• 18 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 11)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہور
قسط 11

ارشادات برائے قادیان

٭ قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام کے لڑکوں کا گیند بلا کھیلنے میں میچ تھا۔ بعض بزرگ بھی بچوں کی خوشی بڑھانے کے واسطے فیلڈ میں تشریف لے گئے۔ حضرت اقدسؑ کے ایک صاحبزادہ نے بچپن کی سادگی میں آپؑ کو کہا کہ ابا تم کیوں کر کٹ پر نہیں گئے۔ آپؑ اس وقت تفسیر فاتحہ کے لکھنے میں مصروف تھے۔

فرمایا:
’’وہ تو کھیل کر واپس آ جائیں گے، مگر میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جو قیامت تک قائم رہے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ94 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ آذر حضرت ابراہیم کا باپ ہی تھا۔ الله تعالیٰ نے اس کا نام اَبْ رکھا ہے۔اس قسم کے انقلاب دنیا میں ہوتے آئے ہیں۔ کبھی باپ صالح ہوتا ہے بیٹا طالح ہوتا ہے۔ اور کبھی بیٹا صالح ہوتا ہے باپ طالح ہوتا ہے۔ ہمارے پڑ داداصاحب بڑے مخیر تھے اور با خدا بزرگ تھے۔ چنانچہ لوگ کہا کرتے تھے کہ ان کو گولی کا اثر نہیں ہوتا۔ ایک وقت میں ان کے دستر خوان پر 500 آدمی ہوا کرتے تھے اور اکثر حافظ قرآن اور عالم ان کے پاس رہتے تھے۔ اور قادیان کے اردگرد ایک فصیل ہوتی تھی جس پر تین یا چار چھکڑ ے برابر برابر چلا کرتے تھے۔ خدا کی قدرت سکھوں کی تعدی اور لوٹ کھسوٹ میں وہ سب سلسلہ جا تا رہا اور ہمارے بزرگ یہاں سےچلے گئے۔ پھر جب امن ہوا تو واپس آئے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ341-342 ایڈیشن 2016ء)

٭ منشی عبدالحق صاحب قصوری طالب علم بی۔ اے کلاس لاہور نے جو عرصہ تین سال سے عیسائی تھے الحکم اور حضرت اقدس علیہ السلام کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں اس پر حضرت خلیفۃ اللہ نے ان کولکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دو مہینے تک یہاں قادیان میں آ کر ر ہیں چنانچہ انہوں نے دارالامان کا قصد کیا اور 22 دسمبر1901ءکو بعد دو پہر یہاں آ پہنچے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ430-431 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ یہ طاعون بدکاریوں اورفسق و فجور اور میرے انکار اور استہزاءکا نتیجہ ہے اور یہ نہیں رک سکتا جب تک لوگ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی نہ کریں اور سب وشتم سے زبان کو نہ روکیں۔ پھر فرماتا ہے اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔
اس گاؤں کو پریشانی اور انتشار سے حفاظت میں لے لیا۔ کیا اس گاؤں میں ہر قسم کے لوگ چوہڑے، چمار، دہریہ اور شراب پینے والے اور بیچنے والے اور اور قسم کے لوگ نہیں رہتے۔ مگر خدا نے میرے وجود کے باعث سارے گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس افراتفری اور موت الكلاب سے اسے محفوظ رکھا جو دوسرے شہروں اور قصبوں میں ہوتی ہے۔ غرض یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں، ان کو عزت اور عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور اپنی ساری قوتوں کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے نیچے استعمال کرو۔ توبہ اور استغفار کرتے رہو تا خدا تعالیٰ اپناتم پر فضل کرے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ521-522 ایڈیشن 2016ء)

٭ کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکاً آپ سے بھی چندہ چا ہتے ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
’’ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں ہے،مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے۔ تو ہم کس طرح سے شامل ہوں۔ یہاں جومسجد خدا بنارہا ہے اور وہی مسجد اقصٰی ہے وہ سب سے مقدم ہے۔ اب لوگوں کو چاہیے کہ اس کےواسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں۔ ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے۔ حضرت امام ابوحنیفہؓ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں۔ آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں۔ انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ دے نہیں سکتا، حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سےبہت کچھ نہیں مانگتے صرف تبرکاً کچھ دے دیجئے۔ آخر انہوں نے ایک دونی کے قریب سکہ دیا۔ شام کے وقت وہ شخص دونی لے کر وا پس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت یہ تو کھوٹی نکلی ہے۔ وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا، خوب ہوا۔ دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں۔ مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ170-171 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ مختلف لوگوں کو جو رؤیا ہوئے ہیں کہ قادیان میں طاعون نہیں ہوگی۔ ان خوابوں کو جمع کر کے شائع کر دینا چاہیے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ74 ایڈیشن 2016ء)

٭ حضرت اقدس حجۃ الله على الارض مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کے فضل و کرم سے بہمہ وجوہ تندرست ہیں۔ اور طاعون کے متعلق ایک جدید اشتہار لکھ رہے ہیں۔ آج پہلا دن ہے کہ حضرت حجۃ اللہ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے اور اب ان شاء اللہ حسب معمول ہر روز جایا کریں گے۔ سیر سے واپس آ کر شیخ عبد الرحمٰن ملازم خان صاحب نواب محمد علی خان صاحب رئیس اعظم مالیرکوٹلہ نے جو اپنی غلط فہمی اور کوتہ اندیشی کی وجہ سے ان کی ملازمت سے مستعفی ہوئے تھے رخصت چاہی۔ حضرت حجۃ اللہ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا:۔
ملازم کے لئے ملازمت سے پہلے ایسی جگہ دیکھ لینی چاہے جہاں آقا نیک اور متقی ہو کیونکہ بندگی بیچارگی ملا زم ناصح کا درجہ نہیں پا سکتا اس لیے بسا اوقات ایسے لوگوں کی ملازمت ہوتی ہے جہاں دین بر باد ہو جاتا ہے پس نواب صاحب کی ملازمت کو بہت ترجیح دینی چاہیے نواب صاحب بڑے صالح اور با مروت ہیں اور پھر قادیان جیسی جگہ کو چھوڑ نانہیں چاہیے یہاں امن سے بیٹھے ہو دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے اور ابھی معلوم نہیں کیا ہوگا ملک الموت قریب آ رہا ہے لیکن یہاں تم سنتے ہو کہ خدا اپنا فضل کر رہا ہے جب انسان دینی فوائد کو چھوڑ کر دنیوی فوائد کے پیچھے جاتا ہے تو دنیوی فوائد بھی جاتے رہتے ہیں بس بری مجلسوں سے توبہ کرو اور جہاں تکذیب ہوتی ہو وہاں سے اٹھ جاؤ ورنہ تم بھی ان کے مثل سمجھے جاؤ گے میری رائے میں بہتری یہی ہے کہ تم اپنے اس اراده پر نظرثانی کرلو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ87-88 ایڈیشن 2016ء)

٭ بعد ادائے نماز مغرب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حسب معمول اجلاس فرما ہوئے تو قادیان میں جو چوڑھوں میں چند آدمی مر گئے ہیں بہ ایں وجہ کہ ان ایام میں انہوں نے کئی ہلاک شدہ بھینسیں کھائی تھیں ان کا ذکر ہوتے ہوتے آخر طاعون کا تذکرہ ہو پڑا فرمایا:۔
ایک بار مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ خدا قادیان میں نازل ہوگا اپنے وعدہ کے موافق اور پھر یہ بھی تھا۔ ’’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ‘‘ فرمایا:۔
طاعون کے خوف ناک نتائج یہ بھی ہیں کہ آخر کو جنگل بنا دیتی ہے۔

اس پر حکیم نور الدین صاحب نے کہا کہ حضور میں نے پڑھا ہے کہ یہ جونئی آبادی بار میں ہوئی ہے اس میں پرانی آبادیوں کے نشانات ملے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ قطعات آباد تھے اور طاعون سے ہلاک ہوئے تھے۔

حضرت اقدسؑ نے فرمایا :۔
خواہ موذی طبع لوگ ہزاروں ہی مر جاو ہیں مگر میرا جی یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا جلا ل ظاہر ہو اور دنیا کو خدا کا پتہ لگے اور ثبوت ملے کہ کوئی قادر خدابھی ہے اس وقت دہریت اور الحاد بہت پھیلا ہوا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے بے پرواہی ظاہر کی جاتی ہے اور جن لوگوں نے بظاہر خدا تعالیٰ کا اقرار بھی کیا ہے انہوں نے یا تو خطرناک شرک کیا ہے جیسے عیسائی اور دوسرے بت پرست مشرک اور پھر جنہوں نے بظاہر توحید کا اقرار بھی کیا ہے جیسے مسلمان انہوں نے بھی دراصل شرک اختیار کر رکھا ہے اور مسیح کو خدا کی صفات سے متصف ٹھہرا رکھا ہے۔ علاوہ بریں خدا تعالیٰ کی حکومت کے نشان ان کے اعمال سے ثابت نہیں ہوتے۔ اعمال میں سستی اور بیبا کی اور دلیری پائی جاتی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا خوف دلوں پر نہیں رہا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ اس بیباکی کے دور کرنے میں بے شک ہزاروں ظالم طبع لوگ ہلاک ہوں تا کہ وہ دوسروں کے لئے عبرت ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر ایمان لانے والے ہوں۔ دیہات کے لوگ تو جنگل کے وحشیوں کی طرح ہیں مگر شہروں میں جوتعلیم یافتہ ہیں ان کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہورہی ہے میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں میں بھی اعلائے کلمۃ الله اور اپنے اعمال کی اصلاح اور تبدیلی کا جوش نہیں ہے باپ دادا سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سن لیا اسی کو کافی سمجھا اعمال کی پروا نہیں۔

یہ جو الہام ہو چکا ہے اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ اگر منتشر کرنے کا قانون منسوخ نہ ہوتا تو اس مفہوم کو اس الہام میں داخل سمجھا جا سکتا مگر اب جب کہ سب جگہ قانون منسوخ ہو گیا ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے جیسا کہ دوسرے الہام لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ سے پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک شو کت بھی ہے اور چشم نمائی ہے جیسے ایک مجرم کو جج 3 سال کی سزادے اور ساتھ ہی یہ کہہ دے کہ اصل میں 14 سال کی قید کی سزا کے لائق تھا مگر عدالت رحم کر کے 3 سال کی سزا دیتی ہے۔ اسی طرح پر یہ الہام ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ جگہ بھی ایسی ہی تھی کہ ہلاک کی جاتی مگر خدا تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کا اکرام ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اسی اکرام کی وجہ سے اسے ہلاکت سے بچالیا اور اس طرح پر یہ نشان ٹھہرا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ285-287 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ پھر مذہب کی دوسری جز و یا اصل یہ ہے کہ مخلوق کے حقوق کیسے قائم کرتا ہے اس اصل میں بھی دوسرے مذاہب کا مقابلہ کر کے دیکھولو۔ آریہ مذہب نے تو ایسا ظلم کیا ہے کہ بجز بے غیرتی کے اور معلوم نہیں ہوتا۔ اس نے نیوگ کی تعلیم دی ہے کہ جس شخص کے گھر میں اولاد نہ ہوتو وہ اپنی عورت کو دوسرے شخص سے ہم بستر کراوے اور اولاد حاصل کر لے۔ اب اس سے بڑھ کر پاکیزگی اور غیرت کا خون کیا ہو گا کہ ایک شخص کو جس کی بدقسمتی سے دو چار سال تک اولاد نہیں ہوئی، کہہ دیا جائے کہ تو اپنی بیوی کو دوسرے آدمی سے اولا د لینے کی خاطر ہم بستر کرا لے یہ کیسی شرمناک بات ہے۔ یہاں قادیان میں ایک شخص موجود ہے اس سے جب اس نیوگ کی بابت پوچھا گیا تو اس نے یہی کہا کہ کیا مضائقہ ہے۔ اب کوئی عقلمند اس تعلیم کو کب گوارا کر سکتا ہے میں نے پڑھا تھا کہ ایک بنگالی آر یہ ہو گیا ایک برہمو نے جب اس پر نیوگ کی حقیقت کھولی تو اس نے ستیارتھ پرکاش کو پھٹکار کر مارا اور کہا کہ یہ مذہب قبول کرنے کے لائق نہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ327-328 ایڈیشن 2016ء)

٭ بیعت میں تین نوجوان ایسے بھی شامل تھے جو کہ صرف ایک دن کی رخصت پر آئے تھے عصر کے وقت قادیان میں پہنچے اور اگلے روز انہوں نے کیمپ میں حاضر ہونا تھا۔ ان کے اس اخلاص اور محبت پر فرمایا کہ:۔
باوجودیکہ فوجی نوکر ہیں مگر خدا نے دین کی محبت ڈال دی ہے صدق اور اخلاص لے کر آئے ہیں خدا ہر ایک کو یہ نصیب کرے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ406 ایڈیشن 2016ء)

٭ عصر کی نماز سے پیشتر آپ نے تھوڑی دیرمجلس فرمائی اور ایک خواب بیان کیا۔ جسے دیکھے ہوئے قریب دو ہفتے گذرے تھے وہ خواب یہ ہے کہ:۔
ایک مقام پر میں کھڑا ہوں تو ایک شخص آ کر چیل کی طرح جھپٹا مار کر میرے سر سے ٹوپی لے گیا پھر دوسری بار حملہ کر کے آیا کہ میرا عمامہ لے جاوے مگر میں اپنے دل میں مطمئن ہوں کہ نہیں لے جا سکتا۔ اتنے میں ایک نحیف الوجود شخص نے اسے پکڑ لیامگر میرا قلب شہادت دیتا تھا کہ یہ شخص دل کا صاف نہیں ہے۔ اتنے میں ایک اور شخص آ گیا جو قادیان کا رہنے والا تھا اس نے بھی اسے پکڑ لیا میں جانتا تھا کہ مؤخر الذکر ایک مومن متقی ہے پھر اسے عدالت میں لے گئے تو حاکم نے اسے جاتے ہی چار یا چھ یا نوماہ کی قید کاحکم دے دیا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ411 ایڈیشن 2016ء)

نماز سے پیشتر یہ رؤیا سنائی:۔
٭ میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں ایک دو آدمی ساتھ ہیں۔ کسی نے کہا راستہ بند ہے ایک بڑا بحر زخار چل رہا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی کوئی در یانہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے۔ ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ460 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ ایک عرصہ ہوا میں نے خواب دیکھا تھا کہ گویا میر ناصر نواب ایک دیوار بنارہے ہیں۔ جو فصیل شہر ہے۔ میں نے اس کو جو دیکھا تو خوف آیا کیونکہ وہ قدآدم بنی ہوئی تھی۔ خوف یہ ہوا کہ اس پر آدمی چڑھ سکتا ہے۔ مگر جب دوسری طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ قادیان بہت اونچی کی گئی ہے اس لیے یہ دیوار دوسری طرف سے بہت اونچی ہے اور یہ دیوار گو یا ریختہ کی بنی ہوئی ہے۔ فرش کی زمین بھی پختہ کی گئی ہے۔ اور غور سے جو دیکھا تو وہ دیوار ہمارے گھروں کے ارد گرد ہے۔ اور ارادہ ہے کہ قادیان کے گرد بھی بنائی جاوے۔ شاید اللہ رحم کر کے ان بلاؤں میں تخفیف کر دے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ196 ایڈیشن 2016ء)

٭ آج معمولی موسمی عوارض بخار وغیرہ سے یہاں کے چوڑھوں اور دوسری اقوام میں دو موتیں ہوگئی تھیں۔ اس کا ذ کر آیا۔ فرمایا:۔
ایسی موتیں محرقہ تپ سے بھی ہوتی ہیں۔ طاعون کے حملے ہی الگ ہوتے ہیں۔ کوئی جنازہ پڑھنے اور اٹھانے والا بھی نہیں ملتا۔ بعض وقت ایک گھر میں جب یہ بلا داخل ہوتی ہے تو اس گھر کے گھر کو صاف کر دیتی ہے۔ اور عورتوں بچوں تک کوتو ہوتی ہی ہے جانوروں کو بھی ہو جاتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ196-197 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ یہ میرا ایک پرانا الہام ہے۔ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ اَمْرَکَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا براہین کے وقت سے اب اسے دیکھو کہ کیسا برابر ایک سلسلہ چلا آرہا ہے میں اس امر پر ایک دفعہ غور کرتا رہا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور یَاْ تِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ان دونوں الہاموں میں کیا مناسبت ہے تو معلوم ہوا کہ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ جب اس قدر لوگ آویں گے تو ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی چاہیے تو آگے بتلایا گیا کہ اور یَاْتِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ یعنی وہ اپنے کھانے دانے بھی اپنے ہمراہ لاویں گے قادیان کے لوگ خوب واقف ہیں کہ اس وقت کیا حالت تھی۔ کیا یہ انسا ن کا کام ہے کہ مدت دراز کے بعد جو بات ہونے والی تھی وہ اس قدر پیشتر بتلائی گئی۔ اسی لئے جوش آتا ہے اور جو تحفہ اور نذ ر و ہ لاتا ہے ہر ایک، ایک نشان ہوتا ہے اور اگر اس طرح سے ہم حساب کریں تو نشانات پچاس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ413 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ پھرث ہی کی مد میں ایک اور پیشگوئی ہے جو اس سے بھی عجیب تر اور عظیم الشان ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ۔ اس سے ایک عظیم الشان جماعت کے قائم کرنے کی خبر دیتا ہے۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی اس وقت ایک آدمی بھی ہم کو نہیں جانتا تھا اور کوئی یہاں آتا جاتا نہ تھا۔ براہین احمدیہ میں یہ الہام درج ہے لیکن اب دیکھ لو کہ ستر ہزار سے زیادہ آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور دن بدن ترقی ہورہی ہے۔ خاص قادیان میں ایک کثیر جماعت موجود رہتی ہے۔ پھر کیا یہ کوئی جھوٹ بات ہے۔ یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب۔

اور بھی ث کی مد میں پیشگوئیاں ہیں مگر میں اس وقت صرف مثال کے طور پر ایک دو بیان کرتا ہوں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ154 ایڈیشن 2016ء)

قادیان کے اخباروں کی نسبت فرمایا کہ :۔
٭ یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں۔ الہامات وغیره جھٹ چھپ کر ان کے ذریعے شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوے تو ایک ایک کتاب کو چھپتے بھی کتنی دیر لگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ450 ایڈیشن 2016ء)

٭ اس کے بعد حضرت اقدس نے اپنا پرانا خواب مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان فرمایا۔ جو کہ کتاب سراج منیر کے آخر میں درج ہے اور فرمایا کہ :۔
یہ بات 94 یا 95ء کی ہے جب ہم نے یہ رؤیا دیکھا تھا کہ ہم نے جماعت کرائی ہے اور نماز عصر کا وقت ہے اور ہم نے قراءت پہلے بلند آواز سے کی ہے پھر ہم کو یاد آیا اور اس کے بعد ہم نے محمد حسین سے کہا کہ ہم خدا کے سامنے جا ئیں گے ہم چاہتے ہیں ہر بات میں صفائی ہو اگر ہم نے آپ کے متعلق کچھ سخت الفاظ کہے ہوں تو آپ معاف کر دیں۔ اس نے کہا میں معاف کرتا ہوں۔ پھر ہم نے کہا کہ ہم بھی معاف کرتے ہیں۔ پھر ہم نے دعوت کی اور اس نےعذرخفیف کے ساتھ اس دعوت کو قبول کر لیا۔ اور ایک شخص سلطان بیگ نام چبوترہ پر قریب الموت تھا اور ہم نے کہا کہ ایسا ہی مقدر تھا کہ اس کے مرنے کے وقت یہ واقعہ ہو اور ایسا ہی مقدر تھا کہ بہاء الدین کے مرنے کے وقت یہ بات ہو۔

اس خواب کے بعد فر مایا کہ: وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔ خواب میں تعینات شخصیہ ضروری نہیں۔ پر حضرت اقدسؑ نے مولوی محمد حسین صاحب کی ان دنوں کی حالت کا ذکر کیا۔ جب وہ بات بات میں خاکساری دکھاتے اور قدم قدم پر اخلاص رکھتے تھے اور جوتے اٹھا کر جھاڑ کر آگے رکھتے تھے اور وضو کراتے تھے اور کہتے تھے کہ میں مولویت کو نہیں چاہتا۔ مجھے اجازت دوتو میں قادیان میں آرہوں اور فرمایا کہ:۔
کسی وقت کا اخلاص اور خدمت انسان کے کام آ جاتا ہے۔ شاید ان وقتوں کا خلاص ہی ہو جو بالآخر مولوی محمد حسین صاحب کو اس سلسلہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق دے کیونکہ وہ بہت ٹھو کریں کھا چکے ہیں اور آخر دیکھ چکے ہیں کہ خدا کے کاموں میں کوئی حارج نہیں ہوسکتا۔

فرمایا: ایساہی اجتہادی طور پر ہمیں بعض لوگوں پر بھی حسن ظن ہے کہ وہ کسی وقت رجوع کریں گے کیونکہ ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ
’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں، وسوسہ پڑ گیا ہے پڑمٹی نظیف ہے، وسوسہ نہیں رہے گا۔ مٹی رہے گی۔‘‘

اس کے بعد چندمختلف با تیں ہو کر نماز عشاء ادا کی گئی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ125-126 ایڈیشن 2016ء)

٭ آجکل ہمارے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توجہ طاعون کی طرف زیادہ ہے اور چونکہ یہ لوگ عارف تر ہوتے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ کی غناءِ ذاتی سے خائفت تر بھی ہوتے ہیں۔ عموماً سیر اور بعد شام طاعون پر کچھ نہ کچھ تقریر ہوجاتی ہے وه اِنَّہٗٓ اٰوَى الْقَرْ یَۃَ کا الہام ایک عرصہ سے آنحضرت کو ہو چکا ہے۔ اس کے متعلق فرمایا کہ
میں اس کے معنے یقینا ًیہی سمجھتا ہوں کہ وہ افراتفری اور قیامت خیز نظارہ جو طاعون کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اس سے اللہ تعالیٰ قادیان کو ضرور محفوظ رکھے گا اگر چہ یہ امرممکن ہی ہو کہ کوئی کیس خدانخواستہ یہاں ہو جائے، مگر اَلنَّادِرُ کَالْمَعْدُوْمِ کے ضمن میں ہے تا ہم الله تعالیٰ کے فضل اور وعدہ کے موافق یقین ہے کہ وہ ہمیں تشویش اورسخت اضطراب سے ضرور محفوظ رکھے گا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ37 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون سے کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ جیسے فرمایا ہے اِنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اِلَّا نَحۡنُ مُہۡلِکُوۡہَا قَبۡلَ یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ اَوۡ مُعَذِّبُوۡہَ (بنی اسرائیل: 59) اس سے لازم آتا ہے کہ کوئی قریہ مس طاعون سے باقی نہ رہے۔ اس لیے قادیان کی نسبت یہ فرمایا اِنَّہٗٓ اٰوَى الْقَرْ یَۃَ۔ یعنی اس کو انتشار اور افراتفری سے اپنی پناہ میں لے لیا۔ سزائیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک بالکلیتہ اہلاک کرنے والی جس کے مقابلہ میں فرمایا لَوْلَا الْاِکْرَامُ لَھَلَکَ الْمُقَامُ۔ یعنی یہ مقام اِہلاک سے بچایا جاوے گا۔ دوسری قسم سزا کی بطور تعذیب ہوتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ نے قادیان کو ہلا کت سے محفوظ رکھا ہے اور تعدی سزا ممنوع نہیں بلکہ ضروری ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ86-87 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
٭ اور پھر اسی طرح اس مد میں اٰوٰی کا نشان ہے جو خدا تعالیٰ نے قادیان کو طاعون کی افراتفری سے محفوظ رکھنے کے متعلق دیا ہے اِنَّہٗٓ اٰوَى الْقَرْیَۃَ۔ ملک میں طاعون کثرت سے پڑا ہواہے اور خدا تعالیٰ قادیان کے انتشار اور موت الکلاب سے محفوظ رہنے کی بشارت دیتا ہے کہ اس گاؤں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ یعنی اس گاؤں پر خصوصیت سے فضل رہے گا۔ اٰوٰی کے اصل معنیٰ یہ ہیں کہ اُسے منتشر نہ کیا جائے اور جبکہ عام طور پر قانو ناً یہ امر روا رکھا گیا ہے کہ کسی گاؤں کو جبرا ًباہر نہ نکالا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ افراتفری اور موت الکلاب جو دوسرے شہروں میں پڑی ہے اس سے خدا تعالیٰ قادیان کو محفوظ رکھے لیکن یہاں طاعون جارف نہ ہوگی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ149 ایڈیشن 2016ء)

٭ پھر ساکنان قادیان کے ٹیکہ لگوانے پر فرمایا کہ:۔
یہ ہمارے لئے مفید ہے کیونکہ فاسق فاجرلوگ بھی ہیں اور ظاہری اسباب میں سے ٹیکہ بھی ہے۔ جب یہ لوگ اپنے ظنون (یعنی ٹیکہ) پر یقین رکھتے ہیں تو کیا وجہ کہ ہم اپنے یقین پر یقین نہ رکھیں۔ عجیب زمانہ ہے کسی کو خبر نہیں کہ آئندہ کیا ہو نے والا ہے۔

پھر حضرت ؑ نے مفتی محمد صادق صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ :۔
ان سابقہ نوشتوں میں یہ تو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں طاعون ہوگی مگر یہ بھی لکھا ہے کہ نہیں کہ جس طرح کے الہامات جیسے ’’ اِنِّیْٓ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ ‘‘ اور دوسرے ہمیں ہوئے ہیں ان کا بھی کوئی ذکر ہے کہ نہیں؟ مفتی صاحب نے کہا کہ حضور دیکھ کر عرض کروں گا۔

پھر فرمایا کہ:۔
اِنَّہٗٓ اٰوَی الْقَرْیَۃَ میں قریہ کا لفظ ہے قادیان کا نام نہیں ہے اور قَرْیَۃ، قِیْر سے نکلا ہے جس کے معنے جمع ہونے اور اکٹھے بیٹھ کر کھانے کے ہیں یعنی وہ لوگ جو آپس میں مواکلت رکھتے ہوں اس میں ہندو اور چوڑھے بھی داخل نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ تو ہمارے ساتھ مل کر کھاتے ہی نہیں۔ قریہ سے مراد وہ حصہ ہوگا جس میں ہمارا گروہ رہتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ271 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 دسمبر 2021