• 4 مئی, 2024

دعا کی حقیقت

دعا کی حقیقت کیا ہے؟ اُس کی فلاسفی کیا ہے؟ اِس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ

’’جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا ہے اور اس سے حلِّ مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچا دے خداتعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔ اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلّی اور سکینت خداتعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے۔ اور ہرگز ہرگز نامرادنہیں رہتا۔ اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے۔ لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف مونہہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’ہماری اس تقریر میں اُن نادانوں کا جواب کافی طور پر ہے جو اپنی نظرِ خطاکار کی وجہ سے‘‘ (یعنی غلط سوچ رکھنے اور ظاہری طور پر دیکھنے کی وجہ سے) ’’یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دعا میں فنا ہوتے ہیں‘‘ (یعنی اُن کی اپنی حالت بھی یہ ہوتی ہے، اور کہتے بھی یہی ہیں کہ دعا کر رہے ہیں اور دعا کی کیفیت بھی ہوتی ہے، اُس میں فنا ہوتے ہیں) ’’پھر بھی اپنے مقاصد میں نامراد رہتے اور نامراد مرتے ہیں۔‘‘ (یعنی اُن کے مقاصد، جو وہ چاہتے ہیں، اُن کو نہیں ملتے) ’’اور بمقابل ان کے ایک اور شخص ہوتا ہے کہ نہ دعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ ان پر فتح پاتا ہے۔‘‘ (یعنی اُس کو سب کچھ مل جاتا ہے) ’’اور بڑی بڑی کامیابیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ سو جیساکہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے۔ اصل مطلب دعا سے اطمینان اور تسلی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے۔ ظاہر بین تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جس مقصد کے لئے دعا کر رہا تھا اُس کو حاصل نہیں ہوئی‘‘ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ایک تو پہلی شرط یہ رکھی ہے، دعا کو کمال تک پہنچانا۔ اور جو حقیقت میں دعا کرتا ہے وہ صرف ظاہری چیز کو نہیں دیکھتا۔ جو مومن ہے، جس میں مومنانہ فراست ہے جو خدا تعالیٰ کے تعلق کو جانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں جو مانگ رہا ہوں مجھے مل گیا بلکہ فرمایا کہ اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔‘‘

فرمایا: ’’اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسر آسکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ خدا جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے؟ وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے۔‘‘ (اگر دعا کامل ہو، صحیح ہو، حقیقی رنگ میں ہو، اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق ہو تو اللہ تعالیٰ جو سمجھتا ہے کہ حقیقی خوشحالی کس چیز میں ہے، وہ عطا فرما دیتا ہے) فرمایا کہ ’’جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے۔ ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تختِ شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 237)

دعا کرنے والے کو جو لذت ملتی ہے وہ مشکل کے وقت میں ہی مل سکتی ہے۔ فرمایا کہ جو ایک بادشاہ کو نہیں مل سکتی۔

پس یہ دعا کی حقیقت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ اس کی مختصر فلاسفی ہے۔ یہ دعا کی روح ہے اور ایک حقیقی مومن کی یہ سوچ ہے اور ہونی چاہئے اور ہمیں اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ مؤرخہ یکم مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مئی 2020

اگلا پڑھیں

01 جون 2020ء Covid-19 Update