• 9 مئی, 2025

’’عجز و نیاز اور انکسار… ضروری شرط عبودیت کی ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ: 12) اور تُو اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرتا رہ۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دنیاوی بھی ہیں اور دینی بھی اور روحانی بھی۔ دنیاوی نعمتیں تو ہر ایک کو بلا تخصیص عطا ہوتی ہیں۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں، خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کو ہر نعمت کا منبع سمجھنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی دنیاوی نعمتوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں۔ اُس کا اظہار جہاں اپنی ذات پر کرتے ہیں وہاں دنیا کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ نعمت محض اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ملی ہے۔ لیکن ان دنیاوی نعمتوں کے علاوہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا، دینی اور روحانی نعمتیں ہیں۔ اور ایک مسلمان اور حقیقی مسلمان اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے غلام جو یقیناً ہم احمدی ہیں، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو بھی حاصل کرنے و الے بنے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور انعام کو بیان کرنا اور اس کا اظہار ایک احمدی پر فرض ہے۔ جس کا ایک طریق تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا ہے۔ اور دوسرے دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے اور تبلیغ کرنا ہے کہ یہ نعمت، یہ نور جو ہمیں ملا ہے، آؤ اور اس سے حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے یا فضلوں کے وارث بنو کہ یہیں نورِ خدا ہے۔ یہیں تمہاری بقا ہے۔ یہیں دنیا کی بقا ہے۔ یہیں تمہیں اور دنیا کو دنیا و عاقبت سنوارنے کے سامان مہیا ہیں۔ اور پھر اس پیغام کو پہنچانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو دروازے کھلتے ہیں، ہماری تھوڑی سی کوششوں کو جو اللہ تعالیٰ بے انتہا نوازتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے دین کا پیغام پہنچانے کا جو ذریعہ بنتے ہیں، اس پر ہماری توقعات سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے کئی گنا بڑھ کر جو فضل ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے ایک اَور پیار اور اُس کی نعمت کا اظہار ہے جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر کرنے اور اُس کی شکرگزاری کے اظہار کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

پس ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنتے چلے جانے کے لئے اس مضمون کے حقیقی ادراک کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے بھیجا تو اپنی خاص تائیدات سے بھی نوازا۔ اپنے نشانات سے بھی نوازا جو روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں، جس کے نظارے ہم دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ یہ تائیدات اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ تم میری نعمتوں کا احاطہ نہیں کر سکو گے، اُن کو گن نہیں سکو گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔ (تذکرہ صفحہ75 ایڈیشن چہارم) کہ اگر تُو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی آپ کو الہاماً فرمایا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (تذکرہ صفحہ82 ایڈیشن چہارم) اور اپنے ربّ کی نعمتوں کا ذکر کرتا چلا جا۔

آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ عاجز بحکم وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ: 12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم و رحیم نے محض فضل و کرم سے اِن تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا۔ بلکہ یہ تمام نشان دئیے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ338-339)

پھر فرمایا: ’’عجز و نیاز اور انکسار… ضروری شرط عبودیت کی ہے۔‘‘ (یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا صحیح بندہ اور عبد بننا ہے تو پھر عجز اور انکسار بھی ہونا چاہئے۔ یہ ضروری شرط ہے) فرمایا: ’’لیکن بحکم آیت کریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ نعمائِ الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد2 صفحہ66 مکتوب نمبر42 بنام حضرت حکیم مولانا نورالدینؓ)

پس اللہ تعالیٰ کا جب بھی ہم پر فضل ہوتا ہے۔ اُس کا بیان اور اظہار ہم اس حکم کے مطابق کرتے ہیں اور کرنا چاہئے لیکن عاجزی اور انکسار کے ساتھ، نہ کہ اپنی کسی بڑائی کو بیان کرتے ہوئے۔

(خطبہ جمعہ 31؍مئی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر39)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2022