• 29 مارچ, 2024

تعدد ازواج اور بیویوں میں اعتدال

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہولیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دلشکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے۔ تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔‘‘

مزید فرمایا:
’’ہمیں جو کچھ خداتعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشا زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور اُن کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا۔ اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔ دل دُکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم، صفحہ64-65 ایڈیشن 1984ء)

اسی طرح ایک اور موقع پرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرواگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو گو ضرورت پیش آوے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ337)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن سے استفادہ کرنے کے ذرائع