• 17 مئی, 2024

خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍ اکتوبر 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔ فتوحات بھی ملی ہوں اور عدل و انصاف بھی قائم کیا ہو۔

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی عظیم الشان فتوحات کے اسباب و عوامل

حضرت عمرؓ کی شہادت کے واقعہ کا تفصیلی بیان

دو مرحومین مکرم قمر الدین صاحب مبلغِ سلسلہ انڈونیشیا اور مکرمہ صبیحہ ہارون صاحبہ اہلیہ سلطان ہارون خان صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ يَوۡمِ الدِّيۡنِؕ﴿۴﴾ إِيَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِيَّاکَ نَسۡتَعِيۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ﴿۶﴾  صِرَاطَ الَّذِيۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡہِمۡ ۬ۙ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّيۡنَ﴿۷﴾

حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے زمانے کي فتوحات کا ذکر ہوا تھا ۔ حضرت عمرؓ کي سيرت و سوانح لکھنے والے ايک سيرت نگار علامہ شبلي نعماني حضرت عمرؓ کي فتوحات اور اس کے اسبا ب اور عوامل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ ايک مؤرخ کے دل ميں فوراً يہ سوالات پيدا ہوں گے کہ

چند صحرا نشينوں نے کيونکر فارس اور روم کا تختہ الٹ ديا؟

کيا يہ تاريخ عالم کا کوئي مستثنيٰ واقعہ تھا؟ (استثنائي واقعہ تھا؟) آخر اس کے اسباب کيا تھے؟ کيا ان واقعات کو سکندر اور چنگيز خان کي فتوحات سے تشبيہ دي جا سکتي ہے؟ جو کچھ ہوا، اس ميں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ يہ کہتے ہيں کہ ہم اس موقع پر انہي سوالات کا جواب دينا چاہتے ہيں ليکن اجمال کے ساتھ پہلے يہ بتا دينا ضروري ہے کہ فتوحات فاروقي کي وسعت اور اس کے حدود اربعہ کيا تھے۔ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ بائيس لاکھ اکاون ہزار تيس مربع ميل تھا۔ يعني مکہ مکرمہ سے شمال کي جانب دس سو چھتيس ميل، مشرق کي جانب دس سو ستاسي ميل اور جنوب کي جانب چارسوتراسي ميل تھا۔ يہ تمام فتوحات خاص حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي فتوحات ہيں اور اس کي تمام مدت دس برس سے کچھ ہي زيادہ ہے۔ يہ پس منظر جو بيان ہوا ہے جس کو تاريخ کے حوالے سے مَيں بيان کرنے لگا ہوں يہ اس ليے ہے کہ ان فتوحات کو سمجھنے کے ليے اس بات کا جاننا بھي ضروري ہے۔ بہرحال ميں بيان کرتا ہوں کہ يورپين مؤرخين کي ان فتوحات کے بارے ميں کيا رائے ہے۔ پہلے سوال کا جواب يورپين مؤرخوں نے يہ ديا ہے کہ اس وقت فارس اور روم دونوں سلطنتيں اوجِ اقبال سے گر چکي تھيں جو ان کا انتہا تھي وہاں تک وہ پہنچ چکي تھيں اور قانونِ قدرت ہے کہ انہوں نے نيچے گرنا ہي تھا۔ پھر کہتے ہيں کہ فارس ميں خسرو پرويز کے بعد نظامِ سلطنت بالکل درہم برہم ہو گيا تھا کيونکہ کوئي لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا ہو موجود نہ تھا۔ دربار کے عمائدين اور ارکان ميں سازشيں شروع ہو گئي تھيں اور انہي سازشوں کي بدولت تخت نشينوں ميں ادل بدل ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ تين چار برس کے عرصہ ميں ہي عنان حکومت چھ سات فرمانرواؤں کے ہاتھ ميں آئي اور نکل گئي۔ يورپين مؤرخين يہ کہتے ہيں کہ ايک اَور وجہ يہ ہوئي کہ نوشيرواں سے کچھ پہلے مُزْدَکِيَہ فرقہ کا بہت زور ہو گيا تھا جو الحاد اور زندقہ کي طرف مائل تھا۔ اس فرقہ کے عقائد يہ تھے کہ لوگوں کے دلوں سے لالچ اور ديگر اختلافات کو دور کر ديا جائے اور عورت سميت تمام مملوکات کو مشترکہ ملکيت قرار ديا جائے يعني عورت کي بھي کوئي عزت نہيں تھي تا کہ مذہب پاک اور صاف ہو جائے۔ يہ نظريہ تھا ان کا اور بعض کے نزديک يہ معاشرتي تحريک تھي جس کا مقصد زرتشتي مذہب کو مصفّٰي کرنا تھا۔ نوشيرواں نے گو تلوار کے ذريعہ اس مذہب کو دبا ديا تھا ليکن بالکل اس کو مٹا نہ سکا۔ اسلام کا قدم جب فارس ميں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حيثيت سے اپنا پشت پناہ سمجھا کہ وہ کسي مذہب اور عقائد سے تعرض نہيں کرتے تھے۔ يہ يورپين مؤرخين کا نظريہ ہے۔

پھر وہ لکھتے ہيں کہ عيسائيوں ميں نَسْطُوري فرقہ (Nestorian) جس کو اَور کسي حکومت ميں پناہ نہيں ملتي تھي وہ اسلام کے سائے ميں آ کر مخالفوں کے ظلم سے بچ گيا۔ اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقوں کي ہمدردي اور اعانت مفت ميں ہاتھ آ گئي۔ روم کي سلطنت خود کمزور ہو چکي تھي۔ اس کے ساتھ عيسائيت کے باہمي اختلافات ان دنوں زوروں پر تھے اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت ميں دخل تھا اس ليے اس اختلاف کا اثر مذہبي خيالات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کي وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتي جاتي تھي۔ علامہ اس موقف کي ترديد کرتے ہوئے بيان کرتے ہيں جو يورپين مؤرخين کي رائے ابھي بيان ہوئي ہے۔ کہتے ہيں کہ يہ جواب گو واقعيت سے بالکل خالي نہيں ہے ليکن جس قدر واقعيت ہے اس سے زيادہ طرزِ استدلال کي ملمع سازي ہے جو يورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس اور روم کي سلطنتيں اصلي عروج پر نہيں رہي تھيں ليکن اس کا صرف اس قدر نتيجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پُرزور قوي سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتيں نہ يہ کہ عرب جيسي بے سروسامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتيں۔ روم اور فارس فنون جنگ ميں ماہر تھے۔ يونان ميں خاص قواعدِ حرب پر جو کتابيں لکھي گئي تھيں اور جو اَب تک موجود ہيں روميوں ميں ايک مدت تک اس کا عملي رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کي فراواني تھي۔ سروسامان کي بہتات تھي۔ آلات جنگ کا تنوع تھا۔ مختلف قسم کي چيزيں تھيں۔ فوجوں کي کثرت ميں کمي نہيں آئي تھي اور سب سے بڑھ کر يہ کہ کسي ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک ميں اپنے قلعوں ميں اپنے مورچوں ميں رہ کر اپنے ملک کي حفاظت کرني تھي۔ مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہي پہلے خسرو پرويز کے عہد ميں جو ايران کي شان و شوکت کا عين شباب تھا قيصرِ روم نے ايران پر حملہ کيا اور ہر ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گيا۔ شام کے صوبے جو ايرانيوں نے چھين ليے تھے واپس لے ليے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کيا۔ ايران ميں خسرو پرويز تک عموماً مسلّم ہے کہ سلطنت کو نہايت جاہ و جلال تھا۔ خسرو پرويز کي وفات سے اسلامي حملے تک صرف تين چار برس کي مدت ہے۔ اتنے تھوڑے عرصہ ميں ايسي قوم اور قديم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتي تھي۔ البتہ تخت نشينوں کي ادل بدل سے نظام ميں فرق آ گيا تھا ليکن چونکہ سلطنت کے اجزا يعني خزانہ، فوج اورمحاصل ميں کوئي کمي نہيں آئي تھي اس ليے جب يزد گرد تخت نشين ہوا اور درباريوں نے اصلاح کي طرف توجہ کي تو فوراً نئے سرے سے وہي ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مُزْدَکِيَہ فرقہ گو ايران ميں موجود تھا ليکن ہميں تمام تاريخ ميں ان سے کسي قسم کي مدد ملنے کا حال معلوم نہيں ہوتا۔ يعني مسلمانوں کو کوئي مدد ملي ہو۔ اسي طرح فرقہ نسطوري کي کوئي اعانت ہميں معلوم نہيں۔ نَسْطُوري عيسائيوں کا ايک فرقہ ہے جس کا عقيدہ تھا کہ حضرت عيسيٰ کي ذات ميں الوہيت اور بشريت دونوں عليحدہ عليحدہ پائي جاتي تھيں۔ عيسائيت کے اختلافِ مذہب کا اثر بھي کسي واقعہ پر خود يورپين مؤرخوں نے کہيں نہيں بتايا۔

اب عرب کي حالت ديکھو۔ تمام فوجيں جو مصر اور ايران اور روم کي جنگ ميں مصروف تھيں ان کي مجموعي تعداد کبھي ايک لاکھ تک نہ پہنچي۔ فنونِ جنگ سے واقفيت کا يہ حال تھا کہ يرموک پہلا معرکہ ہے جس ميں عرب نے تَعْبِيَہْ کي طرز پر صف آرائي کي۔ تَعْبِيَہْ جنگ کے وقت فوج کي ايسي ترتيب جس ميں سپہ سالار يا بادشاہ جو لشکر کي کمان کرتا ہے تمام فوج کے درميان ميں کھڑا ہوتا ہے۔ اس کو ترتيبِ تَعْبِيَہْ کہتے ہيں۔ خَود، زِرہ، چِلْتَہ (لوہے يا فولاد کي پوشاک) جَوشَنْ (زرہ کي ايک قسم) بکتر، چار آئينہ (فولاد کي چار پليٹيں جو سينے اور پشت اور دونوں رانوں پر باندھي جاتي تھيں) آہني دستانے، جِہْلَم (خود پر لگي ہوئي لوہے کي کڑياں يا نقاب) موزے جو ہر ايراني سپاہي کا لازمي ملبوس جنگ تھا۔ اس ميں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھي اور وہ بھي اکثر چمڑے کي ہوتي تھي۔ ان کا يہ سارا پروٹيکشن (protection) کا سامان لوہے کا تھا اور عربوں کے پاس اگر کچھ چھوٹا موٹا تھا بھي تو وہ چمڑے کا تھا۔ رکاب لوہے کي بجائے لکڑي کي ہوتي تھي۔ آلات جنگ ميں گُرز اور کَمَند سے عرب بالکل آشنا نہيں تھے۔ گرز ايک ہتھيار کا نام ہے جو اوپر سے گول اور موٹا ہوتا ہے اور نيچے دستہ لگا ہوتا ہے اور دشمن کے سر پر مارتے ہيں۔ کمند پھندہ يا جال يا رسي۔ عربوں کے پاس تير تھے ليکن ايسے چھوٹے اور کم حيثيت تھے کہ قادسيہ کے معرکے ميں ايرانيوں نے جب پہلے پہل عربوں کے ان تيروں کو ديکھا تو سمجھا کہ تکلے يا سوئے ہيں۔ مصنف علامہ صاحب ان کے اصلي اسباب بيان کرتے ہوئے لکھتے ہيں کہ ہمارے نزديک اس سوال کا اصلي جواب صرف اس قدر ہے کہ

مسلمانوں ميں اس وقت پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وسلم کي بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوصلگي، دليري پيدا ہو گئي تھي اور جس کو حضرت عمرؓنے اَور زيادہ قوي اور تيز کر ديا تھا۔

روم اور فارس کي سلطنتيں عين عروج کے زمانے ميں بھي اس کي ٹکر نہيں اٹھا سکتي تھيں۔ البتہ اس کے ساتھ اور چيزيں بھي مل گئي تھيں جنہوں نے فتوحات ميں نہيں بلکہ قيام حکومت ميں مدد دي۔ اس ميں سب سے مقدم چيز مسلمانوں کي راست بازي اور ديانت داري تھي۔ جو ملک فتح ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کي راست بازي سچائي کے اس قدر گرويدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلافِ مذہب کے ان کي سلطنت کا زوال نہيں چاہتے تھے۔ يرموک کے معرکے سے قبل جنگ کے ليے جب مسلمان شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عيسائي رعايا نے پکارا کہ خدا تم کو پھر اس ملک ميں لائے اور يہوديوں نے توريت ہاتھ ميں لے کر کہا کہ ہمارے جيتے جي قيصر اب يہاں نہيں آ سکتا۔ روميوں کي حکومت جو شام اور مصر ميں تھي وہ بالکل جابرانہ تھي اس ليے روميوں نے جو مقابلہ کيا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کيا، رعايا ان کے ساتھ نہيں تھي۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا، کوئي روک نہيں تھي۔ يعني رعايا کي طرف سے کسي قسم کي مزاحمت نہيں ہوئي۔ البتہ ايران کي حالت اس سے مختلف تھي۔ وہاں سلطنت کے نيچے بہت سے بڑے بڑے رئيس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے وہ سلطنت کے ليے نہيں بلکہ خود اپني ذاتي حکومت کے ليے لڑتے تھے۔ يہي وجہ تھي کہ پايہ تخت کے فتح کرلينے پر بھي فارس ميں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتيں پيش آئيں ليکن عام رعايا وہاں بھي مسلمانوں کي گرويدہ ہوتي جاتي تھي اور اس ليے فتح کے بعد بقائے حکومت ميں ان سے بہت مدد ملتي تھي۔ حکومت کے قيام ميں مدد ملتي تھي۔ ايک اَور بڑا سبب يہ تھا کہ مسلمانوں کا اوّل اوّل حملہ شام اور عراق پر ہوا اور دونوں مقامات پر کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام ميں دمشق کا حاکم غسّاني خاندان تھا جو برائے نام قيصر کا محکوم تھا۔ عراق ميں لَخْمِي خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے گو کسريٰ کو خراج کے طور پر کچھ ديتے تھے۔ ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عيسائي ہو گئے تھے اوّل اوّل مسلمانوں کا مقابلہ کيا ليکن قومي اتحاد کا جذبہ رائيگاں نہيں جا سکتا تھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئيس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ شام ميں آخر عربوں نے اسلام قبول کر ليا اور روميوں کي حکومت سے آزاد ہو گئے۔

سکندر اور چنگيز وغيرہ کا نام لينا يہاں بالکل بے موقع ہے۔

بے شبہ ان دونوں نے بڑي بڑي فتوحات حاصل کيں ليکن کس طرح؟ قہر ،ظلم اور قتلِ عام کي بدولت۔ چنگيز کا حال تو سب کو معلوم ہے۔ سکندر وغيرہ کي فتوحات کا اگر موازنہ کريں تو سکندر کي يہ کيفيت ہے کہ جب اس نے شام کي طرف شہر صُوْر

کو فتح کيا تو چونکہ وہاں کے لوگ دير تک جم کر لڑے تھے اس ليے قتل عام کا حکم ديا اور ايک ہزار شہريوں کے سر شہر پناہ کي ديوار پر لٹکا ديے گئے۔ جو فصيل تھي اس پر لٹکا ديے۔ اس کے ساتھ تيس ہزار باشندوں کو لونڈي غلام بنا کر بيچ ڈالا۔ جو لوگ قديم باشندے اور آزادي پسند تھے ان ميں سے ايک شخص کو بھي زندہ نہيں چھوڑا۔ اسي طرح فارس ميں جب اِصْطَخْر (اِصْطَخْر فارس کے قديم شہروں ميں سے تھا اس) کو فتح کيا تو تمام مردوں کو قتل کر ديا۔ اسي طرح کي اَور بھي بے رحمياں اس کے کارناموں ميں مذکور ہيں يعني سکندر کے کارناموں ميں۔ پھر اسلامي فتوحات سے اس کا کس طرح موازنہ ہو سکتاہے۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتي ہے۔ يہ اس لحاظ سے صحيح ہے کہ ظلم کي بقا نہيں۔ چنانچہ سکندر اور چنگيز کي سلطنتيں بھي ديرپا نہ ہوئيں ليکن فوري فتوحات کے ليے اسي قسم کي سفاکياں کارگر ثابت ہوئي ہيں۔ اس کي وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے اور چونکہ رعايا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے اس ليے بغاوت اور فساد کا انديشہ باقي نہيں رہتا۔ يہي وجہ ہے کہ چنگيز، بُخْتُ نَصر، تيمور، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہيں سب کے سب سفاک بھي تھے ليکن

حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي فتوحات ميں
کبھي قانون اور انصاف سے تجاوز نہيں ہو سکتا تھا۔

آدميوں کا قتل عام ايک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کي اجازت نہيں تھي۔ بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہيں کيا جا سکتا تھا۔ بجز عين معرکہ کارزار کے کوئي شخص قتل نہيں کياجا سکتا تھا۔ يعني لڑائي کے دوران ميں قتل ہو تو ہو، اس کے علاوہ کسي کو قتل نہيں کرنا۔ دشمن سے کسي موقع پر بدعہدي يا فريب دہي نہيں کي جا سکتي تھي۔ افسروں کو تاکيدي احکام ديے جاتے تھے کہ اگر دشمن تم سے لڑائي کريں تو تم ان سے فريب نہ کرو۔ کسي کي ناک، کان نہ کاٹو۔ کسي بچے کو قتل نہ کرو۔ کھل کے لڑو۔ پھر جو لوگ مطيع ہو کر باغي ہو جاتے تھے يعني ايک دفعہ اطاعت کر لي پھر باغي ہو گئے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کي جاتي تھي يہاں تک کہ جب عَرْبَسُوْس والے تين تين دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے، (يہ عَرْبَسُوس جو ہے يہ شام کي آخري سرحد پر واقع ايک شہر کا نام ہے جس کي سرحد ايشيائے کُوچک سے ملي ہوئي تھي۔) تو صرف اس قدر کيا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر ديا ليکن اس کے ساتھ ان کي کل جائيداد مقبوضہ کي قيمت ادا کر دي۔ پيسے دے ديے۔ پھر يہ لکھتے ہيں کہ اگر خيبر کے يہوديوں کو سازش اور بغاوت کے جرم ميں نکالا تھا تو ان کي مقبوضہ ارضيات کا معاوضہ دے ديا تھا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھيج ديے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گزر ہو ان کو ہر طرح کي اعانت دي جائے اور جب کسي شہر ميں قيام پذير ہوں تو ايک سال تک ان سے جزيہ نہ ليا جائے۔

پھر لکھتے ہيں کہ جو لوگ فتوحات فاروقي کي حيرت انگيزي کا جواب ديتے ہيں کہ دنيا ميں اَور بھي ايسے فاتح گزرے ہيں ان کو يہ دکھانا چاہيے کہ اس احتياط، اس قيد يعني اتني پابندي، اس درگزر کے ساتھ دنيا ميں کس حکمران نے ايک چپہ بھي غيروں کي زمين فتح کي ہے۔ اس کے علاوہ سکندر اور چنگيز وغيرہ خود ہر موقع اور ہر جنگ ميں شريک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے اس کي وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ايک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا، فوج کے دل قوي رہتے تھے اور ان ميں بالطبع اپنے آقا پر فدا ہونے کا جوش پيدا ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ تمام مدتِ خلافت ميں ايک دفعہ بھي کسي جنگ ميں شريک نہيں ہوئے۔ فوجيں ہر جگہ کام کر رہي تھيں۔ البتہ ان کي باگ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے ہاتھ ميں رہتي تھي۔ ايک اَور بڑا واضح اور صريح فرق يہ ہے کہ سکندر وغيرہ کي فتوحات گزرنے والے بادل کي طرح تھيں۔ ايک دفعہ زور سے آيا اور نکل گيا۔ ان لوگوں نے جو ممالک فتح کيے وہاں کوئي نظم حکومت نہيں قائم کيا۔ اس کے برخلاف فتوحات فاروقي ميں يہ استواري تھي کہ جوممالک اس وقت فتح ہوئے تيرہ سو برس گزرنے پر آج بھي اسلام کے قبضہ ميں ہيں اور خود حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے عہد ميں ہر قسم کے ملکي انتظامات وہاں قائم ہو گئے تھے۔

پھر جو حضرت عمرؓ کي فتوحات کا خاص کردار ہے اس کے بارے ميں وہ لکھتے ہيں کہ آخري سوال کا جواب عام رائے کے موافق يہ ہے کہ فتوحات ميں خليفۂ وقت کا اتنا کردار نہيں ہے بلکہ اس وقت کے جوش اور عزم کي جو حالت تھي اسي کي وجہ سے تمام فتوحات ہوئيں۔ يہ ايک سوال ہے ليکن کہتے ہيں کہ جو کہا جاتا ہے کہ خليفہ کا کردار نہيں ہے، ہماري رائے کے نزديک يہ صحيح نہيں ہے۔ حضرت عثمان رضي اللہ تعاليٰ عنہ اور حضرت علي رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے زمانے ميں بھي تو آخر وہي مسلمان تھے ليکن کيا نتيجہ ہوا۔ جوش اور اثر بے شبہ برقي قوتيں ہيں ليکن يہ قوتيں اس وقت کام دے سکتي ہيں جب کام لينے والا بھي اسي زور اور قوت کا ہو۔ قياس اور استدلال کي ضرورت نہيں، واقعات خود اس کا فيصلہ کر سکتے ہيں۔ فتوحات کے تفصيلي حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ

تمام فوج پُتلي کي طرح
حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے اشاروں پر حرکت کرتي تھي

اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کي سياست اور تدبير کي بدولت ہے۔ حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ نے فوج کي ترتيب، فوجي مشقيں، بيرکوں کي تعمير، گھوڑوں کي پرداخت، قلعوں کي حفاظت، جاڑے اور گرمي کے لحاظ سے حملوں کا تعين، فوج کي نقل و حرکت، پرچہ نويسي کا انتظام، افسران فوجي کا انتخاب يعني جو فوجي افسران تھے ان کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال، يہ اور اس قسم کے امور خود ايجاد کيے اور ان کو کس کس عجيب و غريب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا يہ حضرت عمرؓ کا خاصہ ہے۔ عراق کي فتوحات ميں حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ نے درحقيقت خود سپہ سالاري کا کام کيا تھا۔ فوج جب مدينہ سے روانہ ہوئي تو ايک ايک منزل بلکہ راستہ تک خود متعين کر ديا تھا کہ يہاں سے جانا ہے، يہاں سے گزرنا ہے، يہاں يہ کرنا ہے اور اس کے موافق تحريري احکام بھيجتے رہتے تھے۔ فوج جب قادسيہ کے قريب پہنچي تو موقع کا نقشہ منگوا کر بھيجا اور اس کے لحاظ سے فوج کي ترتيب اور صف آرائي سے متعلق ہدايتيں بھيجيں۔ جس قدر افسر جن جن کاموں پہ مامور ہوتے تھے ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے۔ تاريخ طبري ميں اگر عراق کے واقعات کو تفصيل سے ديکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ايک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان تمام لڑائيوں ميں جو دس برس کي مدت ميں پيش آئيں سب سے زيادہ خطرناک دو موقعے تھے ايک نَہَاوَنْد کا معرکہ جب ايرانيوں نے فارس کے صوبہ جات ميں ہر جگہ نقيب دوڑا کر تمام ملک ميں آگ لگا دي تھي اور لاکھوں فوج مہيا کر کے مسلمانوں کي طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قيصرِ روم نے جزيرہ والوں کي اعانت سے دوبارہ حِمْص پر چڑھائي کي تھي۔ ان دونوں معرکوں ميں صرف حضرت عمر رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي حسن تدبير تھي جس نے ايک طرف ايک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا ديا اور دوسري طرف ايک کوہِ گراں کے پرخچے اڑا ديے۔ ان واقعات کي تفصيل کے بعد يہ دعويٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنيا کي تاريخ معلوم ہے آج تک کوئي شخص فاروقِ اعظم رضي اللہ تعاليٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہيں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔

(ماخوذ از الفاروق از مولانا شبلي نعماني صفحہ170 تا 177، 287 دار الاشاعت کراچي 1991ء)
(اردو دائرہ معارف اسلاميہ جلد20۔ زير لفظ مُزدک۔ صفحات529-530 شعبہ اردو پنجاب يونيورسٹي لاہور)
(اردو لغت۔ زير لفظ نَسطُوريت جلد19 صفحہ932۔اردو لغت بورڈ کراچي)
(اردو لغت۔ زير لفظ تَعْبِيَہْ۔ جلد پنجم صفحہ281-282۔ اردو لغت بورڈ کراچي)
(معجم البلدان جلد1 صفحہ249-250 دار الکتب العلمية بيروت)

فتوحات بھي ملي ہوں اور عدل و انصاف بھي قائم کيا ہو۔

آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کا حضرت عمرؓ کو شہادت کي دعا

دينے کے بارے ميں آتا ہے اور آپؐ نے حضرت عمرؓ کو شہيد کہا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروي ہے کہ ايک مرتبہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو سفيد کپڑوں ميں ملبوس ديکھا۔ آپؐ نے دريافت فرمايا: کيا تمہارے يہ کپڑے نئے ہيں يا دھلے ہوئے؟ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہيں کہ مجھے ياد نہيں رہا کہ حضرت عمر ؓنے اس کا کيا جواب ديا ليکن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے آپ کو دعا ديتے ہوئے فرمايا کہ نئے کپڑے پہنو اور قابلِ تعريف زندگي گزارو اور شہيدوں کي موت پاؤ اور حضرت ابن عمرؓ کہتے ہيں کہ ميرا خيال ہے کہ آپؐ نے يہ بھي فرمايا کہ اللہ تمہيں دنيا اور آخرت ميں آنکھوں کي ٹھنڈک عطا کرے۔

(مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللّٰہ بن عمر بن الخطاب جلد2 صفحہ429، حديث5620، دارالکتب العلميہ بيروت 1998ء)

حضرت انس بن مالکؓ بيان کرتے ہيں کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ  اور حضرت عثمانؓ اُحُد پہاڑ پر چڑھے تو وہ ان کے سميت ہلنے لگا۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا۔ اُحُد! ٹھہر جا۔ تجھ پر ايک نبي، ايک صديق اور دو شہيد ہيں۔

(صحيح البخاري کتاب فضائل اصحاب النبيﷺ حديث 3675)

حضرت اُبَي بن کعبؓ سے روايت ہے کہ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ جبرئيل نے مجھے کہا کہ عالمِ اسلام حضرت عمرؓ کي وفات پر روئے گا۔

(المعجم الکبير للطبراني جلد اول صفحہ67-68، روايت61۔ سن عمر و  وفاتہ و في سنة اختلاف۔ دار احياء التراث العربي 2002ء)

شہادت کي تمنا

جو حضرت عمرؓکو تھي اس کے بارے ميں ايک روايت ميں آتا ہے کہ نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کي زوجہ مطہرہ امّ المومنين حضرت حفصہ ؓبيان کرتي ہيں کہ ميں نے اپنے والد کو يہ کہتے ہوئے سنا کہ اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِيْ قَتْلًا فِيْ سَبِيْلِكَ وَوَفَاةً فِيْ بَلَدِ نَبِيِّكَ کہ اے اللہ! مجھے اپنے رستے ميں شہادت نصيب فرما اور مجھے اپنے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے شہر ميں وفات دے۔ کہتي ہيں کہ ميں نے کہا يہ کيسے ممکن ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمايا: إِنَّ اللّٰهَ يَأْتِي بِأَمْرِهٖ أَنّٰي شَاءَ يقيناً اللہ تعاليٰ اپنا حکم لے آتا ہے جس طرح وہ چاہے۔

(الطبقات الکبريٰ جلد3 صفحہ252 دارالکتب العلمية بيروت 1990ء)

حضرت عمرؓ نے شہادت کے متعلق جو دعا کي تھي اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ فرماتے ہيں کہ ’’حضرت عمرؓ اللہ تعاليٰ کے کتنے مقرب تھے۔ رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ اگر ميرے بعد کوئي نبي ہونا ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ يہاں ميرے بعد سے مراد معاً بعد ہے تو وہ شخص جسے رسول کريم صلي اللہ عليہ وسلم بھي اس قابل سمجھتے تھے کہ اگر اللہ تعاليٰ نے اس زمانہ کي ضرورت کے لحاظ سے کسي کو شہادت کے مرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز کرنا ہوتا تو اس کا مستحق عمرؓ  تھا۔ وہ عمرؓ جس کي قربانيوں کو ديکھ کر يورپ کے اشدترين مخالف بھي تسليم کرتے ہيں کہ اس قسم کي قرباني کرنے اور اس طرح اپنے آپ کو مٹا دينے والا انسان بہت کم ملتا ہے اور جس کي خدمات کے متعلق وہ يہاں تک غلو کرتے ہيں کہ اسلام کي ترقي کو ان سے ہي وابستہ کرتے ہيں۔ وہ عمرؓ دعا کيا کرتے تھے کہ الٰہي! ميري موت مدينہ ميں ہو اور شہادت سے ہو۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓلکھتے ہيں کہ حضرت عمرؓ نے ’’يہ دعا محبت کے جوش ميں کي ورنہ يہ دعا تھي بہت خطرناک۔ اس کے معنے يہ بنتے تھے کہ کوئي اتنا زبردست غنيم ہو‘‘ ايسا حملہ آور حملہ کرنے والا ہو ’’کہ جو تمام اسلامي ممالک کو فتح کرتا ہوا مدينہ پہنچ جائے اور پھر وہاں آ کر آپؓ کو شہيد کرے ليکن اللہ تعاليٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اس نے حضرت عمرؓ کي اس خواہش کو بھي پوراکر ديا اور مدينہ کو بھي ان آفات سے بچا ليا جو بظاہر اس دعا کے پيچھے مخفي تھيں اور وہ اس طرح کہ اس نے مدينہ ميں ہي ايک کافر کے ہاتھ سے آپؓ کو شہيد کروا ديا۔ بہرحال حضرت عمرؓ کي دعا سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے نزديک خدا تعاليٰ کے قرب کي يہي نشاني تھي کہ اپني جان کو اس کي راہ ميں قربان کرنے کا موقع مل سکے ليکن آج قرب کي يہ نشاني سمجھي جاتي ہے۔‘‘ اپنے خطبہ ميں ايک وصيت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ، احمديوں کو فرما رہے ہيں کہ ’’ليکن آج قرب کي يہ نشاني سمجھي جاتي ہے کہ خدا بندہ کي جان بچا لے۔‘‘

(خطبات محمود جلد17 صفحہ474-475)

ايک اَور جگہ حضرت عمر ؓکي شہادت کا واقعہ اور دعا کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد بيان کرتے ہيں کہ

حضرت عمرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ آپؓ ہميشہ دعا کرتے تھے کہ
مجھے موت مدينہ ميں آئے اور شہادت کي موت آئے۔

ديکھو موت کس قدر بھيانک چيز ہے۔ موت کے وقت عزيز سے عزيز بھي ساتھ چھوڑ جاتے ہيں۔ کہتے ہيں کسي عورت کي ايک بيٹي بيمار ہو گئي۔ حضرت مصلح موعوؓد واقعہ سنا رہے ہيں کہ موت سے لوگ کس طرح ڈرتے ہيں۔ اس ڈرنے کا ايک واقعہ اس طرح ہے،ايک کہاني ہے کہ کسي عورت کي بيٹي بيمار ہو گئي۔ وہ دعائيں کرتي تھي خدايا ميري بيٹي بچ جائے اور اس کي جگہ ميں مر جاؤں۔ بہت پيار کا اظہار کر رہي تھي بيٹي سے۔ ايک رات اتفاق سے اس عورت کي گائے کي رسي کھل گئي اور اس نے ايک برتن ميں منہ ڈالا۔ گائےنے برتن ميں منہ ڈال ديا جس ميں اس کا سر پھنس گيا اور وہ اسي طرح گھڑا سر پر اٹھا کر ادھر ادھر بھاگنے لگي۔ گائے پريشان ہو گئي، سر پھنس گيا، بھاگنے لگي۔ يہ ديکھ کر کہ گائے کے جسم پر منہ کي بجائے کوئي اَور بڑي سي چيز ہے وہ عورت ڈر گئي۔ اس کي آنکھ کھلي تو اس نے ديکھا کہ يہ کيا ہے؟ گائے بھاگ رہي ہے اور اس کے منہ پر کوئي اَور چيز نظر آ رہي ہے۔ وہ ڈر گئي۔ اس نے سمجھا کہ شايد ميري دعا قبول ہو گئي ہے اور عزرائيل ميري جان نکالنے کے ليے آيا ہے۔ اس پر بےاختيار بول اٹھي کہ عزرائيل بيمار مَيں نہيں ہوں بلکہ وہ ليٹي ہے۔اس کي جان نکال لے يعني بيٹي کي طرف اشارہ کيا۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہيں کہ جان اتني پياري چيز ہے کہ اسے بچانے کےليے انسان ہر ممکن تدبير کرتا ہے۔ کہاں تو يہ تھا کہ دعا کر رہي تھي ۔کہاں جب ديکھا کہ واقعي کوئي ايسا خطرہ پيدا ہو گيا ہے تو بيٹي کي طرف اشارہ کر ديا کہ اس کي جان نکال لو۔ فرماتے ہيں انسان ہر ممکن تدبير کرتا ہے جان بچانے کے ليے۔ علاج کراتے کراتے کنگال ہو جاتا ہے ليکن صحابہ کرام ؓکو يہي جان خدا تعاليٰ کے ليے دينے کي اس قدر خواہش تھي کہ حضرت عمرؓ دعائيں کرتے تھے کہ مجھے مدينہ ميں شہادت نصيب ہو۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہيں کہ مجھے خيال آيا کرتا ہے کہ حضرت عمرؓ کي يہ دعا کس قدر خطرناک تھي۔ اس کے معني يہ ہيں کہ دشمن مدينہ پر چڑھ آئے اور مدينہ کي گليوں ميں حضرت عمرؓ کو شہيد کر دے ليکن خدا تعاليٰ نے ان کي دعا کو اَور رنگ ميں قبول کر ليا اور وہ ايک مسلمان کہلانے والے کے ہاتھوں سے ہي مدينہ ميں شہيد کر ديے گئے۔ کہا يہي جاتا ہے کہ شہيد کرنے والا کافر تھا ليکن بعض جگہ يہ بھي روايت مل جاتي ہے کہ شايد مسلمان کہلاتا تھا ليکن بہرحال عمومي طور پر يہي ہے کہ وہ کافر تھا۔ پہلي دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نےکافر بيان کيا ہے دوسري جگہ مسلمان کہلانے والا کہا ہے۔ يعني کہ خود بھي پوري طرح تسلي نہيں ہے کہ مسلمان تھا کہ نہيں۔ اور بعض کے نزديک وہ شخص مسلمان نہ تھا۔ ہاں خود ہي يہ فرما رہے ہيں کہ بعض کے نزديک وہ شخص مسلمان نہ تھا۔ بہرحال وہ ايک غلام تھا جس سے خدا تعاليٰ نے حضرت عمرؓ کو شہيد کرا ديا تو انسان خود جن چيزوں کو چاہتا ہے اور خواہش رکھتا ہے وہ اس کے ليے مصيبت نہيں ہوتيں۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد1 صفحہ166۔167)

حضرت مصلح موعودؓ نےيہ واقعہ بھي ايک خطبہ ميں بيان فرمايا تھا۔

حضرت عمرؓ کي شہادت اور وفات کے متعلق صحابہ کرام کا رؤيا

حضرت ابوبُردہؓ اپنے والد سے روايت کرتے ہيں کہ حضرت عوف بن مالکؓ نے ايک خواب ديکھا کہ لوگ ايک ميدان ميں جمع کيے گئے ہيں۔ ان ميں سے ايک شخص دوسرے لوگوں سے تين ہاتھ بلند ہے۔ ميں نے پوچھا يہ کون ہے؟ کہا يہ عمر بن خطاب ہيں۔ ميں نے پوچھا کہ وہ کس وجہ سے باقي لوگوں سے بلند ہيں۔ کہا ان ميں تين خوبياں ہيں؛ وہ اللہ کے معاملے ميں کسي ملامت کرنے والے کي ملامت سے نہيں ڈرتے، وہ اللہ کي راہ ميں شہادت پانے والے ہيں اور وہ خليفہ ہيں جنہيں خليفہ بنايا جائے گا۔ پھر حضرت عوفؓ اپني خواب سنانے کے ليے حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے۔ حضرت ابوبکرؓ اس زمانے ميں خليفہ تھے۔ انہيں يہ بتايا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو بلايا اور ان کو بشارت دي اور حضرت عوفؓ سے فرمايا اپني خواب بيان کرو۔ راوي کہتے ہيں کہ جب انہوں نے يہ کہا کہ انہيں خليفہ بنايا جائے گا تو حضرت عمرؓ نے انہيں ڈانٹا اور خاموش کروا ديا کيونکہ يہ حضرت ابوبکر ؓکي زندگي کا واقعہ ہے۔ پھر جب حضرت عمر ؓخليفہ بنے تو آپ شام کي طرف گئے۔ آپ خطاب فرما رہے تھے کہ آپ نے حضرت عوفؓ کو ديکھا۔ آپ نے انہيں بلايا اور منبر پر چڑھا ليا اور انہيں کہاکہ اپني خواب سناؤ۔ انہوں نے اپني خواب سنائي۔ اس پر حضرت عمرؓنے فرمايا۔ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ ميں اللہ کے معاملے ميں کسي ملامت کرنے والے کي ملامت سے نہيں ڈرتا تو ميں اميد رکھتا ہوں کہ اللہ تعاليٰ مجھے ان ميں سے بنا دے گا اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے خليفہ بنايا جائے گا تو ميں خليفہ مقرر ہو چکا ہوں اور ميں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ جو اس نے ميرے سپرد کيا ہے وہ اس ميں ميري مدد فرمائے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہيد کيا جاؤں گا تو مجھے شہادت کيسے نصيب ہو سکتي ہے! ميں جزيرہ عرب ميں ہي رہتا ہوں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے جنگ نہيں کرتا۔ پھر فرمايا: اگر اللہ نے چاہا تو وہ اس شہادت کو لے آئے گا۔ يعني گو بظاہر حالات نہيں ہيں ليکن اگر اللہ چاہے تو لا سکتا ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروي ہے کہ حضرت ابو موسيٰ اشعريؓ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے خواب ميں ديکھا کہ ميں نے بہت سے راستے اختيار کيے پھر وہ سب مٹ گئے۔ صرف ايک راستہ رہ گيا اور ميں اس پر چل پڑا يہاںتک کہ ميں ايک پہاڑ پر پہنچا تو کيا ديکھتا ہوں کہ اس پر رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ہيں اور آپ کے پہلو ميں حضرت ابوبکرؓ ہيں اور آپ حضرت عمرؓ کو اشارے سے بلا رہے ہيں کہ وہ آئيں تو ميں نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ کي قسم! امير المومنين فوت ہو گئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہيں کہ ميں نے کہا (دل ميں يہ کہتے ہيں کہ) آپ يہ خواب حضرت عمرؓ کو نہيں لکھيں گے۔ انہوں نے کہا ميں ايسا نہيں کہ حضرت عمرؓ کو ان کي وفات کي خبر دوں۔

(الطبقات الکبريٰ لابن سعد جلد3 صفحہ252-253 دارالکتب العلميہ بيروت لبنان 1990ء)

سعيد بن ابو ھِلال سے مروي ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب کيا۔ آپؓ نے اللہ کي حمد و ثنا بيان کي جس کا وہ اہل ہے۔ پھر فرمايا اے لوگو ! مجھے ايک خواب دکھايا گيا ہے جس سے مَيں سمجھتا ہوں کہ ميري وفات کا وقت قريب ہے۔ مَيں نے ديکھا کہ ايک سرخ مرغ ہے جس نے مجھے دو مرتبہ چونچ ماري ہے۔ چنانچہ ميں نے يہ رؤيا اَسماء بنت عُمَيس سے بيان کيا تو انہوں نے بتايا يعني تاويل يہ کي کہ عجميوں ميں سے کوئي شخص مجھے قتل کرے گا۔

(الطبقات الکبريٰ لابن سعد جلد3 صفحہ255 دارالکتب العلمية بيروت لبنان 1990ء)

حضرت عمرؓ کے واقعہ شہادت کے بارے ميں کہ

کس دن حضرت عمرؓ پر حملہ ہوا اور آپؓ کس دن دفن ہوئے؟

اس سلسلہ ميں مختلف روايات ملتي ہيں۔

طبقات کبريٰ ميں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ پر بدھ کے روز حملہ ہوا اور جمعرات کے دن آپؓ کي وفات ہوئي۔ حضرت عمرؓ کو 26؍ ذوالحجہ 23 ہجري کو حملہ کر کے زخمي کيا گيا اور يکم محرم 24 ہجري صبح کے وقت آپؓ کي تدفين ہوئي۔ عثمان اَخْنَس کہتے ہيں کہ ايک روايت ميں ہے کہ آپ کي وفات 26؍ ذوالحجہ بدھ کے روز ہوئي۔ اَبُومَعْشَر کہتے ہيں کہ ايک روايت ميں ہے کہ حضرت عمرؓ کو 27؍ ذوالحجہ کو شہيد کيا گيا۔

(الطبقات الکبريٰ لابن سعد جلد3 صفحہ278 سن 23 ہجري دارالکتب العلمية 1990ء)
(البداية والنھاية لابن کثير جلد4 صفحہ134 مطبوعہ للطباعة و النشر و التوزيع و الاعلان1997ء)

تاريخ طبري اور تاريخ ابن اثير کے علاوہ اکثر مؤرخين کے نزديک حضرت عمر 26؍ ذوالحجہ 23 ہجري کو زخمي ہوئے اور يکم محرم چوبيس ہجري کو آپؓ کي وفات ہوئي اور اسي روز آپ کي تدفين ہوئي۔

(ماخوذ از تاريخ الطبري جزء الخامس صفحہ54 ذکر الخبر عن وفاة عمر مطبوعہ دارالفکر بيروت)
(الکامل في التاريخ جزء الثاني صفحہ448 مطبوعہ دارالکتب العلمية بيروت)

(ماخوذ از الفاروق از شبلي صفحہ154 ادارہ اسلاميات 2004ء)

شہادت کے واقعہ کي تفصيل

صحيح بخاري ميں يوں بيان ہوئي ہے۔ عَمرو بن مَيْمُون بيان کرتے ہيں کہ ميں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو ان کے زخمي کيے جانے سے کچھ دن پہلے مدينہ ميں ديکھا۔ وہ حُذَيفہ بن يَمَان اور عُثْمان بن حُنَيف کے پاس رکے اور فرمانے لگے کہ عراق کي اراضي کے ليے جس کا انتظام خلافت کي جانب سے ان کے سپرد تھا تم دونوں نے کيا کيا ہے؟ کيا تمہيں يہ انديشہ تو نہيں کہ تم دونوں نے زمين پر ايسا لگان مقرر کيا ہے جس کي وہ طاقت نہيں رکھتي۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم نے وہي لگان مقرر کيا ہے جس کي وہ طاقت رکھتي ہے۔ يعني زمين کي اتني پوٹينشل (potential) ہے کہ اس ميں سے اتني فصل نکل سکے۔ اس ميں کوئي زيادتي نہيں کي گئي۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا: پھر ديکھ لو کہ تم لوگوں نے زمين پر ايسا لگان تو مقرر نہيں کيا جس کي وہ طاقت نہ رکھتي ہو؟ راوي کہتے ہيں ان دونوں نے کہا: نہيں۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر اللہ نے مجھے سلامت رکھا تو ميں ضرور اہلِ عراق کي بيواؤں کو اس حال ميں چھوڑوں گا کہ وہ ميرے بعد کبھي کسي شخص کي محتاج نہ ہوں گي۔ راوي نے کہا پھر اس گفتگو کے بعد حضرت عمرؓ پر ابھي چوتھي رات نہيں آئي تھي کہ وہ زخمي ہو گئے۔ راوي نے کہا کہ جس دن وہ زخمي ہوئے، ميں کھڑا تھا۔ ميرے اور ان کے درميان سوائے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے کوئي نہ تھا اور آپؓ کي عادت تھي کہ جب دو صفوں کے درميان سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفيں سيدھي کر لو۔ يہاں تک کہ جب ديکھتے کہ ان ميں کوئي خلل نہيں رہ گيا تو آگے بڑھتے اور اللہ اکبر کہتے اور بسا اوقات نماز فجر ميں سورۂ يوسف يا سورۂ نحل يا ايسي ہي سورہ پہلي رکعت ميں پڑھتے تا کہ لوگ جمع ہو جائيں۔ ابھي انہوں نے اللہ اکبر کہا ہي تھا کہ ميں نے ان کو کہتے سنا کہ مجھے قتل کر ديا يا کہا مجھے کتے نے کاٹ کھايا ہے۔ جب اس نے يعني حملہ آور نے آپ پروارکيا تو وہ عجمي دو دھاري چھري ليے ہوئے بھاگا۔ وہ کسي کے پاس سے دائيں اور بائيں نہ گزرتا مگر اس کو زخمي کرتا جاتا يعني وہ جہاں سے بھي گزرتا اس خوف سے کہ لوگ يا کوئي پکڑنے والا اگر کوئي پکڑنے کي کوشش کرتا تو وہ اسي چھري سے اس پر بھي وار کرتا جاتا اور لوگوں کو زخمي کرتا جاتا تھا يہاں تک کہ اس نے تيرہ آدميوں کو زخمي کيا۔ ان ميں سے سات مر گئے۔

مسلمانوں ميں سے ايک شخص نے جب يہ ديکھا تو اس نے کوٹ، بخاري ميں اس جگہ بُرْنُس کا لفظ آيا ہےجو اس کپڑے کو کہتے ہيں جس کے ساتھ سر ڈھانپنے والا حصہ بھي ساتھ جڑا ہوا  ہوتا ہے۔ لمبا چوغہ اور ساتھ ہي سرڈھانپنے والي ٹوپي سي لگي ہوتي ہے۔ لمبي ٹوپي کو بھي کہتے ہيں۔ بہرحال وہ کوٹ اس پر پھينکا۔ جب اس نے يقين کر ليا کہ وہ پکڑا گيا تو اس نے اپنا گلا کاٹ ليا۔ اور حضرت عمرؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر انہيں آگے کيا اور راوي کہتے ہيں کہ جو حضرت عمرؓ کے قريب تھے انہوں نے بھي وہ ديکھا جو ميں نے ديکھا اور مسجد کے اطراف ميں جو تھے وہ نہيں جانتے تھے سوائے اس کے کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کي آواز کو غائب پايا اور وہ سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہنے لگے تو عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے لوگوں کو مختصر نماز پڑھائي۔ پھر جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے کہا ابن عباسؓ! ديکھو مجھ کو کس نے مارا ہے؟ حضرت ابن عباسؓ نے کچھ دير چکر لگايا پھر آئے اور انہوں نے بتايا کہ مغيرہ کے غلام نے۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا وہي جو کاريگر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہاں۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا اللہ اسے ہلاک کرے ميں نے اس کے متعلق نيک سلوک کرنے کا حکم ديا تھا۔

اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ميري موت ايسے شخص کے ہاتھ سے نہيں کي
جو اسلام کا دعويٰ کرتا ہو

يعني يہاں سے بھي ثابت ہے کہ وہ مسلمان نہيں تھا۔ اے ابن عباسؓ! تم اور تمہارا باپ پسند کرتے تھے کہ يہ عجمي غلام مدينہ ميں زيادہ سے زيادہ ہوں اور حضرت عباسؓ کے پاس سب سے زيادہ غلام تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا اگر آپ چاہيں تو ميں کر گزروں۔ يعني اگر آپ چاہيں تو ہم بھي مدينہ ميں موجود عجمي غلاموں کو قتل کر ديں۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا کہ نہيں۔ درست نہيں ہے ۔کہا کہ خصوصاًجبکہ اب وہ تمہاري زبان ميں گفتگو کرتے ہيں اور تمہارے قبلے کي طرف منہ کر کے نمازيں پڑھتے ہيں اور تمہاري طرح حج کرتے ہيں۔ بہت سے غلام ايسے بھي تھے جو مسلمان ہو گئے تھے۔ پھر ہم انہيں يعني حضرت عمرؓ کو اٹھا کر ان کے گھر لے گئے۔ ہم بھي ان کے ساتھ گھر ميں چلے گئے ۔ ايسا معلوم ہوتا تھا کہ گويا مسلمانوں پر اس دن سے پہلے ايسي کوئي مصيبت نہيں آئي۔ کوئي کہتا: کچھ نہيں ہو گا اور کوئي کہتا: مجھے ان کے بارے ميں خطرہ ہے کہ وہ جانبر نہ ہو سکيں گے۔ آخر ان کے پاس نبيذ لائي گئي اور انہوں نے اس کو پيا جو ان کے پيٹ سے نکل گئي۔ پھر ان کے پاس دودھ لايا گيا انہوں نے اسے پيا وہ بھي آپ کے زخم سے نکل گيا تو لوگ سمجھ گئے کہ آپؓ کي وفات ہو جائے گي۔ عمرو بن مَيْمُون کہتے ہيں پھر ہم ان کے پاس گئے اور ديگر لوگ بھي آئے جو ان کي تعريف کرنے لگے۔ اور ايک نوجوان شخص آيا۔ اس نے کہا امير المومنينؓ! آپؓ اللہ کي اس بشارت سے خوش ہو جائيں جو آپؓ کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے صحابي ہونے کي وجہ سے حاصل ہے اور ابتدا ميں اسلام لانے کے شرف کي وجہ سے ہے جسے آپؓ خوب جانتے ہيں۔ پھر آپؓ خليفہ بنائے گئے اور آپؓ نے انصاف کيا پھر شہادت۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا: ميري تو يہ آرزو ہے۔ يہ باتيں برابر برابر ہي رہيں۔ نہ ميرا مواخذہ ہو اور نہ مجھے ثواب ملے۔ جب وہ پيٹھ موڑ کر جانے لگا تو اس کا تہ بند زمين سے لگ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا: اس لڑکے کو ميرے پاس واپس لاؤ۔ فرمانے لگے ميرے بھتيجے اپنا کپڑا اٹھائے رکھو۔ اس سے تمہارا کپڑا بھي زيادہ دير چلے گا۔ زمين سے گھسٹنے سے پھٹے گا نہيں اور يہ فعل تمہارے ربّ کے نزديک تقويٰ کے زيادہ قريب ہو گا۔ يعني بعض دفعہ بلاوجہ تکبر پيدا ہو جاتا تھا۔ اس زمانے ميں لمبے کپڑے اس ليے بھي لوگ پہنتے تھے کہ امارت کي نشاني ہو تو انہوں نے کہا تکبر نہ پيدا ہو اور يہ تقويٰ کے قريب رہے۔

پھر عبداللہ بن عمرؓ کو کہنے لگے ديکھو مجھ پر کتنا قرض ہے۔ انہوں نے حساب کيا تو اس کو چھياسي ہزار درہم يا اس کے قريب پايا۔ حضرت عمرؓ نے فرمايا کہ اگر عمرؓ کے خاندان کي جائيداد اس کو پورا کر دے تو پھر ان کي جائيداد سے اس کو ادا کر دو ورنہ بنو عدي بن کعب سے مانگنا۔ اگر ان کي جائيداديں بھي پوري نہ کريں تو قريش سے مانگنا اور اس کے سوا کسي کے پاس نہ جانا۔ يہ قرض ميري طرف سے ادا کر دينا۔ حضرت عائشہ، امّ المومنينؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہنا کہ عمر آپ کو سلام کہتے ہيں اور اميرالمومنين نہ کہنا کيونکہ آج ميں مومنوں کا امير نہيں اور ان سے کہنا کہ

عمر بن خطاب اس بات کي اجازت چاہتا ہے
کہ اسے اس کے دونوں ساتھيوں کے ساتھ دفن کيا جائے۔

بخاري کي شرح عمدة القاري ميں ہے کہ حضرت عمرؓ نے ايسا اس وقت کہا تھا جب آپؓ کو موت کا يقين ہو گيا تھا اور حضرت عائشہؓ کے ليے اس ميں اشارہ تھا کہ امير المومنين کہنے کي وجہ سے ڈريں نہيں۔ چنانچہ عبداللہ نے سلام کہا اور اندر آنے کي اجازت مانگي۔ پھر ان کے پاس اندر گئے تو انہيں ديکھا کہ بيٹھي ہوئي رو رہي تھيں۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا: عمر بن خطابؓ آپؓ کو سلام کہتے ہيں اور اپنے دونوں ساتھيوں کے ساتھ دفن ہونے کي اجازت مانگتے ہيں۔ حضرت عائشہ ؓکہنے لگيں کہ مَيں نے اس جگہ کو اپنے ليے رکھا ہوا تھا ليکن آج ميں اپني ذات پر ان کو مقدم کروں گي۔ جب حضرت عبداللہؓ  لَوٹ کر آئے تو حضرت عمرؓ سے کہا گيا کہ عبداللہ بن عمرؓ آ گئے ہيں۔ انہوں نے کہا مجھے اٹھاؤ تو ايک شخص نے آپؓ کو سہارا دے کر اٹھايا۔ آپؓ نے پوچھا کيا خبر لائے ہو؟ عبداللہ نے کہا امير المومنين! وہي جو آپؓ پسند کرتے ہيں۔ حضرت عائشہؓ نے اجازت دےدي ہے۔ کہنے لگے الحمد للہ! اس سے بڑھ کر اَور کسي چيز کي مجھے فکر نہ تھي۔ جب مَيں مر جاؤں تو مجھے اٹھا کر لے جانا۔ پھر سلام کہنا اور يہ کہنا کہ عمر بن خطابؓ اجازت مانگتا ہے۔ اگر انہوں نے ميرے ليے اجازت دي تو مجھے اندر حجرے ميں تدفين کے ليے لے جانا اور اگر انہوں نے مجھے لوٹا ديا تو پھر مجھے مسلمانوں کے قبرستان ميں واپس لے جانا۔ امّ المومنين حضرت حفصہؓ آئيں اور دوسري عورتيں بھي ان کے ساتھ آئيں۔ جب ہم نے ان کو ديکھا تو ہم چلے گئے۔ وہ ان کے پاس اندر گئيں اور کچھ دير ان کے پاس روتي رہيں۔ پھر جب کچھ مردوں نے اندروني حصہ ميں آنے کي اجازت مانگي تو وہ مردوں کے آتے ہي اندر چلي گئيں اور ہم اندر سے ان کے رونے کي آواز سنتے رہے۔ لوگوں نے کہا اميرالمومنين وصيت کر ديں۔ کسي کو خليفہ مقرر کر جائيں۔ انہوں نے کہا ميں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں ميں سے بڑھ کر اَور کسي کو نہيں پاتا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ايسي حالت ميں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضي تھے۔ اور انہوں نے حضرت عليؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبيرؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام ليا اور کہا عبداللہ بن عمرؓ  تمہارے درميان موجود رہے گا ليکن اس امر يعني خلافت ميں اس کا کوئي حق نہيں ہوگا۔ اگر خلافت سعدؓ کو مل گئي تو پھر وہي خليفہ ہو ورنہ جو بھي تم ميں سے امير بناياجائے وہ سعدؓ سے مدد ليتا رہے کيونکہ ميں نے ان کو اس ليے معزول نہيں کيا تھا کہ وہ کسي کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس ليے کہ کوئي خيانت کي تھي۔ نيز فرمايا ميں

اس خليفہ کو جو ميرے بعد ہو گا پہلے مہاجرين کے بارے ميں وصيت کرتا ہوں

کہ وہ ان کے حقوق ان کے ليے پہچانيں۔ ان کي عزت کا خيال رکھيں۔ مَيں انصار کے متعلق بھي بھلائي کي وصيت کرتا ہوں جو مدينہ ميں پہلے سے رہتے تھے اور مہاجرين کے آنے سے پہلے ايمان قبول کر چکے تھے۔ جو ان ميں سے نيک کام کرنے والا ہو اسے قبول کيا جائے اور جو اُن ميں سے قصور وار ہو اس سے درگزر کيا جائے اور ميں سارے شہروں کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کي ان کو وصيت کرتا ہوں کيونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہيں اور مال کے حصول کا ذريعہ ہيں اور دشمن کے کڑھنے کا موجب ہيں اور يہ کہ ان کي رضا مندي سے ان سے وہي ليا جائے جو ان کي ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور ميں اُس کو بدوي عربوں کے ساتھ نيک سلوک کرنے کي وصيت کرتا ہوں يعني آئندہ کے خليفہ کو کيونکہ وہ عربوں کي جڑ ہيں اور اسلام کا مادہ ہيں يہ کہ ان کے اموال ميں سے جو زائد ہے وہ ليا جائے اور پھر ان کے محتاجوں کو لوٹايا جائے اور ميں اس کو اللہ کے ذمہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کے ذمہ کي وصيت کرتا ہوں کہ ان کے عہدوں کو ان کے ليے پورا کيا جائے اور ان کي حفاظت کے ليے جنگ کي جائے اور ان کي طاقت سے زيادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ جب آپؓ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پيدل چلنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نےحضرت عائشہؓ کو السلام عليکم کہا اور کہا عمر بن خطابؓ اجازت مانگتے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ۔چنانچہ ان کو اندر لے جايا گيا اور وہاں ان کے دونوں ساتھيوں کے ساتھ رکھ ديے گئے۔ جب ان کي تدفين سے فراغت ہوئي تو وہ آدمي جمع ہوئے جن کا حضرت عمرؓ نے نام ليا تھا تا کہ انتخاب خلافت ہو سکے اور پھر وہ اگلي کارروائي ہوئي۔

(صحيح بخاري کتاب فضائل اصحاب النبيﷺ باب قصة البيعة، والاتفاق على عثمان بن عفان حديث3700)
(عمدة القاري شرح صحيح بخاري جلد16 صفحہ292 دار الکتب العلميہ بيروت 2001ء)

(لغات الحديث جلد1 صفحہ137 برنس۔ مطبوعہ نعماني کتب خانہ لاہور 2005ء)

ابھي يہ چل رہا ہے اس بارے ميں باقي ان شاء اللہ آئندہ مَيں بيان کروں گا۔ آج

جرمني کا جلسہ سالانہ

بھي شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعاليٰ اسے بابرکت فرمائے۔ زيادہ سے زيادہ جرمن احمديوں کو اس سے استفادہ کرنے کي توفيق دے۔ دو دن کا يہ جلسہ ہے۔ کل ان شاء اللہ شام کو ان کا جو اختتامي سيشن ہے اس سے ميں خطاب بھي کروں گا جو ايم ٹي اے پريہاں کے وقت کے مطابق تقريباً ساڑھے تين دکھايا جائے گا۔ باقي جلسہ جو وہاں جرمني ميں ہو رہا ہے اس کي لائيو سٹريمنگ آج سے جرمنوں کے ليے ہو رہي ہے۔ جرمن وہاں ديکھ سکتے ہيں تو زيادہ سے زيادہ اس سے فائدہ اٹھائيں۔

نماز کے بعد ميں

دو جنازہ غائب

بھي پڑھاؤں گا۔ ان کا بھي ذکر کر دوں۔ پہلا جنازہ قمر الدين صاحب مبلغ سلسلہ انڈونيشيا کا ہے۔ گذشتہ دنوں پينسٹھ سال کي عمر ميں ان کي وفات ہوئي۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1972ء ميں انہوں نے پندرہ سال کي عمر ميں بيعت کي اور ابتدائي تعليم کے بعد اپني زندگي خدمت سلسلہ کے ليے وقف کر دي۔ پھر يہ ديني تعليم کے ليے پاکستان چلے گئے۔ 30؍جون 1986ء کو شاہدکي ڈگري حاصل کي اور جولائي 86ء ميں آپ کا تقرر بطور مبلغ ہوا۔ بڑي خوش الحاني سے اور پُرسوز آواز ميں تلاوت قرآن کريم کيا کرتے تھے۔ نہايت مخلص اور پُرجوش خادمِ سلسلہ تھے۔ ان کا سلسلۂ خدمت تقريباً پينتيس سال پر محيط ہے۔ ان کي اہليہ کہتي ہيں کہ مجھے کہا کرتے تھے کہ آپ صرف مربي کي اہليہ نہيں بلکہ آپ کو جماعتي خدمات ميں بھي آگے ہونا چاہيے۔ پھر يہ ان کے بارے ميں لکھتي ہيں کہ ان کي خلافت سے اطاعت اور محبت بہت نماياں تھي۔ چھوٹوں بڑوں سے بڑي عزت سے پيش آتے تھے۔ جب بھي کسي احمدي سے بات کرتے تو ہميشہ جماعت سے محبت اور وفاداري کي تلقين بھي ضرور کرتے اور زيادہ سے زيادہ جماعت کي خدمت کي ترغيب دلاتے۔ جب بھي کسي غير احمدي سے ملتے تو اسے تبليغ ضرور کرتے اور بڑي محبت سے اور دل سے بات کرتے تھے کہ دوسرے بھي خوش ہو جاتے۔ بيماري ميں بھي فجر سے ڈيڑھ دو گھنٹے پہلے اٹھ کر تہجد پڑھتے اور تلاوت کرتے۔ پھر جب تک ہمت رہي پيدل چل کر مسجد بھي جاتے رہے۔ ان کے بيٹے عمر فاروق صاحب مربي سلسلہ ہيں۔ جامعہ احمديہ انڈونيشيا ميں استاد ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ گھر ميں اور باہر بھي چلتے پھرتے بعض دفعہ قرآن کريم کا کوئي نہ کوئي حصہ خوش الحاني سے سناتے رہتے تھے۔ حضرت مسيح موعود عليہ السلام کي کتابوں کا ترجمہ اور نظر ثاني کا کام بھي انہوں نے کيا تھا اور اس دوران ميں خاص طور پر جب ترجمہ کے کام کر رہے ہوتے تھے تو قصيدہ بہت زيادہ پڑھا کرتے تھے۔ آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے حالات و واقعات سناتے تو آنکھيں پُرنم ہو جايا کرتي تھيں۔ کہتے ہيں اکثر مجھے احمديوں کے ابتلا اور تکاليف اور قربانيوں کے بارے ميں واقعات سناتے اور اپنے ذاتي تجربات بھي بيان کرتے کس طرح انہوں نے بھي تکليفيں اٹھائيں۔

چھوٹے بيٹے ظفراللہ ہيں وہ کہتے ہيں: آپ بلند حوصلے والے اور بڑي جدوجہد کرنے والے انسان تھے۔ بہت سادہ زندگي گزاري۔ ہميشہ قناعت پسندي کو ترجيح ديتے تھے۔ اللہ تعاليٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔

اگلا جنازہ، دوسرا ذکر ہے صبيحہ ہارون صاحبہ اہليہ سلطان ہارون خان صاحب مرحوم کا۔ گذشتہ دنوں 73سال کي عمر ميں ان کي وفات ہوئي۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ۔ صبيحہ ہارون صاحبہ کے خاندان ميں احمديت ان کے والد صاحب کي بيعت سے آئي تھي۔ انہوں نے خود تحقيق کر کے اٹھارہ سال کي عمر ميں حضرت مصلح موعود رضي اللہ تعاليٰ عنہ کي بيعت کي تھي۔ پھر ان کے دادا نے اپنے بيٹے کے بعد بيعت کي۔ اللہ تعاليٰ نے ان کو تين بيٹوں اور تين بيٹيوں سے نوازا۔ ايک بيٹے ان کے حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعاليٰ کے داماد ہيں۔

ان کے بڑے بيٹے سلطان محمد خان کہتے ہيں کہ ميري والدہ کا سب سے بڑا بيٹا دو سال کي عمر ميں حادثاتي طور پر وفات پا گيا۔ حضرت خليفة المسيح الثالثؒ نے جنازہ کے موقع پر فرمايا کہ اللہ تعاليٰ تمہيں نعم البدل بيٹا عطا کرے گا جو خوبصورت بھي ہو گا اور لمبي عمر پانے والا بھي ہو گا۔ اور ان کے خاوند ملک سلطان کو فرمايا کہ اس کو مَيں تمہارے کندھے کے ساتھ جوان کھڑا ديکھ رہا ہوں۔

پھر ان کے بيٹے سلطان احمد خان کہتے ہيں کہ ميري خوش قسمتي ہے کہ بچپن سے لے کر اب تک ميرا بہت وقت اپني ماں کے ساتھ گزرا۔ بہت ہي پيار کرنے والي اور غلطيوں سے درگزر کرنے والي ماں تھيں۔ کبھي کسي کي غيبت نہيں کرتي تھيں۔ ان کي بيٹي محمودہ سلطانہ کہتي ہيں ميري والدہ نيک فطرت، خاموش طبيعت، اعليٰ اوصاف کي مالک تھيں۔ سلسلہ کي حقيقي عاشق اور خلافت سے محبت اور وفا کي انتہا کو پہنچي ہوئي تھيں اور يہي نصيحت کرتي تھيں۔ خوش خلق اور اقربا پرور تھيں۔ ان کي مہمان نوازي پورے خاندان ميں مشہور تھي۔ کسي کي بھي دل شکني نہيں کرتي تھيں۔ غيبت کو سخت ناپسند کرتي تھيں اور ہميں ہميشہ اس سے بچنے کي تلقين کياکرتي تھيں۔ ايسي محفل جہاں غيبت ہو رہي ہو وہاں سے اٹھ جاتيں اور ان کے چہرے پر ناگواري آ جاتي۔ ہميشہ درگزر سے کام ليا کرتي تھيں۔ کہتي ہيں ميرے والد پر جاني حملہ کرنے والے دشمن کو بھي کبھي بددعا نہيں دي اور ہميشہ کہتي تھيں: ميں دعا کرتي ہوں کہ اللہ ان کو ہدايت دے۔ نادار مريضوں کے ليے خاص نرمي اپنے دل ميں رکھتي تھيں اور ان کي اس طرح مدد کرتي تھيں کہ بائيں ہاتھ کو بھي خبر نہ ہو۔

ان کي دوسري بيٹي وجيہہ صاحبہ کہتي ہيں کہ ايک خاموش طبع شخصيت کي مالک تھيں۔ بہت زيادہ صدقہ و خيرات کرنے والي تھيں اور صدقہ و خيرات خاموشي سے کيا کرتي تھيں اور اس کا ذکر زيادہ پسند نہيں فرماتي تھيں۔ اللہ تعاليٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو بھي ان کي نيکياں جاري رکھنے کي توفيق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 29؍اکتوبر 2021ء)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29؍اکتوبر 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 نومبر 2021