• 23 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 2)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ
قسط 2

جسمانی صحت کے لیے کھیل اور ورزش ضروری ہے

جب مَیں لاہور گیا تو ایک جگہ موٹر خراب ہو گئی۔ وہاں قریب ہی کرکٹ کی کھیل ہو رہی تھی۔ کرکٹ کے ایک شوقین دوست ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے شوق ظاہر کیا کہ کھیل دیکھ لیں میں بھی وہاں چلا گیا۔ وہاں ہندوستان کے ایک مشہور لیڈر آگئے اور مجھے دیکھ کرحیرانی سے کہنے لگے آپ بھی یہاں آگئے میں نے کہا یہاں آنے میں کیا حرج ہے؟ کہنے لگے یہاں کھیل ہو رہی ہے۔ میں نے کہا میں تو خود ٹورنامنٹ کراتا ہوں اور کھیلنے بھی جاتا ہوں۔ پہلے فٹ بال بھی کھیلا کرتا تھا مگر اب صحت اسے برداشت نہیں کرتی۔

اُنہیں یہ باتیں سُن کر بہت تعجب ہوا۔ گویا پڑھے لکھے مسلمانوں کے دلوں میں یہ خیال ہے کہ دین اور ورزش ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تلوار کی کھیل خود کراتے۔

حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ تیر اندازی کے موقع پر خود بھی خواہش ظاہر کی کہ میں بھی شامل ہوتا ہوں۔ صحابہؓ نے کہا آپ جس فریق کے ساتھ شامل ہوں گے اُس کے خلاف کس طرح کوئی مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گا۔آپﷺ حضرت عائشہؓ کے ساتھ مقابلۃً دَوڑے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام منگلیاں پھیرا کرتے تھے۔ ایک دوست کے پاس اب بھی موجود ہے اور ایک ہمارے گھر میں ہے۔ میں نے خود بھی منگلیاں خریدیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کو پتہ لگا تو آپؑ نے فرمایا مجھے دکھاؤ۔ پہلے تو میں ڈرا کہ شاید ناراض ہوں مگر جب لے کر گیا تو دیکھ کر فرمانے لگے ہلکی ہیں میں یہ نہیں پھیر سکتا۔

تو دو نبیوں کے متعلق تو ہمیں معلوم ہے کہ ورزش میں حصہ لیتے تھے۔ خود رویا میں مجھے بتایا گیا کہ ورزش نہ کرنا بعض حالات میں گناہ ہوتا ہے کیونکہ پھر انسان دین کے کاموں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ پس میں دوستوں سے اُمید کرتا ہوں کہ جو کسی رنگ میں معذور نہ ہوں ایسی ورزشیں اختیار کریں جو صحت کو عمدہ بنانے، تکالیف برداشت کرنے کے قابل بنانے، بہادری اور جرأت پیدا کرنے والی ہوں۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ 338)

تجارت کے اصول

تجارت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔تجارت کے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے اور سرمایہ ہمارے پاس نہیں اِ س لئے ہم تجارت نہیں کر سکتے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ایک ہندو نے بتایا تجارت ڈیڑھ پیسہ سے شروع کرنی چاہئے۔ فرماتے ایک شخص کو دیکھا جو لکھ پتی تھا مگر اس کا بیٹا پکوڑوں کی دکان کرتا تھا۔ پوچھا یہ کیا تو کہنے گا اگر ابھی اِسے سرمایہ دے دیا جائے تو ضائع کر دے گا۔ اب اتنے کام سے ہی اسے تجربہ حاصل کرنا چاہئے، یہ اِسی سے اپنی روٹی چلاتا ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ446)

توکل اور تدبیر

شریعت نے بھی مختلف حالات کے متعلق مختلف احکام بیان کئے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرمایا کرتے تھے ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا زکوٰة کے متعلق کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے کہا زکوٰة کے متعلق دو حکم ہیں۔ ایک تمہارے لئے اور ایک میرے لئے۔ تمہارے لئے تو یہ حکم ہے کہ چالیس پر ایک روپیہ زکوٰة دو۔ لیکن میرے لئے یہ حکم ہے چالیس پر 41 روپے دوں۔ اس نے کہا یہ فرق کیوں؟ فرمانے لگے مجھے خداتعالیٰ نے توکّل کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور تجھے تدبیر کے مقام پر۔ تم اگر مال جمع کرو تو تمہارے لئے یہ حکم ہے کہ چالیس پر ایک روپیہ دو۔ لیکن میں چونکہ توکّل کے مقام پر ہوں اِس لئے اگر میرے پاس چالیس روپے جمع ہو جائیں تو اِس لئے 41 دوں کہ مجھے جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جمع کرنے پر مجھے ایک روپیہ زائد جمع شدہ سے جرمانہ دینا چاہئے۔

غرض ہماری جماعت میں دونوں گروہ ہیں توکّل والا بھی اور تدبیر والا بھی۔ تدبیر والے گروہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر جائز تدبیر سے کام لے اور اپنے لواحقین کے لئے جو انتظام ممکن ہو کرے اور توکّل والے کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنا معاملہ خداتعالیٰ پر چھوڑ دے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے۔ آپﷺ کوئی سرمایہ نہ رکھتے تھے۔ اگر آپﷺ کے پاس ایک درہم بھی آیا تو آپﷺ نے محتاجوں میں تقسیم فرما دیا۔ مگر بیویوں کے لئے سال کا غلّہ مہیا کر دیتے تھے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ465)

بحث نشہ آور چیز ہے

عام طور پر جب لوگ مشورے کرتے ہیں تو بحث و مباحثہ کی رو کے ماتحت کج بحثی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔بحث اچھی چیز ہے اس سے بہت سی حقیقتیں کھل جاتی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے۔ جب لوگ کسی امر کے متعلق بحث کر رہے ہوتے ہیں تو وہ نشہ محسوس کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان سے وہ مسئلہ پوشیدہ ہو جاتا ہے جس کے متعلق بحث شروع کی جاتی ہے وہ کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں۔

ان کی مثال اس چیتے کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کہیں سِل پڑی تھی جسے وہ چیتا چاٹنے گا۔چاٹتے چاٹتے اس کی زبان سے خون نکل آیا۔ اس پر اس نے یہ سمجھا کہ سِل چاٹنے سے مزا آرہا ہے اور آخر چاٹتے چاٹتے اس کی ساری زبان کٹ گئی۔

بحث و مباحثہ میں بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ جب کوئی ایسا شخص اس میں شامل ہوتا ہے جو اپنے نفس پر پوری طرح قابو نہیں رکھتا تو اس مسئلہ کا خیال اس کے دل سے محو ہو جاتاہے۔ وہ بحث میں ایسی لذت پاتاہے کہ گویا اس کی ساری ترقیات کا مدار اس پر ہوتاہے کہ اسے جیتا ہوا سمجھا جائے۔ ایسی بحث لعنت کا موجب بن جاتی ہے اور بحث کرنے والے کو تبا ہ کر دیتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ477-478)

مسلمان قاضی کی حالت

بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ایک شخص کو قاضی مقرر کر دیا۔ اُس کے دوست یہ سمجھ کر آئے کہ وہ خوش ہو رہا ہو گا ہم بھی اس کی خوشی میں شریک ہوں۔ مگرآکر دیکھا کہ وہ رو رہا تھا۔ اُنہوں نے پوچھا کیوں رو رہے ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا۔ اُس نے کہا میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں۔ بادشاہ نے میرے سپرد ایسا کام کیا ہے جس کے متعلق مجھے ذاتی طور پر کوئی علم نہ ہو گا۔ میرے پاس مدعی اور مدعا علیہ اپنا مقدمہ لے کر آئیں گے۔ مدعی کو معلوم ہو گا کہ اصل بات کیا ہے اور مدعا علیہ کو بھی معلوم ہو گا کہ حقیقت کیا ہے مگر مجھے کچھ معلوم نہ ہو گا اور اُن کا فیصلہ کرنا میرا کام ہو گا۔ گویا دو بیناؤں کو مجھ نابینا کے سپرد کیا جائے گا کہ میں اُن کی راہنمائی کروں۔ دو عالموں کو مجھ جاہل کے سپرد کیا جائے گا کہ میں اُنہیں تعلیم دوں۔ اِس سے زیادہ میرے لئے خطرہ کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ479)

ہمیں دوسروں کی طاقت اور اپنی کمزوری دیکھ کر ڈرنا نہیں چاہئے ہماری کمزوری اور ناطاقتی سے ہم سے زیادہ واقف کوئی نہیں ہو سکتا۔ دُشمن ہمیں کمزور دیکھ کر کہتا ہے کچل کر رکھ دوں گا مگر وہ جتنا کمزور ہمیں سمجھتا ہے ہم اس سے بھی بہت زیادہ کمزور ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں ایک شخص نے کہا جسے غرور تھا کہ پنجاب میں ان کی رَو چلی ہوئی ہے کہ ہم احمدی جماعت کو کچل ڈالیں گے۔ اگر میرا نفس بھی موٹا ہوتا تو میں اُسے یہ جواب دیتا کہ تم ہمیں کیا کچلو گے ہم تمہیں کچل کر رکھ دیں گے۔ مگر مَیں اُس کی بات سُن کر مُسکرا پڑا۔ میرے نفس نے کہا جس جماعت کی کمزوری اور ناتوانی کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ رہا ہے کہ اسے کچل دیا جائے ہم جانتے ہیں یہ جماعت اُس سے بھی زیادہ کمزور ہے جس قدر اسے کمزور سمجھا جا رہا ہے۔ پھر میں اِس پر بھی مسکرایا کہ اُسے معلوم نہیں کہ ہم کس کی گود میں بیٹھے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو پہلوان سمجھتا ہے اور ہماری جماعت کو بچہ کی طرح کمزور قرار دیتا ہے۔ یہ اِس بچہ پر ہاتھ اُٹھاتا ہے اور اِس بات پر فخر کا اظہار کرتا ہے کہ ہم اسے کچل کر اور مسل کر رکھ دیں گے۔ اگر واقعہ میں یہ اپنے آپ کو پہلوان سمجھتا ہے اور اپنے مقابلہ میں جماعت احمدیہ کو بچہ قرار دیتا ہے تو اُسے شرم آنی چاہئے کہ ایک بچہ کے سامنے اِس قسم کا دعویٰ کرتا ہے لیکن کاش! اِس کی آنکھیں ہوتیں اور کاش وہ یہ دیکھتا کہ یہ بچہ ایسے باپ کی گود میں بیٹھا ہے جس کے مقابلہ میں ساری دُنیا کی طاقتوں کی حقیقت مچھر کے برابر بھی نہیں اور تمام دُنیا کے طاقتور چیونٹی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ اس کا یہ کہنا کہ ہم جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں گے بے شک ظاہری سامان ایسے ہی ہیں کہ کچل دیں مگر اِس جماعت کی حفاظت کے لئے ایک ایسی ہستی کھڑی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ ایک لمحہ میں بڑے سے بڑے دشمن کو ملیامیٹ کر سکتا ہے۔

اِس کے متعلق ایک مثال ہی کیوں نہ پیش کر دی جائے، ایک جج تھا جس کے سامنے ایک مقام کی جماعت احمدیہ کا ایک مقدمہ پیش تھا اُس سے توقع تھی کہ احمدیوں کے حق میں فیصلہ کرے گا۔وہاں کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ دعا کی جائے خدا تعالیٰ کامیابی عطا کرے۔ آپؑ نے لکھا دعا کی گئی ہے، خدا تعالیٰ فضل کرے گا۔ لیکن ظاہر ی حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ وہ جج جو احمدیوں سے ہمدردی رکھتا تھا بدل گیا اور ایک ایسا جج آگیا جسے احمدیوں سے سخت عداوت تھی اور جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ احمدیوں کے خلاف فیصلہ کرے گا۔ آخر اُس نے فیصلہ کے نوٹ لکھ لئے اور جس دن وہ عدالت میں فیصلہ سُنانے والا تھا احمدیوں کو سخت گھبراہٹ پیدا ہو گئی تھی کہ آج ان کے ہاتھ سے مسجد نکل جائے گی جس کے متعلق مقدمہ تھا۔ اُس وقت بعض کو یہ بھی خیال آرہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تو لکھا تھا کہ خداتعالیٰ فضل کرے گا اور کامیابی ہو گی، مگر اب تو بات انتہاءکو پہنچ چکی ہے، پھر کامیابی کس طرح ہو گی؟ آخر جج نے فیصلہ کے کاغذات لئے اور کپڑے پہن کر کچہری میں جانے لگا تاکہ فیصلہ سُنائے۔ اُس وقت اس نے نوکر سے کہا بوٹ پہنا دے۔ وہ بوٹ پہنا رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا جج صاحب کو جھٹکا لگا ہے اُوپر نگاہ کر کے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جج صاحب کی جان نکل چکی ہے۔ اِس طرح اُس کا فیصلہ لکھا لکھایا ہی رہ گیا اور ایک دوسرے جج نے فیصلہ کیا جو احمدیوں کے حق میں تھا۔

تو ایسے فیصلے ہوا کرتے ہیں لیکن دُنیا اپنی طاقت کو دیکھتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ اِس طاقت کو ایک لمحہ میں سلب کر لینے والی ہستی بھی موجود ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ483-484)

حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا نشان نصرت الٰہی

جن کو خداتعالیٰ دُنیا کی اصلاح کے لئے چُنتا ہے وہ جب دُنیا سے کہتے ہیں کہ ہم غالب ہو جائیں گے، کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور دُنیا اُن سے کہتی ہے تمہیں مسل کر رکھ دیا جائے گا۔ تو اُس وقت دُنیا خود کہتی ہے کوئی انسانی تدبیر اسے ہم پر غلبہ نہیں دلا سکتی۔انسانی تدبیر نے ہمیں غلبہ دیا ہوا ہے۔ تب خداتعالیٰ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے جو اُس کو طاقتور اور اُس کے مخالفوں کو کمزور بنا دیتی ہے۔ اُس وقت وہ خود یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہمیں یہ اپنی تدبیر اور اپنی کوشش سے کبھی مغلوب نہیں کر سکتا تھا۔ تب خداتعالیٰ اسے غالب کرتا ہے تو دُنیا کو ماننا پڑتا ہے کہ یہ اپنے آپ غالب نہیں ہوا بلکہ ایک اور طاقت تھی جس نے اسے غلبہ عطا کیا ہے۔یہی وہ آواز تھی جو ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ اُٹھی جس کا اُس وقت کوئی بھی ساتھی نہ تھا۔ اس نے خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر اعلان کیا کہ ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا۔ پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اسے قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ پھر اُسی وقت کی یہ آواز تھی کہ’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں جوانی کے ایام میں بٹالہ گیا۔ وہاں نیا نیا وہابیوں کا چرچا شروع ہوا تھا۔ ایک مولوی صاحب کے ساتھ بحث کرنے کے لئے آپ کو کہا گیا۔ اُس وقت آپ کا کوئی دعویٰ نہ تھا۔ فرماتے مجھے لوگ مباحثہ کے لئے لے گئے۔ میں جب وہاں گیا تو جس شخص سے مباحثہ ہونا تھا اُسے میں نے کہا آپ اپنا عقیدہ پیش کریں اگر وہ صحیح ہو گا تو میں تسلیم کر لوں گا ورنہ بحث کروں گا۔ اُس نے کہا میرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن سب پر مقدم ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو قول صحیح ثابت ہو اُسے ماننا چاہئے میں نے کہا یہ تو بالکل درست عقیدہ ہے اور بحث کو ترک کر دیا۔ اِس پر وہی لوگ جو ساتھ لائے تھے مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور دوسروں نے کہا اِسے شکست ہو گئی ہے۔

گویا اُس وقت سارے کے سارے لوگ خلاف ہو گئے۔ تب یہ الہام ہوا۔ ’’تیرا خدا تیرے اِس فعل سے راضی ہوا۔ اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔ گویا یہ الہام اُس وقت ہوا جب آپ نعوذ باللہ ذلیل وجود سمجھے گئے۔ اور یہ کہا گیا کہ آپ ہار گئے ہیں۔ ایسے وقت میں یہ آواز آپ نے اُٹھائی۔ اب دیکھو یہ کیسی سچی ثابت ہوئی

ایک دفعہ ایک امریکن نے جو قادیان آیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا یسوع مسیح تو معجزے دکھاتا تھا آپ کے معجزات کون سے ہیں؟ آپؑ نے فرمایا آپ بھی میرا معجزہ ہیں۔ اس نے کہا یہ کس طرح۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا جب مجھے میرے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے تھے اُس وقت میں نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر کہا تھا یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ اِس میں خداتعالیٰ نے بتایا تھا کہ دُنیا کے گوشوں سے کھینچ کر لوگوں کو یہاں لاؤں گا۔ آپ اب جو آئے ہیں تو اِسی لئے آئے ہیں ورنہ آپ کو مجھ سے اور کیا تعلق تھا۔

پس یہ بات یاد رکھیں کہ کسی امر کے متعلق مشورہ کرتے وقت اپنی قوت اورطاقت کو نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ اِس امر کی دین کو سچی ضرورت ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو خواہ ہمارے جسموں کی آخری بوٹی تک اُڑ جائے وہ کام ہمیں کرنا چاہئے۔ جہاں خداتعالیٰ ایسی حالت میں اپنی قدرت نمائی کرتا اور کامیابی کے سامان پیدا کردیتا ہے وہاں یہ بات بھی مدّنظر رکھتا ہے کہ اُس کے بندے صحیح ایمان اور یقین کے ساتھ بات کریں۔ اور جتنا صحیح اور پختہ ایمان ہو گا اُتنی ہی عظیم الشان کامیابی ہو گی لیکن اگر دل میں کامیابی کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ ہو گا تو کامیابی میں اتنی ہی کمی اور توقّف ہو گا۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ489-491)

سب کو ایک جیسا نہ سمجھو

عام طور پر لوگ یہ خیال کر لیا کرتے ہیں کہ جب ہم طاقتور ہیں تو سب لوگ طاقتور ہوں گے۔

ایک لطیفہ مشہور ہے کہ بادشاہ کا ایک حجام تھا۔ وزراء بھی اُسی سے حجامتیں کرایا کرتے تھے۔ ایک دن ایک وزیر نے خوش ہو کر اُسے پانچ سَو اشرفی دے دی۔ اس کے بعد کسی دن ایک امیر نے اُس سے پوچھا شہر کا کیا حال ہے؟ تو اُس نے کہا لوگ بہت مزے میں ہیں۔ روپیہ کی اتنی بہتات ہے کہ کوئی شخص ایسا نہ ہو گا جس کے پاس کم از کم پانسو اشرفی نہ ہو۔ اُس کی یہ بات جب پھیلی تو دوسرے امراءبھی مذاق کے طور پر اُس سے یہی پوچھتے اور وہ سب کو یہی جواب دیتا۔ آخر تجویز کی گئی کہ اِس کی تھیلی کسی طرح اُڑا لی جائے۔ چونکہ وہ اُسے ساتھ لئےِ پھرتا تھا۔ کسی نے اُٹھا کر کہیں چھپا دی۔ چونکہ وہ اِس کے متعلق امراء سے کچھ کہہ نہ سکتا تھا اِس لئے چُپ ہو گیا۔ پھر جو آیا تو اُس سے پوچھا گیا بتاؤ شہر کا کیا حال ہے؟ کہنے لگا حال کیا ہے۔ سب لوگ بُھوکے مرتے ہیں، کسی کے پاس کچھ نہیں اُس امیر نے اُسے تھیلی دے دی اور کہا لو اپنی تھیلی اور شہر کو بُھوکا نہ مارو۔

تو یہ تباہی و بربادی کا بیج ہوتا ہے کہ سب کو ایک جیسا سمجھ لیا جائے حالانکہ وہ ایسے نہ ہوں۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ492)

نشانہ لگانا سیکھو

میں ابتدائی ایام سے بندوق چلانے کا شائق رہا ہوں بچپن میں ہی مجھے شکار کھیلنے کا شوق تھا۔ میں شکار مار کر خود نہ کھاتا تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو لا کر دے دیتا تھا۔ آپؑ چونکہ دماغی کام کرتے تھے اس لئے شکار کا گوشت آپ کے لئے مفید ہوتا اور آپ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔ اس وقت مجھے اتنی مشق تھی کہ میں پانچ چھ چَھرّے لے جاتا اور ہوائی بندوق سے چار پانچ پرندے مار لاتا۔ حالانکہ وہ بندوق بھی معمولی قسم کی ہوائی بندوق ہوتی تھی۔

میری یہ رائے ہے کہ نشانہ معمولی قسم کے اوزار سے بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی قسم کی نشانہ بازی کا رواج ہو جائے۔ تو جماعت میں ایسی مشاقی پیدا ہو جائے گی کہ اگر کبھی بندوق چلانے کا موقع ملے تو اچھا نشانہ لگا سکیں گے اس وجہ سے میری تجویز یہ ہے کہ ایسی کلبیں بنائی جائیں کہ ان میں ہر قسم کی نشانہ بازی کی مشق کرائی جائے۔ حتی کہ جہاں کے لوگ ہوائی بندوق بھی نہ خرید سکیں وہ بھی نشانہ بازی کر سکیں۔ اور نہیں تو تیر ہی چلانے کی مشق کریں۔ اب تیر چلانے کا رواج نہیں رہا پہلے اِس قسم کی لوگوں کو بہت مشق ہوتی تھی۔حتی کہ اس کے ساتھ جانور مار لیا کرتے تھے۔

ایک فرانسیسی سیاح برنیر لکھتا ہے۔ ایک علاقہ میں سپاہیوں نے ایک بڑھیا کا گھر لوٹ لیا اور اسے پکڑ کر لے چلے۔ بڑھیا نے کہا جب میری بیٹی آئے گی تو تم لوگوں کو نقصان پہنچائے گی۔ بہتر ہے کہ مجھے چھوڑ دو مگر اُنہوں نے نہ مانا۔ آخر دیکھا کہ دور سے گھوڑے پر سوار ایک عورت آرہی ہے اس نے پاس آکر سپاہیوں سے کہا میری ماں کو چھوڑ دو مگر اُنہوں نے نہ چھوڑا۔ اس نےِ تیر مار کر ان میں سے ایک کو گرا دیا۔ اسی طرح باری باری اس نے پانچ چھ کو مار دیا اور باقی بھاگ گئے۔

گو میں سمجھتا ہوں تیر کا نشانہ اور طرح کا ہوتا ہے اور بندوق کا اور طرح کا۔ لیکن ہاتھ اور آنکھ کو نشانہ لگانے میں جو پریکٹس ہو جاتی ہے۔ اس سے ہر موقع پر نشانہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔…. چاہے تیر چلاؤ، چاہے غلیل چلاؤ، چاہے ہوائی بندوق چلاؤ، چاہے رائفل چلاؤ۔ مگر نشانہ لگانا سیکھو۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ506-507)

عقل مند بیوی

ایک شخص کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا۔ اُسے اور تو کوئی وجہ نہ ملی۔ اس نے بیوی کو روٹی پکاتے دیکھا تو کہنے لگا روٹی تو تم ہاتھوں سے پکاتی ہو تمہاری کُہنیاں کیوں ہلتی ہیں۔ عورت تھی سمجھدار۔ اُس نے دیکھا خواہ مخواہ لڑائی کے لئے بہانہ بنا رہا ہے اُس نے کہا بے شک مجھے گھر سے نکال دینا مگر خواہ مخواہ غصہ سے اپنا دل کیوں بُرا کرتے ہو۔ آرام سے کھانا کھا لو پھر جو مرضی ہو کرنا۔ وہ جب کھانا کھانے لگا تو عورت جوتی لے کر کھڑی ہو گئی کہ بتاؤروٹی تو تم منہ سے کھاتے ہو تمہاری داڑھی کیوں ہلتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ 551)

اپنے عملوں پر نہیں خدا کے فضل پر نظر رکھو

ہمارے دوستوں کو اپنے کاموں میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہئے۔ اگر کسی نے جنت کے مطابق عمل کر لئے تو وہ بَری ہو سکتا ہے لیکن اگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا حتّٰی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہیں کہا کہ آپ اعمال سے بری ہو گئے ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ عرض کیا جب خداتعالیٰ نے آپﷺ سے کہہ دیا ہے کہ آپﷺ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں تو رات کو اِتنی اِتنی دیر عبادت کے لئے آپﷺ کیوں کھڑے رہتے ہیں؟ اِس پر آپﷺ نے فرمایا کیا میں عبدِشکور نہ بنوں۔

پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متعلق سمجھتے ہیں کہ آپ اس حد کو نہیں پہنچے کہ خداتعالیٰ سے کہہ سکیں میں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی تو اَور کون کہہ سکتا ہے؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے جب آپ فوت ہونے لگے تو ان کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ ’’الٰہی! میں کوئی انعام نہیں چاہتا۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری کوتاہیوں پر مجھ سے گرفت نہ ہو۔ میرے لئے یہی انعام بہت بڑا ہے‘‘۔اگر اُن کا یہ معیار ہے کہ دین کی بہت بڑی خدمات کر کے بھی اپنے آپ کو قاصر سمجھتے تو عوام اگر یہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی تو بہت بڑی کوتاہی اور غفلت کی بات ہو گی۔ ہمارے اندر جو لوگ کوتاہی کرنے والے ہیں ان کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خود اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو دوسروں کی کوتاہی کو دُور کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی میں سفید بال آگئے تو آپﷺ نے فرمایا سُورة ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ کیونکہ اِس میں دوسروں سے متعلق ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو دوسروں کی ذمہ داری کو بھی جماعت کے نمائندے سمجھیں۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ565)

کیا آپ استاد ہیں؟

ایک بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جج تھے۔ انگریزی کی کتابوں میں بھی ان کے قصے آتے ہیں۔

ایک قصہ میں ذکر ہے کہ ان کے سامنے گواہوں کی ایک جماعت پیش ہوئی۔ تو ان میں سے ایک کے متعلق اُنہوں نے کہا کیا آپ اُستاد ہیں؟ اس نے کہا ہاں۔ کسی نے پوچھا آپ نے کس طرح معلوم کر لیا کہ یہ استاد ہیں؟ انہوں نے کہا استاد کا طالب علموں سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ حکم چلانے کا عادی ہوتا ہے اِس وجہ سے اِس میں بھی آداب مفقود ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے قدرتی طور پر حکم کرنے والوں سے آداب مفقود ہو جاتے ہوں مگر اسلام اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں جتنا کوئی بڑا ہو اُتنا ہی زیادہ مؤدب ہوتا ہے۔ اس بات کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہئے اور اس کے مطابق اپنا طریقِ عمل بنانا چاہئے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ575)

عقل خدا کی دین ہے

دُنیا میں عقلمند سے عقلمند انسان دوسرے سے سبق حاصل کر سکتا ہے اور کسی کی بات ردّ کرنے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اُس کی بے وقوفی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات ایسا شخص 99 دفعہ اچھی بات سوچ لیتا ہے لیکن سَو ویں دفعہ اُسے دوسرے سے سبق مل جاتا ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ576)

امام ابو حنیفہؒ نے کیا ہی عمدہ بات فرمائی ہے۔ کسی نے اُن سے کہا کیا کسی نے آپ کو بھی کبھی ایسی نصیحت کی جس کا آپ کے دِل پر گہرا نقش ہوا؟ اُنہوں نے کہا کبھی کسی بڑی عمر کے انسان نے کوئی بات ایسی مجھے نہیں بتائی جو غیر معمولی طور پر یاد رکھنے کے قابل ہو، ہاں ایک بچہ نے مجھے ایسی بات کہی تھی۔ اُس نے پوچھا وہ کیا؟ فرمایا وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی، چھوٹی عمر کا ایک بچہ تھا جو اِدھر اُدھر دَوڑ رہا تھا مَیں نے خیال کیا کیچڑ میں وہ گر پڑے گا اِس وجہ سے میں نے اُسے کہا میاں بچے! سنبھل کر چلو ایسا نہ ہو کہ پاؤں پھسل جائے اور گر پڑو۔ یہ سُن کر اُس نے میری طرف مُڑ کر دیکھا اور کہا امام صاحب! آپ اپنی فکر کریں۔ مَیں پِھسلا تو میری اپنی ہی ہڈی پسلی ٹوٹے گی لیکن اگر آپ پھسلے تو اور بھی بہت سے لوگ تباہ ہو جائیں گے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ480)

امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ یہ ایسا قیمتی سبق تھا کہ اِس پایہ کا اور کوئی سبق مجھے نہیں ملا۔

اصل بات یہ ہے کہ عقل خداتعالیٰ کی دین ہے۔ اُس نے عقل تقسیم کرتے وقت ساری کی ساری کسی ایک کو نہیں دے دی بلکہ سب میں بانٹ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدصُورت سے بد صُورت چیز کے بھی بعض حصے خوبصورت ہوں گے۔ اسی طرح بےوقوف سے بیوقوف کی بات کا بھی کوئی نہ کوئی حصہ اچھا ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک خادم پیرا نام تھا۔ وہ اتنا کم فہم تھا کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے کہ ہفتوں بڑی کوشش سے اُسے کلمہ یاد کرایا۔ ایک دفعہ اُس سے کسی نے پوچھا تمہارا مذہب کیا ہے؟ کہنے لگا ہمارے گاؤں کے پنچ کو معلوم ہے اُس سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ مگر باوجود ایسی عقل و سمجھ رکھنے کے وہ بھی بعض اوقات عقل کی بات کر جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے تار دینے کے لئے اُسے بٹالہ بھیجا۔ وہاں سے آکر اُس نے بتایا کہ مجھے مولوی محمد حسین بٹالوی ملا تھا۔ کہنے لگا وہاں کیوں رہتے ہو؟ وہاں سے چلے جاؤاور بھی بہت باتیں کرتا رہا۔ میں نے اُسے کہا میں کچھ پڑھا لکھا تو ہوں نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ مرزا صاحب وہاں اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے ان کے پاس آتے ہیں۔ تم لوگوں کو ان کے پاس جانے سے روکتے رہتے ہو مگر کوئی تمہاری بات نہیں سنتا اور تم اِدھر اُدھر مارے مارے پھرتے ہو۔

یہ اُس کے منہ سے بھی ایسی بات نکل گئی جو بالکل سچی اور پکی تھی اور جس کا مولوی محمد حسین صاحب جیسے عالم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔پس اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ اس کے سِوا کوئی اور عقل کی بات نہیں کر سکتا تو یہ غلط خیال ہے اور اِس وجہ سے اپنی بات کی پچ اور ضِدّ پیدا ہو جاتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد 1صفحہ576-577)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاء اللہ)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

مسجد بیت الفتوح Kenge کی تقریب افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2022