• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ ۔ 29مئی 2020ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

یومِ خلافت کے حوالے سےخلیفہ ٔوقت کے ساتھ احباب جماعت کے اطاعت و محبت، اخلاص و وفا اور فدائیت کے ایمان افروز واقعات

جماعت کو خلافت سے اور خلیفۂ وقت کاجماعت سے جو تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے

دِلوں میں اخلاص و وفا کا تعلق اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور کوئی دُنیاوی طاقت اسے چھین نہیں سکتی

یوم ِخلافت والے دن سے ایک نئی ترتیب کے ساتھ ایم ٹی اے کےچینلز کا آغاز، مختلف ریجنز کے اعتبار سے ایم ٹی اے کو8 چینلز میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور چینلز کی مین لینگوئجز کی تفصیلات

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےمورخہ 29مئی 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے پر براہ راست نشر کیا گیا ۔حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ مَیں خدا تعالیٰ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے۔فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس صدق و اخلاص اور تعلق و محبت کے نظارے ہم نے دیکھے۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بےشمار واقعات ہیں۔ پُرانے احمدی خاندانوں میں اس تعلق کی روایات، ہمارے لٹریچر ، خلفاء کے خطبات اور خطابات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے اور یہی تعلق ہے جو جماعت کی اکائی اور وحدت کی نشانی اور ضمانت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے اطلاع پانے کے بعد اپنے اس دُنیا سے رخصت ہونے کی خبر جماعت کو دی تو ساتھ ہی جماعت کی تسلی کے لئے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر جماعت میں سلسلہ خلافت کے جاری ہونے کی خوشخبری بھی دی۔ چنانچہ آپؑ نے رسالہ الوصیت میں یہ تحریر فرمایا کہ ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘

حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے مطابق آپؑ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام جاری ہوا۔ خلافت کے ساتھ افرادِ جماعت کا جو تعلق ہے جس میں پرانے احمدی بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی نوجوان بھی اور بچے بھی مرد بھی اور عورتیں بھی دور دراز رہنے والے احمدی بھی جنہوں نے کبھی خلیفہ وقت کو دیکھا بھی نہیں ہے سب شامل ہیں لیکن یہ سب لوگ جو ہیں اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خلیفہ وقت کا پیغام پہنچے تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت اور تعلق کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی فعلی شہادت ہے اور جماعت کی ترقی بھی اس تعلق سے وابستہ ہے ۔ جماعت کو خلافت سے جوتعلق ہے اور خلیفہ وقت کو جماعت سے ہے یہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت کا ثبوت ہے اور یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جہاں افرادِ جماعت اس بات کا اظہار کرتے ہیں اگر ان واقعات کو جمع کیا جائے تو بیشمار ضخیم جلدیں اس کی بن جائیں گی۔

حضور انور نے بعض واقعات ،جذبات اور احساسات کا ذکر فرمایا جو جماعت کو خلیفۂ وقت سے ہر زمانے میں رہے اور اب تک ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سے شروع ہوئے جو آج 112 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اسی طرح قائم ہیں۔ فرمایا : مخالفین تو سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن افرادِ جماعت کا ارادت و مودّت اور اخلاص و وفا کا تعلق خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور کیوں نہ ہو یہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے۔ حضور انور نے چند واقعات پیش فرمائےجو کہ خلاصۃً قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

ایڈیٹر صاحب ’’البدر‘‘ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ کی علالت کے ایام کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ان ایام میں خدام کے خطوط عیادت کے کثرت سے آ رہے ہیں اور ان خطوں پہ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓنے فرمایا ۔میں ان سب کے واسطے دُعا کرتا ہوں جو عیادت کا خط لکھتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ عشاق عجیب پیراو میں اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی لکھتے ہیں مَیں نے تو ایک روز جناب باری میں عرض کی تھی کہ اے مولا ! حضرت نوح کی زندگی کی ضرورتیں تو مختص المقام تھیں اور اب تو ضرورتیں جو پیش ہیں ان کو بس تو ہی جانتا ہے ہماری عرض قبول کر اور ہمارے امام کو نوح کی سی عمر عطا کر۔ پھر حضرت ابوعبداللہ ؓ کھیوہ باجوہ کے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے اور اُنہوں نے ایک دن عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت ارشاد فرمائیں۔ تو اُنہوں نے فرمایا : مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی چیز کرنے کی ہو اور آپ کر نہ چکے ہوں ۔اب تو حفظ قرآن ہی باقی ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ کی بات سن کر تقریباً 65سال کی عمر میں اُنہوں نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور باوجود اتنی عمر ہونے کے حافظ قرآن ہوگئے۔ یہ تھا کہ کسی طرح مَیں خلیفۃالمسیح کا حکم بجا لاؤں، اس پہ عمل کروں۔

حضور انور نےفرمایا : حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے زمانے میں جب 1923ء میں شُدھی نے زور پکڑا ملکانے کے علاقے میں ، یہ حالت دیکھ کر حضرت مصلح موعود ؓ کا دل بیقرار ہوا اورآپؓ نے اسی سال 9مارچ کو خطبہ جمعہ میں احمدیوں کو اپنے خرچ پر ان علاقوں میں جانے اور دعوت الیٰ اللہ کے ذریعہ ان مرتدین کو واپس لانے کا منصوبہ جماعت کے سامنے رکھا۔ اس تحریک پہ جماعت نے والہانہ لبیک کہا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری ملازمین ،اساتذہ ،تجاّر غرضیکہ ہر طبقے سے فدائی ان علاقوں میں دعوت الیٰ اللہ کرتے رہے اور اُن کی مساعی کے نتیجہ میں ہزاروں روحیں ایک بار پھر خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگیں۔

فرمایا: خلافت ثالثہ کےدَور کا ایک واقعہ ضلع خانیوال کے نذیر احمد سانول نے سنایا کہ ایک مخلص احمدی مکرم مہر مختار احمد آف باگڑ سرگانہ تھے۔ 1974ء کے حالات میں مخالفین نے آپ کا عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا ۔آپ کے پُرجوش داعی الیٰ اللہ ہونے کی وجہ سے برادری نے بھی سخت مخالفت کی اور مکمل بائیکاٹ کیا۔ اس بات سے آپ پہلے سے زیادہ اپنے ایمان میں پختہ ہو گئے اور اپنے دائرہ احباب میں وسعت پیدا کر لی۔ مخالفین نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں اور معاندین کی کارروائیاں بڑھنی شروع ہو گئیں۔ آپ نے بچوں کے حصول تعلیم اور پاکیزہ ماحول میں پرورش دینے کے لئے اپنے زرعی رقبہ کو فروخت کر کے ربوہ کے ماحول میں رقبہ ٹھیکے پر لے کر کاشت شروع کر دی۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملاقات کی اور بتایا کہ باگڑ سرگانہ سے زمین فروخت کر کے ربوہ کے قریب مَیں نے ٹھیکے پر زمین لے لی ہے اور فصل کاشت کر لی ہے تو حضور نے اسے پسند نہیں فرمایا کہ علاقے کو خالی نہیں چھوڑنا تھا۔ اس پر آپ نے فوراً تعمیل کی۔ مالک رقبہ سے ٹھیکے کی رقم واپس طلب کی۔ اس کے انکار پر آپ کھڑی فصل اور ٹھیکے کی رقم لئے بغیر واپس اپنے وطن باگڑ سرگانہ آ گئے اور کوشش کر کے اپنی فروخت شدہ زمین دوبارہ خریدی مہنگے داموں خریدی اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے ارشاد کی تعمیل کر لی ہے۔ حضور ؒ نے بھی اس پہ خوشنودی کا اظہار فرمایا اور مہر صاحب بھی اس بات پہ بڑے خوش ہوتے تھے۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کا دَورآتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ افریقہ میں جو عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں یہ پرانے واقفین کی قربانیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔ جو حیرت انگیز تبدیلیاں آج وہاں نظر آ رہی ہیں وہ ایسی عظیم الشان ہیں کہ ان کا تصور وہاں کی جماعتیں بھی نہیں کر سکتی تھیں کتنی حیرت انگیز ملک کے اندر تبدیلی پیدا ہو چکی ہے۔بعض احمدی بڑے بڑے صاحب تجربہ اور اپنے ملکوں کی حکومتوں میں بااثر ،اُنہوں نے مجھے بتایا کہ خود ہمیں بھی علم نہیں تھا کہ ہماری قوم احمدیت سے محبت اور تعاون میں اتنا آگے بڑھ چکی ہے اور اتنا زیادہ وہ اس وقت تیار ہے کہ اُسے پیغام پہنچایا جائے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں ایک صاحب اُن کا نام لینا مناسب نہیں اور ملک کا نام بھی ظاہر کرنا مناسب نہیں اُنہوں نے کہا کہ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہو کیا رہا ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہماری قوم کو کسی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ایسی خدمت کی توفیق ملے گی اور ایسے محبت کے اظہار کا موقع ملے گا۔ میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ جو کچھ مَیں نے یہاں دیکھا ہے یہاں حکومت کے سربراہوں کے ساتھ تو ہوتا دیکھا ہے اور وہ بھی دُنیاوی نظر سے ہوتا ہے، اس کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں دیکھا اور یہ بھی اُنہوں نے بتایا کہ اس میں ہماری جماعت کی کوششوں کا دخل نہیں ہے جو کچھ ہو رہا ہے غیب سے ہو رہا ہے اور حیرت انگیز طریق پر ہو رہا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارا کچھ پیدا کردہ ہے۔

حضورانورنےفرمایا: پھر اب میرے وقت کی باتیں ہیں۔ نائیجیریا میں 2004ء میں مَیں نے دَورہ کیا، دو دن کا دَورہ تھا، پہلے پروگرام نہیں تھا ،اتفاق سے اور مجبوری سے بن گیا کیونکہ فلائٹ وہاں سے ملتی تھی لیکن وہاں جا کے یہ احساس ہوا کہ یہاں آنا بڑا ضروری تھا، نہ آتے تو بڑا غلط ہوتا۔ کچھ عرصہ پہلے نائیجیریا جماعت کا جلسہ ہو چکا تھا اور لوگ بڑی تعداد میں اس جلسہ میں وہاں شامل بھی ہو چکے تھے۔ یہ خیال نہیں تھا کہ میرے جانے پر وہاں دُور دُور سے لوگ آ سکیں گے لیکن صرف دو گھنٹے کے لئے مجھے ملنے کے لئے وہاں لوگ آئے اور تقریباً تیس ہزار کے قریب مرد و زن جمع ہو گئے اور اُن کے جو اخلاص و وفا کے نظارے تھے جو ہم نے دیکھے وہ بھی قابل دید تھے۔ فرمایا: خلافت سے اخلاص کا تعلق اور جو محبت ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اُن لوگوں نے جنہوں نے کبھی خلیفۂ وقت کو دیکھا بھی نہیں براہ راست جب دیکھا تو ایسا اظہار کیا کہ حیرت ہوتی تھی۔ واپسی کے وقت دُعا میں بعض خواتین اور لوگ اتنے جذباتی تھے اور اس طرح تڑپ رہے تھے کہ حیرت ہوتی تھی اور یہ محبت صرف خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہی ہوسکتی ہے۔

گھانا کا 2008ء کا دورہ تھا۔ وہاں جماعت نے ایک زمین خریدی ہے بڑا وسیع رقبہ ہے تقریباً پانچ سو ایکڑ کے قریب وہاں جلسہ تھا اور اکثر احباب و خواتین میرے جانے سے پہلے پہنچ چکے تھے اور اس نئی جگہ پہ پہلے ایک پولٹری فارم ہوتا تھا اس کے شیڈ تھے اس کو بدل کر وہاں کی جماعت نے جلسے کے لئے کچھ رہائش بھی بنا دی تھی کھڑکیاں دروازے لگا کر بیرک جیسی بن گئی تھیں لیکن اس کے باوجود جگہ کی تنگی تھی لیکن اس کے جگہ کی تنگی کی کسی نے بھی شکایت نہیں کی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ جو وہاں لوگ آئے ہوئے تھے بہت سارے لوگ شامل ہوئے جلسہ میں ان میں بہت لوگ ایسے تھے جو بڑے اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے کاروباری لوگ تھے سکولوں کے پڑھانے والے تھے دوسرے کام کرنے والے تھے۔ اگر ان کو رہائش نہیں ملی تو باہر صف بچھا کر آرام سے سو گئے۔ ایک تو ویسے ہی اس گھانین قوم میں صبر ہے لیکن ان دنوں میں تو خاص طور پر اُنہوں نے بہت صبر دکھایا۔ کسی نے ایک دو ایسے لوگوں سے پوچھا جو اس طرح باہر پڑے ہوئے تھے کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہو گی تو اُنہوں نے کہا ہم تو جلسہ سننے آئے ہیں اور خلیفۂ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہو رہا ہے۔ دو دن کی عارضی تکلیف سے کیا فرق پڑتا ہے ہم خوش ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق عطا فرمائی۔برکینا فاسو سے بھی لوگ وہاں آئے ہوئے تھے، دوسرے ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے تھے مجھے پتا لگا کہ برکینا فاسو سے جو قافلہ آیا ہوا ہے بہت بڑا تھا ان میں لوگوں کو کھانا نہیں ملا بعضوں کو تین ہزار کے قریب ان کی تعداد تھی سب سے بڑی تعداد انہی کی تھی جو وہاں گئی تھی۔ تین سو خدام سائیکلوں پر بھی وہاں آئے تھے سولہ سو کلو میٹر کا سفر کر کے۔ بہرحال وہاں کے ایک مبلغ کو مَیں نے کہا ان کو کھانا نہیں ملا ان سے معذرت کر دیں اور آئندہ اُن کا خیال بھی رکھنا ہے آپ لوگوں نے۔ جب اُنہوں نے اُن کو معذرت کا پیغام پہنچایا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم جس مقصد کے لئے آئے تھے وہ ہم نے حاصل کر لیا۔ کھانے کا کیا ہے وہ تو روز کھاتے ہیں ۔ اب یہ غریب لوگ روز بھی بیچارے کیا کھاتے ہوں گے۔ جو کھانا اُنہوں نے کہا ہم اس وقت کھا رہے ہیں روحانی فائدہ اُٹھا رہے ہیں وہ روز روز کہاں ملتا ہے۔ برکینا فاسو کی جماعت اتنی پرانی نہیں ہے، میرا خیال ہے جب میں دَورے پر گیا ہوں اُس وقت دس پندرہ سال پرانی تھی اب تیس سال پرانی ہو گئی ہو گی لیکن اخلاص و وفا اور محبت میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں یہ لوگ۔ غربت کا یہ حال ہے کہ بعض لوگ ایک جوڑا جو کپڑے پہن کے آئے تھے وہی کپڑے ان کے پاس تھے اسی میں تین چار دن یا پانچ دن یا ہفتہ گزارا اور پھر سفر بھی کیا۔ پیسے جوڑ جوڑ کے جلسے پر پہنچے تھے کہ خلافت جوبلی کا جلسہ ہے اور خلیفہ وقت کی موجودگی میں ہو رہا ہے اس لئے ہم نے اس میں ضرور شامل ہونا ہے۔ پس ایسی محبت خدا تعالیٰ کے علاوہ اور کون پیدا کر سکتا ہے جو خدام سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے ان کے اخلاص کا اندازہ بھی اس بات سے ہوتا ہے کہ مختلف جگہوں پر پڑاؤ کرتے ہوئے سات دن مسلسل سفر کرتے رہے اور یہاں پہنچے۔ ان سائیکل سواروں میں پچاس ساٹھ سال کی عمر کے لوگ بھی تھے بعض اور تیرہ چودہ سال کے دو بچے بھی شامل تھے۔ وہاں کے صدر صاحب نے جو خدام الاحمدیہ تھے ان سے کسی نے کے پوچھنے پر کہ کس طرح ہوا بڑی مشکل ہوئی ہو گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ابتدائی مسلمانوں نے اسلام کی خاطر بیشمار قربانیاں دیں ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمارے خدام بھی ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہوں اور ہماری خواہش تھی کہ خلافت جوبلی کے سلسلہ میں کوئی ایسا پروگرام کیا جائے جس سے خلافت کے ساتھ ہمارے اخلاص اور وفا کا اظہار ہو اور ہم خلیفہ وقت کو بتائیں کہ ہم قربانی کے لئے تیار ہیں اور ہر چیلنج کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ٹی وی کے نمائندے نے وہاں ان سے پوچھا جب یہ سائیکل سوار سفر شروع کرنے لگے تھے کہ سائیکل تو آپ لوگوں کے بہت خستہ حالت میں ہیں یہاں کے یورپ کے سائیکلوں کی طرح تو نہیں۔ ٹوٹے ہوئے سائیکل ہیں اور عام سائیکل ہیں تو جماعتی نمائندے نے ان کو کہا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان اور عزم ہمارا بہت بڑا ہے ہم خلافت کے انعام کے شکرانے کے طور پر یہ سفر اختیار کر رہے ہیں اور جب نیشنل ٹی وی نے یہ خبر نشر کی تو اس کا آغاز بھی اس ٹی وی نے خبر کا اس طرح کیا جو سرخی پڑھی گئی وہ اس طرح تھی کہ اللہ کی خاطر خلافت جوبلی کے لئے واگا سے اکرا کا سفر۔ واگا برکینا فاسو کا دارالحکومت ہے اور اکرا گھانا کا درالحکومت ہے اور لکھا کہ اگرچہ سائیکل خستہ ہیں لیکن ایمان بہت ہی مضبوط ہے۔ یہ اخبار نے جو خبر دی سرخی جمائی۔ یہ احمدی کوئی پیدائشی احمدی نہیں ہیں کوئی صحابہ کی اولاد میں نہیں ہیں بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بعض ایسے علاقوں کے رہنے والے ہیں جہاں کچی سڑکیں ہیں اور بعض جگہ سڑکیں بھی نہیں ہیں لیکن ان لوگوں نے چند سال پہلے احمدیت قبول کر کے جہاں ایسی جگہوں پر رہنے والے لوگ جہاں پانی بجلی کی سہولتیں بھی نہیں تھیں چند سال پہلے احمدیت قبول کر کے پھر اخلاص و وفا کے ایسے نمونے دکھائے کہ حیرت ہوتی ہے۔ بعض جگہ ان کو غربت و افلاس نے بالکل بے حال کیا ہوا ہے لیکن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے غلام صادق کی جماعت میں شامل ہو کر وہ اخلاص ان میں پیدا ہو گیا ہے کہ جہاں دین کا سوال پیدا ہوا یا جب بھی سوال پیدا ہو وہاں ان کے عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں اور ہر قربانی کے لئے تیار ہیں اور محبت سے لبریز ہیں۔ پس ہمیشہ ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص و وفا کو بھی بڑھائے اور ہم سب کے اخلاص و وفا کو بڑھاتا چلا جائے۔

اسی طرح حضور انور نے مختلف ممالک سےتعلق رکھنے والے احباب جماعت کے خلافت احمدیہ سے اطاعت و محبت اور اخلاص و وفا کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔فرمایا: بہرحال یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں جو اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ دِلوں میں اخلاص و وفا کا تعلق اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور کوئی دُنیاوی طاقت اسے چھین نہیں سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے تم دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھنے کی ہم میں سے اکثریت کو توفیق ملے۔

حضور انور نے آخر پرایم ٹی اے کے بارے میں ایک اعلان کرتے ہوئے فرمایا: 27 مئی یوم ِخلافت والے دن سے ایک نئی ترتیب کے ساتھ یہ چینل شروع کئے گئے ۔ حضور انور نےایم ٹی اے 1 سے لے کر ایم۔ٹی۔اے 8 تک کے چینلز کی دنیا کے مختلف براعظموں کے لحاظ سے ترتیب اوران میں مختلف زبانوں میں نشر ہونے والے پروگرامز کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ فرمایا: بہرحال یہ جو نظام یہ بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور ایم ٹی اے کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کا حقیقی پیغام دُنیا کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مئی 2020

اگلا پڑھیں

01 جون 2020ء Covid-19 Update