دعاؤں کی چھاؤں میں
قسط اول
جلسہ سالانہ یوکے 1997ء کے دوسرے دن خواتین سے خطاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت احمدیہ کی کچھ خواتین کی خدمات کا ذکر فرمایا۔ تمہید میں اسلام کے دور اول کی خواتین کی قربانیوں کا ذکر فرما کے روح کو گرمادیا پھر کئی شہروں کی خدمت گزاروں کا مختصر تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اب میں کراچی کی بات کرتا ہوں کراچی خدا کے فضل سے غیر معمولی خراجِ تحسین کی مستحق ہے آپا سلیمہ ان کی صدر ہیں اور بہت نیک دل، دل موہ لینے والی صدر ہیں اور انتظام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ ان کی جو مدد گار ہیں بچیاں ان میں ایک فوت ہوچکی ہیں حور جہاں بشری۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے وہ بھی ان کی بہت مدد کیا کرتی تھیں۔ مگر اس وقت امۃ الباری ناصر اور مسز ناصر ملک یہ ان کے بازو ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں غیر معمولی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ان بچیوں کو خصوصاً اشاعتِ کتب میں بہت مہارت حاصل ہے اورامۃ الباری ناصر کے تحت کثرت سے چھوٹے چھوٹے رسائل جو مختلف موضوعات پر اور بہت اچھے رسائل ہیں وہ شائع ہوچکے ہیں اور ہر سال نئے سے نئے شائع ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
حور جہاں بشریٰ داؤد مرحومہ کا ذکر خیر ’’ایک تھی بشریٰ‘‘ مضمون میں کرچکی ہوں۔ اس قیمتی بیان میں جن دو بچیوں کو آپؒ نے صدر لجنہ کراچی کے بازو قرار دیا ہے ان میں ایک تو یہ خاکسار راقم الحروف ہے اور دوسرے مکرمہ برکت ناصر ملک ہیں۔ آج کی نشست میں اس دوسرے بازو کا تعارف کراؤں گی کہ ان کی کیا خدمات ہیں جو بازو کا خطاب ملا ہے۔
1988ء کی بات ہے ایک شام فون کی گھنٹی بجی ان دنوں فون گھر میں کسی ایک جگہ رکھا ہوتا تھا وہاں جا کے فون کھڑے کھڑے سنتے تاکہ مختصر بات ہو۔ بغیر تار والے فون نہیں ہوتے تھے۔ فون پر دوسری طرف جو محترمہ تھیں بڑی اپنائیت سے بولیں کہ:
’’آپ مجھے نہیں جانتیں مگر میں آپ کو جانتی ہوں فلاں سے آپ کا نمبر لیا ہے۔ ہم نومبر 1986ء میں کراچی آئے ہیں۔ اجنبیت دور کرنے کے لئے حضرت سیدہ چھوٹی آپا مریم صدیقہ ؒ سے ذکر کیا تو فرمایا احمدیہ ہال جائیں۔حسب ِارشاد وہاں گئی تو مکرمہ آپا امتہ الشافی سیال مکرمہ آپا امتہ الرفیق پاشا اور مکرمہ بشری داؤد سے تعارف ہوا۔ ابھی آپ سے ملاقات کی خواہش ہے۔‘‘
انداز میں بے تکلفی اور اپنائیت دیکھ کر صوفے پر بیٹھ گئی اور اطمینان سے ان کی بات سنی۔ محترمہ نے خاکسار کے مضامین اور نظموں کا ذکر کیا۔ کچھ نظمیں زبانی یاد تھیں۔ آخر میں مَیں نے عادتاً دعا کی درخواست کی تو کہنے لگیں میرے ساتھ ایک سودا کرلیں۔ میں نے سوچا یہ دعا میں سودا کہاں سے آگیا چند سیکنڈ کے بعد وہ خود ہی بولیں سودا یہ کریں کہ آپ میرے لئے دعا کریں گی اور میں آپ کے لئے دعا کروں گی۔ یہ سودا تو ہوگیا۔ مگر مجھے محسوس ہوا کہ یہ باذوق ہیں۔ ذرا مختلف خاتون ہیں۔ نام پوچھا تو اصرار پر بھی نہیں بتایا۔
مجھے سب مسز ناصر کہتے ہیں آپ بھی مسز ناصر ہی کہہ لیں۔ سو میں آج تک ان کو مسز ناصر ہی کہتی ہوں حالانکہ اب مجھے ان کا پیارا سا نام برکت بی بی معلوم ہے۔
یہ تھی مسز ناصر سے میری پہلی گفتگو اس کے بعد وہ احمدیہ ہال آنے لگیں۔ ہمارے شعبہ اشاعت کے تحت چھپنے والی کتابوں کے شروع کے دن تھے تین چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ مسز ناصر شوریٰ پر ربوہ جارہی تھیں انہیں یہ کتابیں تھما کر ربوہ میں فروخت کہ ذمہ داری دی۔ اس چھوٹے سے کام کو انہوں نے اس جذبے اور خلوص سے کیا کہ لگتا تھا وہ اسی کام کے لئے پیدا ہوئی ہیں۔ یہ وہ شروعات تھیں جس کے بعد کتابوں کی فروخت کی ساری ذمہ داری انہیں سونپ دی گئی اس کے بعد جو بھی کام ان کو دیا بے مثال تندہی سے کیا۔ جو اللہ تعالیٰ کو پسند آیا اور خلیفۂ وقت کی مبارک زبان سے تحسین نصیب ہوئی۔
اس سلطان نصیر کی خدمات کی تفصیل ساتھ ساتھ آتی جائے گی پہلے ذرا ان کے خاندانی حالات سے تعارف ہو جائے،جو بجائے خودایک عجیب ایمان افروز داستان ہے۔
بابرکت دعاؤں کے سائے میں
برکت بی بی کی پیدائش
خدائے رحمان کے احسانات کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی خوش قسمتی پر رشک آتا ہے۔ ان کے دادا حضرت مرزا حسین دین صاحبؓ 1903ء میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے جہلم کے سفر میں سٹیشن پر آنے والے ہزاروں شائقین میں کھاریاں کے احباب کے ساتھ شامل تھے۔ رخ روشن پر نظر پڑتے ہی حق ظاہر ہوگیا اور بیعت کر لی۔جس کی ایک یادگار تصویر تاریخ احمدیت کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے والد صاحب مکرم مرزا محمد اسماعیل کا حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ سے عقیدت مند انہ تعلق تھا۔ للہی محبت میں دوستی کا رنگ تھا جس کا فیض ان کے خاندان میں جاری و ساری نظر آتا ہے۔
والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں پہلی والدہ سے مکرم مرزا محمد ادریس مبلغ سلسلہ اور مکرمہ رحمت بی بی دو بچے ہوئے۔ دوسری شادی مکرمہ خورشید بیگم سے ہوئی جن کی عمر شادی کے وقت صرف تیرہ سال تھی پانچ سال تک اولاد نہیں ہوئی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ۔ اولاد عطا ہوئی جو دعا کی قبولیت کا ایک ایمان افروز نشان ہے۔
ایک دفعہ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کوئٹہ تشریف لائے۔ والد صاحب سے قریبی مراسم کی وجہ سے ان کے گھر میں ہی قیام تھا۔ صبح فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد پوچھا کہ گھر میں اتنی خاموشی کیسے ہے ان کے والد صاحب نے بتایا کہ شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں ابھی کوئی بچہ نہیں ہوا۔ آپؓ چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے ایک ہاتھ سے ان کا ہاتھ پکڑا دوسرا ہاتھ ان کی بیگم کی نبض پر رکھا اور آنکھیں بند کرکےدعا شروع کی۔ دعا کے بعد فرمایا ایک وعدہ کرو کہ جب تک زندہ رہو گے میرے لئے اور میری اولاد کے لئے دعا کرتے رہوگے اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ زندگی دے تمہاری اولاد کے لئے دعا کرتارہوں گا اور جہاں تک اولاد کا تعلق ہے فکر نہ کرو اولاد بہت ہوگی۔
کچھ ہی عرصے بعد جب آپؓ کو پہلے بچے مرزا محمد الیاس کی پیدائش کی اطلاع دی گئی تو آپؓ بہت خو ش ہوئے اور پنجابی میں مبارک باد کی ایک طویل دعائیہ نظم لکھ کر بھیجی۔ جو ان کے خاندان کا ایک اثا ثہ ہے۔
نظم
؎لکھ لکھ حمد تے شکر اللہ دا جس نے فضل کمایا
روزیاں پچھوں عید کرائی جاں چن نظر ی آیا
مدت گزری وچ اُمیداں آخر اوہ دن آندا
جس دن ملی مراد دلاں دی بدلیا دَور غماں دا
اسمٰعیل پیارا بھائی بہت محبت والا
رکھے رب دل شاد انہاں نوں غم نہ پاون شالا اَج خط آیا
اُنہاں ولوں خوشیاں رب دکھائیاں
گزرے روزے عیداں آئیاں چن نے چاتیاں پائیاں
بخشیا رب کریم تھیں بیٹا یا او چن اَسمانی
وچ اُڈیکاں آن ملایا رب نے دل دا جانی
جِس ویلے رب آن ملایا دُور ہوئے غم سارے
بیڑی بھری اُمیداں والی لگّی آن کنارے
یا رب ایہہ فرزند پیارا ہووے عُمراں والا
ہر اک برکت دینی دنیوی بخشے حق تعالیٰ
خادم ہووے دین ترے دا اُچیاں بختاں والا
ہر دن برکت دون سوائی پاوے شان نرالا
پاک محمدؐ احمد اُتّے ہر دم جان نثارے
ہر طرفے پیا چمکاں مارے جیوں سورج چن تارے
دنیا وچ تبلیغاں کرکے گھتے شور ککارے
دور کرے گمراہیاں تائیں نال ہدایت تارے
ماپیاں دا اوہ نور اکھیں دا ٹھنڈک دل دی ہووے
خوشیاں نال ونجھائے غم نوں داغ دلاں دے تووے
دونوں جہاناں اندر بیٹا دیکھے نہ غم کوئی
خوشیاں اندر وقت گزارے رب رکھے دلجوئی
میری طرفوں باپ تے ماں نوں خوشیاں ہون ہزاراں
تے لکھ لکھ ہووے دوہاں مبارک پاون عیش بہاراں
کیتے دکھ مسافر رب نے خوشیاں ہوئیاں ودھائیاں
ایہ مبارک روز خوشی دے رحمت جھڑیاں لائیاں
یارب خوشی دکھائیں ہمیشہ دکھ نہ کدی دکھائیں
دونوں جہانیں رحمت برکت کریں قبول دعائیں
عرض سلام علیکم ہووے میاں بیوی تائیں
رکھے شاد دوہاں نوں مولا اندر سج سبائیں
عمراں والا ہووے بچہ نیا نصیباں والا
برکت فضلاں دا سر سایہ رہے ہمیشہ
عرض سلام ہووے سب یاراں جہیڑے یاد کریندے
سب دے اُتے فضل خدا دا جو دعائیں دیندے
عبداللہ حلوائی پیارا خوش اِلحاناں والا
جدوں قرآن تے نظم سناندا دل نوں کرے اُجالا
ڈاکٹر عبد الغفور بھی اکثر یاد دلے نوں ریہندا
تے عبد الکریم جو ٹیلر ماسٹر دل اس ناں بھلیندا
نام جنہاں یاد نہ آئے دوست احمدی پیارے
سب تے فضل خدا دا ہووے سارے ہین پیارے
سب نوں عرض سلام علیکم مل کے ہر اک تائیں
تے بہت پیار بچے نوں دینا نالے بہت دعائیں
بس غلام رسول ایہہ کافی اسمٰعیلے تائیں
پڑھ دا رہسی خط تیرے نوں اندر سنج صباحیں
مکرم مرزا محمد اسمٰعیل
اولاد کے لئے دعا اور بشارت اس طرح پوری ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو آٹھ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
مرزا محمد الیاس۔ عنایت بی بی۔مرزا محمد اکرام، برکت بی بی۔ مرزا محمد عباس۔ مرزا محمد افضل(مربی سلسلہ)۔ صفیہ بیگم۔ مرزا محمد انور۔مرزا محمد اکرم (وقفِ زندگی)۔مرزا محمد یونس اور مرزا محمد ارشد
برکت بی بی ان میں چوتھے نمبر پر ہیں جو 1947ء میں چمن میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے والدہ صاحبہ نے ایک خواب دیکھا جس میں ان کے خیال میں انذاری پہلو تھا۔ خواب لکھ کر حضرت راجیکی صاحبؓ کو دعا کے لئے بھیجا تو جواب بہت خوش کن خط ملا جو 26؍فروری 1947ء کا تحریر کردہ ہے خط پر پتہ لکھا ہے از پشاور شہر کوچہ گلبہار شاہ۔ دارالتبلیغ احمدیہ مسجد۔
عزیزم مکرم مرزا صاحب سلمک اللّٰہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
آپ کا لفافہ موصول ہوا خاکسار تو پہلے ہی آپ سب کے لئےدعا کرتا رہتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے جملہ مقاصد حسنہ میں کامیاب فرمائے آمین ثم آمین۔
نماز عصر کا خواب میں وضو کرکے پڑھنا سورہ والعصر’’ان الانسان لفی خسر الاالذین اٰمنوا کے رو سے گو کافروں اور ایمان نہ لانے والوں کے لئے گھاٹا ہوتا ہے اور عذابوں میں مبتلا ہونا بھی ہے لیکن مومنوں کے لئے بشارت ہے اور ہر طرح کے گھاٹے اور عذابوں سے نجات اور حفاظت کی خوش خبری ہے اور آپ چونکہ خدا کے فضل سے احمدی ہیں اور ایمان لانے والوں میں سے ہیں آپ کے لئے اور آپ کی اہلیہ کے لئے بشارت اور خوشخبری ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو عذابوں سے محفوظ رکھے گا عصر سے مراد یہ آخری زمانہ کا دور ہے جس میں سب زمانوں کے وقت کے عذاب اور عالمگیر عذاب آرہے ہیں اور دنیا کے لئے باعث خسر ہو رہے ہیں لیکن احمدیوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے حفاظت ہو رہی ہے نماز عصر کی تعبیر بھی یہی ہے کہ جو کچھ سورت والعصر کے اندر ہے وہ درست ہے اور آپ کی اہلیہ کا خواب بھی منذر نہیں بلکہ مبشر ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدا کے فضل سے بچہ کے جننے کے وقت وہ تکلیف سے محفوظ رہے گی اور بچہ عمر والا پیدا ہوگا یا اس کی والدہ کو تکلیف سے بچایا جائے گا اور سورج کی روشنی یعنی دھوپ ہدایت کی روشنی کے اندر عمر اور وقت گزارنے کی طرف اشارہ ہے آپ فکر نہ کریں آپ پر اور آپ کی اہلیہ پر اپنا خاص فضل فرمائے گا آپ دونوں نماز کو حفاظت کے ساتھ ادا کیا کریں کیونکہ نماز ہر طرح کے خسران اور گھاٹوں سے بچانے والی چیزہے اور دعاؤں کی طرف بہت توجہ رکھنی چاہئے دعا پر خاص طور سے زور دینا چاہئے اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور آپ سب کے لئے مشکل کشا رہے آمین ثم آمین۔ گھر میں میری طرف سے سلام اور دعا عرض کر دیں اور بچوں کو بھی دعا اور پیار۔
آپ کا مخلص اور خیر اندیش
غلام رسول راجیکی
اس خط کے ساتھ منظوم دعائیں بھی بھیجیں لطف کی بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہونے والے بچوں کے نام بھی اس نظم میں شامل ہیں۔
خداوندا تو اپنا فضل کردے
خداوندا تو اپنا فضل کردے
ہیں خالی ظرف تو فضلوں سے بھردے
ترے فضل وکرم کی ہے ہمیں آس
بجز اس آس کے کچھ بھی نہیں پاس
تو وہ قادر ہے جب قدرت دکھائے
تو ہر مایوس بھی رحمت کو پائے
ہے تو ہی عاجزوں کا اک سہارا
ترے بن کون ہے یارب ہمارا
تو اپنے فضل سے سب کھول دے در
تو اپنی شان رحمت کو عیاں کر
ہمارے عیب ڈھانپ اپنے کرم سے
رہائی بخش ہر رنج و الم سے
سزاؤں کے عوض رحمت عطا کر
گنہگاروں کو بخشش سے رہا کر
تو غمگینوں کا ہو دلدار مولا
تو ہے ستار اور غفار مولا
ترا فضل و کرم جو یار ہووے
تو بیڑا عاجزوں کا پار ہووے
ہر اک ظلمت سے ہم کو دور رکھیو
ہمارا جان و دل پر نور رکھیو
محبت عشق کے ساغر پلادے
حیات عشق سے مردے جلا دے
تو ہم سب کا بڑا محبوب بن جا
ہماری جان کا مطلوب بن جا
تو اسمٰعیل مرزا پر کرم کر
تو اس کی اہلیہ کا دور غم کر
بنا ادریس اور یونس کو کامل
رہے رحمت ہمیشہ ان کے شامل
ہر اک برکت کی بارش سب پہ برسا
عطا ہو سب کو فیض دین و دنیا
ترے فضلوں کے ہم سب اک نشاں ہوں
ترے پیارے بھی ہم پر مہرباں ہوں
ہیں ہم سب ہی ترے محتاج یارب
تو محتاجوں کی رکھ لے لاج یا رب
مری یہ عرض ہے منظور کرلے
گنہ گاروں کو ہاں مغفور کرلے
آمین اللّٰھم آمین
مسز برکت ناصر کے خزانے میں ایک مکتوب از پشاور شہر 6؍جون 1948ء کا بھی موجود ہے جس کی تحریر قدرے دھندلی ہو گئی ہے اس میں آپ کے اباجان کے پوچھے ہوئے چند سوالات کے مفصل جواب ہیں اور بہت سی دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام مشکلات کو دور فرمائے اور مالی وسعت اور برکات کے دروازے آپ پر کھولے۔ آمین ثم آمین۔
ان کے قیمتی خزانے میں31؍ مئی 1965ء کو وصول ہونے والا ایک منظوم مکتوب بھی ہے۔ تحریر فرمایا:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبر کاتہ۔ خط مل گیا یاد فرمائی کا شکریہ۔ بہت بہت شکریہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر بلا اور ابتلا سے محفوظ رکھے آمین۔
تا قیامت آپ کے اور آپ کے اہل و عیال اور اولاد اور نسلوں کے شامل حال رہے۔ آمین ثم آمین ثم آمین۔ ؎
مرے پیارے نہایت ہی پیارے
خدا خود کام سب تیرے سنوارے
ہر اک نعمت ملے تجھ کو خدا سے
نہ کچھ حاجت رہے تا ماسوا سے
خدا کافی رہے ہر حال تیرا
رہے خورم سدا ہر بال تیرا
خدا قرضوں سے فارغ حال رکھے
ہمیشہ مال سے پُر مال رکھے
تری اولاد کو دل شاد رکھے
جہاں رکھے انہیں آباد رکھے
ہمیشہ قرض سے ان کو بچائے
ہمیشہ مال و دولت سے بڑہائے
رہے دن رات ان کا عید وانگوں
زبان و دل رہے تحمید وانگوں
رہیں دل شاد سب ہی دو جہاں میں
ملے برکت انہیں کون ومکاں میں
خدا ان کو سدا خوشنود رکھے
مصیبت کو سدا نابود رکھے
میاں قدسی دعا کر ہاں دعا کر
ہاں اپنے رب کی ہردم ثنا کر
دعائیں جو لکھی ہیں سب عطا ہوں
بہ فیضِ حضرت رب الورا ہوں
جماعت احمدی کے حق میں مقبول
خدا کے نام پر مسئول وسا ہول
خاکسار
غلام رسول راجیکی از ربوہ دار الہجرت
آپ کا ایک مبارک مکتوب بڑے بیٹے کے رشتے کی خوشی میں لکھا ہوا بھی محفوظ ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم حامداً و مصلیاًو مسلماً
از ربوہ دارالہجرت
3.11.32۔53
عزیزم مکرم مرزا صاحب حفظکم اللّٰہ تعالیٰ و نصر کم آمین ثم آمین
ثم السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ
خیریت مطلوب۔ آں مکرم کا خط ملا۔ خط کے پڑھنے سے عزیز محمد ادریس سلمہ اللہ تعالیٰ کے رشتہ کے متعلق اطلاع سے بہت ہی مسرت محسوس ہوئی۔ سچ ہے کہ؎
کارساز ما بہ فکر کار ما
فکر ما در کار ما آزار ما
اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کے کام خود ہی اپنی غیبی نصرتوں اور برکتوں سے انجام دے دیتا ہے۔ آپ جیسے مخلص بندوں کے کام خود اپنی ہی غیبی نصرتوں اور برکتوں سے انجام دے دیتا ہے۔ آپ جیسے مخلص سے بھی وہ ایسا ہی بابرکت اور پر نصرت سلوک فرما رہا ہے۔
مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب بہت بڑے مخلص احمدی اور مخلص باپ کے بیٹے ہیں اور دنیوی عزت و برکت اور دینی اخلاص و خدمت و ایثار میں بھی ایک خاص مقام فوقیت رکھتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی محض مہربانی اور اس کا فضل ہے کہ ان کے ہاں عزیز محمد ادریس کا رشتہ قرار پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو جانبین کے لئے باعث راحت و مسرت و برکت بنائے۔ آمین ثم آمین آپ سب کو اس رشتہ کی مبارک باد ہو بہت اچھا رشتہ خدا تعالیٰ نے نصیب فرمایا ہے۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔
دعاؤں کی چھاؤں میں پلی ہوئی برکت ناصر خاکسار کی ہم سفر رہی ہیں۔ جب میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔ تو ان کا عجز اور تشکر میں گندھا ہوا جواب ملا:
’’مجھے اعتکاف میں بیٹھے ہوئے آپ کا پیغام ملا۔ دعا کی توفیق ملی۔ آپ نے سوچ کی جن راہوں پر ڈال دیا ہے وہ مجھے ماضی کی خوشگوار وادیوں میں لے گئی ہے۔ میں نے زندگی میں جو بھی پایا ان دعاؤں کی بدولت پایا جو حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ اور میرے باپ اور ماں نے کیں۔ یہ دولت خدائے رحمان پیدائش سے پہلے ہی سے عنایت فرما رہا ہے جڑوں اور بنیادوں میں شامل ہے۔ پھر آپ کے ساتھ شامل ہو کر اشاعت کے ساتھ ساتھ پیارے آقا رحمہ اللہ نے جو دعاؤں اور محبتوں سے نوازا نسلوں کے نصیب بھی سنور گئے۔ ہم دونوں اس کے گواہ ہیں۔ زندگی کی آخری سانس تک بھی شکر ادا کرتے رہیں تو شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی شفقت ہر قدم پر رہنمائی میسر تھی ہم ہر بات پر دعا کے لئے خط لکھ دیتے ہر کام دعا سے شروع کرتے کوئی مشکل آجاتی تو انہیں لکھ کر تسلی ہوجاتی پھر مکرمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ اور مکرمہ امۃ الحفیظ بھٹی کے ذکر کے بغیر ایسی شفیق قیادت تھی کہ کام کرنے کا لطف آتا تھا حوصلہ بڑھتا نئی نئی راہیں نکلتیں پیاری بشری داؤد بھی میری محسنہ تھی‘‘۔
ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم دونوں رب کی رحمتوں کے لطف میں شریک رہی ہیں اور مل کر حمد وثنا کے گیت گائے ہیں۔
دعاؤں کی چھاؤں میں خدمت دین کی توفیق
برکت بی بی صاحبہ کی پیدائش چمن بلوچستان میں ہوئی۔ چمن صرف نام کا چمن ہے اس میں باغ ہونا تو درکنار کوئی سبزہ بھی نہیں ہے پہاڑی علاقہ ہے جو ا فغانستان کی سرحد کے بہت قریب ہے۔بچپن کی یادوں میں افغانستان سے آنے والے خوش ذائقہ پھلوں کی لذت محفوظ ہے۔ جو اس علاقے کی میٹھی یادوں میں شامل ہے۔ تعلیم چمن کے ایک سکول میں ہوئی۔ اس علاقے میں پڑھائی کا اتنا رواج نہیں تھا کلاس میں پانچ چھ لڑکیاں ہوتی تھیں۔ فرسٹ سیکنڈ آنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ نویں جماعت میں تھیں کہ شادی ہوگئی اس وقت ان کی عمر سترہ سال تھی شادی دسمبر 1964ء جلسہ سالانہ ربوہ کے دوسرے دن خالہ زاد مکرم ملک ناصر احمد سے ہو ئی۔ سسرال جیکب آباد میں تھا۔ یہ شہر پاکستان کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں 22سال قیام رہا۔ نومبر 1986ء میں کراچی منتقل ہو گئیں۔ خلافت سے عاشقانہ تعلق تھا جماعت سے وابستگی گھٹی میں شامل تھی۔حضرت سیّده چھوٹی آپا رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام صدر لجنہ مرکزیہ کے حوالہ سے سن کر اس بزرگ ہستی کو دعا کے لیے خط لکھنے شروع کیے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی خطوط کا جواب دعائیں اور نصائح لیے ہوئے ملتا۔ جب جلسہ سالانہ پر جانا ہوتا تواسٹیج پر رونق افروز چھوٹی آپا کو دیکھ کر خوش ہوتیں اور جب وہ ان کی طرف دیکھ کر کہہ دیتیں کہ ’’آپ بھی جیکب آباد سے آئی ہوئی ہیں‘‘ تو خوشی سے سرشار ہوجاتیں۔ خاندان مسیحِ پاک کا خاصہ ہے ایک تو پہچان رکھنا اور دوسرے پیار سے ملنا۔ مسز ناصر نے اس اپنائیت کے اظہار سے خوب لطف اٹھایا۔ کراچی شہرانسانوں کا سمندر ہے۔جہاں کاروبارِ زندگی صبح 11 سے رات بارہ بجے تک چلتا ہے۔ ماحول تو پُرشور تھا مگر جب تک جماعت والوں سے تعارف نہ ہو اکیلا پن محسوس ہوا اپنی کیفیت حضرت سیّدہ چھوٹی آپا کی خدمت میں لکھ دی۔ جلدی ہی جواب ملا۔احمدیہ ہال چلی جاؤ۔ وہاں سے تمہیں اپنے حلقہ و قیادت کا پتہ چلے گا۔ یہ مشورہ بہت کام آیا۔ آپ زندگی کے ہر موڑ پر ایک مشعل راہ تھیں۔ احمدیہ ہال جانے سے اپنے حلقہ کی لجنہ، اپنی قیادت اور پھر ضلع سے رابطہ ہوا اور وقت کے ساتھ یہ روابط بڑھتے چلے گئے۔ احمدیہ ہال میں صدر لجنہ کراچی مکرمہ سلیمہ میراور عاملہ کی ممبرات سے ملاقات ہوئی اس زمانے میں صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے کی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ دفتر لجنہ میں بہت سے منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا تھا سب ممبر ات مصروف عمل تھیں۔ آپ بھی اس قافلہ میں شامل ہوگئیں۔ ربوہ اجتماع کے سلسلے میں ایک وفد روانہ ہورہا تھا آپ کووہاں لجنہ کی کتب کے تعارف کرانے کا کام سونپا۔ یہ کام اتنی عمدگی سے جان ڈال کر کیا کہ خوش کردیا۔ خاکسار نے ان کی خدمات اپنے شعبہ اشاعت کے لئے مانگ لیں۔
خدمات بحیثیت معاونہ سیکرٹری
شعبہ تصنیف و اشاعت
لجنہ کراچی نے صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں کم از کم سَو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنا کر یہ کام اس خاکسار کو سونپ دیا تھا۔ کتابیں پڑھنے کا بہت تجربہ تھا لیکن لکھنے اور چھپوانے کا بالکل نہیں تھا۔ پریس کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ مگر مولا کریم نے دستگیری فرمائی۔ اس کام میں اتنی برکت رکھی کہ لگتا تھا فرشتوں کا لشکر ہم رکاب ہے۔ ایسے ایسے بابرکت راستے کھلتے گئے جو ہمارے وہم و گمان سے بھی بالا تھے۔ نئے نئے موضوعات پر نئے پرانے مصنفین کی کتب پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں گرنے لگیں۔ کام بڑھنے کے ساتھ مخلص ساتھی بھی ملتے گئے۔ میرا کام کتب تیار کرکے مرکز سے منظور کرانا اور پریس میں دینا تھا۔ چھپ کر آنے پر شعبہ سٹاک اور فروخت کتب اسے سنبھال لیتے۔ جس میں مختلف وقتوں میں محنتی اور مخلص معاونات ملتی رہیں۔ مسز ناصر کا ساتھ سب سے طویل رہا۔ لجنہ کے دفتر کا ماحول بہت خوشگوار تھا کہ کام بھی تفریح لگتا تھا۔ 1988ء میں صدر لجنہ آپا سلیمہ میر مرحومہ تھیں۔ مکرمہ بشریٰ داؤد مرحومہ کتابوں کی تیاری میں میرے ساتھ تھیں ان دو مہربانوں اور ساری عاملہ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی اور خوش دلی کی وجہ سے وقت بہت اچھا گزرتا۔ نماز کی دریوں پر کسی بھی جگہ اپنی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ جاتے یہی ہمارے شعبے کا دفتر ہوتا۔ انہی دریوں پر دوپہر کو ظہر کی نماز کے بعد دسترخوان بچھ جاتا اور ہم سب دعوت شیراز کے لطف لیتے۔ لیکن بعد میں ہمیں ایک گیلری مل گئی جس میں الماریاں بنواکر سٹاک رکھ لیتے۔ کئی مسئلے بھی آئے آپا سلیمہ مادر مہربان کی طرح ڈھال بن جاتیں ان کے بعد مکرمہ آپا امۃ الحفیظ بھٹی صدر بنیں ان کا بھی شفقت بھرا تعاون رہا۔ بشریٰ کی اچانک رحلت کے بعد مسز ناصر ہی ہر کام میں مشیر و مدد گار رہیں لیکن خاص طور پر ان کے ذمے کراچی سے باہر دوسرے شہروں اور ملکوں میں کتب کی فروخت کا کام تھا۔ یہ بڑا محنت طلب کام تھا۔ آرڈرز لینا کتب کو پیک کرنا ٹرین یا ٹی سی ایس سروس سے بھجوانا پھر ان کا حساب کتاب رکھنا۔ جو یہ تندہی سے کرتیں۔ اپنی جان ناتواں کو مردانہ وار کام میں جوتے رکھتیں۔
ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ جو کام مجھے نہیں آتے تھے ان میں یہ ماہر تھیں مثلاً دو جمع دو چار ہوتے ہیں اس کے آگے حساب کتاب میرے بس کی بات نہیں تھی جبکہ یہ لاکھوں کا حساب کرلیتیں۔ میں کام صرف نرمی اور محبت سے کرانا جانتی تھی۔ لیکن ہر جگہ نرمی نہیں چلتی جہاں نرمی اور مروت نہیں چلتی وہاں میں ان کو آگے کردیتی۔ کام بن جاتا۔ میں راستوں، سڑکوں کی پہچان اور سفروں میں بھی بہت نکمی ہوں بسوں میں بیٹھنا تو آیا ہی نہیں وین یا ٹیکسی رکشا بھی مشکل لگتا تھا۔ جبکہ یہ دھڑلے سے سارے کراچی میں سفر کرتیں اور جب ٹرین میں سفر ہوتا تو ان کی مہارت کا بہت فائدہ ہوتا۔ بنا بنایا امیرِ سفر تھیں۔ سیٹیں لینا سامان چڑھانا اسے جگہ جگہ ٹھونسنا ایک خود کار مشین کی طرح کرلیتیں پھر اپنی خواتین کی سیٹوں کے گرد چادریں تان کر پردہ کرلیتیں جس سے بہت سہولت رہتی۔ رستے میں کھانے کا انتظام اور اس کے لئے کچھ خریدنا بھی رضاکارانہ طور پر اپنے ذمے لے لیتیں۔ سفر سے یاد آیا اپنے نجی سفر بھی اشاعت کے کاموں کے نام لگا دیتیں ان کا قادیان، لندن، اور افریقہ جانا ہوتا و ہاں بھی کتابوں کاسٹال لگالیتیں تعلقات بنا کر بہت سے کام چلا لیتیں۔ کتابیں ہی ان کی پہچان بن گئیں۔ کتاب کا تعارف کرا کر دوسرے کو بیچ دینے کا خوب ملکہ تھا۔ یہ کام بھی مجھے نہیں آتا تھا۔ میں بس ان کی کامیابیوں کی باتیں سنتی اور اس رقم پر نظر ڈالتی جو یہ باہر سے لاکر جمع کرواتیں۔
کتب جو مکرمہ برکت ناصرملک نے مرتب کیں
نمبر 1۔ ہماری پچیسویں کتاب ’’بدرگاہِ ذی شان ﷺ‘‘ احمدی شعراء کی نعتوں کا مجموعہ1992ء میں شائع ہوئی جوان کی محنت کا ثمر ہے۔ جب خاکسار نے ان سے نعتیں جمع کرنے کی درخواست کی تو بڑی عاجزی سے کہا میں تو صرف نَو جماعت پاس ہوں کتابیں بنانا میرے بس کا کام نہیں ہے۔ میں نے تسلی دلائی کہ فکر نہ کریں مل کر کام کریں گے۔ اس وقت نیٹ اور گوگل کی سہولت حاصل نہیں تھی ربوہ جاکر خلافت لائبریری میں جماعتی اخبارات و رسائل کی فائلیں نکلواکر ان میں سے نعتیں تلاش کر کے نقل کرنی تھیں یا پرنٹ آؤٹ نکلوانا تھا۔
ایک اچھی بات یہ تھی کہ ان کا ربوہ جانا آنا رہتا تھا وہاں ان کے لئے دوہری کشش تھی ایک تو مرکز دوسرے میکہ ہم ربوہ کا ہرکام ان سے کہہ دیتے۔ یہ کام انہوں نے بڑے شوق اور محنت سے کیا۔ ہر کام میں سر دینے کا جذبہ کام آیا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اعلی نعتیں جمع کرکے لے آئیں۔ ان میں سے ہم نےمنتخب نعتیں مرتب کیں۔ خاکسار کا دیا ہوا نام ‘‘بدرگاہ ذیشانؐ ’’ان کو پسند آیا۔ بہت مفید کتاب منظر عام پر آئی۔
نمبر 2۔ کتاب تعلیم۔ خاکسار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات جلد اول پڑھ رہی تھی صفحہ 260 پر یہ تحریر پڑھی ’’میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں… اس کتاب کے تین حصے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کے کیا حقوق ہم پر ہیں اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں‘‘ خیال آیا یہ خواہش پوری کرتے ہیں۔ اپنی رفیقِ کار کو اس پر کام کرنے کی درخواست کی۔ جواب میں ان کا مخصوص جملہ ’’تُسیں حکم کرو‘‘ سن کر خوشی ہوئی بڑی محنت سے اقتباس جمع کئے اور کہا کہ کتاب تو چھپتی چھپے گی مجھے بڑا فائدہ ہوا ہے۔ یقیناً ہمیں تیاری میں بہت فائدہ ہوا 1998ء میں اس کا مسودہ مکرم ناظر صاحب اشاعت ربوہ کی خدمت میں منظوری کے لئے بھیجا تو جواب میں اس کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے تحریر کیا:’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش کی اشاعت کی اجازت ہے۔ ماشاء اللّٰہ بہت اچھا مسودہ ہے اور اس کی اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کی تکمیل کا باعث ہے۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں بھیجی تو پیارے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی۔ یکم جولائی 1999ء کے مکتوب میں سب خادمین کو دعائیں عطا فرمائیں:۔ ’’لجنہ کراچی کی ستاون ویں پیش کش انتہائی قابلِ قدرہے ماشاء اللّٰہ۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔
اس پر میں آپ اور آپ کی معاونات کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی پیار کی نظر رکھے اور ہمت و توفیق بڑھائے اور دین کے کاموں کی جو چاٹ لگ گئی ہے اس میں مزید جِلا بخشے اوربیش از پیش خدمات کی توفیق عطا فرمائے اور کام کے نتائج حیرت انگیز طور پر خوشکن ہوں۔عزیزہ برکت ناصر صاحبہ، رفیعہ محمد صاحبہ، طیبہ بشیر صاحبہ، طیبہ طاہر اور امۃ الکریم صاحبہ اور جن کے نام آپ سے رہ گئے ہیں لیکن خلوص سے کام کرتی ہیں ان سب کو میری طرف سے شاباش اور محبت بھرا سلام اور ڈھیروں دعائیں۔ خدا حامی و ناصر ہو۔‘‘
خاکسار مرزا طاہر احمد
نمبر3۔ حمد و مناجات۔ ہم نعتوں کا مجموعہ شائع کرچکے تھے اسی سے احمدی شعراء کا حمدیہ کلام جمع کرنے کا شوق ہوا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ خدا سے والہانہ پیار کی جومے جماعت کو پلائی تھی اس کا خمار احمدی شعرا کے بیانِ حمدوثنا میں منعکس ہے جو زبان و بیان کو ایک نرالا حسن عطا کرتا ہے سَو شعراء کا حمدیہ کلام جمع کرنا شدید محبت اور محنت کا متقاضی ہے۔ منتخب کلام جمع کرکے کمپوز کروایا۔ یہاں مسز ناصر کو ایک مشکل ترین مرحلہ پیش آیا میں نے درخواست کردی کہ مجھے اور مصروفیت ہے آپ پروف ریڈنگ بھی کر دیں۔ یہ تکلیف مالا یطاق تھی۔ منظوم کلام کی پروف ریڈنگ ان کے بس کی بات نہیں تھی کھپ کھپا کے کام واپس میرے حوالے کیا۔ یہ فائدہ ہوا کہ میری عرق ریزی پر رحم کھاکر میرے لئے زیادہ دعائیں کرنے لگیں۔
حمد و مناجات2005ء میں طبع ہوئی اور بہت پسند کی گئی۔
الحمدللّٰہ۔ کتب کی اشاعت میں مالی تعاون کی بھی توفیق ملی۔ بخار دل کے لئے اپنے خاندان کی طرف سے خرچ دیا جس کے لئے شعبہ اشاعت کی طرف سے کتاب میں ان کی والدہ مکرمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا محمد اسمٰعیل۔ بھائی مکرم مرزا انور اور بھتیجے عزیزم بلال کے لئے دعا کی درخواست شائع کی گئی۔
کتب جن کی تیاری میں
مسز برکت ناصرنے مدد کی
آپ کی معاونت سے میرے بہت سے کام آسان ہوجاتے خاص طور پر المحراب، کلام طاہر، مضامین حضرت میر محمد اسمٰعیل رضی اللہ عنہ، تواریخ مسجد فضل لندن، کلام محمود، صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد اور فارسی درثمین کے لئے خلافت لائبریری سے بعض مطلوبہ کتب اور اخباروں کے فائلوں سے ضروری معلومات اور حوالے لاکر دئے۔ ربوہ میں مکرم دوست محمد شاہد صاحب اور لائبریری میں مکرم صادق صاحب اورمکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب کا تعاون حاصل رہا۔ ایک بے تکلف محفل میں خاکسار نے ان کے لئے یہ رباعی سنائی:
؎ہم نوالہ، ہم پیالہ، ہم نوا اور ہم سخن
ان کو ہر حالت میں رہتی ہے اشاعت کی لگن
ہاتھ پکا ڈالتی ہیں جو بھی ان کا کام ہو
دیکھنے میں ہیں اگرچہ دُبلی پتلی خستہ تن
سانجھی خوشیاں
ہم نے جس بے مثال جنون اور جذبے سے کام کیا اُسے پیارے آقا نے محسوس فرمایا۔ اپنے خط میں ہمیں شہد کی مکھیاں لکھا ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی جب کبھی میرے خط میں ان کا ذکر کبھی ان کے خط میں میرے لئے کوئی جملے ہوتے۔ کبھی حوصلہ افزائی براہِ راست ملتی کبھی بالواسطہ ملتی۔ ہم پیارے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کی بارشوں میں نہاتے ہوئے تشکّر میں ڈوب جاتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے گیت گاتے سر جوڑکے کئی مرتبہ خط پڑھتے۔ آپ کے خطوط اتنے معطر اور شگفتہ ہیں کہ جب بھی ان کو پڑھیں نیا لطف دیتے ہیں آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا انداز اتنا لطیف تھا کہ لگتا تھا
؎ محبت کا تو اک دریا رواں ہے
چند نمونے حاضر ہیں:
17؍دسمبر 1985ء کے برکت ناصر صاحبہ کے نام ایک مکتوب میں آپ نے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: ’’مصباح میں باری کی ایک نظم چھپی ہے جس کے آخر میں دیکھو، آتا ہے اور آدمی دیکھتا رہ جاتا ہے۔‘‘
(باقی 8؍دسمبر کو ان شاءاللّٰہ)
(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)