• 26 اپریل, 2024

ہماری زندگی کی علوم و فنون اور قیمتی خزائن پر مشتمل دیگرکجیاں

مورخہ21اگست2022ء کو روزنامہ الفضل آن لائن میں خاکسار کا اداریہ بعنوان کُجیاں (Money Box) شائع ہوا جس پر دنیا بھر سے قارئین کرام کے تبصرے اور تاثرات موصول ہوئے ان میں ایک تبصرہ مکرمہ امۃ الباری ناصر کا امریکہ سے تھا، وہ لکھتی ہیں:
’’کُجیاں صرف پیسوں کی نہیں ہوتیں۔ خیالات بھی جمع اورجوڑ کے رکھے جاتے ہیں۔ پرانی ڈائریاں کچھ ادھورے مضامین، ان سے متعلق یادداشتیں، دو اڑھائی مصرعوں اور ان الفاظ پر اعراب لگا کر محفوظ رکھے ہوئے سرمائے کی طرح ہوتے ہیں ان ڈائریوں کو بھی کجیاں کہا جاسکتا ہے جو فرصت یا ضرورت کے انتظار میں رہتی ہیں۔ ان ڈائریوں میں پسندیدہ اشعار اوراہم اقتباسات بھی ہوتے ہیں جو کبھی کبھار کھول کر الفضل کی خدمت میں بھجوا کر کام آتے ہیں۔‘‘

یہ آئیڈیا گزشتہ اداریہ بعنوان کجیاں کو اگر سامنے رکھیں تو اس کے ہی تسلسل میں اور اُس موضوع کو مکمل کرنے والا ایک اہم آئیڈیا ہے جس نے اس لیے دماغ کو Hitکیا کہ یہ مذکورہ موضوع کی تکمیل کردے گا۔ اسی لیے میں محترمہ موصوفہ کی اجازت سے اس پر قلم آزمائی کے لیے قارئین کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ محترمہ موصوفہ کے اس آئیڈیا پر مزید سوچنے کے بعد خاکسار اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ رقم اور علم و فنون کی کُجیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار روحانی و مادی اشیاء کی کجیاں (Boxes) ہمارے درمیان موجود ہیں۔ جن کو ’’زادراہ‘‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ آج کی زبان میں اسے Bank Balance کہا جاتا ہے۔ یہ نیکی کی کُجیاں ہو سکتی ہیں، انہیں تقویٰ کی کُجیاں بھی کہا جا سکتا ہے اور بہت سی نیکیوں کی، جسے سرمایہ حیات کہہ سکتے ہیں جو اس دنیا میں ایک مومن کے کام آسکتی ہیں اور پرلی زندگی میں بھی بلکہ اگر یوں کہوں کہ مؤمن کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کے کام آئیں گی تو غلط نہ ہو گا۔ ان میں دعا کی کُجیاں بھی شامل ہیں جن کو ہم دعا کے ذخیرے اور خزانے بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی وہ مضمون ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے احمدی عورتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اگر احمدی عورت نے اپنی تربیت سے اپنے بچوں کو نمازی بنایا ہو گا تو اس کے مرنے کے بعد جب اس کے بچے نماز پڑھیں گے تو فرشتے کہہ رہے ہوں گے کہ اس بی بی نے بھی نماز ادا کی۔

رقم سنبھالنے کے ساتھ علم کے علاوہ اور بہت سی نیکیوں کے Boxes اور کُجیاں ہیں۔ مجھے اس بات کا تجربہ ہے اور ایڈیٹر الفضل کے طور پر اس تجربہ میں پختگی آگئی ہے کہ دنیا بھر میں صاحب علم اور با ذوق احمدی احباب و خواتین اپنے من پسند مضامین، آرٹیکلز اور تراشوں کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ پھر گاہے بگاہے اس مجموعہ کو اس طرح الٹاتے پلٹاتے ہیں جس طرح جگالی کرنے والے جانورکھانا ہضم کرنے کے لیے جگالی کرتے اور پیٹ یعنی کُجی میں جمع کی ہوئی غذا کو نکال کر منہ میں لا کر چباتے ہیں۔ اس الٹانے پلٹانے کو اردو لغت میں جگالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو ڈائریاں لکھتے اور اپنی یاد داشتوں کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ گو ڈائری لکھنے کا رواج بہت کم رہ گیا ہے۔

خاکسار اپنا طریق بطور تحدیث نعمت لکھنا چاہتاہے۔ جو بطورجمع پونجی میری کُجی میں محفوظ ہیں۔ خاکسار نے 45سال قبل مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بنتے ہی مختلفbox یا لفافے بنا رکھے تھے جس میں کئی عناوین پر مواد جمع ہوتا رہا اور بے شمار کاغذ کی چِٹوں پر نوٹس لکھ کر ان لفافوں میں محفوظ ہوتی رہیں بلکہ45سال قبل اپنےفیلڈ ورک کے پہلے سینٹر بدو ملہی میں دئیے گئے خطبات جمعہ کے نوٹس ان لفافوں میں پا کر محظوظ ہوتا رہتا ہوں بعض با علم لوگوں نے اپنے ذوق کے مطابق کتب، اپنی لائبریری کے الگ حصّہ پر بطور کُجی محفوظ کر رکھی ہیں۔ یہی کیفیت شعراء کی ہے جنہوں نے اپنے پرانے سے پرانے کلام ڈائریوں میں لکھ رکھے ہیں اور اب تو اپنے موبائلز میں بھی محفوظ کر لیتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ جو اشعار پڑھنے اور سنانے کا ذوق و شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے نظموں کی نظمیں اور غزلیں اپنے موبائل کی کُجی میں جمع کر رکھی ہیں۔ بہت سےسبق آموز اشعار اپنے خیالات کی کُجی میں محفوظ رکھتے ہیں جو گاہے بگاہے وہ اپنےقریبیوں میں شئیر کرتے رہتے ہیں خاکسار کے پاس بھی اس طرح کی تین سے چار ڈائریاں (نوٹ بکس) ہوا کرتی تھیں جن میں ایسے اشعار درج تھے جو خاکسار اپنی تقاریر اور خطبات میں استعمال کرتا رہا ہے۔ میرے ابا جان مرحوم مکرم چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی نے وفات سے قبل امی جان مرحومہ کو اپنی ڈائریاں تھماتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ انہیں حنیف کو دے دیں۔ اس کے کام آئیں گی۔ خاکسار نے اس میں سوز اور درد سے بھرے ہوئے دعائیہ اشعار اور دعائیں نیز ارشادات موجود پائے جو اُن کی کُجی تھی جس سے خاکسار نے بعد میں فائدہ اٹھایا۔

اس مضمون کی تائید میں خاکسار اپنے بعض قارئین کوآپ کے سامنے پیش کرتا ہے جو ہمارے ادارہ کو روز نامہ الفضل میں ہی شائع شدہ پرانے مضامین یا نظمیں بھجوا کر یہ خواہش کرتے ہیں کہ ان کی آج کے دور میں بھی ضرورت ہے اسے مکرّر شائع کر دیں۔ جیسے ابو سدید اور جیسا کہ مکرم م م محمود نے ’’100سال قبل کا الفضل‘‘ کے نام سے ایک نئے فیچر کا آغاز کیا ہے۔ وہ بھی ان کی علمی کُجی ہے۔

اس ضمن میں مجھے اس امر کا اظہار کرتے ہوئےخوشی ہو رہی ہے کہ آج کے دور میں شائد کُجی کاپنجابی لفظ پُرانا ہو کر متروک ہو چکا ہے اور نوجوان نسل کو لفظ کُجی کے معنی بھی نہ آتے ہوں۔ خاکسار کے آرٹیکل ’’کُجیاں‘‘ جس نے کمپوز کیا تھا انہوں نے بھی کمپوز کرنے کے بعد مجھے فون پر بتایا تھا کہ میرے لیے یہ لفظ بالکل نیا ہے۔

آج دنیا بھر کی ویب سائیٹس بھی کُجیاں ہیں اور سوشل میڈیا کی تمام ایپلی کیشنزجیسے واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹا گرام وغیرہ وغیرہ آج کے جدید دور کی ماڈرن کُجیاں ہیں۔ جہاں علمی مواد تو محفوظ کیا ہی جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے اوربعض غلط قسم کے لوگ اپنے مخالفین کے خلاف مواد بھی ان میں اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسی قسم کے انٹرنیٹ کے غلط استعمال کو منع فرمایا ہے اور اسے لغویات میں شامل فرمایا ہے۔

کُجیوں کی بات چلی ہے تو مجھے اپنے دوست احباب یاد آر ہے ہیں کیونکہ ہر شخص کا ایک حلقہ احباب ہوتا ہے۔ جن کی عادات اور طریقوں سے وہ خوب واقف ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں میں سے بعض کودیکھا کہ انہوں نے اپنے اور اپنے پیارے عزیزوں کے نام خلفاء کرام کے خطوط جمع کر رکھے ہیں بلکہ ایک دوست کے پاس حضرت حافظ خلیفہ رشید الدینؓ کے نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے دست مبارک سے لکھے ہوئے نادر خطوط میں نے دیکھے جنہیں بعد میں خاکسار نے اپنی تصنیف سیرت و سوانح حضرت حافظ خلیفہ رشید الدینؓ میں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں پہلی بار افادہ عام کے لیے شائع کر دئیے۔ بعض دوستوں کو اپنے ذخیرہ میں پرانی نادر تاریخی فوٹوز رکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے بزرگ مکرم ڈاکٹر مرزا مبشراحمد صاحب نہ صرف اچھے فوٹو گرافر ہیں بلکہ نادر و نایاب تصاویر جمع کرنے کے شوقین بھی ہیں۔ ان کی تصاویر کی کجیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

یہ جو لفظ My Hobby یعنی میرا مشغلہ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ بھی دراصل کُجیاں ہی تو ہیں۔ جن میں بعض نے دنیا بھر کے ممالک کی Stamps اکٹھی کر رکھی ہیں۔ ہمارے ایک مرحوم دوست مکرم سید نادر سیدین سے میرا جب پہلی بار رابطہ ہوا تو وہ اپنے گھر میں ایک ایسے حصے میں لے گئے جہاں ایک Huge Library موجود تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نایاب کتب، سکے (coins)، میڈلز، بیجز، metal کے نایاب key chains استعمال شدہ ٹکٹ Stamps، غیر استعمال شدہ یعنی mint stamps اور ان ٹکٹوں پر مشتمل سینکڑوں البم بھی ان کے ذخیرے میں شامل تھیں، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح کی نایاب اشیاء اکٹھی کرنا میرا مشغلہ ہے۔ جن کو اگر الماریوں میں رکھا جائے تو اس کے لیے لا محالہ دس مرلہ پر تعمیر شدہ ہال کمرہ مشکل سے کفایت کرے گا۔ ان کا یہ پروگرام بھی تھا کہ وہ اپنی ان کجیوں کو ایک میوزیم کی شکل دیں گے لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور ان کا یہ پلان ادھورا رہ گیا۔ ہمارے ایک مرحوم بزرگ اور مورخ احمدیت مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مجھے ایک دفعہ اپنے ساتھ اپنی لائبریری دکھانے اپنے گھر لے گئے۔ جہاں کتب کا ذخیرہ اور قدیم ترین اخبارات و رسائل کے تراشہ جات کی فائلز کی متعد د الماریاں دیکھ کر میں حیران و ششدر رہ گیا۔ کیونکہ میں نے مولانا مرحوم کو لاہور اپنے قیام کے دوران انارکلی میں تھڑوں اور زمین پر فروخت ہونے والی بڑی پرانی کتب کو الٹاتے پلٹاتے دیکھ کر اورورق گردانی کے بعد خریدتے اور اپنے سرمایہ میں اضافہ کرتے دیکھا تھا۔ مولانا مرحوم نے مجھے اپنی لائبریری میں بعض ایسی کتب بھی بڑے شوق سے دکھائیں جو صرف اور صرف مولانا کے پاس تھیں اور مجھے بتایا کہ پاکستان کی بڑی بڑی لائبریریوں (بعض لائبریریوں کے نام مولانانے لیے) میں بھی یہ کتب کا ذخیرہ موجود نہیں۔ انہوں نے بتایا بے شمار کتب ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک ایک کتاب کو خریدنے اور حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سینکڑوں میل کا سفر کیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب اپنے شوق کی خاطر نہیں کیا تھا بلکہ جماعت کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے جو کتاب یا تراشہ انہیں اہم لگتا تھا اس کو اپنی کجی میں شامل فرما لیتے تھے۔ ملتان سے مکرم غلام نبی صاحب بھی اسی طرح کی کجیاں رکھنے میں ممتاز تھے۔

الفضل آن لائن کی ہماری ٹیم میں ایک دوست مکرم ایم اے شہزاد ہیں جن کی کجی ان کی لیپ ٹاپ ہے جس میں پانچ لاکھ سے زائد کتب بطور ای لائبریری موجود ہیں۔ یہ ان کا مشغلہ ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر دنیا بھر کی کتب کو اپنی لائبریری کی کُجی میں شامل کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

پرانے وقتوں میں سینکڑوں احباب نے الفضل کو جلدیں کروا کے اپنے گھروں میں محفوظ کر رکھا تھا۔ جن کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ الفضل کا ایک ایک شمارہ ایک ایک ہزار روپے میں فروخت ہو گا۔ ہمارے ایک مربّی بھائی مکرم احمد طاہر مرزا نے گھانا سے مجھے بتایا کہ الفضل کے پرانے اخبار سکین کرکے محفوظ کرنا میرا مشغلہ ہے۔

مضمون طوالت پکڑتا جا رہا ہے۔ اسی پر بس کرتے ہوئے صرف اتنا تحریر کر دیتا ہوں کہ لوگوں نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے رنگا رنگ کے پھول، موروں کے پر اور خوبصورت تتلیاں اپنی کُجیوں میں جمع کر رکھی ہیں جن سے اللہ کی وحدانیت، اس کی یکتائی اور قدرت کے جلوے یاد آتے ہیں۔

الغرض کُجی ذخیرہ کرنے کی وہ عمدہ چیز ہے جو انسان کے اپنے کام تو آتی ہی ہے۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کی اولاد اور عزیزو اقارب کے بھی کام آجاتی ہے۔ اسی لئے علم کو صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔

خاکسار کے اداریہ ’’کُجیاں‘‘ پر جو بہت سی آراء موصول ہوئیں ان میں سے دو آراء اپنے اس مضمون میں حُسن پیدا کرنے کے لیے یہاں دی جارہی ہیں۔

•مکرم چوہدری صفدر نذیر گو لیکی نے خاکسار کے کُجیاں نامی مضمون پر لکھا کہ ’’آپ کا مضمون کُجیاں پڑھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ خاکسار کی ایک ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی خاکسار نے انہیں چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جو 25ہزار روپے تھا۔ انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو 20ہزار نکلے اور باقی کی ادائیگی کا سوچنے لگے۔ فوراً خیال آیا کہ میں نے ایک مٹی کا گلہ رکھا ہوا ہے اس کی طرف چلتے ہیں۔ جب اس کو توڑا تو25ہزار روپے کے لگ بھگ رقم نکل آئی اور وہ اپنے ذمہ چندہ سے زائد ادا کرکےسر خرو ہوئے۔‘‘

•مکرمہ امۃ الشافی رومی جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ بھارت نے لکھا کہ ’’کُجیاں نام سے موسوم اداریہ صرف بچوں کے لیے نہیں بلکہ تمام جماعتی افراد کے لیے بہت اچھا سبق ہے۔ زندگی کو آسان کرنے اور خدا تعالیٰ کے افضال کا وارث بننے کا عمدہ طریق بھی ہے۔ یہ محض الفضل کی برکت ہے کہ ہر روز ہماری تربیت کے سامان ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہر آن ہمارے ساتھ ہو اور ہماری کُجیوں کی رقوم اور علوم و فنون کو اپنی اور اپنی نسل کی فلاح و بہبود اور جماعت احمدیہ کی ترقیات کے لیے استعمال کرنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین

( ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

مسجد بیت الفتوح Kenge کی تقریب افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2022