جَبَّار کا مطلب اصلاح کرنے والا
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے لفظ جَبَّار کے حوالے سے اس لفظ کی وضاحت خداتعالیٰ کی ذات کے تعلق میں اور بندے کے تعلق میں کی تھی کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہو، اللہ تعالیٰ کی صفت کے طورپر استعمال ہوتو اس کا مطلب اصلاح کرنے والا ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے ہمیں یہ دعا بھی اِسی وجہ سے سکھائی ہے جو ہر مسلمان نماز پڑھتے ہوئے دو سجدوں کے درمیان پڑھتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے: حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ دو سجدوں کے درمیان دعا کیا کرتے تھے کہ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَارْفَعْنِیْ کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما۔ وَاجْبُرْنِیْ اور میرے بگڑے کام سنوار دے اور مجھے رزق عطا فرما اور میرے درجات بلند فرما۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الصلوٰۃ باب مایقول بین السجدتین حدیث نمبر 898)
یعنی وَاجْبُرْنِی کے حوالے سے میرے روحانی، جسمانی، مادی، جتنے بھی معاملات ہیں ان کی اصلاح فرما اور میرے سب کام اس حوالے سے سنوارتا چلا جا۔ یہ دعا یقینا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھیک خداتعالیٰ سے مانگیں اور اُس حالت سے بچنے کی کوشش کریں جب یہ خدا کو بھولنے والے انسان کو اس لفظ کے ان معانی کا حامل بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں انسان حد سے زیادہ بڑھنے والا، سختی کرنے والا، باغی اور سرکش ہو جاتا ہے۔ اور خاص طورپر نبیوں کی مخالفت کرنے والے اس زمرہ میں شمار ہوتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ23 مئی2008ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)