• 3 مئی, 2024

یہ تینوں نہ دن نہ رات دیکھتے ہیں۔ تبلیغ میں ہی لگے رہتے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب کو خدمتِ دین کا بہت شوق تھا اور اس پیرانہ سالی میں بھی، بڑھاپے میں بھی آپ جوانوں سے بازی لے جاتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانے میں، 1934ء میں جہاں خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کو شہادت کی موت قرار دیا ہے، وہاں آپ نے اعتراف فرمایا کہ مولوی صاحب جوانوں سے بڑھ کر کام کرنے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ تین آدمی مَیں نے دیکھے ہیں جو کہ تبلیغ میں دیوانوں کی طرح کام کرتے تھے، ایک حافظ روشن علی صاحب مرحوم، دوسرے یہ مولوی صاحب اور تیسرے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ یہ تینوں نہ دن نہ رات دیکھتے ہیں۔ تبلیغ میں ہی لگے رہتے ہیں۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12 صفحہ274 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)

پھرمیاں شرافت احمد صاحب ہی اپنے والد صاحب مولوی جلال الدین صاحبؓ مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد صاحب تبلیغ سلسلہ کے متعلق اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کرتے تھے۔ وہ مَیں لکھتا ہوں۔ (والد صاحب) کہتے ہیں ایک دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر میں یا گاؤں میں یہ مجھے یادنہیں رہا تشریف لائے ہیں اور مجھ سے قلم مانگتے ہیں۔ اُس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ کچھ مدت کے بعد مَیں قادیان میں حاضر ہوا اور اپنے ساتھ دو ریجے کھدر سفید دھوبی سے دھلا ہوا، اُس کے پانچ گز کے دو ٹکڑے (یعنی ریجے شاید پنجابی میں لمبی چادروں کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں) لے کے رکھے اور دو ہولڈر مختلف رنگ کے لئے اور حضور کی خدمت میں پیش کئے اور حضور سے قلم مانگنے کی تعبیر دریافت کی۔ حضور نے ازراہِ ہمدردی میرے حقیر نذرانے کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے خواب کو پورا کر دیا۔ قلم سے مراد یہ ہے کہ آپ خدمتِ دین کریں، تحریری بھی اور تقریری بھی۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کے بعدمَیں نے اپنے سارے زور سے تبلیغ شروع کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کوششیں بارآور ہوئیں۔ آپ کے دونوں بھائی بیعت میں شامل ہو گئے جن میں سے ایک اپنے علاقے میں مانا ہوا عالم تھا (مولوی علی محمد صاحب سکنہ زیرہ ضلع فیروز پور) جب مخالفوں کو معلوم ہوا کہ یہ دونوں بھائی مولوی جلال الدین صاحب اور مولوی علی محمد صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں۔ ان کے احمدی ہونے پر محمد علی بوہڑیہ اور محمود شاہ واعظ یہ دونوں زیرہ سے روتے ہوئے چلے گئے۔ یہ غیر احمدی تھے اور فیروز پور تک ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ایسے روتے تھے جیسے بہت قریبی رشتہ دار فوت ہو گیا ہو۔ پھر مولوی صاحب کی کوشش سے زیرہ ضلع فیروز پور، کھریپڑ لدھیکے، رتنے والا اور للیانی وغیرہ مقامات پر مخلص جماعتیں پیدا ہوئیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12 صفحہ274تا276 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)

پھر میاں شرافت احمد صاحب ہی کی مولوی جلال الدین صاحب کے بارے میں ایک روایت ہے کہ والد صاحب 1924ء میں ملکانہ میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے اور وہاں بنجاروں اور ملکانوں میں تبلیغِ اسلام کرتے رہے۔ ملکانوں اور بنجاروں کے علاوہ آپ نے معززین علاقہ سے بھی تعلقات پیدا کر لئے۔ حکام وقت سے بھی اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں جا ملتے۔ وہ لوگ آپ کو اس رنگ میں دیکھ کر کہ ستّر اسّی سال کا بوڑھا اپنی گھٹھٹری اُٹھائے پھر رہا ہے اور دن رات اس دھن میں ہے کہ لوگ مسلمان بن جائیں اور احمدیت قبول کر لیں، بہت اچھا اثر لیتے تھے۔ آپ اُن سے کافی چندہ وصول کرتے تھے۔ وہ خوشی سے دیتے تھے کہ یہ جماعت کام کرنے والی ہے۔ اس علاقے میں بھی آپ کی سعی اور کوشش سے بہت سے لوگ سلسلہ حقّہ میں داخل ہو گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12 صفحہ278-279 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلافت کی غلامی ہے ضمانت تیری قربت کی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2021