• 18 مئی, 2024

ان لوگوں کا نقشہ جو اپنے مقصد پیدائش کو نہیں سمجھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزیدفرماتے ہیں:
انہی کی حالت کا اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں نقشہ بھی کھینچا ہے۔ فرمایا وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ (الاعراف: 180) اور یقینا ہم نے جنّوں اور انسانوں میں سے ایک بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے، اُن کے دل تو ہیں مگر ان کے ذریعہ سے وہ سمجھتے نہیں، یعنی روحانی باتیں سمجھنے کے قائل ہی نہیں، اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ دیکھتے نہیں، اُن کے کان تو ہیں مگر ان کے ذریعے سے وہ سنتے نہیں، نہ ان کے دلوں میں روحانیت بیٹھتی ہے، نہ اُن کے کان روحانیت کی باتیں، دینی باتیں سننے کے قائل ہیں نہ نیک چیزیں اور وہ چیزیں دیکھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں جس کی طرف خدا تعالیٰ نے دیکھنے کا کہا ہے اور نہ اُن سے دیکھنے سے رُکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے رکنے کا کہا ہے۔ گویا مکمل طور پر دنیاوی خواہشات نے اُن پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بد تر، اور بھٹکے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جو غافل ہیں۔ پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰٮہُ (الفرقان: 44) کیا توُنے اُسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیا۔ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی ہی عبادت کرنے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا (الفرقان: 45) کیا تو گمان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا عقل رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ بدتر۔

ان آیات میں ان لوگوں کا نقشہ ہے جو اپنے مقصد پیدائش کو نہیں سمجھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جس نے پیدا کر کے پھر اُس پیدائش کا مقصد بتایا ہے، اُسے تو بھول گئے ہیں اور اپنے مقاصد خود تلاش کر رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ جانوروں کے تو اعمال کا حساب نہیں ہے، ان بھٹکے ہوؤں کے اعمال کا حساب جو ہے یقینا انہیں جہنم میں لے جائے گا۔

یہاں یہ بات واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہا کہ ہم نے بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو اس سے غلط فہمی نہ ہو کہ خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اختلاف ہے۔ ایک طرف تو کہہ رہا ہے کہ مَیں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے بنایا دوسری طرف فرماتا ہے کہ جہنم کے لئے پیدا کیا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامانوں کے، باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے اکثریت اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اپنی دنیا و آخرت کے سنوارنے کے سامان نہیں کرتی اور اس کی بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کر کے جہنم کے راستوں کی طرف چل رہی ہے۔
اہل لغت اس کی وضاحت اس طرح بھی کرتے ہیں کہ جہنم کے لفظ سے پہلے لام کا اضافہ ہوا ہے ’’لِجَھَنَّمَ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اضافہ اُن کے انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ مقصد کی طرف۔

(تفسیر البحر المحیط جلد4 صفحہ425 تفسیر سورۃ الاعراف زیر آیت180 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)

پس اپنے بد انجام کو انسان خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کر کے، اُس کی عبادت کا حق ادا نہ کر کے پہنچتا ہے، اُس کے حکموں پر عمل نہ کر کے پہنچتا ہے۔ آجکل جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنی بیہودہ خواہشات نے انسان کا یہ انجام بنا دیا ہے کہ انسان جانوروں سے بھی بدتر حرکتیں کرنے لگ گیا ہے اور کھلے عام بیہودہ حرکتیں ہوتی ہیں۔ گندی اور ننگی حرکات دیکھی جاتی ہیں، کی جاتی ہیں۔ پورنوگرافی کی ویڈیو اور فلمیں کھلے عام مہیا ہو جاتی ہیں، اُنہیں دیکھ کر یہ لوگ، ایسی حرکتیں کرنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں۔ اور مَیں افسوس کے ساتھ کہوں گا، بعض شکایتیں مجھے بھی آ جاتی ہیں کہ ہمارے احمدی نوجوان بلکہ درمیانی عمر کے لوگ بھی اس قسم کی لغو یا اس سے ذرا کم لغو فلمیں دیکھنے کے شوق میں مبتلا ہیں اور اسی وجہ سے بعض گھر بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ پس ہر ایک کو خدا کا خوف کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو ان لغویات اور ذاتی خواہشات کو چھوڑو ورنہ مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ۔ ایسے لوگ عموماً جلسوں پر تو نہیں آتے، جماعت سے بھی بڑے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں، دور ہوئے ہوتے ہیں لیکن اگر آئیں یا اُن کے کان میں یہ باتیں پڑ جائیں، یا اُن کے عزیز اُن تک پہنچا دیں تو ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ یا پھر اس سے پہلے کہ نظامِ جماعت کوئی قدم اُٹھائے خود ہی جماعت سے علیحدہ ہو جائیں۔ اسی طرح نوجوانوں کو بھی جو نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں، اچھے اور برے کی صحیح طرح تمیز نہیں ہوتی۔ گھر والوں نے بھی نہیں بتایا ہوتا۔ جماعت کے نظام سے بھی اتنا زیادہ منسلک نہیں ہوتے، اُن کو بھی میں کہوں گا کہ بیہودہ چیزیں دیکھنا، فلمیں دیکھنا وغیرہ یہ بھی ایک قسم کاایک نشہ ہے۔ اس لئے اپنی دوستی ایسے لوگوں سے نہ رکھیں جو ان بیہودگیوں میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ آپ پر بھی اثر ڈالیں گی۔ ایک مرتبہ بھی اگرکسی بھی قسم کی غلاظت میں پڑ گئے تو پھر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔

(خطبہ جمعہ 06جولائی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 دسمبر 2021