• 6 مئی, 2024

آثار قد يمہ کے ذريعے توحيد کی تلاش

ہرمذہب کی بنيادايک وحدہ لا شريک خدا کی ہستی پر يقين ہے جو اس کائنات کا نا صرف خالق ہےبلکہ اس نے اس کائنات کے ذرہ ذرہ ميں اپنی موجودگی کا ثبوت چھوڑا ہے۔قرآن کريم کی تعليم ہميں بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہميشہ بنی نوع انسان کی ہدايت کے لئے انبياء عليہم السلام کو دنيا ميں مبعوث فرمايا تا توحيد کی تعليم قائم ہو سکے۔قرآن کريم ميں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِلٰہُکُمۡ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ ۖ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ

(البقرہ: 164)

ترجمہ: اور تمہارا معبود ايک ہی معبود ہے۔ کوئی معبود نہيں مگر وہی رحمان (اور) رحيم۔

اور پھر مزيد فرمایا:

وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَاجۡتَنِبُوا الطّٰغُوۡتَ ۖ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡہِ الضَّلٰلَۃُ ۚ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عٰقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ

(النحل: 37)

ترجمہ: اور يقيناً ہم نے ہر امت ميں ايک رسول بھيجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو۔ پس ان ميں سے بعض ايسے ہيں جنہيں اللہ نےہدايت دی اور انہی ميں ايسے بھی ہيں جن پر گمراہی واجب ہو گئی۔ پس زمين ميں سير کرو پھر ديکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کيسا تھا۔

ان آيات سے يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی وحدانيت اور انبياء عليہم السلام کی سچائی کو زمين ميں آرکيالوجيکل شواہد کے ساتھ محفوظ کر ديا ہے۔ ليکن جب ہم پرانی اقوام کی تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہم ديکھتےہيں کہ متعدد ديوتاؤں کی عبادت کی جا رہی ہےجيسے کہ ماضی میں مصر، يونان اور مشرق وسطیٰ کی اقوام ميں۔ جبکہ بعض جگہوں پرآرکيالوجی اور تاريخی شواہد کے گہرے مطالعہ سے ہميں واحد خدا کی عبادت کا تصور ملتا ہے۔

اس موضوع پر حضرت خليفۃالمسیح الربعؒ کا ايک اقتباس قابل ذکر ہے جو اس بات کو بيان کرتا ہے کہ مذہب کا آغاز توحيد سےہی ہوا ہے۔ آپؒ فرماتے ہيں:
تاريخی حقائق اس بات کی تصديق نہيں کر تے کہ توحيد کا عقيدہ بت پرستی پر مبنی توہمات کے ارتقاء کا نتیجہ ہے۔ يہ محض ماہرين عمرانيات کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے۔ اس نظريہ کی تائيد ميں تاريخ سے کوئی ايسی شہادت نہيں ملتی کہ شرک تدريجاً ترقی کر کے بالآخر توحيد ميں تبديل ہو گيا ہو اور نہ ہی کوئی ايسی درميانی کڑياں ملتی ہيں کہ لوگوں نے ديوتاؤں کی پرستش کرتے ہوئے خدائے واحد کی عبادت شروع کر دی۔قرآن کريم اس نظريہ کو رد کرتا ہے اور اس کے بالکل برعکس نظريہ کو درست قرار ديتا ہے يعنی دنيا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کا آغاز بلا استثناء توحيد کے عقيدہ سےہوا۔ ارتقاء کا مذکورہ بالا نظريہ نہ تو تاريخی شوا ہد سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی ذہن کے تقاضوں کے مطابق ہے۔

(الہام، عقل، علم اور سچائی صفحہ179-180)

حضرت خليفۃالمسیح الربعؒ نے يکم اگست 1997 کو ايم۔ٹی۔ اے پر فرنچ احباب کے ساتھ سوال و جواب کی ايک نشت ميں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اپنی ايک خواہش کا اظہار ان الفاظ ميں فرمايا: ’’يہ بہت اہم ہے۔ اس سلسلے ميں بہت سارا کام کرنے والا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مضامين اور ريويو لکھنے چاہئیں تا کہ ان شواہد کو محفوظ کيا جائے۔ ميں اميد کرتا ہوں کہ کسی دن کوئی احمدی اس موضوع پر ريسرچ شروع کرے گا‘‘۔

خاکسار نے حضورؒ کے اس موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کريم کی اس سچائی کو کہ ہر مذہب کی ابتداء ايک خدا کی عبادت سے شروع ہوئی ليکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ايک خدا کی وحدانيت کی جگہ متعدد ديوتاؤں کی عبادت نے لے لی آثار قد يمہ کی تحقيق کے ذريعے اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد قديم جنوبی عراق ميں توحيد کے نشانات کو تلاش کرنے کی ايک ادنیٰ سی کوشش ہے۔

ڈاکٹر ہنری فرينکفرٹ کی کھدائياں

اس سلسلے ميں اورينٹل انسٹی ٹیوٹ آف دی يونيورسٹی آف شکاگو نے تل اسمر کے مقام پر (قديمی نام ايشنونہ) 1930ء سے 1936ء تک جو کھدائیاں کيں وہ قابل توجہ ہيں۔ تل اسمر جنوبی عراق ميں بغداد کے مشرق ميں کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ ٹل ايک ايسی اونچی جگہ کو کہتے ہيں جو بظاہر تو چھوٹی پہاڑی کی شکل کی نظرآتی ہے مگر يہ دراصل ايک ہی جگہ پر مسلسل جاری رہنے والی آبادی کےنتیجے ميں ايک طويل عرصہ کے بعد بنتی ہے جيسا کہ اس تصوير ميں ايک ٹل کو شمالی عراق ميں ديکھا جا سکتا ہے۔

آثار قديمہ کے ماہر ڈاکٹر ہنری فرينکفرٹ تل اسمر کے علاقے ميں ان کھدائيوں کے پرو جيکٹ ڈائريکٹر تھےجہاں سے سميرين اور اکاّدين تہذيبوں کے آثار دريافت ہوئے۔ لہذا ہم ايسے دور کے بارے ميں بات کر رہے ہيں جو آج سے تقريباً پانچ ہزار سال پہلے شروع ہوا اور چار ہزار سال تک چلتا رہا۔ ان اہم کھدائيوں کا مقصد اس علاقے کے ابتدائی دور کی تاريخ، تہذيب و تمدن اور کرونولوجی (تاريخی ترتيب يعنی تاريخی واقعات کے تسلسل اور ان کے روابط) کا پتہ لگا نا تھا۔ فرينکفرٹ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے منظم اور ترتيب وار طريقے سے کھدائياں کيں اور جو معلومات حاصل کيں وہ آج تک اس دور کے بارے ميں کافی حد تک درست تسليم کی جاتی ہيں۔ بے شک آج بھی اس ابتدائی دور کے بارے ميں معلومات محدود ہيں ليکن ہنری فرينکفرٹ کی کھدائيوں کے ذريعے پہلی بار اس علاقے کی آبادی سے ملنے والے آثار سےکچھ دلچسپ نتائج ہمارے سامنے آئے ہيں جو اس نے اپنی پروجيکٹ رپورٹس ميں پيش کيے۔ان نتائج ميں سے ايک کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کا تعلق تل اسمر کے رہنے والوں کے مذہبی اعتقادات سے ہے۔

تل اسمر

تل اسمر کی کھدائيوں کے دوران ايک محل کے علاوہ رہائشی عمارات اور ايک ٹمپل (عبادت گاہ) دريافت ہوئے جہاں سے ايسے آثار ملے جو ان رہائشيوں کے مذہبی روايات اور اعتقادات پر روشنی ڈالتے ہيں۔ چنانچہ فرينکفرٹ کہتا ہے کہ ہميں کھدائيوں کے ذريعے پتہ ہے کہ کون کون سی چيزيں کہاں سے ملی ہيں (کانٹکسٹ) اور جب ہم ان سب معلومات کو يکجا رکھ کر ديکھتے ہيں تو ايک مکمل تصوير ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ اگر يہ سب چيزيں الگ الگ ملتیں تو ہم اس حقيقت کو بيان نہ کر سکتے جو اب کرنے جا رہے ہيں۔

فرينکفرٹ کے نزديک تل اسمر کے گھروں اور ٹمپل دونوں جگہوں سے دريافت ہونے والے آثاروں ميں مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں جگہوں کے آثار ايک مرکزی خدا کی عبادت کی طرف اشارہ کر رہے ہيں اور يہ ظاہر ہو رہا ہے کہ اس طرح کی مذہبی رسومات صرف تل اسمر ميں ہی قائم نہيں تھيں بلکہ ميسوپو ٹيميا کے باقی علاقوں ميں بھی تھيں۔

تل اسمر کے گھروں اور ٹمپل سے ملنے والے سيلنڈر سيلس، مٹکے، پيالے اور زيورات پر مختلف شکليں نماياں ہيں جو مختلف ديوتاؤں کی نمائندگی کر رہے ہيں۔ اس کے علاوہ مجسمے اور جانوروں کی ہڈياں بھی ملی ہيں۔ان سب آثاروں کو ايک ہی تصوير ميں فٹ کيا جا سکتا ہے جس کے مطابق اس ابتدائی دور ميں مختلف صفات رکھنے والے ايک مرکزی خدا کی عبادت کی جاتی تھی اور وہ ان صفات سے پکارا جاتا تھا۔ بعد کے زمانے ميں يہ صفات الگ ہو گئيں اور ہر ايک صفت نے ايک الگ خدا کا وجود اختيار کر ليا۔ اس مضمون کو مزيد سمجھنے کے لئے ان ديوتاؤں کے بارے ميں مختصر تعارف آگے پيش کيا جاتا ہے۔

مرکزی خدا فرٹيليٹی کا خدا

چونکہ تل اسمر ميں رہائش پذير لوگوں کی عبادت کا مرکز دريافت ہونے والا ايک ہی ٹمپل تھا لہذا يہاں سے ملنے والے آثاروں پر جو بھی مذہبی نقوش پائے گئے ان کا تعلق بھی اس ٹمپل ميں عبادت کی جا نے والے ديوتاؤں کے ساتھ ہو گا۔ آثار بتاتے ہيں کہ اصل عبادت اس مرکزی خدا کی ہوتی تھی جس کا ہم ذکر کرنے جا رہے ہيں۔ اس مرکزی خدا کے اندر پيدا کرنے کی طاقت تھی۔ دوسرے الفاظ ميں يہ خدا زمين، جانوروں اور فصلوں (نباتات) کی پيدائش کا مظہر تھا (زندگی کا مظہر)۔ دراصل اس مرکزی خدا کا مجسمہ ٹمپل سے ہی ملا ہے جو اپنے قد و قامت (سائز) اور بڑی بڑی آنکھوں کی وجہ سے باقی سب ملنے والے مجسموں سے مختلف ہے۔ يہ مجسمہ جس پتھر پر کھڑا ہے اس کے سامنے والے حصہ پر تين مختلف شکليں بنی ہوئيں ہيں جن ميں ايک پودوں کی، دوسری سينگوں والا ہرن اور تيسری شير کے سر والا عقاب (اِمد ُوگُد) کی۔ يہ تينوں شکليں اس مرکزی خدا کی صفات اور کردارکو ظاہر کرتی ہيں جن کا ذکر ہم نے اوپر کيا ہے۔ اب اگر ہم ان صفات اور شکلوں کو ملا کر ديکھیں تو بات آسان ہو جاتی ہے مثلاً پودوں کا نشان اس خدا کی نباتات والی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ سينگوں والا ہرن جانوروں کی دنيا کی سپرٹ کی صفت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ شير کے سر والا عقاب موت کے اوپر فتح پانے والی صفت (جنگجو والی صفت) کو ظاہر کرتا ہے۔

صفاتی تشريحات جو اس مضمون ميں بيان کی گئی ہے وہ بعد کے زمانے کی ميسوپو ٹيميا کے علاقوں کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے کلے ٹيبلٹس (کتبے) کے ترجمہ پر مشتمل ہيں۔

اس مرکزی خدا کے يہ صفاتی نشانات ہيں جو اس واحد ٹمپل سے ملنے والے آثاروں کے علاوہ ان آثاروں پر بھی پائے جاتے ہيں جو اس ٹمپل کے ارگرد کے رہائشی گھروں سے ملے ہيں اور دونوں جگہوں سے ملنے والے آثاروں پر موجود نشانات اس مرکزی خدا کی طرف اشارہ کر رہے ہيں جس کی ٹمپل ميں عبادت کی جاتی تھی (فرٹيليٹی کلٹ)۔ اصل ميں فرٹيليٹی کا خدا (پيدائش کا خدا) ہی مرکزی خدا معلوم ہوتا ہے اور ٹمپل ميں بھی صرف ايک ہی خدا کے مجسمے کی رکھنے کی نماياں جگہ تھی۔ باقی خدا اسی ايک مرکزی خدا کی صفات کا حصہ معلوم ہوتی ہيں۔ فرينکفرٹ اپنے اس خيال کا ثبوت مثالوں کے ساتھ پيش کرتا ہے جن ميں سے چند پيش خدمت ہيں:

ابو گاڈ آف ويجي ٹيشن (فرٹيليٹی)

اس ٹمپل کے ساتھ ملحقہ عمارت کے ايک کمرے سے تابنے سے بنی ہوئی صراحياں دريافت ہوئی ہيں۔ ان صراحيوں ميں ايک پيالہ بھی ملا ہے جس پر ايک تحرير ’’دی ہاؤس آف ابو‘‘ لکھی تھی۔ ہميں بعد کے زمانے کی کھدائيوں کے دوران ملنے والے مختلف کلے ٹيبلٹس (کتبے) سے پتہ چلتا ہے کہ ابو گاڈ آف ويجي ٹيشن تھا يعنی ابو ايک خدا کا نام ہے جس کی صفت کا تعلق نباتات سے ہے اور يہ صفت اسی فرٹيليٹی کے مرکزی خدا کی بھی ايک صفت تھی جس کی عبادت اس ٹمپل ميں کی جاتی تھی۔

تموز گاڈ آف ويجی ٹيشن اينڈ شيپ فولڈز (فرٹيليٹی)

تموز ايک اور خدا ہے اورکھدائيوں کے دوران ملنے والے آثاروں پر جو نقوش پائے گئے ہيں ان ميں تموز پودوں، بکريوں يا مينڈوں کے ساتھ دکھائی ديتا ہے۔ اس نے سر پر جو تاج پہن رکھا ہے۔ اس ميں انہی جانوروں کے سينگ نصب ہيں۔ جانوروں کے اصلی سينگ گھروں اور ٹمپل سے بھی دريافت ہوئے ہيں۔ اب پودوں، بکريوں يا مينڈوں کے نقوش تموز خدا کی پيدائش (فرٹيليٹی) کی صفت کو ظاہر کر تی ہے اور يوں تموز خدا کی فرٹيليٹی اصل ميں مرکزی خدا کی فرٹيليٹی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

نينورتا۔نينگرسو گاڈ آف ويجی ٹيشن اينڈ گاڈ آف وار (فرٹيليٹی)

نينورتا۔نينگرسوايک اور خدا ہے۔ اس کا ذکر بھی بعد کی ٹيبلٹس ميں پايا جاتا ہے۔ يہ ويجی ٹيشن کا خدا تھا اور جنگ (شير کے سر والا عقاب) کا بھی۔ ويجی ٹيشن اور شير کے سر والا عقاب (اِمد ُوگُد) دونوں نشان اس مرکزی خدا کے مجسمے پر بنے ہوئے ہيں۔ ٹمپل اور اردگرد کے گھروں سے دريافت ہونے والے آثاروں ميں نينورتا۔نينگرسوخدا کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہيں کہ نينورتا۔ نينگرسو خدا کی صفات اصل ميں مرکزی خدا کی صفات کو ہی ظاہر کر رہی ہيں۔ نينگرسو جنگ کا خدا ہونے کی وجہ سے بلاؤں سے بھی مقابلہ کرتا تھا جس کا ملنے والے آثاروں پر بھی نقشہ کھينچا گيا ہے۔

نينگيزّدہ گاڈ آف ويجی ٹيشن اينڈ گاڈ آف ارتھ (فرٹيليٹی)

نينگيزّدہ بھی ايک دوسرے خدا کا نام ہے اور اس کا نشان ايک يا دو سانپ ہيں (فرٹيليٹی)۔ٹمپل اور گھروں سے جو مختلف مٹکے اور سيلنڈر سيلس دريافت ہوئے ہيں ان پر سانپ کی شکل بھی نماياں ہے۔ اس سے نينگيزّدہ کی اس جگہ ميں موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ سيلنڈر سيلس پر نينگيزّدہ پودوں کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ بعد کے زمانے کی کلے ٹيبلٹس (کتبے) ميں بھی اسے بطور گاڈ آف ويجی ٹيشن پيش کيا گيا ہے۔ اس طرح نينگيزّدہ بھی اسی مرکزی خدا کی صفات کا مظہرنظر آتا ہے۔

ان ديوتاؤں کے ذکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان سب ميں ايک يونيٹی پائی جاتی ہے۔ سب ہی نيچر کے پيدا کرنے والی قوت (فرٹيليٹی) کا اظہار کر رہے ہيں اور ان سب کی يہ قوت اس مرکزی خدا کی فرٹيليٹی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

ان صفات کی کيا ضرورت تھی؟

فرينکفرٹ کے مطابق اس زمانے کے لوگ جو مختلف جگہوں پر آباد تھے اپنی ضرورت کے مطابق اس متعلقہ صفت والےخدا کے نام کو پکارتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی ايک جگہ پر اس مرکزی خدا کی زمين کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفت کو دوسری صفات کے مقابلے ميں پکارا جاتا ہو اور کسی جگہ پر زندگی کے پانے والی صفت کو دوسری صفات کے مقابلہ ميں پکارا جاتا ہو۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ابتدائی دور ميں يہ سب نام اس مرکزی خدا کی صفات تھيں۔مگر مختلف وجوہات کی بنا پر بعد کے زمانے ميں ان صفات نے الگ ديوتاؤں کی شکل اختيار کرلی اور ان کی عبادت کی جانے لگ گئی۔اس کی ايک بڑی وجہ فرينکفرٹ يوں بيان کرتا ہے

’’سميرين دور ميں سٹی سٹيٹس کا سسٹم جنوبی ميسو پو ٹيميا ميں رائج تھا يعنی ہر شہر کی اپنی حکومت تھی۔ جس ہزار سال کی ہم بات کر رہے ہيں اس کی آخری دہائيوں ميں اس علاقے ميں باہر سے سامی قوم (ليونٹ اور عرب علاقوں کے لوگ) يہاں آکر آباد ہو گئی۔ باہر سے آنے والے يہ لوگ مقامی سميرين لوگوں کے مذہبی اعتقادات کو ٹھيک طرح سے سمجھ نہيں سکے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں قوموں کے اعتقادات آپس ميں مل جل گئے يہاں تک کہ آخر ميں ان قوموں کے ديوتاؤں کی تعداد کئی ہزاروں تک جا پہنچی۔‘‘

ديوتاؤں کی تعداد اور کلے ٹيبلٹس (کتبے)

ہنری فرينکفرٹ کے زمانے ميں جنوبی ميسوپوٹيميا کے علاقے ميں ايک اسيری آلو جسٹ پر وفيسرسٹيفن لنگڈان بھی کام کر رہا تھا جس کی ريسرچ قابل ذکر ہے۔ لنگڈان کا کام کھدائيوں کے دوران ملنے والی کلے ٹيبلٹس (کتبے) پر لکھی ہوئی تحريرات کا ترجمہ کرنا اور سمجھنا تھا۔

اپنی اور دوسرے ماہرين کی کی گئی ريسرچ کی بنا پر اور خصوصاً ٹيبلٹس کے ترجمے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ سمیرین تہذيب ميں پہلے توحيد کا قيام تھا اور بعد ميں کئی ديوتاؤں کی پرستش شروع ہو گئی۔ لنگڈان کی ريسرچ چند آرکيالوجيکل سائٹس پر مبنی ہے جن ميں اورک، کيش اور جمدۃ نصر قابل ذکر ہيں۔

ان ٹيبلٹس کی تحقيق کے بعد لنگڈان جان سکا کہ کس دور ميں کتنے ديوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ اور اس کے لئے اس نے سمیرین تہذيب کے اختتام سے شروع کر کے آغاز کی طرف ديوتاؤں کی تعداد کو گننا شروع کيا۔ جوں جوں وہ پيچھے کے ادوار کی طرف گنتی کرتا جا رہا تھا ويسے ويسے ديوتاؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔

اس سلسلے ميں وہ يہ کہتا ہے کہ سمیرین تہذيب کے اختتام کے وقت (تقريباً 2000 سال قبل مسیح) ان کے ديوتاؤں کی تعداد 5000 سے کچھ زائد تھی۔ اس سے ايک ہزار سال پيچھے اگر جايا جائے (تقريباً 3000سال قبل مسیح) تو ان ديوتاؤں کی تعداد 750 رہ جاتی ہے۔ اور پھر 300 سال اگر مزيد پيچھے جايا جائے تو يہ تعداد 500 رہ جاتی ہے اور تقريباً 200 سال اور پيچھے جايا جائے تو صرف دو ديوتاؤں کے نام رہ جاتے ہيں۔

وہ کہتا ہے کہ اگر ابتدائی دور ميں اور ديوتا موجود ہوتے تو ان کا نام بھی ٹيبلٹس ميں آنا چايئے تھا کيونکہ بعد کے زمانے ميں جتنے بھی ٹيبلٹس دريافت ہوئے ان پر اس زمانے ميں پائے جانے والے ديوتاؤں کے نام درج ہيں۔وہ يہ بھی بيان کرتا ہے کہ ابتدائی اور اختتام کے زمانے کے يہ ٹيبلٹس ٹمپلس کی کھدائيوں کے دوران ملے ہيں۔

کچھ سوالات اور مستقبل کی ريسرچ

آخر ميں يہ ساری ريسرچ پيش کرنے کے بعد کچھ سولات ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہيں کيونکہ يہ ايک ايسا موضوع ہے جس پر ابھی تک بہت کم کام ہوا ہے اور خاکسار کے علم کے مطابق فرينکفرٹ اور لنگڈان کے زمانے کے بعد اس مضمون پر کوئی نئی قابل ذکر ريسرچ پيش نہيں ہوئی۔ يہ ايک حقيقت ہے کہ سمیرین تہذيب اور اس سے پہلے کے ادوار کی آرکيالوجی پر کم کام ہوا ہے بالخصوص ان کے رہائشی مکانات پر۔ اب جب کہ جديد ٹيکنالوجی ہمارے پاس موجود ہے تواس کا استعمال کرتے ہوئے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

بے شک ہنری فرينکفرٹ اور سٹيفن لنگڈان اپنے زمانے کے مشہور ماہر ين ميں شمار ہو تےتھے ليکن موجودہ دور کے علم کے لحاظ سے کچھ سوالات ان کی تحقيق پر اٹھتے ہيں مثلاً فرينکفرٹ اور لنگڈان کے زمانے ميں کرونولوجی پر (تاريخی ترتيب) سائنسی لحاظ سے آثاروں کی عمر کاپتہ لگانے کا طريقہ ابھی ايجاد نہيں ہوا تھا۔ اس لئے کھدائيوں کےدوران ملنے والے کچھ آثاروں کے بارے ميں يقين سے نہيں کہا جا سکتا کہ يہ کونسے دور کے ہيں۔ اس کےعلاوہ جس طرح ان کے زمانے ميں آثاروں سے ملنے والی معلومات کا ا ندراج کيا جاتا تھا (ريکارڈنگ) وہ طريقہ آج کےمعيار پر مکمل طور پر پورا نہيں اترتا۔

ايک اور سوال يہ ہے کہ کيا تل اسمر کے ٹمپل ميں صرف فرٹيليٹی کے مرکزی خدا کی عبا دت کی جاتی تھی؟ فرينکفرٹ خود کہہ رہا ہے کہ وہاں ايک مدر گاڈس اور ايک سن گاڈ کی بھی عبادت کی جاتی تھی۔ بے شک وہ حيثيت ميں کم تھےمگر دونوں وہاں کی عبادت کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ ٹمپل کے کچھ آثاروں کی نئی تحقيق کے مطابق ايسا لگ رہا ہے کہ وہاں کچھ اور ديوتاؤں کی عبادت بھی کی جاتی تھی۔تو اس صورت حال ميں ان کا فرٹيليٹی کے مرکزی خدا کے ساتھ کيا کوئی رشتہ بنتا ہے؟ کيا وہ اپنی الگ حيثيت رکھتے ہيں؟ فرينکفرٹ کے مطابق مدر گاڈس کا بہر حال فرٹيليٹی کے کلٹ کے ساتھ ايک تعلق بنتا ہے۔

اس مضمون ميں پيش کردہ نظريہ دراصل آجکل کے عام نقطہ نظر کے خلاف ہے ليکن جو شواہد کھدائيوں کے دوران ملے ہيں ان کو مکمل طور پرنظر انداز نہيں کيا جا سکتا۔ بہرحال ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہيں کہ ہميں اس سلسلے ميں نئی کھدائيوں کے ذريعے مزيد تحقيق کی ضرورت ہے۔ يہ ايک نہ ختم ہونے والی ريسرچ ہے۔ فرينکفرٹ اورلنگڈان کی تحقيق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور حضرت خليفۃالمسیح الربعؒ کے بيان فرمودہ ارشادات کی روشنی ميں اس پر کام کرنے کی مزيد ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہميں بہترين رنگ ميں قرآن کريم کی سچائی کو پيش کرنے کی توفيق عطا فرما ئے۔ آمين ثم آمين۔

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب ميں ديتا ہوں اگر کوئی ملے اميدوار

اس مضمون کو لکھنے ميں مندرجہ ذيل حوالہ جات سے مدد لی گئی ہے:
عراق ايکسکا ويشنس آف دی اورينٹل انسٹی ٹیوٹ 1932-1933ء: تھرڈ پریلیمنری رپورٹ 1934ء، گارڈز اینڈ میتھس آن زار گونڈ سیلس 1934ء سيلنڈرسيلس: اے ڈاکمنٹری ايسے آن دی آرٹ اينڈ ريليجن آف دی انيشينٹ نير ايسٹ 1939ء، سکلپچرآف دی تھرڈ ميلينياوم بی۔سی فرام ٹل اسمار اينڈ خافاجا 1939ء، دی میتھا لوجی آف آل ریسس 5 والیم۔1931ء۔ مونوتھيزم ايز دی پريڈيسيسرآف پوليتھيزم ان سمرين ريليجن 1937ء ہو واز ورشپڈ ان دی ابو ٹمپل ايٹ تل اسمر؟ 2010ء

(ڈاکٹر مبارز احمد ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

عطیہ خون ریجن بانفورہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 ستمبر 2022