جس عظیم شخصیت کے بارہ میں آج لکھنے بیٹھا ہوں سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے تمہید باندھوں، کہاں سے شروع کروں۔ کیونکہ وہ محض ایک شخص نہیں تھا بلکہ ایک زمانہ تھا، بے شمار لوگوں کی زندگیوں پر اس بزرگ شخصیت نے کسی نہ کسی رنگ میں اثر چھوڑا ہے۔ خاکسار کے خیال میں جماعت آسٹریلیا میں شاید ہی کوئی فرد ہو جو ان کے زیر احسان نہ ہو۔
یہ ذکرِ خیہمارے پیارے امیر مکرم محمود احمد شاہد مرحوم کا ہے۔ ان کی ذات کو سب سے زیادہ اور حسین خراجِ تحسین تو ہمارے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ چونکہ اس عاجز نے بھی ان کی بے پناہ شفقتوں سے باقی احباب کی طرح حصہ پایا ہے اور ایک لمبا عرصہ ان کے زیر ِسایہ کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور ان کی زندگی کے آخری 8،7 سالوں میں خاکسار کو محترم امیر صاحب کے خطوط لکھنے کی اللہ تعالیٰ نے خصوصی توفیق عطا فرمائی اس لئے خاکسار ان کی زندگی کے بعض پُرشفقت واقعات جن کا زیادہ تر خاکسار سے تعلق ہے بیان کرنے کی کوشش کرے گا۔
خاکسار کو اپنے بچپن کے زمانہ میں 80 کی دھائی کے شروع میں اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کی توفیق ملی اور وہیں پر میں نے محترم امیر صاحب کو پہلی دفعہ دیکھا اس وقت آپ صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے۔ آپ اطفال الاحمدیہ کے اجتماع میں خطاب کے لئے تشریف لائے۔ چونکہ آپ کی اردو میں بنگالی لہجہ کی آمیزش تھی ،ہم نے بچپن کی نا سمجھی میں اسے خوب انجوائے کیا۔
محترم امیر صاحب سے پہلی باقاعدہ ملاقات 1996ء میں آسٹریلیا آنے پر ہوئی ۔ تب ان کی بے پناہ شفقتوں کا اندازہ ہوا کہ وہ کتنی محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ خاکسار جب ائر پورٹ سے مسجد پہنچا تو مسجد کے بالائی حصہ پر جہاں آجکل MTA کا اسٹوڈیو ہے وہاں رہائش پذیر ہوا اور تھوڑی دیر بعد ہی سیڑھیوں سے السلام علیکم کی آواز آئی۔ دیکھا تو محترم امیر صاحب تشریف لا رہے تھے۔ بڑی گرم جوشی سے گلے لگایا اور خوشی کا اظہار فرمایا اور سفر کا بھی پوچھا کہ کیسا گزراہے۔ ان دنوں ان کے پاؤں میں تکلیف تھی خاکسار نے عرض کی کہ میں خود حاضر ہو جاتا توفرمانے لگے نہیں تم مہمان ہو اس لئے میرا آنا فرض بنتا تھا۔
1996ء میں ہی کچھ احمدی خاندان آسٹریلیا آ کر آباد ہوئے تو محترم امیر صاحب نے ہر لحاظ سے ان کی مدد فرمائی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی خود خیال رکھا۔ یہاں تک کہ ان کو Centerlink اور Medicare کے دفاتر میں بھی خود لے کر جاتے رہے اور جب وہ اپنے گھروں میں شفٹ ہو گئے تو اکثر ان کے گھروں میں تشریف لے جاتے اور پوچھتے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ خاکسار کے ساتھ خود امیگریشن کے آفس گئے تا کہ میری درخواست جمع کروا سکیں اور اس کے بعد ٹیکس آفس (ATO) میں لے جا کر خود خاکسار کے لئے ٹیکس فائل نمبر کے لئے فارم پُر کئے۔
بیویوں سے حسن سلوک کرنے کی ہدایت
محترم امیر صاحب اکثر اپنے خطبات میں جو جلسہ سالانہ یا خدام کے اجتماع کے موقع پر ہوئے اہل خانہ سے نیک سلوک کی تلقین فرماتے اور خاندانی جھگڑوں کے جو کیس آتے ان کی وجہ سے کافی پریشان رہتے ۔اگر کسی خاوند کی یہ شکایت آتی کی اس نے بیوی پر ہاتھ اٹھایا ہے تو بہت ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ کئی دفعہ خاوند کی طرف سے شکایت ہوتی کی بیوی نے پولیس کو بلا لیا تھا تو فرماتے کہ جب بیچاری کو مارو گے تووہ پولیس ہی بلائے گی اور کیا کرے۔
شاید 1998ءکی بات ہے کہ خاکسار کو مع اپنے دوست مکرم سلیم چوہدری کے امیر صاحب کے ساتھ کینبرا کے سفر کی سعادت ملی ،سفر لمبا تھا خاکسار نے کچھ کتب ساتھ رکھ لیں کہ گاڑی میں پڑھتا رھوں گا لیکن سارے رستے میں محترم امیر صاحب نے مختلف واقعات سنائے کہ سفر کے ختم ہونے کا احساس ہی نہ ہوا۔ اس سفر میں ایک اور نصیحت محترم امیر صاحب نے ہمیں فرمائی کہ بیویوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کرنا ہے اور فرمایا کہ بعض خاوند بیویوں سے بے جا فرمائش کرتے ہیں کہ صبح ناشتے میں انڈے پراٹھے ملیں اور بیوی ان کا یہ کام بھی کرے اور وہ کام بھی کرے۔ فرمایا کہ ضروری نہیں کہ ہر روز پراٹھے ملیں (Cereal) سکھا کر بھی ناشتہ ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ تم دونوں کو یہ بات اس لئے بتا رہا ہوں کہ کل کو تم لوگوں کی شادیاں ہونی ہیں ۔ لہذا اس طرح کی ڈیمانڈ نہ کرنا اور بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
ایک دفعہ نماز کے لئے مسجد تشریف لائے تو فرمانے لگے محترم نواب منصور خان کا فون یاخط آیا تھا کہ تمہار ے لئے کوئی رشتہ ہے اور میں نے نواب صاحب سے کہا ہے کہ میں تو دُعا کرتا ہوں کہ ثاقب کے جیسی ہی بیوی ملے۔ یہ ان کی دعا ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو بہت نیک اور خیال رکھنے والی شریکِ حیات عطا فرمائی ہے۔
خدام کی دلداری
محترم امیر صاحب کی شفقت اور محبت سب کے لئے عام تھی یہاں چونکہ خاکسار ان واقعات کا ذکر کر رہا ہے جو کہ خاکسار کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2000ء میں خاکسار نے جب گھر خریدا تو ازراہِ شفقت خاکسار کے ساتھ گھر دیکھنے گئے اور بہت خوشی کا اظہار بھی فرمایا اور بعد میں بھی کئی دفعہ ہمارے گھر تشریف لاتے رہے۔
جون 2003ء میں خاکسار مسجد آیا ایک رپورٹ بنانی تھی جو کہ لندن جانی تھی۔ خاکسار نے رپورٹ تیار کر کے محترم امیر صاحب کو دی اور درخواست کی کہ لندن فیکس کرنی ہے۔ رات کافی ہو چکی تھی اور موسم بھی خراب تھا۔ گھر واپسی Hollinsworth road پر خاکسار کا بہت بُرا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور گاڑی بھی write off ہو گئی تاہم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خاکسار کو محفوظ رکھا ۔ محترم امیر صاحب کو فجر کی نماز پر پتہ چلا تو دن چڑھتے ہی خاکسار کے گھر تشریف لے آئےاور دروازہ پر ہی نہایت فکر سے پوچھا کہ تم ٹھیک ہو مجھے فجر کی نماز پر پتہ چلا تھا اور دن ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ تمہاری خیریت دریافت کرنے آؤں۔
2010ء میں جب خاکسار کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو فون سنتے ہی تشریف لے آئے اورخاکسار کو گلے لگایا تو خاکسار کی سسکیاں نکل گئیں جس پر مجھے کافی دیر سینہ سے لگائے رکھا اور زیر ِلب دعائیں کرتے رہے جن کی آواز مجھے بھی آرہی تھی۔ اس کے بعد اگلے دن پھر دوبارہ تشریف لائے۔
حضورِ انور کے ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ آسٹریلیا 2013ء کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی گاڑی خریدنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ میں گاڑی لے کر سیدھا مسجد آیا۔ محترم امیر صاحب نے گاڑی میں بیٹھ کر دعا کروائی اور فرمایا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤاور پھر ازراہِ شفقت صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ ثاقب کی گاڑی کو بھی حضور انور کے قافلہ والی گاڑیوں میں شامل کریں۔
خلافت سے محبت اور ادب کا تعلق
محترم امیر صاحب کے اندر خلافت سے محبت اور ادب کا ایک سمندر موجزن رہتا۔ دربارِ خلافت سے جب بھی کوئی ارشاد آتا تو اس کو پورا کرنے کے لئے بیقرار رہتے اور خلیفہ وقت کے لئے دعا کی تحریک فرماتے رہتے۔حضور انور کے خطبات سننے کی طرف احباب جماعت اور عاملہ کو تلقین فرماتے رہتے اور پھر مجلس عاملہ کے اجلاسات میں یہ سلسلہ بھی شروع فرمایا کہ پچھلے 4 ہفتوں کے خطبات جمعہ کا خلاصہ پیش کیاجائے۔
خاکسار کو محترم امیر صاحب کے خطوط لکھنے کی کئی سالوں سے توفیق ملتی رہی۔ میں نے یہ بات خاص طور سے نوٹ کی جب حضورِ انور کی خدمت میں خط لکھواتے اور کسی معاملہ میں رہنمائی درکار ہوتی تو فرماتے کہ لکھو ’’حضورِ انور کی خدمت اقدس میں نہایت ادب سے درخواست ہے‘‘
2013ء میں جب حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لانے والے تھے تو اس وقت امیرصاحب بیمار تھے لیکن اس کے باوجود دورہ کے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی خیال رکھا اور ہدایات دیتے رہے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بات جس کے لئے حضورِ انور کی اجازت یا رہنمائی کی ضرورت ہوتی تو خاکسارکو فرماتے کہ حضور کو رہنمائی کے لئے خط لکھو۔
خاکسار کو ہدایت فرمائی کہ حضور انور کا دفتر اور رہائش گاہ میں اسٹڈی روم تم سیٹ کرو اور ہر چیز اچھی اور معیاری ہونی چاہئے۔ یہ بھی فرمایا کہ میر محمد احمد صاحب سے پوچھو کہ حضور کون سا پانی استعمال فرماتے ہیں اور وہ ہی پانی وہاں لا کر رکھونیز حضور انورکے آفس میں قلم اور روزانہ چاکلیٹ وغیرہ رکھنے کی ذمہ داری بھی خاکسار کو عنایت فرمائی۔ ایک دن خاکسار کو خاص طور پر بلوایا کہ حضور انور کے دورہ کے دوران جو ٹیم کھانا بنائے گی ان کے لئے خاص ہدایت لکھوانی ہیں اور بڑی تفصیل سے ہدایات لکھوا کر فرمایا ان کو برزبین اور میلبورن کے صدران کو بھی بھیج دو۔ خاکسار کی اہلیہ سے خاص طور پر حضور انور کے لئے رس ملائی بنوائی۔
خدام کی ٹریننگ
محترم امیر صاحب کو اس بات کا بھی بہت خیال رہتا کہ خدام یا احبابِ جماعت کی بہتر رنگ میں تربیت ہو اور وہ نہایت ذمہ داری سے جماعتی خدمات سر انجام دیں۔ اس سلسلہ میں آپ اکثر نصیحت فرماتے اور ہ دایات سے نوازتے۔ ایک وصف آپ میں یہ بھی تھا کہ ہر آدمی سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے اور اکثر احباب کو مختلف کاموں میں involve رکھتے۔
2003ء میں مکرم فیروز علی شاہ صدر مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا مسجدبیت الفتوح کے افتتاح کے پروگرام کے لئے جماعتی نمائندہ کے طور پر لندن تشریف لے گئے۔ ان دنوں مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کا سالانہ اجتماع تھا اور خاکسار ناظمِ اعلیٰ اجتماع تھا۔ صدر صاحب نے لندن جاتے ہوئے خاکسار کو قائم مقام صدر مجلس کی ذمہ داری بھی عنایت فرمائی ۔ اجتماع کی افتتاحی تقریب کے موقع پر خاکسار کچھ نروس تھا۔ خاکسار نے محترم امیر صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اسٹیج پر خاکسار کے ساتھ تشریف رکھیں۔فرمانے لگے کیوں؟ میں نے عرض کی کہ صدر صاحب بھی یہاں نہیں اور میں نے بھی کبھی افتتاحی تقریب سے خطاب نہیں کیا اس لئے تھوڑی گھبراہٹ ہے ۔ فرمانے لگے ایک بات یاد رکھو کہ الہیٰ جماعتیں بندوں کے بل بوتے پر نہیں چلتیں۔ خدا خود انہیں چلاتا ہے۔ جاؤ وہاں بیٹھو اور پروگرام شروع اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ شام کو خدام کی مجلس شوریٰ میں تھوڑی دیر کیلئے تشریف لائے اور پھر خاکسار کو یہ فرما کر کہ تم نیشنل مجلس عاملہ کے ممبر بھی ہو اور شوریٰ میں بھی بیٹھے ہو انشاء اللہ سب ٹھیک ہوگا۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ کس طرح نوجوانوں کو ذمہ داری لینے اور نبھانے کیلئے تیار فرماتے اور توکل تھا تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر۔
عاجزی اور انکساری
محترم امیر صاحب کے اندر انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ لباس بھی بہت سادہ ہوتا اور ہر خاص و عام سے نہایت محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ خود نمائی تو چُھو کر بھی نہ گزری تھی۔ ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہی سمجھتے کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کام میری وجہ سے ہوا ہے۔ 2008ء میں خلافت جوبلی کے موقع پر خاکسار کے ذمہ Exhibition لگانے کی ذمہ داری تھی اور محترم امیر صاحب کی خواہش تھی کہ ایک نہایت اچھا Exhibition لگے ۔ بہر حال نمائش کے ایک حصہ میں جماعتِ احمدیہ آسٹریلیا کی تاریخ کے بارہ میں بھی تھا خاکسار نے وہاں پر آسٹریلیا کے پہلے امیر صاحب مکرم شکیل احمد منیر کی تصویر کے ساتھ محترم امیر صاحب کی تصویر موجودہ امیر کے طور پر آویزں کی۔ جب آپ انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے آئےتو فرمایا ثاقب میری تصویر یہاں سے اُتار دو۔ خاکسار نے عرض کی کہ کیا تصویر ٹھیک نہیں ہے۔ فرمانے لگے بس اتار دو اس کی ضرورت نہیں۔ میں نے عرض کی کہ پہلے امیر صاحب کی بھی تصویر ہے اور یہاں جماعت آسٹریلیا کی تاریخ کا ذکر ہے۔ فرمانے لگے ان کی تصویر رہنے دو میری اُتار دو اور تصویر اُتروا کر ہی وہاں سے گئے۔

اسی سال نمائش کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار کے ساتھ خود کچھ چیزیں خریدنے کیلئے گئے۔ کیونکہ شوگر کے مریض تھے میں نے عرض کی کہ امیر صاحب کچھ کھا لیں یا کافی پی لیں۔ فرمانے لگے کہ چلو کافی پیتے ہیں۔ جب ہم کافی پی رہے تھے تو فرمانے لگے کہ جب سے آسٹریلیا آیا ہوں آج تیسری دفعہ باہر کافی پی رہا ہوں۔ اس بات کا خاکسار پر آج تک اثر ہے کہ آپ ایک ملک نہیں بلکہ براعظم کے امیر تھے اورکتنی سادگی سے زندگی بسر کر رہے تھے۔

بچوں سے شفقت
محترم امیر صاحب بچوں سے بہت شفقت فرماتے اور بچے بھی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ کسی پروگرام کے بعد بچے بھی ان کی طرف مقناطیسی کشش کی طرح کھچے آتے۔خاکسار کے بچوں سے بھی بہت شفقت فرماتے۔ ایک دفعہ میرا بڑا بیٹا جبکہ وہ ابھی چھوٹا تھا ضد کر بیٹھا کہ میں نے مسجد میں ہی کھانا کھانا ہے۔ پوچھنے لگے کہ کیوں ضد کر رہا ہے میں نے عرض کی کہ ضد ہے کہ کھانا مسجد میں ہی کھاؤں گا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر لے گئے کہ آؤ کھانا کھلاؤں۔
عزیزم کاشف کی آنکھوں کا آپریشن تھا خاکسار نے دعا کے لئے فون کیا تو فرمایا کہ ضرور دُعا کروں گا۔ رات کو ہم لیٹ گھر آئے تو میں نے مناسب نہ جانا کہ اس وقت فون کر کے بتاؤں ۔ رات کے 10 بجے فون کی گھنٹی بجی تو دوسری طرف محترم امیر صاحب تھے فرمانے لگے کہ کاشف کا کیا حال ہے میں جاگ رہا تھا کہ اس کی کوئی خبر آئے تو پھر سوؤں۔ جبکہ خاکسار اپنی جگہ پر شرمندہ ہوتا رہا کہ کیوں نہ آتے ہی خبر دے دی۔
2013ء میں حضور انور کے دورہ آسٹریلیا کے موقع پر عزیزم کاشف کی آنکھوں میں جو تار آپریشن کے بعد ڈالی گئی تھی وہ باہر نکل آئی۔ بہت پریشانی ہوئی۔ امیر صاحب کو ساری صورتحال بتائی اور دعا کے لئے بھی عرض کی۔ مکرم ناصر کاہلوں (نائب امیر) کی بیگم صاحبہ نے جو کہ ڈاکٹر ہیں اس کا معائنہ کیا اور ساتھ ساتھ ہاسپٹل سے ہدایات بھی لیں۔ عزیزم کاشف کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہتا تھا اور یہی وجہ اس کے آپریشن کی تھی۔رات کو میں کاشف کو لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ دُعا اور دوا کی درخواست کروں۔ جب حضور آفس سے باہر تشریف لائے تو میں نے کاشف کو آگے کیا تو حضور نے دریافت فرمایا کہ یہ بچہ کون ہے محترم امیر صاحب نے عرض کی حضور ثاقب کا بیٹا ہے ۔حضور نے اس کی انکھوں کا معائنہ فرمایا اور ازراہ ِشفقت اپنی الیس اللّٰہ بِکَاف عَبْدہٗ والی انگوٹھی اس کی دونوں آنکھوں پر پھیری اور فرمایا اللہ فضل فرمائے۔ الحمدللہ کی اس کے بعد اس کی آنکھوں سے پانی بہنا بند ہوگیا۔ امیر صاحب عزیزم واصف سے بھی بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے اور اپنی چھڑی اس کی گردن میں ڈال کر اپنی طرف کھینچتے اور فرماتے کہ ہر جمعہ کی نماز کے بعد اسے لے کر دفتر آیا کرو تاکہ میں اسے چاکلیٹ دیا کروں۔
جماعتی املاک کی حفاظت
محترم امیر صاحب جماعت کی ہر چیز کا بہت خیال رکھتے کہ وہ خراب نہ ہو۔ اکثر مسجد میں کرسیاں بچے دھوپ میں چھوڑ جاتے اور محترم امیر صاحب ان کوچھاؤں میں رکھتے کہ دھوپ کی وجہ سے خراب نہ ہو جائیں۔آپ ایک واقعہ اپنی طالبعلمی کے زمانہ کا سنایا کرتے تھے کہ ربوہ میں بہت گرمی ہوتی تھی اور ہوسٹل میں پنکھا بھی نہیں تھا لہذا ہم ناظر صاحب تعلیم کے دفتر گئے اور پنکھے کے لئے درخواست کی ۔ ناظر صاحب نے فرمایا کہ درخواست لکھ کر دو۔ امیر صاحب فرمانے ہیں کہ ہمارے پاس تو کاغذ اور قلم بھی نہیں ہے تو دفتر کے ایک کارکن سے کہا۔ دفتر کے کارکن نے ناظر صاحب سے پوچھا کہ ان کو پورا کاغذ دوں یا آدھا، پھر ہمیں پنکھا ملا۔خاکسار نے محترم امیر صاحب سے پوچھا کہ امیر صاحب پنکھا بجلی کا تھا۔ فرمانے لگے کہ نہیں ہاتھ سے چلانے والا تھا۔ شاید یہی ٹرینگ ان کی پوری زندگی میں جماعتی املاک کے حوالہ سے کام آتی رہی ۔
2013ء میں جب حضور انور آسٹریلیا کے دورہ پر تھے محترم امیر صاحب بیمار تھے۔ ایک دن خاکسار نے خواب دیکھا کہ امیر صاحب بغیر لاٹھی کے چل رہے ہیں اور بالکل ٹھیک ہیں۔ خاکسار جب مسجد گیا تو دیکھا کہ امیر صاحب اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لا رہے تھے اور لاٹھی سے چل رہے ہیں۔ میں نے سلام عرض کیا اور آپ نے بڑی گرمجوشی سے جواب دیا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ بغیر لاٹھی کے چل رہے ہیں تو فوراً لاٹھی اٹھا کر ہاتھ میں پکڑلی اور چلنا شروع کر دیا۔خاکسار نے عرض کی کہ امیر صاحب لاٹھی آپ کے ہاتھ میں تھی ہی نہیں۔ تو لاٹھی ایک اور صاحب جو ساتھ چل رہے تھے پکڑا دی اور فرمایا کہ لو تمہارا خواب پورا ہوگیا۔
ضرورتمندوں کی مدد
غرباء اور ضرورتمندوں کی ہر ممکن مدد فرمایا کرتے ۔ خاکسار کے ہاتھ کئی دفعہ اپنے صدر خدام الاحمدیہ کے دور کے کارکنوں کو پاکستان میں چاکلیٹ اور دوسرے تحائف بھیجے۔ ایک دفعہ لاہور میں ایک صاحب کے بیٹے یابیٹی کی شادی تھی تو خاکسار کے ہاتھ10م ہزار روپے کی خطیر رقم ان کے لئے بھجوائی۔
ایک دوست نے خاکسار کو بتایا کہ یہاں آسٹریلیا میں بھی اپنی آمد کا زیادہ تر حصہ بیواؤ ں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔محترم امیر صاحب ان افراد کے لئے عید کے موقع پر کھانے کا ضرور اہتمام فرماتے جنہوں نے اسائلم کے لئے اپلائی کیا ہوتا اور وہ یہاں اکیلے ہوتے تھے اور ان کی فیملی کا کوئی اور فرد یہاں نہ تھا ۔کہ ان کو عید کے موقع پر اکیلے پن کا احساس نہ ہو۔
آپ کی وفات پر کئی ممبران پارلیمنٹ بھی تشریف لائے۔ آپ کے ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ اس موقع پر خاکسار کی بات ایک ممبر پارلیمنٹ Mrs Louis Markus کے ساتھ ہورہی تھی اور وہ بار بار دکھ کا اظہار کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ محمود صاحب کا وجود صرف جماعت احمدیہ آسٹریلیا کے لئے ہی نہیں بلکہ
HE WAS BLESSING FOR WHOLE AUSTRALIA اللہ تعالیٰ محترم امیر صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ ان کو اپنی رحمت کے سائے تلے رکھے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیک یادیں اور نیک کام ہمیشہ زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مکرم ڈاکٹر ریاض اکبر کے ان الفاظ میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
اک شخص جنابِ عالی تھا
جو حرص و ہوا سے خالی تھا
ہاں علم و عمل میں عالی تھا
محمود احمد بنگالی تھا
(ثاقب محمود۔آسٹریلیا)