• 13 مئی, 2024

ایک کمزوری دوسری کمزوری کی جاگ لگاتی ہے اور آخر کار سب کچھ برباد ہوجاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگر حقیقت کی آنکھ سے ہم دیکھیں تو ہمیں یہی جواب نظر آتا ہے کہ بسا اوقات معاشرے کی رَو سے متاثر ہوتے ہوئے ہم ان باتوں یا ان میں سے اکثر باتوں کا خیال نہیں رکھتے اور معاشرے کی غلطیاں بار بار ہمارے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور ہم اکثر اوقات بے بس ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے 99.99 فیصد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم عقیدے کے لحاظ سے پختہ ہیں اور کوئی ہمیں ہمارے عقیدے سے متزلزل نہیں کر سکتا، ہٹا نہیں سکتا۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ عملی کمزوریاں جب معاشرے کے زور آور حملوں کے بہاؤ میں آتی ہیں تو اعتقاد کی جڑوں کو بھی ہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ شیطان آہستہ آہستہ حملے کرتا ہے۔ نظامِ جماعت سے دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور پھر ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو خلافت سے بھی دُوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔

پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک کمزوری دوسری کمزوری کی جاگ لگاتی ہے اور آخر کار سب کچھ برباد ہو جاتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کی خوبصورتی تو نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی لڑی میں پرویا جانا ہے اور یہی ہماری اعتقادی طاقت بھی ہے اور عملی طاقت بھی ہے۔ اس لئے ہمیشہ خلفائے وقت کی طرف سے کمزوریوں کی نشاندہی کر کے جماعت کو توجہ دلائی جاتی رہتی ہے تا کہ اس سے پہلے کہ کوئی احمدی اتنا دور نکل جائے کہ واپسی کا راستہ ملنا مشکل ہو، استغفار کرتے ہوئے اپنی عملی کمزوریوں پر نظر رکھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کو یاد کرے جو اللہ تعالیٰ نے اُس پر کیا ہے۔

مشرقِ بعید کے میرے حالیہ دورے کے دوران مجھے انڈونیشیا کے کچھ غیر از جماعت سکالرز اور علماء سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ سنگا پور میں جو reception ہوئی تھی اُس میں آئے ہوئے تھے اور جیسا کہ میں اپنے دورے کے حالات میں بیان کر چکا ہوں کہ اکثر نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے علماء کو جماعت احمدیہ کے امام کی باتیں سننی چاہئیں۔ تو بہر حال اُن کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے اُنہیں یہی کہا تھا کہ آج رُوئے زمین پر جماعت احمدیہ ایک واحد جماعت ہے جو ملکی یا علاقائی نہیں بلکہ تمام دنیا میں ایک جماعت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس کی ایک اکائی ہے، جس میں ایک نظام چلتا ہے اور ایک امام سے منسلک ہے اور دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل کا فرد اس میں شامل ہے۔ پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان اور پیشگوئی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ مسلم اُمہ میں ایک جماعت ہوگی۔ آپ نے فرمایا تھا ایک جماعت ہو گی جو صحیح رستے پر ہو گی۔ (سنن الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ حدیث نمبر 2641) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی صداقت کی دلیل ہے۔ جو عقل مند اور سعید فطرت مخالفین بھی ہیں اس بات کو سن کر خاموش ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ لیکن اس دلیل کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی عملی حالتوں کی طرف ہر وقت نظر رکھنی ہو گی کیونکہ اس زمانے میں شیطان پہلے سے زیادہ منہ زور ہوا ہوا ہے۔

آجکل جو عملی خطرہ ہے وہ معاشرے کی برائیوں کی بے لگامی اور پھیلاؤ ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ آزادیٔ اظہار اور تقریر کے نام پر بعض برائیوں کو قانونی تحفظ دیا جاتا ہے۔ اس زمانے سے پہلے برائیاں محدود تھیں۔ یعنی محلے کی برائی محلے میں یا شہر کی برائی شہر میں یا ملک کی برائی ملک میں ہی تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ قریبی ہمسائے اُس سے متاثر ہو جاتے تھے۔ لیکن آج سفروں کی سہولتیں، ٹی وی، انٹرنیٹ اور متفرق میڈیا نے ہر فردی اور مقامی برائی کو بین الاقوامی برائی بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں میلوں کے فاصلے پر رابطے کر کے بے حیائیاں اور برائیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو ورغلا کر اُن کی عملی حالتوں کی کمزوری تو ایک طرف رہی، دین سے بھی دور ہٹا دیا جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 6؍دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ673-675)

پچھلا پڑھیں

حضرت مصلح موعودؓ کا درود پڑھنے کا طریق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 نومبر 2022