• 18 مئی, 2024

قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے

• بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔

قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (النمل: 63)۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ137 ایڈیشن 1984ء)

• یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بَک بَک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے

جو منگے سو مررہے۔ مرے سو منگن جا

دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے۔ وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

(ملفوظات جلد10صفحہ62 ایڈیشن 1984ء)

• ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے۔ سمندر میں طوفان آ گیا۔ قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا۔ اس کی دعا سے بچا لیا گیا۔ اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا۔ مگر یہ باتیں نرا زبانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ ان کے لئے تو بڑی محنت کرنا پڑتی ہے… ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو۔ جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا۔ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل: 51)۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ138 ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

عطیہ خون ریجن بانفورہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2022