• 3 مئی, 2024

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 30)

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 30

احادیث میں دجال کے مقابلہ کا ذکر

حدیثوں میں جو یہ مذکور ہے کہ جب کسی کو دجال کے مقابلہ کی طاقت نہ رہے گی اور ہر جگہ اس کا تسلط ہوگا تو آخر کار مسیح دعا کریگا اور اس دعا سے وہ ہلاک ہوگا۔

(البدر جلد3 نمبر8 صفحہ2 مورخہ 24فروری 1904ء)

(ملفوظات جلد6 صفحہ328)

ہمارا تو سارا دارومدار ہی دعا پر ہے

دعا ہی فتح کا ہتھیار ہے۔ ہمارا تو سارا دارومدار ہی دعا پر ہے۔ دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےمومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالےٰ ہماری دعاؤں کو خاص فضل سے قبول فرماتا ہے۔ دعا سے انسان ہر ایک بلا اور مرض سے بچ جاتا ہے۔ ہم نے ایک دفعہ ایک اخبار پڑھا تھا کہ ایک تھانے دار کے ناخن میں پنسل کا ایک ٹکڑا کسی طرح سے چبھ گیا پنسل میں کچھ زہر بھی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں اس کے ہاتھ میں ورم ہونا شروع ہوگیا۔ بڑھتے بڑھتے ورم اس قدر بڑھ گیا کہ کہنی تک جا پہنچا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سہ چند بوجھ ہوگیا ہے۔ فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس بازو میں زہر اثر کرگیا ہے۔ تم اگر اس کو کٹانے پر راضی ہو تو جان بچ جائے گی ورنہ نہیں۔ وہ تھانے دار کٹانے پر راضی نہ ہوا۔ اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں وہ مر گیا۔ ہمارے بھی ایک دفعہ اسی طرح ناخن میں پنسل لگ گئی۔ ہم سیر کرنے گئے تو دیکھا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی ورم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ تو ہمیں وہ قصہ یاد آگیا۔ میں نے اسی جگہ سے دعا شروع کر دی۔گھر پہنچنے تک برابر دعا ہی کرتا رہا تو دیکھتا کیا ہوں کہ جب میں گھر پہنچا تو ورم کا نام و نشان تک بھی نہ تھا۔ پھر میں نے لوگوں کو دکھایا اور سارا قصہ بیان کیا۔

اسی طرح ایک دفعہ میرے دانت کو سخت درد شروع ہوگیا۔ میں نے لوگوں سے ذکر کیا تو اکثر نے صلاح دی کہ اس کو نکلوا دینا بہتر ہے۔ میں نے نکلوانا پسند نہ کیا اور دعا کی طرف رجوع کیا تو الہام ہوا وَاِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡ۔ اس کے ساتھ ہی مرض کو بالکل آرام ہوگیا۔ اس بات کو قریباً پندرہ سال ہوگئے ہیں۔ اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ایمان کے موافق اسباب سے نفرت ہوجاتی ہے۔جس قدر ایمان کامل ہوتا ہے اسی قدر اسباب سےنفرت ہوتی جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ51-52)

دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے

دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہےجس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے، ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوجاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہوجاتا ہے تو خدا تعالےٰ کو بھی اس پر رحم آجاتا ہے اور خدا تعالےٰ اس کا متولی ہوجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ59)

نماز اصل میں دعا ہے

نماز اصل میں دعا ہے۔ نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے کیونکہ جو شخص د عا نہیں کرتاوہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں۔ مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔ میں بہت رحم کرتا ہوں۔ بیکسوں کی امداد کرتا ہوں لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پروا نہیں کرتا نہ اپنی مشکل کا بیان کرکے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہوگا۔ یہی حال خدا تعالےٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے۔ قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ70)

اپنی زبان میں دعا کرو

اپنی زبان میں دعا کرو۔نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں۔ یہ عربی زبان میں ہیں۔ مگر تم پر حرام نہیں کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو۔ ورنہ ترقی نہ ہوگی۔ خدا تعالےٰ کا حکم ہے کہ نماز وہ ہے جس میں تضرع اور حضور قلب ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں چنانچہ فرمایا اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (ھود: 115) یعنی نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں۔ یہاں حسنات کے معنے نماز کے ہیں اور حضور اور تضرع اپنی زبان میں مانگنے سے حاصل ہوتا ہے پس کبھی کبھی ضرور اپنی زبان میں دعا کیا کرو اور بہترین دعا فاتحہ ہے کیونکہ وہ جامع دعا ہے۔ جب زمیندار کو زمینداری کا ڈھب آجاوے گا تو وہ زمینداری کے صراط مستقیم پر پہنچ جاوے گا اور کامیاب ہوجاوے گا۔ اسی طرح تم خدا تعالیٰ کے ملنے کی صراطِ مستقیم تلاش کرو۔ اور دعا کرو کہ یا الٰہی میں تیرا گنہگار بندہ ہوں اور افتادہ ہوں۔ میری راہنمائی کر ادنیٰ اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے۔ بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی۔ پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بیمثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے۔ نماز کا دوسرا نام دعا بھی ہے۔ جیسے فرمایا۔ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن: 61) پھر فرمایا۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ (البقرہ: 187) جب میرا بندہ میری بابت سوال کرے۔ پس میں بہت ہی قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ پکارتا ہے بعض لوگ اس کی ذات پر شک کرتے ہیں۔ پس میری ہستی کا نشان یہ ہے کہ تم مجھے پکارو اور مجھ سے مانگو۔ میں تمہیں پکاروں گا اور جواب دوں گا اور تمہیں یاد کروں گا۔ اگر یہ کہو کہ ہم پکارتے ہیں پر وہ جواب نہیں دیتا تو دیکھو کہ تم ایک جگہ کھڑے ہو کر ایک ایسے شخص کو جو تم سے بہت دور ہے پکارتے ہو اور تمہارے اپنے کانوں میں کچھ نقص ہے وہ شخص تو تمہاری آواز سنکر تم کو جواب دے گا مگر جو وہ دور سے جواب دیگا۔ تو تم بباعث بہرہ پن کے سن نہیں سکو گے۔ پس جوں جوں تمہارے درمیانی پردے اور حجاب اور دوری دور ہوتی جائے گی تو تم ضرور آواز کو سنو گے۔ جب سے دنیا کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کا ثبوت چلا آتا ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو رفتہ رفتہ بالکل یہ بات نابود ہوجاتی کہ اس کی ہستی ہے بھی۔پس خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کا سب سے زبردست ذریعہ یہی ہے کہ ہم اس کی آواز کو سن لیں یا دیدار یا گفتار۔ پس آج کل کا گفتار قائمقام ہے دیدار کا۔ ہاں جب تک خدا کے اور اس سائل کے درمیان کوئی حجاب ہے اس وقت تک ہم سن نہیں سکتے۔ جب درمیانی پردہ اٹھ جاوے گا تو اس کی آواز سنائی دے گی۔

بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ تیرہ سو برس سے خدا کا مکالمہ مخاطبہ بند ہوگیا ہے۔ا س کا اصل میں مطلب یہ ہے کہ اندھا سب کو ہی اندھا سمجھتا ہے۔ کیونکہ اس کی اپنی آنکھوں میں جو نور موجود نہیں۔ اگر اسلام میں یہ شرف بذریعہ دعاؤں اور اخلاص کے نہ ہوتا تو پھر اسلام کچھ چیزبھی نہ ہوتا۔ اور یہ بھی اور مذاہب کی طرح مُردہ مذہب ہوجاتا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ226-228)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط نمبر39)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جون 2022