• 6 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 10)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد 10
قسط 10

جائزہ لیں کہ درود شریف سے ہم
کس حد تک فیضیاب ہورہے ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہیں، ہمیں صبر و استقامت کا سبق دے کر ہمیں جنت کے راستے دکھا دئیے۔ ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں یہ دعا محفوظ رہنے کے لئے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ درود شریف پڑھنے کے لئے میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی کہا تھا پہلے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ دشمن جو ہمارے خلاف منصوبہ بندیاں کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص تائید و نصرت فرمائے اور ہم پر رحم کرتے ہوئے دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے ہر فردِ جماعت کو اور جماعت کو محفوظ رکھے۔ ان کا ہر شر اور منصوبہ جو جماعت کے خلاف یہ بناتے رہتے ہیں یا بنا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ انہی پر الٹائے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی آل میں شامل فرمائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل مقام روحانی آل کا ہے۔ اگر جسمانی رشتہ بھی قائم رہے تو یہ تو ایک انعام ہے۔ لیکن اگر جسمانی آل تو ہو لیکن روحانی آل کا مقام حاصل کرنے کی یہ جسمانی آل اولاد کوشش نہ کرے تو کبھی اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسلک ہونے سے اللہ تعالیٰ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ جب بھی درود شریف پڑھیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک اس درود سے فیضیاب ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ کس حد تک زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر قرآنِ کریم کی حکومت اپنے سر پر قبول کرنے والے ہیں۔ اللہ کرے کہ بزرگوں کے مقام کے یہ ذکر اور مخالفینِ احمدیت کی ہم پر سختیاں اور ظلم اور بعض حکومتوں کا ہم پر ان ظلموں کا حصہ بننا ہمیں پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہو۔ ہماری قربانیاں سعید فطرت لوگوں کو احمدیت کی آغوش میں لانے والی ہوں اور ہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتوحات کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ730-731)

جائزہ لیں کہ بندہ
بندوں کو رب اور رازق تونہیں سمجھ رہا

آپ (حضرت اقدس مسیح موعودؑ) نے اس کی مثالیں دی ہیں اور فرمایا کہ عالمین سے ایک عالم وہ ہے جس میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور پھر آپ نے اپنے زمانے کی مثال بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے طالبوں پر رحم کر کے ایک اور گروہ پیدا کیا ہے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کا گروہ ہے۔ پس جب ہم رب العالمین کے اس بھیجے ہوئے کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں تو ہمیں اس عالم کا حصہ بننے کے لئے اپنی ترجیحات خالصۃً للہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم رب العالمین کے انعامات سے فیض پانے والے بن سکیں پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ عالمین میں کیا کچھ شامل ہے؟ عالمین کی تعریف کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’عالمین سے مراد مخلوق کو پیدا کرنے والے خدا کے سوا ہر ہستی ہے خواہ وہ عالمِ ارواح سے ہو یا عالمِ اجسام سے‘‘ (روحیں ہیں یا جسم ہے، جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز جو ہے وہ عالمین میں شامل ہے) ’’خواہ وہ زمینی مخلوق ہے یا سورج اور چاند اور اُن کے علاوہ دیگر اجرام کی مانند کوئی چیز ہو۔ پس تمام عالم جنابِ باری کی ربوبیت کے تحت داخل ہیں۔‘‘

(اردو ترجمہ عربی عبارت از اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ139-140
بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد1 صفحہ97)

پس جب سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تحت ہے اور ہم جانتے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو سب عالموں کا پرورش کرنے والا ہے لیکن پھر بھی ایسے مواقع آ جاتے ہیں جب بعض اوقات بندہ بندوں کو اپنا ربّ اور رازق سمجھنے لگ جاتا ہے۔ معاشرے کے دباؤ میں آ کر دنیا داری غالب آ جاتی ہے، ایسے حالات میں ایک مومن کو فوراً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے اور جائزہ لیتے ہوئے توبہ اور استغفار سے کام لیتے ہوئے رب العالمین کی طرف لوٹنا چاہئے تا کہ جس نئی زمین میں ہم آباد ہوئے ہیں اور جس نئے آسمان کی چھت ہمارے اوپر ہے اُس سے ہم فیض پا سکیں۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ91-92)

پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ کی باون خصوصیات کاجائزہ لینے سے وہ ساری خصوصیات آپ کی زندگی میں نظر آتی ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو موعود بیٹے کا مصداق سمجھتے تھے جس نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ آج بھی بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں اس لئے میں نے یہ وضاحت کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود کی باون سالہ خلافت کا دور اس عظیم پیشگوئی کے پورا ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کی تحریرات، آپ کی تقریریں اُس درد سے بھری ہوئی ہیں جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے آپ کے دل میں تھا۔ آپ کا علم و عرفان اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو علومِ ظاہری و باطنی سے پُر فرمایا۔

غرض جو باون یا بعض لحاظ سے اٹھاون خصوصیات پیش کی جاتی ہیں، ان کا جائزہ لیا جائے تو پیشگوئی میں جتنی بھی خصوصیات کا ذکرہے، وہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہیں۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ103-104)

یومِ مسیح موعودؑ بیعت کے تقاضوں
کے جائزہ لینے کا دن ہے

ہر سال جب 23 مارچ کا دن آتا ہے تو ہم احمدیوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ آج ہم نے یومِ مسیح موعود منانا ہے، یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ جماعت کے آغاز کی تاریخ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے ہم نے آگاہی حاصل کر لی ہے، اتنا کافی نہیں ہے، یا جلسے منعقد کر لئے ہیں، یہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم نے اس بیعت کا کیا حق ادا کیا ہے؟ آج ہمارے جائزہ اور محاسبہ کا دن بھی ہے۔ بیعت کے تقاضوں کے جائزے لینے کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر غور کرنے کا دن بھی ہے۔ اپنے عہد کی تجدید کا دن بھی ہے۔ شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کے لئے ایک عزم پیدا کرنے کا دن بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے پر جہاں اللہ تعالیٰ کی بے شمار تسبیح و تحمید کا دن ہے وہاں حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ہزاروں لاکھوں درود و سلام بھیجنے کا دن ہے۔

پس اس اہمیت کو ہمیں ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور یہ اہمیت شرائطِ بیعت پر غور کرنے اور اس پر عمل کرنے سے وابستہ ہے۔ اس چیز کی یاددہانی کے لئے مَیں آج پھر آپ کے سامنے شرائطِ بیعت اور ان شرائط کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہم سے آپ کیا چاہتے ہیں؟ اُس کی کچھ وضاحت پیش کروں گا۔

پہلی شرط جو بیعت کرنے والا کرتا ہے، احمدیت میں شامل ہونے والا کرتا ہے، جس پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ‘‘بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اُس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے، شرک سے مجتنب رہے گا۔ ’’ شرک سے بچتا رہے گا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51 مطبوعہ ربوہ)

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ174-175)

حقیقت پسند بن کر اپناجائزہ لو

ہمیشہ ہمیں اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ بظاہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا ہے۔ شروع میں جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ہے، اُس میں آپ نے یہی توجہ دلائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہو کر یہ نہ سمجھو کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آ رہے، اُن گناہوں کو اپنی عارفانہ خوردبین استعمال کر کے دیکھو، خود تلاش کرو، اپنے جائزے لو۔ پھر پتہ لگے گا کہ یہ حقیقت میں گناہ ہے۔ ریا کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔ اب یہ اکثر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گی۔ خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ205)

عہدیداروں کو اپنی حالتوں کا
دوسروں سے بڑھ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلداول 362 اشتہار’’التوائے جلسہ 27دسمبر 1893ء‘‘اشتہار نمبر117مطبوعہ ربوہ) اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بھی وضاحت ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے غصہ کو قابو میں رکھے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حدیث:6114)

غصہ قابو میں ہو تبھی انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور تبھی ہمدردی کے ساتھ فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ پس یہ معیار ہے جو ہمارے عہدیداران کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ باتیں جو مَیں کہہ رہا ہوں، صرف جرمنی کے عہدیداران کے لئے نہیں ہیں بلکہ میرے مخاطب تمام دنیا کے جماعتی عہدیداران ہیں۔ انگلستان کے بھی، پاکستان کے بھی، ہندوستان کے بھی اور امریکہ اور کینیڈا کے بھی اور آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے بھی اور افریقہ کے بھی۔ یہ وضاحت میں اس لئے کر رہا ہوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں خطبہ دیا جا رہا ہے وہیں کے لوگوں کی ایسی حالت ہے۔ جبکہ جیسا عام خطبات میں جماعت کا ہر فرد مخاطب ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی مخصوص طبقے کے بارے میں بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں بھی ہیں وہ سب مخاطب ہیں۔ کیونکہ اب اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے کے ذریعے سے بھی خلیفہ وقت کو اپنی بات پہنچانے کا ایک آسان ذریعہ مہیا فرما دیا ہے اور یہ سہولت مہیا فرما دی ہے۔ اس لئے مختلف جگہوں پر مختلف باتیں ہوتی رہتی ہیں اور مخاطب تمام دنیا کی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ہاں یہ یقیناً اُس ملک کی سعادت ہے۔ اگر میں جرمنی میں مخاطب ہوں تو جرمنی والوں کی سعادت ہے یا اُن لوگوں کی سعادت ہے جو میرے سامنے بیٹھے ہوں اور براہ راست بات سُن رہے ہوں اور وہ اپنے آپ کو سب سے پہلا مخاطب سمجھیں۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو شرائطِ بیعت میں نے پڑھی ہیں وہ کسی خاص طبقے کے لئے نہیں یا کسی مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ ہر احمدی ان کا مخاطب ہے۔ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اپنے آپ کو نظامِ جماعت سے منسلک سمجھتا ہے۔ مَیں نے وضاحت کی خاطر عہدیداروں کے بارے میں بتایا ہے کیونکہ اُن کو جماعت کے سامنے نمونہ ہونا چاہئے۔ اس لئے ان کو اپنی حالتوں کا دوسروں سے بڑھ کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پس یہ کوئی محدود حکم یا شرط نہیں ہے بلکہ افرادِ جماعت کے لئے، سب کے لئے ضروری ہے۔ پس ہمیشہ ان شرائط کے الفاظ پر غور کرتے ہوئے اس کا پابند رہنے کی کوشش کریں۔ اس کے کیا معیار ہونے چاہئیں؟ اس کی مَیں مزید وضاحت کر دیتا ہوں۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ344-345)

جائزہ لیں کہ کیا ہم حضرت مسیح موعودؑ کی
بیان فرمودہ شرائط کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں

آپ(حضرت اقدس مسیح موعودؑ) فرماتے ہیں۔ اب ہمیں نصیحت کرتے ہوئے آخر میں بیان ہے ’’اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درختِ وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔‘‘ (پھر فرماتے ہیں اس بارے میں کہ کون عزیز ہیں؟) فرمایا کہ ’’میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہچا نتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ مَیں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصّہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے مَیں آیا ہوں۔ میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔ مگر جو شخص وہم اور بد گمانی سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔ اس زمانہ کا حصن حصین میَں ہوں‘‘ (مضبوط قلعہ میں ہوں، حفاظت میں رکھنے والا قلعہ میں ہوں) ’’جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جوبدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندۂ مطیع بن جاتاہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔ مگر ایسا کرنے پر فقط وہی قادر ہوتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نفس مُزکّی کے سایہ میں ڈال دیتا ہے۔ تب وہ اُس کے نفس کی دوزخ کے اندر اپنا پَیر رکھ دیتا ہے تووہ ایسا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ گویا اُس میں کبھی آگ نہیں تھی۔‘‘ (انسان جب پاک بنتا ہے، نفس کی دوزخ میں جب پاؤں رکھتا ہے جب انسان اپنے آپ کو، اپنے نفس کو پاک کرتا ہے تو پھر جتنی بھی اُس کی نفس کی آگ تھی وہ ٹھنڈی ہو جاتی ہے) فرمایا: ’’تب وہ ترقی پر ترقی کرتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی روح اُس میں سکونت کرتی ہے اور ایک تجلّیٔ خاص کے ساتھ رب العالمین کا استو یٰ اس کے دل پر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر اپنا عرش قائم کرتا ہے) تب پرانی انسانیت اس کی جل کر ایک نئی اور پاک انسانیت اُس کو عطا کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایک نیا خدا ہو کر نئے اور خاص طور پر اُس سے تعلق پکڑتا ہے اور بہشتی زندگی کا تمام پاک سامان اِسی عالم میں اُس کو مل جاتا ہے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34-35)

پس یہ وہ تعلیم اور خواہشات ہیں جن پر چلنے اور پورا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے توقع کی ہے۔ حقیقی بیعت کنندہ کا یہ معیار مقرر کیا ہے۔ پس آج کے دن ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ان شرائط پر اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کو معاف فرمائے، انہیں دور فرمائے اور ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر کوئی نیکیاں ہمارے اندر ہیں تو اُن کے معیار پہلے سے بلند ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بلند کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ188-190)

پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں

شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے۔ آجکل کے لغویات سے پُر ماحول میں تو اس کی طرف اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اُنہیں بھی عادت پڑے کہ نمازیں پڑھیں۔ لیکن بچوں اور نوجوانوں کو کہنے سے پہلے بڑوں کو اپنا محاسبہ بھی کرنا ہو گا، اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جب وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی ہو، اس طرف توجہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ موسم بدلنے کے ساتھ جب وقت پیچھے جاتا ہے، راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں تو فجر میں حاضری کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ابھی پورا وقت پیچھے نہیں گیا تھا، پانچ بجے تک ہی نماز آئی تھی تو فجر کی نماز پر حاضری کم ہونے لگ گئی تھی۔ اب پھر ایک گھنٹہ آگے وقت ہوا ہے تو حاضری کچھ بہتر ہوئی ہے یا جمعہ والے دن کچھ بہتر ہو جاتی ہے۔ ابھی تو وقت نے اور پیچھے جانا ہے۔ تو بڑوں کے لئے بھی اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر وقت کے پیچھے جانے سے پھر سستی شروع ہوجائے تو یہ تو ایک احمدی کے لئے صحیح نہیں ہے۔ اس لئے میں پہلے توجہ دلا رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضری میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں اگر سستی نہ دکھائیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت سستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیںگی اور بچوں اور نوجوانوں پر بھی اس کا اثر ہو گا، اُن کی بھی توجہ پیدا ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے۔ اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

پس پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیرِ اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں۔ ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو۔ ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے، یا قرآنِ کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی مسیح ومہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں۔ ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا۔ شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو۔ نمازوں کے لئے آؤ۔ اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیز تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرکِ خفی ہے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ203-204)

جائزے لیں کہ اپنے عمل سے
احمدیت کی تبلیغ میں روک تو نہیں بن رہے

ہر احمدی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری سچائی دوسروں پر تب ظاہر ہوگی جب ہر معاملے میں ہمارے سے سچائی کا اظہار ہوگا۔ اگر ہمارے ذاتی معاملات میں اپنے مفادات میں ہمارے رویّے خود غرضانہ ہوجائیں تو بیعت میں آنے کے بعد جو عملی اصلاح کا عہد ہے، اُس کو ہم پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ قرآنِ کریم تو کہتا ہے کہ اگر تمہیں سچائی اور انصاف کے لئے اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ لیکن عملاً ہمارے طریق اور عمل اس سے مختلف ہوں تو ہم کیا انقلاب لائیں گے۔ میں اکثر انصاف کے قیام کے لئے غیروں کو قرآنِ کریم کے اس حکم کا بھی حوالہ دیتا ہوں اور دعویٰ کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہی صحیح اسلامی تعلیم پر چلنے والی ہے۔ لیکن اگر کسی غیر کے تجربے میں احمدی کے عمل اس سے مختلف ہیں تو اس پر اس بات کا کیا اثر ہو گا؟ ایسے احمدی احمدیت کی تبلیغ کے راستے میں روک ہیں۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے محاسبےکی ضرورت ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کے بے شمار حکم ہیں۔ پس ہماری عملی اصلاح تب مکمل ہو گی جب ہم ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے اپنے جائزے لیں، اپنی برائیوں کو دیکھیں۔ جب ہماری عملی اصلاح ہو گئی تب ہم سمجھ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ صرف ماننے سے، آپ کے تمام دعاوی پر یقین کرنے سے ایک حصے کو تو ہم ماننے والے ہو گئے لیکن ایک حصہ چھوڑ دیا جو نہایت اہم ہے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ206)

جلسے کے دنوں میں
اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ کریں

تبلیغ کے راستوں کو تلاش کرنے کے لئے بھی تقویٰ ہی شرط ہے جس پر چلنے کی ہر احمدی کو ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کا جو عہد کیا ہے اُس کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے عمل، ہماری کوششیں، ہماری دعائیں ہی دنیا کو راستہ دکھانے کا باعث بن سکتی ہیں ورنہ آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں ہے جو حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔

پس اس جلسے میں آ کر ہر احمدی کو اپنے ان تین دنوں میں جائزے لینے کی طرف جہاں توجہ کی ضرورت ہے وہاں اس عہد کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے آئندہ سے خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے، اپنے بھائیوں کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور معاشرے کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے اور اس ملک کا حق ادا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کرنی ہے جنہوں نے ہمیں آزادی سے رہنے کے مواقع مہیا فرمائے اور یہ حق تبلیغ کے ذریعے سے ادا ہو سکتا ہے۔ یہ حق اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے ذریعے سے ادا ہو سکتا ہے۔ یہ حق اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں دور کر کے ادا کیا جا سکتا ہے۔ پس تمام مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کریں، تبھی اس طرف توجہ پیدا ہو گی اور تبھی انقلاب آئے گا۔ دعاؤں میں لگیں، اللہ تعالیٰ دعاؤں کی وجہ سے نشانات دکھاتا ہے۔ بہت سے کام جو انسان نہیں کر سکتا، جو عمومی تبلیغ کا طریق ہے، اُس سے نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہم جھکیں، ایک ہو کر دعائیں کریں تو اللہ تعالیٰ خود نشانات بھی دکھاتا ہے اور وہ نشانات ہی انقلاب کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ان دنوں میں خدا تعالیٰ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی زندگی، اپنے یہ دن، اپنا وقت دعاؤں میں گزارنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ سب کو پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ316)

آپسی ہمدردی کی طرف توجہ کرتے ہوئے
اپنے جائزے لیں

ہم جلسے میں شامل ہونے آئے ہیں تا کہ اپنی روحانی ترقی کے سامان کریں۔ پس جہاں پر شامل ہونے والا اپنی عبادتوں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کی طرف نظر رکھے، وہاں یہ بھی دیکھے کہ جہاں عبادتوں، نمازوں، دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف آپ توجہ کریں گے، وہاں آپس کی محبت اور تعلق اور ہمدردی کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپنے جائزے لیں، ورنہ آپ ایک ایسی جگہ تو آ گئے جہاں لوگوں کا اکٹھ ہے، اجتماع ہے۔ ایسی جگہ تو آپ آ گئے جہاں آپ کے عزیز رشتے دار اور بعض ہم مزاج لوگ آئے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جگہ تو آپ آ گئے جہاں بعض علمی اور شاید تربیتی تقاریر سے آپ حظ بھی اُٹھا لیں۔ آپ اُس سے لطف اندوز بھی ہو جائیں گے لیکن جو مقصد ہے اُسے حاصل کرنے والے نہیں بن سکیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقوق العباد اور خاص طور پر اپنے بھائیوں سے ہمدردی کی طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ (انتظامیہ مجھے یہ بھی بتا دے کہ آخر میں آواز کی جو گونج واپس آ رہی ہے تو کیا وہاں لوگوں کو آواز پہنچ بھی رہی ہے کہ نہیں؟ چیک کر کے بتائیں)

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ338)

حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے

جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے کہ چوتھی شرط میں ایک احمدی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ کبھی بھی کسی کو اپنے ہاتھ سے یا زبان سے تکلیف نہیں دینی۔ یہ معیار انسان تبھی حاصل کر سکتا ہے جب تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پُر ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بُغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ رکھو اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے۔ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اُس پر ظلم نہیں کرتا۔ اُسے ذلیل نہیں کرتا اور اُسے حقیر نہیں جانتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے‘‘ فرمایا ’’کسی آدمی کے شر کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب البروالصلۃوالٓاداب باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…. حدیث:6541)

آج آپ دنیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ جو ظلم ہو رہے ہیں، جو حقوق غصب کئے جا رہے ہیں، جو مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہے ہیں، جو ظلم و بربریت کے بازار ہمیں ہر طرف گرم ہوتے نظر آتے ہیں، اُن کی بنیاد یہی حسد ہے اور تقویٰ میں کمی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے اور انتہا پسندی سے بچے ہوئے ہیں۔ لیکن چھوٹے پیمانے پر ہمارے گھروں میں بھی، ہمارے ماحول میں بھی یہ بیماریاں موجود ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک حقیقت پسندی سے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے جائزے لے تو خود اُسے نظر آ جائے گا کہ میں آپ کو یہ غلط باتیں نہیں کہہ رہا۔ بھائیوں بھائیوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ افرادِ جماعت میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ عورتوں میں حسد کی بنیاد پر رنجشیں ہیں۔ اس بات پر حسد شروع ہو جاتی ہے کہ فلاں کو فلاں خدمت کیوں سپرد ہو گئی ہے؟ میرے سپرد کیوں نہیں ہوئی؟ اگر ہم میں سے ہر ایک کو اس بات پر یقین ہے کہ جماعت احمدیہ ایک الٰہی جماعت ہے اور یقیناً ہے تو پھر بجائے عہدہ کی خواہش رکھنے کے استغفار کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اگر کسی وقت بھی میرے سپرد یہ خدمت ہوئی تو میں اس کو احسن رنگ میں سرانجام دے سکوں۔ عہدہ کی خواہش رکھنے والے کے بارے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو پھر عہدہ ہی نہ دو۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ345-346)

جائزے لیں کہ ہم خلیفہ وقت کے لئے
پریشانی کاباعث تو نہیں

اگر یہ بات سب عہدیدار بھی سامنے رکھیں اور عہدوں کی خواہش رکھنے والے بھی سامنے رکھیں تو نفسانی خواہشات کے بجائے تقویٰ کی طرف قدم آگے بڑھیں گے۔ پھر یہ تقویٰ کی کمی ہے جو معمولی باتوں پر رنجشوں کو بڑھاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ یہ منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے کہ فلاں کو دُکھ کس طرح پہنچایا جائے۔ فلاں کو نظامِ جماعت اور خلیفۂ وقت کے سامنے کس طرح گھٹیا اور ذلیل ثابت کیا جائے یا کم تر ثابت کیا جائے یا اُس کی کوئی کمزوری اُس کے سامنے لائی جائے۔ یہاں تک کہ مجالس میں اُس کے بیوی بچوں کو کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پوراخاندان بعض دفعہ اس میں involve ہو جاتا ہے۔

پس کجا تو اس شرط پر بیعت ہو رہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاؤں گا بلکہ ہمدردی کے راستے تلاش کروں گا۔ فائدہ پہنچانے کی ترکیبیں سوچوں گا اور کجا یہ عمل ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، اس معیار کو حاصل کرنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں اپنے یہ جائزے لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ دن اس راہ کے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ مَیں یہ سب باتیں کسی مفروضے پر بنیاد کر کے نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقت میں ایسے معاملے سامنے آتے ہیں جو میرے لئے پریشانی کا موجب ہوتے ہیں، شدید شرمندگی کا باعث بنتے ہیں کہ میں تو دنیا کو یہ بتاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ وہ جماعت ہے جو حقوق کی ادائیگی کی راہیں تلاش کرتی ہے۔ اُس مسیح موعود کو ماننے والی ہے جو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلانے کے لئے اس زمانے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا اور ہمارے بعض افراد کی کیا حالت ہے۔ اُن کو دیکھ کر غیر کیا کہیں گے کہ تمہارے دعوے کیا ہیں اور تمہارے لوگوں کے عمل کیا ہیں؟

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ346-347)

ہمیں دعا اور اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

ایک حقیقی مومن کے لئے کوئی راہِ فرار نہیں ہے۔ عوام الناس کی خیر خواہی کے مقام کو بھی اُس مقام تک پہنچا دیا جس کی ادائیگی کے بغیر نہ خدا تعالیٰ کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کی کتاب کا حق ادا ہو سکتا ہے، نہ اُس کے رسول کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ اس بات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بیان فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف ایک قسم کی نیکی سے حاصل نہیں ہوتا جبتک کہ تمام قسم کی نیکیوں کو بجا لانے کی کوشش نہ ہو۔

(ماخوذاز ملفوظات جلد2 صفحہ680 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر دیکھیں ہمارے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے عاجزی کی انتہائی حدوں کو پہنچی ہوئی دعا۔ وہ نبی جو ہر وقت اپنی جان کو دشمنوں کے لئے بھی ہمدردی کے جذبے کے تحت ہلکان کر رہا تھا، جس کا رُواں رُواں اپنوں کے لئے سراپا رحمت و شفقت تھا، اپنے رب کے حضور عاجزی اور بیقراری سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے میرے اللہ! مَیں بُرے اخلاق اور برے اعمال سے اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

(سنن الترمذی ابواب الدعوات باب دعاء امّ سلمۃؓ حدیث:3591)

پس یہ وہ تقویٰ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ وہ یہاں ہے اور یہ وہ کامل اسوہ ہے جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے۔ پس ہمیں کس قدر اس دعا کی ضرورت ہے۔ کس قدر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ کس قدر ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ348)

مسلمان حکومتیں اپنے جائزے لینے کی
کوشش نہیں کرتیں

ہمدردی کے جذبے کے تحت یہ بھی دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اُس تباہی سے دنیا کو بچا لے جس کی طرف یہ بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مسلم امہ کے اور مسلمان حکومتوں کے لئے بھی دعائیں کریں یہ بھی آجکل بڑے ابتلا میں آئی ہوئی ہیں اور اپنے جائزے لینے کی کوشش نہیں کرتیں کہ کس وجہ سے یہ ابتلا میں آئی ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ351-352)

عملی حالتوں کی تبدیلی میں ہر برائی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اُس کو چھوڑنا اور ہر نیکی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اس کا اختیار کرنا شامل ہے۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی نہ کرو۔

(خطبات مسرور جلد10صفحہ205)

جائزے ہمیں اپنے ایمان میں ترقی کی طرف
لے جانے والے ہیں

یہاں امریکہ میں ایک بہت بڑی تعداد ایفرو امیریکن (Afro-American) کی بھی ہے۔ ان کے بڑوں نے بھی جب احمدیت قبول کی تو بڑی قربانیاں کیں اور اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ لیکن آگے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ حالتیں قائم ہیں؟ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے عمل اور اعتقاد میں کوئی تضاد تو نہیں؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد اور نعرے صرف وقتی جذبات تو نہیں؟ جن شرائط پر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ہے اُن کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہم عملی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ نہیں؟

پس یہ جائزے ہیں جو ہمیں اپنے ایمان میں ترقی کی طرف لے جانے اور ہمارے اعتقاد اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہوں گے۔ اس وقت میں انہی جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے شرائطِ بیعت میں سے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے بھی دوسرا اہم رُکن ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ اہم چیز ہے ’’نماز‘‘۔ شرائط بیعت کی تیسری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سب سے پہلے اس بنیادی رُکن کو لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری بیعت میں آنے والے یہ عہد کریں کہ ’’بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ382)

عارفانہ خوردبین سے اپنے جائزے لیں

اللہ تعالیٰ نے جو یہ جماعت قائم فرمائی تو وہ اس میں شامل ہونے والوں کو خاص طور پر پاک کرنا چاہتا ہے تا کہ پاک جماعت کا قیام ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں سے ہر ایک سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ عارفانہ خوردبین ہم لگائیں۔ اس سے ہم اپنے نفس کو دیکھیں۔ اپنے نفس کا محاسبہ کریں۔ اپنی اعتقادی غلطیوں کی جہاں اصلاح کریں وہاں ہر قسم کی چھوٹی سے چھوٹی عملی غلطیوں کی بھی اصلاح کریں۔ اپنے اعمال کی طرف بھی نظر رکھیں اور یہ عارفانہ خوردبین ہی ہے جو معمولی قسم کی غلطیوں کو بڑا کر کے دکھائے گی کیونکہ خوردبین کا یہی کام ہے کہ باریک سے باریک چیز بھی بڑی کر کے دکھاتی ہے۔

پس اپنے گناہوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی غلطیوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے لئے ہمیں وہ خوردبین استعمال کرنی پڑے گی جس سے ہم اپنے نفس کے جائزے لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ پس ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کوئی معمولی دعویٰ اور یہ معمولی جماعت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ معمولی دعویٰ ہے، نہ یہ جماعت ایک معمولی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جماعت کے افراد کو پاک کر کے ایک پاک جماعت بنانا چاہتا ہے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ ہر احمدی کو یہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ یہ تقویٰ اور طہارت کی زندگی کے نمونے ہی ہیں جو وہ انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں، اور یہ انقلابی تبدیلی ہمارے اعتقاد کی اصلاح اور اعمال کی اصلاح کے ساتھ وابستہ ہے۔ صرف اعتقادی اصلاح فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ اعمال کی اصلاح بھی ساتھ نہ ہو۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی فکر نہ ہو۔ کیاعقیدہ ہمارا ہونا چاہئے اور کونسے اعمال ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہئے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں مَیں نے پڑھا۔ ہم نے دیکھا کہ معمولی سے معمولی نیکی کی طرف بھی توجہ اور اُس کے بجا لانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ195)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

حضرت مصلح موعودؓ کا درود پڑھنے کا طریق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 نومبر 2022