• 5 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
(حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری)

بیگ کھولنے میں دشواری ہونا

اپنی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے حضور انور اپنے بریف کیس سے کچھ نکالنا چاہتے تھے۔تاہم کسی وجہ سے جہاز کی لائٹ بند ہو گئی جس کی وجہ سے حضور انور کو اپنے بریف کیس کو کھولنے کے لیے نمبر دیکھنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ چنانچہ حضور انور نے مجھے کوڈ (خفیہ نمبر) بتایا اور ہدایت فرمائی کہ اس کو کھولوں۔ میں نے ان نمبرز کے مطابق اس کو کھولنے کی کوشش کی مگر میں بھی ٹھیک سے نمبرز نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ میں نے اپنے موبائل کی ٹارچ آن کی تاکہ روشنی بہتر ہو سکےلیکن پھر بھی نمبرز پڑھنے میں مشکل کا سامنا تھا۔ میرے ہاتھوں میں خجالت کی وجہ سے پسینہ آ رہا تھا کیونکہ حضور انور انتظار فرما رہے تھے۔ تب تک میں اس قدر پریشان ہو چکا تھا کہ اگر ساری دنیا کی روشنیاں بھی آن کر دی جاتیں پھر بھی شاید میں اس معمولی سے کام کی انجام دہی میں کامیابی حاصل نہ کرسکتا۔

اگرچہ ابھی صرف ایک منٹ بھی پورا نہ گزرا تھا مجھے ایسا لگا جیسے کئی منٹ گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ میں کئی مرتبہ نمبرز کے بٹن ڈائل کر چکا تھا۔ آخر کار حضور انور نے اپنی عینک نکالی اور نمبرز ڈائل فرمائے اور اس بریف کیس کو کھولا۔ اس بریف کیس کے کھلنے پر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا ’’تم تو ابھی سے گھبرا گئے ہو‘‘۔ مجھے کافی شرمندگی کا سامنا ہوا اور دوران سفر میں سوچتا رہا کہ چند لمحات قبل حضور انور نے ہدایت فرمائی تھی کہ دورہ کے دوران میں آپ کی معاونت کرتا رہوں اور پہلے ہی موقع پر میں چُوک گیا۔ میں نے بہت دعا کی کہ باقی دورہ کے دوران میں بہتر طور پر آپ کی خدمت بجا لا سکوں۔

جہاز میں چند لمحات حضور انور کے ساتھ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے فلائٹ نے یو کے وقت کے مطابق شام تین بج کر تیس منٹ پر اڑان بھری اور باوجود اس کے کہ کپتان نے کئی بار اعلان کیا کہ دوران پرواز کچھ شور اور پریشانی متوقع ہے۔پھر بھی فلائٹ نہایت اطمینان بخش رہی۔ الحمداللّٰہ، اس فلائٹ کے دوران مجھے متعدد بار حضور انور سے بات کرنے کا موقع ملتا رہا۔ ایک موقع پر حضور انور میری سیٹ کی طرف تشریف لائے اور استفسار فرمایا کہ سفر کیسا گزر رہا ہے۔ میں نے عرض کی کہ کیا حضور انور خیریت سے ہیں اور آپ کو آرام کا موقع ملا ہے؟ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ امریکہ آرام کرنے کے لیے نہیں جا رہے۔

مکرم منعم نعیم صاحب بھی قریب ہی تشریف فرما تھے اور انہوں نے حضور انور کی احوال پرسی کے بعد پوچھا کہ کیا حضور انور کو کوئی چیز چاہیے؟ دوبارہ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ ٹھیک ہیں اور ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہ ہے۔

کچھ دیر بعد مکرم منعم صاحب نے مجھے کہا کہ کچھ کمبل اور تکیے حضور انور اور خالہ سبوحی کو پیش کرنے چاہئیں۔ میں بار بار حضور انور کے پاس جانے اور آپ کو تنگ کرنے کے خیال سے محتاط تھا۔ لیکن چونکہ جہاز میں ٹھنڈ زیادہ تھی تو میں کمبل اور تکیے لے کر گیا۔ تاہم حضور انور اور خالہ سبوحی دونوں میں سے کسی کو بھی ان کی ضرورت نہ تھی۔چند گھنٹوں کے بعد مجھے احساس ہوا کہ جہاز میں wifi کے ساتھ connect ہونا ممکن ہے اورمیسج وغیرہ کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ connection بہت slow تھا اور کوئی تصویر یا کوئی ویب سائٹ کھولنا ممکن نہ تھا۔ لیکن واٹس ایپ یا IMessage پر کوئی میسج بھیجنا یا وصول کرنا ممکن تھا۔ چونکہ ابھی فلائٹ میں کئی گھنٹے باقی تھے تو میں حضور انور کی نشست پر گیا مجھے علم نہ تھا کہ آیا حضور انور آرام فرما رہے ہیں یا نہیں، اس لیے چند لمحے وہاں انتظار کیا یہاں تک کہ مجھے یقین ہو گیا کہ حضور انور جاگ رہے ہیں۔ پھر میں نے حضور انور سے عرض کی کہwifi کی سہولت موجود ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ’’wifi کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ جواب میں، میں نے عرض کی کہ میں اس لیے عرض کر رہا تھا کہ اگر حضور انور کوئی میسج دیکھنا چاہیں یا گھر رابطہ کرنا چاہیں۔ اس پر حضور انور نے اپنا فون لیااور استفسارفرمایا کہ کس طرح connect کرنا ہے۔اگرچہ یہ ایک بہت slow طریقہ کار تھا تاہم چند منٹوں میں حضور انور کو wifi سے connect ہونے کا موقع مل گیاتو میں اپنی سیٹ پر واپس آ گیا۔ قبل ازیں حضور انور کے بریف کیس کو کھولنے میں ناکامی کے بعد اب حضور انور کے فون پر wifi کی سہولت میسر آنے پر مجھے کچھ اطمینان تھا۔

فلائٹ کے آخری حصہ میں حضور انور نے ایک مرتبہ پھر اپنی ٹانگوں کو آرام دینے کے لیے چہل قدمی فرمائی اور ازراہ شفقت میری نشست پر تشریف لائے۔ میں کھڑا ہوا تو حضور انور نے فرمایا فلائٹ اٹینڈنٹ نے ابھی آ کر میرے سے پوچھا تھا کہ کیا مجھے کھانے یا پینے کے لیے کوئی چیز چاہیے۔ میں نے اس کو بتایا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔ لیکن وہ میرے سٹاف سے پوچھ لے انہیں شاید بھوک لگ رہی ہو۔

یہ سننے پر مجھے بے حد مسرت ہوئی کہ میں ایک ایسے موقع کا گواہ بن رہا تھا کہ حضور انور اپنے ساتھ رہنے والوں کا کس قدر محبت اور شفقت سے خیال رکھتے ہیں۔ کچھ دیر بعد فلائٹ اٹینڈنٹ نے آ کر مجھے مخاطب کر کے کہا کہ ’’میں کئی مرتبہ عالی جناب حضور انور اور آپ کی اہلیہ سے استفسار کر چکا ہوں کہ انہیں کوئی چیز چاہیے اور ہر مرتبہ انہوں نے جواب دیا ہے کہ وہ ٹھیک ہیں اور انہیں کچھ درکار نہ ہے وہ دونوں بہت عاجز، نرم خو اور شفیق ہیں۔‘‘

اس نے مزید کہا کہ ’’بسا اوقات ہمارا واسطہ معروف شخصیات یا معززین سے پڑتا ہے جو ہمارے جہاز سے سفر کرتے ہیں لیکن وہ عام طور پر ہمارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ تاہم عزت مآب (حضور انور) نے کئی مرتبہ میرے ساتھ نہایت شفقت سے بات کی جو میرے لئے بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ جبکہ دیگر کئی نہایت اہم مہمانان کا رویہ سخت توہین آمیز ہوتا ہے۔ حضور انور نہایت عاجز انسان ہیں۔ آپ سے ملنے کے بعدمیں آپ کی خدمت کرنے اور مدد کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوں۔‘‘

دیگر کئی مواقع پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ خلیفہٴ وقت کی شخصیت اور عاجزی دوسروں کو متاثر کرنے کا سبب بنی ہے، انہیں بھی جنہیں اسلام یا جماعت سے کوئی تعلق نہ ہے۔

(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر اکتوبر 2022ء از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2023