساری رات کھڑے رہ کر عبادت کرتے۔یہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے۔ حضرت عائشہؓ نے پوچھا اے خدا کے رسولﷺ! کیا اللہ نے آپؐ کو معاف نہیں کردیا پھر آپؐ کیوں اتنی تکلیف اُٹھاتے ہیں تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ عائشہؓ! کیا مَیں خدا کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟

(بخاری، کتاب التہجد)

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ آنحضور ﷺ کی رمضان المبارک میں رات کی عبادت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا: حضور ﷺ رمضان اور رمضان کے علاوہ ایّام میں گیارہ رکعتوں سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ ان رکعتوں کے حسن اور لمبائی کے متعلق نہ پوچھو۔ یعنی میرے پاس الفاظ نہیں کہ حضورؐ کی اس لمبی نماز کی خوبصورتی بیان کروں۔ پھر ایسی لمبی اور خوبصورت چار رکعات اور ادا فرماتے تھے پھر تین وترآخر میں پڑھتے تھے یعنی کل گیارہ رکعات۔

(بخاری کتاب التہجد باب 16)

لیکن یہ تو رسول اللہ ﷺ کا روزمرہ معمول تھا۔ رمضان میں تو حضرت عائشہؓ کے بیان کے مطابق آپؐ کمر ہمت کس لیتے تھے اور پوری کوشش اور محنت فرماتے تھے۔

(بخاری، کتاب صلوة التراویح باب6)

نیز آپؓ فرماتی ہیں کہ آنحضور ﷺ کو سوائے رمضان کے عام طور پر ساری ساری رات کھڑے ہوکر عبادت کرتے نہیں دیکھا۔

(سنن نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النھار)

اسی لئے آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کو تم پر فرض کیا ہے اور میں نے اس کی راتوں کی عبادت تمہارے لئے بطور سنت قائم کردی ہے۔

(نسائی کتاب الصیام)

اس لئے رمضان کی راتوں میں حسب توفیق نوافل ادا کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے۔ اصل سنت تو قیام اللیل کی حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعت بیان کی ہے۔ اس لئے تراویح کے علاوہ بھی نماز تہجد کے نوافل ادا کرنے کی ضرور کوشش کرنی چاہئے کیونکہ رات کے آخری حصہ میں قبولیت دُعا کا موقع اُسے زیادہ افضل بنا دیتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کے لئے خاص طور پر تحریک و ترغیب فرماتے تھے۔ بے شک آپؐ عزیمت کے طور پر اس کا حکم تو نہیں دیتے تھے تاہم تلقین ضرور فرماتے تھے۔

(ترمذی، ابواب الصوم)

انفاق فی سبیل اللہ

رمضان کی ایک خوبصورت نیکی راہ خدا میں مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنے مال خرچ کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے توعام حالات میں بھی کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ لیکن رمضان میں تو آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے مگر آپ کی سخاوت رمضان کے مہینہ میں اپنے انتہائی عروج پر ہوتی تھی، جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقاتیں کرتے تھے اُس وقت آپؐ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔‘‘

(بخاری ،کتاب بدء الوحی)

اس سنت نبویؐ کے مطابق رمضان میں بطور خاص ہرقسم کے صدقات کا اہتمام کرنا چاہئے۔ فریضۂ زکوٰة کی ادائیگی کے لئے بھی حسب شرائط یہ مہینہ موزوں ہے کہ عام دنوں سے70 گنا ثواب کا موجب ہوتا ہے۔

پھر اول تو رمضان میں روزہ رکھنا بھوک اور پیاس کا احساس دِلا کر غریبوں کی مدد کی عملی تحریک کا موجب بنتا ہے اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانا کھلانے کے فدیہ کا قرآن کریم میں حکم ہے۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر سے قبل ہر مسلمان پر فطرانہ واجب فرمایا تاکہ دیگر کمزور بھائیوں کو بھی خوشیوں میں شریک کیا جاسکے۔ الغرض یہ مہینہ صدقہ و خیرات اور امداد باہمی اور تعاون کا عمدہ مہینہ بن جاتا ہے۔

آخری عشرہ

اہل دل جانتے ہیں کہ جب پیاروں کو الواداع کرنے کا وقت آتا ہے تو بے اختیار جذبات محبت جوش مارتے ہیں۔کچھ یہی کیفیت ہمارے آقا سید مولیٰ آنحضرت ﷺ کی رمضان کی رخصتی پر ہوتی تھی۔ جب روحانیت کی بہار اپنی رونق دکھا کررخصت ہونے کو آتی تو آپ ان آخری ایّام میں کمرِ ہمت کس لیتے اور برکات رمضان کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے۔

حضرت عائشہؓ کی ہی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں عبادات میں جتنی کوشش و محنت اور مجاہدہ فرماتے تھے وہ جدوجہد اس کے علاوہ ایّام میں نہیں دیکھی گئی۔

(صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف)

معلوم ہوتا ہے ایک تو حضور ﷺ رمضان کی رخصتی کے اس خیال سے کہ پھر یہ پیارا برکتوں والا مہینہ سال بعد آئے گا پوری ہمت اور طاقت خرچ کرکے ان برکتوں کو حاصل کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ان آخری ایّام میں جو خاص برکات رکھی گئی ہیں اُن کا حصول مقصود ہوتا تھا۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے رمضان کے آخر میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے۔

(شعب الایمان کتاب الصیام باب فضائل شھر رمضان)

آخری عشرہ رمضان میں آنحضور ﷺ اعتکاف بھی فرماتے تھے اور لیلۃالقدر کی تلاش میں راتیں بھی زندہ کرتے تھے۔

رمضان المبارک کے اس آخری عشرہ کی خاص برکت بھی آنحضور ﷺ نے مغفرت بیان فرمائی جو رمضان کی اعلیٰ برکت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘رمضان المبارک کی آخری رات میں میری اُمت کی مغفرت ہوتی ہے۔ آپؐ سے پوچھا گیا اے خدا کے رسولﷺ! کیا رمضان کی آخری رات لیلۃالقدر ہوتی ہے فرمایا: نہیں بلکہ عمل کرنے والا جب عمل سے فارغ ہوتا ہے تو اس وقت اُسے اس کا اَجردیا جاتا ہے۔ (اور یہ مغفرت اس کا اَجر ہے۔)

(مسند احمد مسند ابی ہریرةؓ جزء8 صفحہ31)

اس لئے رمضان کی عبادات اور اعمال سے فراغت پر ان مومن بندوں کو آخری رات اللہ تعالیٰ اپنی مغفرت عطافرماتاہے۔ کتنے مبارک ہیں رمضان میں عبادت بجالانے والے وہ روزہ دار جن کو جلد ہی ان کا اجر دے دیا جاتاہے۔

اعتکاف

رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت اعتکاف ہے یعنی آخری عشرہ کے دس دن رات کسی جامع مسجد میں خلوت نشین اور دُنیا سے منقطع ہو کر روزہ کے ساتھ دیگر جملہ عبادات بھرپوررنگ میں بجالانا۔

حضرت عائشہؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وفات دی۔آپؐ کے بعد آپؐ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف فرماتی رہیں۔

(بخاری کتاب الاعتکاف)

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے معتکف کے بارہ میں فرمایا کہ وہ مسجد میں رہ کر کئی گناہوں سے بچ جاتا ہے اور مسجد میں رہنے کے باعث جن نیکیوں سے محروم ہوتا ان کا ثواب بھی اس کے حق میں لکھا جاتا ہے۔

(ابن ماجہ کتاب الصیام بَابٌ فِي ثَوَابِ الِاعْتِكَافِ)

معتکف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ معتکف اپنے آپ کو کلّی طور پر خدا کے حضور ڈال دیتا اور کہتا ہے کہ ’’اے خدا! مجھے تیری قسم مَیں یہاں سے نہیں ہٹوں گایہاں تک تو مجھ پر رحم فرمائے۔‘‘

(درمنثور فی التفسیر بالماثور جزء1 صفحہ486)

پھر فرمایا۔ ’’خدا کی راہ میں ایک دن اعتکاف کرنے والے اورجہنم کے درمیان اللہ تعالیٰ تین ایسی خندقیں بنا دے گا جن کے درمیان مشرق ومغرب کے مابین فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔‘‘

(درّمنثور فی التفسیر بالماثور جزء1 صفحہ486)

لیلۃ القدر

رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کی ایک اہم اور عظیم الشان برکت لیلۃالقدر ہے۔ جس کے معنے عزت والی رات یااندازہ والی رات۔ عزت والی رات اس لحاظ سے کہ قرآن عظیم جیسی شان والی کتاب کا نزول اس رات میں ہوا۔ اس لئے اسے لیلۃ مبارکہ بھی کہا گیا ہے یعنی ہم نے قرآن کو برکتوں والی رات میں اُتارا ہے۔

(سورہ دخان آیت4)

اس رات میں خداکی رحمت بے پایاں اپنےعروج پرہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے بندوں کی دُعاؤں کو بطور خاص سنتا اور قبول کرتا ہے۔ اس رات کی تلاش کےلئے رسول اللہ ﷺ نے بہت تاکید کی اور ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔

(بخاری ،کتاب فضل لیلۃ القدر)

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ کو خواب کی حالت میں لیلۃ القدر رمضان کے آخری سات دنوں میں دکھائی گئی تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مَیں دیکھتا ہوں کہ تمہاری خوابیں آخری سات راتوں کے بارہ میں متفق ہیں (کہ ان میں لیلۃ القدر) ہے۔ پس جو شخص لیلۃالقدر کامتلاشی ہے وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔

(بخاری کتاب فضل لیلۃالقدر)

حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سال شروع شروع میں رمضان کے درمیانی عشرہ میں ہم حضور کے ساتھ معتکف ہوئے بیسویں رمضان کی صبح حضور ﷺ نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایاکہ مجھے لیلۃالقدر دِکھائی گئی، پھر بُھلادی گئی پس اب تم رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں اسے تلاش کرو (ہاں!لیلۃالقدرکی ایک ظاہری نشان) مَیں نے دیکھا ہے کہ مَیں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پس جو شخص میرے ساتھ درمیانی عشرہ میں معتکف رہا وہ اعتکاف میں ہی رہے چنانچہ ہم معتکف رہے اورہم آسمان میں اس رات کوئی بادل کا نشان تک نہیں دیکھتے تھے پھر اچانک ایک بادل آیا اور برسا یہاں تک کہ مسجد کی چھت جو کھجور کی شاخوں کی تھی ٹپک پڑی ۔نماز کھڑی ہوئی مَیں نے دیکھا کہ حضور کی سجدہ گاہ تر ہوگئی اور آپ ﷺ نے کیچڑ کی گیلی مٹی والی جگہ میں سجدہ فرمایا ۔بلکہ حضور کی پیشانی مبارک پت کیچڑ کی گیلی مٹی کا کچھ اثر بھی رہ گیا اور یہ اکیسویں کی رات تھی اور بعض میں بیسویں کاذکر ہے۔

(بخاری، کتاب فضل لیلۃالقدر)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس رات کے بُھلانے میں کوئی خاص حکمت تھی کیونکہ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے اس کا بُھولنا تمہارے لئے بہتر ہو ۔

(بخاری کتاب فضل لیلۃالقدر)

اور وہ یہی حکمت ہے کہ ایک رات کاسہارا لینے اور صرف اس میں عبادت کی بجائے آخری عشرہ کی ساری ہی طاق راتوں میں پوری ہمت ،محنت اورکو شش سے مجاہدہ کرنے کی توفیق مومنوں کو حاصل ہو۔

ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ اگر میں لیلۃ القدر پاؤں تو کیا دُعا کروں؟ آپ ﷺ نے یہ دُعا سکھائی۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔ (ترمذی ابواب الدعوات، سنن ابن ماجہ ابواب الدعاء) کہ اے اللہ! تُو بہت معاف کرنے والا ہے، توعفو کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھے معاف کر دے۔

روزہ اور دُعائیں

رمضان کے ساتھ دُعاؤں کا گہرا تعلق ہے۔ سورة البقرہ آیت: 187 میں احکام رمضان کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ ’’اور جب مىرے بندے تجھ سے مىرے متعلق سوال کرىں تو ىقىناً مَىں قرىب ہوں ،مَىں دُعا کرنے والے کى دُعا کا جواب دىتا ہوں جب وہ مجھے پُکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھى مىرى بات پر لبّىک کہىں اور مجھ پر اىمان لائىں تاکہ وہ ہداىت پائىں۔‘‘

رمضان میں ایک تو تہجد کا وقت خاص قبولیت کے اوقات میں ہے جب خدا ئے ذوالعرش اپنے بندوں سے سوال کررہا ہوتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھے پُکارے کہ میں اُسے جواب دوں ۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تا مَیں اُسے عطا کروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا مَیں اُسے بخش دوں ۔

(بخاری کتاب التہجد)

بعض اَوقات بھی اپنے اندر خاص تاثیرات رکھتے ہیں ۔ان میں سے ایک رمضان کے ایّام میں افطاری کا وقت ہے۔حدیث میں آتاہے کہ روزانہ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو آگ سے بَری قرار دیتا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام)

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ روزہ دار کے لئے اس کی افطاری کے وقت ایک دُعا ایسی ہے جو ردّ نہیں کی جاتی۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام)

یہ ایسا بابرکت وقت ہے کہ روزہ دارکا دل یوں بھی اس وقت ایک خاص سُرور کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ خصوصاً اس خیال سے کہ خدا کی خاطر مجھے سارا دن بھوکا پیاسا رہنے اور اس کی رضا کےلئے بُری باتوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے۔

الغرض رمضان کا مہینہ جامع الخیرات اور کئی نیکیوں اور عبادات کو جمع کرنے والا ہے۔جو ایک مومن کے لئےرحمت اور جنت کے دروازے کھول دیتا اور جہنم کے دروازے اُس پر بندکرکے آگ سے آزاد قرار دے کر بخشش و مغفرت اوررضائے الٰہی کا ذریعہ بنتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں۔
’’اسلام ……ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتا ہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایّام کو اللہ کی عبادت اور تسبیح وتحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دُعاؤں اورذکر ِالٰہی میں بسر کرے ۔تاکہ اُسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلددوم ص386)

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں رمضان میں ایسے روزوں اور عبادات کی توفیق دے جو ہماری مغفرت اور ہمارے لئے جنت کے دروازے وا ہونے کا موجب بن جائیں۔آمین

(حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر15، 01۔مئی 2020ء