• 26 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ فرمودہ 09؍دسمبر 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 09؍دسمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

’’آپؓ کتابِ نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’آپؓ کے اوصاف حمیدہ آفتاب کی طرح درخشندہ ہیں‘‘

’’حضرتِ صدیق ؓکی ذاتِ گرامی رجاء و خوف، خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی اور آپ کا جوہر ِفطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا‘‘

’’آپ کی روح کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی۔ خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے‘‘

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھا تاکہ وہ آپ کے مقام اور عظمتِ شان کو ظاہر کرے‘‘

’’آپؓ کی تمام خوشی اعلائے کلمۂ اسلام اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھی‘‘

’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘

’’آپ نے اسلام کو ایک ناتواں اور بیکس اور نحیف ونزار ماؤف شخص کی طرح پایا تو آپ ماہروں کی طرح اس کی رونق اور شادابی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لٹے ہوئے شخص کی طرح اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے متناسب قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابی جمال اور اپنے صاف پانی کی مٹھاس کی طرف لوٹ آیا اور یہ سب کچھ اس بندۂ امین کے اخلاص کی وجہ سے ہوا‘‘

’’آپؓ کی فضیلت حکم ِسریع اور نصِ محکم سے ثابت ہے اور آپ کی بزرگی دلیلِ قطعی سے واضح ہے اور آپ کی صداقت روزِ روشن کی طرح درخشاں ہے۔ آپ نے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی نازو نعمت کو ترک کر دیا۔ دوسروں میں سے کوئی بھی آپؓ کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

’’حضرت ابوبکرؓ اسلام کے آدمِ ثانی ہیں‘‘

’’آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے۔ بہت ہی عفو و درگزر کرنے والے اور مجسم شفقت و رحمت تھے‘‘ آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی نازو نعمت کو ترک کر دیا۔ دوسروں میں سے کوئی بھی آپؓ کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

’’آپؓ نبی تو نہ تھے مگر آپؓ میں رسولوں کے قویٰ موجود تھے۔ آپؓ کے اس صدق کی وجہ سے ہی چمن اسلام اپنی پوری رعنائیوں کی طرف لوٹ آیا اور تیروں کے صدمات کے بعد بارونق اور شاداب ہو گیا اور اس کے قسما قسم کے خوشنما پھول کھلے اور اس کی شاخیں گرد و غبار سے صاف ہو گئیں‘‘

بدری صحابہؓ کے ذکر میں یہ آخری ذکر تھا جو چل رہا تھا وہ اب ختم ہوا… اللہ تعالیٰ ہمیں ان صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر طرف ستاروں کی طرح یہ ہماری راہنمائی کرنے والے ہوں اور جو معیار انہوں نے قائم کیے ہم بھی ان معیاروں کو قائم کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاداتِ مبارکہ کی روشنی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےمناقبِ عالیہ کا ایمان افروز بیان

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ جمعہ، خطبہ میں مَیں نے آخر میں

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے کچھ اقتباسات

پیش کیے تھے۔ اس بارے میں آپؑ کے کچھ مزید ارشادات ہیں، پیش کرتا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’بلا شبہ ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ اس کارواں کے امیر تھے جس نے اللہ کی خاطر بلند چوٹیاں سر کیں اور انہوں نے متمدن اور بادیہ نشینوں کو حق کی دعوت دی یہاں تک کہ ان کی یہ دعوت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی اور

ان دونوں کی خلافت میں بکثرت ثمرات اسلام ودیعت کئے گئے اور کئی طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ کامل خوشبو سے معطر کی گئی۔

اور اسلام حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانہ میں مختلف اقسام کے (فتنوں کی) آگ سے الم رسیدہ تھا اور قریب تھا کہ کھلی کھلی غارت گریاں اس کی جماعت پر حملہ آور ہوں اور اس کے لُوٹ لینے پر فتح کے نعرے لگائیں۔ پس عین اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صدق کی وجہ سے رب جلیل اسلام کی مدد کو آ پہنچا اور گہرے کنویں سے اس کا متاعِ عزیز نکالا۔ چنانچہ اسلام بدحالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی طرف لَوٹ آیا۔ پس انصاف ہم پر یہ لازم ٹھہراتا ہے کہ ہم اس مددگار کا شکریہ ادا کریں ا ور دشمنوں کی پرواہ نہ کریں۔ پس تُو اس شخص سے بےرخی نہ کر جس نے تیرے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور تیرے دین و دَر کی حفاظت کی اور اللہ کی خاطر تیری بہتری چاہی اور تجھ سے بدلہ نہ چاہا۔ تو پھر بڑے تعجب کا مقام ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی بزرگی سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ

آپؓ کے اوصاف حمیدہ آفتاب کی طرح درخشندہ ہیں

اور بلا شبہ ہر مومن آپ کے لگائے ہوئے درخت کے پھل کھاتا اور آپ کے پڑھائے ہوئے علوم سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ آپ نے ہمارے دین کے لئے فرقان اور ہماری دنیا کے لئے امن و امان عطا فرمایا اور جس نے اس سے انکار کیا تو اُس نے جھوٹ بولا اور ہلاکت اور شیطان سے جا ملا۔‘‘ فرماتے ہیں ’’اور جن لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ مشتبہ رہا، ایسے لوگ عمداً خطا کار ہیں اور انہوں نے کثیر پانی کو قلیل جانا۔ پس وہ غصے سے اٹھے اور ایسے شخص کی تحقیر کی جو اول درجہ کا مکرم و محترم تھا۔‘‘

فرمایا ’’اور

حضرتِ صدیق ؓکی ذاتِ گرامی رجاء و خوف، خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی اور آپ کا جوہر ِفطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور
حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا۔

اور نفس اور اس کی لذات سے خالی اور ہوا و ہوس اور اس کے جذبات سے کلیۃً دور تھا اور آپ حد درجہ کے متبتّل تھے اور آپ سے اصلاح ہی صادر ہوئی اور آپؓ سے مومنوں کے لئے فلاح و بہبود ہی ظاہر ہوئی۔ آپ ایذا اور دکھ دینے کی تہمت سے پاک تھے۔ اس لئے تُو داخلی تنازعات کی طرف نہ دیکھ بلکہ انہیں بھلائی کی طرز پر محمول کر۔ کیا تو غور نہیں کرتا کہ وہ شخص جس نے اپنے رب کے احکامات اور خوشنودی سے اپنی توجہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی طرف نہیں پھیری تا کہ وہ انہیں مالدار بنائیں یا انہیں اپنے عمّال میں سے بنائیں اور جس نے دنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا اس کی ضرورتوں کے لئے کافی تھا تو پھر تُو کیسے خیال کر سکتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ظلم روا رکھا ہو گا۔‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 79تا 82)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’اللہ صدیق (اکبرؓ) پر رحمتیں نازل فرمائے کہ آپؓ نے اسلام کو زندہ کیا اور زندیقوں کو قتل کیا اور قیامت تک کے لئے اپنی نیکیوں کا فیضان جاری کر دیا۔ آپؓ بہت گریہ کرنے والے اور متبتّل الی اللہ تھے اور تضرع، دعا، اللہ کے حضور گرے رہنا، اس کے در پر گریہ و عاجزی سے جھکے رہنا اور اس کے آستانے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا آپ کی عادت میں سے تھا۔ آپ بحالتِ سجدہ دعا میں پورا زور لگاتے اور تلاوت کے وقت روتے تھے۔

آپؓ بلاشبہ اسلام اور مرسلین کے فخر ہیں۔ آپؓ کا جوہرِ فطرت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوہرِ فطرت کے قریب تر تھا۔

آپؓ نبوت کی خوشبوؤں کو قبول کرنے کے لئے مستعد لوگوں میں سے اول تھے۔ حاشر (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قیامت کی مانند جو حشر روحانی ظاہر ہوا آپؓ اس کے دیکھنے والوں میں سرفہرست تھے اور ان لوگوں میں سے پہلے تھے جنہوں نے مَیل سے اَٹی چادروں کو پاک و صاف پوشاکوں سے تبدیل کر دیا اور انبیاء کے اکثر خصائل میں انبیاء کے مشابہ تھے۔

ہم قرآن کریم میں آپؓ کے ذکر کے سوا کسی اَور (صحابی) کا ذکر بجز ظن و گمان کرنے والوں کے ظن کے قطعی اور یقینی طور پر موجود نہیں پاتے۔

اور ظن وہ چیز ہے جو حق کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ (حق کے) متلاشیوں کو سیراب کر سکتا ہے اور جس نے آپ سے دشمنی کی تو ایسے شخص اور حق کے درمیان ایک ایسا بند دروازہ حائل ہے جو کبھی بھی صدیقوں کے سردار کی طرف رجوع کئے بغیر نہ کھلے گا۔‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 99-100)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’صدیق ؓکی تخلیق مبدءِ فیضان کی طرف متوجہ ہونے اور رسولِ رحمٰن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرنے کی صورت میں ہوئی۔ آپؓ صفاتِ نبوت کے ظہور کے تمام انسانوں سے زیادہ حق دار تھے اور حضرت خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بننے کے لئے اولیٰ تھے اور اپنے متبوعؐ کے ساتھ کمال اتحاد اور موافقتِ تامہ استوار کرنے کے اہل تھے۔ نیز یہ کہ وہ جملہ اخلاق، صفات و عادات اپنانے اور انفسی اور آفاقی تعلقات چھوڑنے میں آپؐ کے (ایسے کامل) مظہر تھے کہ تلواروں اور نیزوں کے زور سے بھی ان کے درمیان قطع تعلق واقع نہ ہو سکے اور آپ اس حالت پر ہمیشہ قائم رہے اور مصائب اور ڈرانے والے حالات، نیز لعنت ملامت میں سے کچھ بھی آپ کو بےقرار نہ کر سکے۔

آپ کی روح کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی۔ خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے۔

اور اسی وجہ سے اللہ نے نبیوں کے فوراً بعد صدیقوں کے ذکر کو رکھا اور فرمایا: فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ (النساء: 70) اور اس (آیت) میں صدیق (اکبرؓ) اور آپ کی دوسروں پر فضیلت کے اشارے ہیں کیونکہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھا تاکہ وہ آپ کے مقام اور عظمتِ شان کو ظاہر کرے۔

لہٰذا غور و فکر کرنے والوں کی طرح غور کر۔ اس آیت میں سالکوں کے لئے کمال کے مراتب اور ان کی اہلیت رکھنے والوں کی جانب بہت بڑا اشارہ ہے اور جب ہم نے اس آیت پر غور کیا اور سوچ کو انتہا تک پہنچایا تو یہ منکشف ہوا کہ یہ آیت (ابوبکر) صدیق ؓکے کمالات پر سب سے بڑی گواہ ہے اور اس میں ایک گہرا راز ہے جو ہر اس شخص پر منکشف ہوتا ہے جو تحقیق پر مائل ہوتا ہے۔ پس ابوبکرؓ وہ ہیں جنہیں رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ (مبارک) سے صدیق کا لقب عطا کیا گیا اور فرقانِ (حمید) نے صدیقوں کو انبیاء کے ساتھ ملایا ہے جیسا کہ اہلِ عقل پر پوشیدہ نہیں اور ہم صحابہؓ میں سے کسی ایک صحابی پر بھی اس لقب اور خطاب کا اطلاق نہیں پاتے۔ اس طرح صدیقِ امین کی فضیلت ثابت ہو گئی کیونکہ نبیوں کے بعد آپ کے نام کا ذکر کیا گیا ہے۔’’

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 104 تا 107)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’ابن خلدون کہتے ہیں کہ ’’جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف بڑھ گئی اور آپؐ پر غشی طاری ہو گئی تو آپؐ کی ازواج اور دیگر اہل بیت، عباس اور علی آنحضرتؐ کے پاس جمع ہو گئے۔ پھر نماز کا وقت ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ابوبکر سے کہہ دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ (الجزءالثانی صفحہ۶۲) آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ابن خلدون کہتے ہیں کہ ’’پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کرنے کے بعد فرمایا: ابوبکر کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کر دو !کیونکہ میں تمام صحابہ میں احسان میں کسی کو بھی ابوبکر سے زیادہ افضل نہیں جانتا۔‘‘ (الجزءالثانی صفحہ۶۲)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ابن خلدون نے ذکر کیا ہے کہ ’’حضرت ابوبکرؓ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپؐ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور آپؐ کو بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اللہ نے جو موت آپؐ کے لیے مقدر کی تھی اس کا مزہ آپؐ نے چکھ لیا۔ لیکن اب اس کے بعد کبھی آپؐ پر موت نہیں آئے گی۔‘‘ (الجزءالثانی صفحہ ۶۲)

فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ کے لطیف احسانات میں سے جو اس نے آپؓ پر فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال قرب کی جو خصوصیت آپؓ کو حاصل تھی، جیساکہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے وہ یہ تھی کہ

ابوبکرؓ اسی چارپائی پر اٹھائے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا گیا تھا اور آپؓ کی قبر کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیا اور(صحابہ نے) آپؓ کی لحد کو نبی کریم ؐ کی لحد کے بالکل قریب بنایا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے متوازی رکھا۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھا کہ (اے اللہ!) مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما۔ (صفحہ ۱۷۶)

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 189-190حاشیہ)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ابوبکر ایک نادرِ روزگار، باخدا انسان تھے۔ جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی اور آپ کی پوری کوشش یہی رہی کہ جس نے اسلام کو ترک کیا آپ نے اس سے مقابلہ کیا اور جس نے حق سے انکار کیا آپ نے اس سے جنگ کی اور جو اسلام کے گھر میں داخل ہو گیا تو اس سے نرمی اور شفقت کا سلوک کیا۔ آپ نے اشاعتِ اسلام کے لیے سختیاں برداشت کیں۔ آپ نے مخلوق کو نایاب موتی عطا کئے اور اپنے عزمِ مبارک سے بادیہ نشینوں کو معاشرت سکھائی اور ان شتربےمہاروں کو کھانے پینے، نشست و برخاست کے آداب اور نیکی کے راستوں کی تلاش اور جنگوں میں بہادری اور جوش کے ادب سکھائے اور آپ نے ہر طرف مایوسی دیکھ کر بھی کسی سے جنگ کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ آپ ہر مد مقابل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہر بزدل اور بیمار شخص کی طرح آپ کو خیالات نے بہکایا نہیں۔ ہر فساد اور مصیبت کے موقع پر ثابت ہو گیا کہ آپ کوہِ رَضْویٰ (یہ مدینہ کا ایک پہاڑ ہے) سے زیادہ راسخ اور مضبوط ہیں۔ آپ نے ہر اس شخص کو جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہلاک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر تمام تعلقات کو پرے پھینک دیا۔

آپؓ کی تمام خوشی اعلائے کلمۂ اسلام اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھی۔

پس اپنے دین کی حفاظت کرنے والے حضرت ابوبکرؓ کا دامن تھام لے اور فضول گوئی چھوڑ دے۔

فرمایا کہ اور مَیں نے جو کچھ کہا ہے وہ خواہشات ِنفس کی پیروی کرنے والے شخص کی طرح یا آباؤ اجداد کے خیالات کی تقلید کرنے والے کی طرح نہیں کہا بلکہ جب سے میرے قدم نے چلنا اور میرے قلم نے لکھنا شروع کیا مجھے یہی محبوب رہا کہ میں تحقیق کو اپنا مسلک اور غور و فکر کو اپنا مقصود بناؤں۔ میں نے پوری تحقیق کی ہے۔ فرمایا کہ چنانچہ میں ہر خبر کی چھان بین کرتا اور ہر ماہر علم سے پوچھتا۔ پس میں نے صدیقِ اکبر کو واقعی صدیق پایا اور تحقیق کی رو سے یہ امر مجھ پر منکشف ہوا جب میں نے آپ کو تمام اماموں کا امام اور دین اور امت کا چراغ پایا تب میں نے آپ کی رکاب کو مضبوطی سے تھام لیا اور آپ کی امان میں پناہ لی اور صالحین سے محبت کر کے اپنے رب کی رحمت حاصل کرنی چاہی۔ پس اس خدائے رحیم نے مجھ پر رحم فرمایا۔ پناہ دی۔ میری تائید فرمائی اور میری تربیت کی اور مجھے معزز لوگوں میں سے بنایا اور اپنی رحمت خاص سے اس نے مجھے اس صدی کا مجدد اور مسیح موعود بنایا اور مجھے ملہمین میں سے بنایا۔ مجھ سے غم کو دُور کیا اور مجھے وہ کچھ عطا کیا جو دنیا جہان میں کسی اَور کو عطا نہیں کیا اور یہ سب اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُمِّی اور ان مقربین کی محبت کے طفیل حاصل ہوا ہے۔ اے اللہ! تو اپنے افضل الرسل اور اپنے خاتم الانبیاء اور دنیا کے تمام انسانوں سے بہتر وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیج۔

بخدا! حضرت ابوبکرؓ حرمین میں بھی اور
دونوں قبروں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں۔

اس سے میری مراد ایک تو غار کی قبر ہے جس میں آپ بحالتِ اضطرار وفات یافتہ شخص کی طرح پناہ گزین ہوئے اور پھر دوسری وہ قبر جو مدینہ میں خیر البریہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے صدیق اکبر کے مقام کو سمجھ اگر تو گہری سمجھ کا مالک ہے۔ اللہ نے آپ کی اور آپ کی خلافت کی قرآن میں توصیف فرمائی اور بہترین بیان سے آپ کی ستائش کی ہے۔ فرمایا: بلا شبہ آپ اللہ کے مقبول اور پسندیدہ ہیں اور آپ کی قدرو منزلت کی تحقیر کسی سرپھرے شخص کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ آپ کی خلافت کے ذریعہ اسلام سے تمام خطرات دور ہو گئے۔ فرماتے ہیں :اور آپ کی رأفت سے مسلمانوں کی خوش بختی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اگر خیر الانام کا صدیق، صدیقِ اکبر نہ ہوتا تو قریب تھا کہ اسلام کا ستون منہدم ہو جاتا۔

آپ نے اسلام کو ایک ناتواں اور بیکس اور نحیف ونزار ماؤف شخص کی طرح پایا تو آپ ماہروں کی طرح اس کی رونق اور شادابی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لٹے ہوئے شخص کی طرح اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے متناسب قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابیٔ جمال اور اپنے صاف پانی کی مٹھاس کی طرف لوٹ آیا اور یہ سب کچھ اس بندۂ امین کے اخلاص کی وجہ سے ہوا۔

آپ نے نفس کو مٹی میں ملایا اور حالت کو بدلا اور رحمان خدا کی خوشنودی کے سوا کسی صلہ کے طالب نہ ہوئے اور اسی حالت میں شب و روز آپ پر آئے۔ آپ بوسیدہ ہڈیوں میں جان ڈالنے والے، آفتوں کو دور کرنے والے اور صحرا کے میٹھے پھل والے درختوں کو بچانے والے تھے۔ خالص نصرتِ الٰہی آپ کے حصہ میں آئی اور یہ اللہ کے فضل اور رحم کی وجہ سے تھا اور اب ہم خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے کسی قدر شواہد کا ذکر کرتے ہیں تا کہ تجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ کیونکر آپ نے تند و تیز آندھیوں والے فتنوں اور جھلسانے والے شعلوں کے مصائب کو ختم کیا اور کس طرح آپ نے جنگ میں بڑے بڑے ماہر نیزہ بازوں اور شمشیرزنوں کو ہلاک کر دیا۔ اس طرح آپ کی باطنی کیفیت آپ کے کارناموں سے ظاہر ہو گئی اور آپ کے اعمال نے آپ کے اوصافِ حمیدہ کی حقیقت پر گواہی دی۔ اللہ آپ کو بہترین جزا عطا کرے اور متقین کے ائمہ میں آپ کا حشر ہو اور اللہ اپنے ان محبوبوں کے صدقے ہم پر رحم فرمائے۔ اے نعمتوں اور عنایات کے مالک خدا! میری دعا قبول فرما۔ تُو سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور تُو رحم کرنے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔

(ماخوذ از سر الخلافة (مترجم) صفحہ 185 تا 187 حاشیہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زمانہ پر غور کرو کہ جب دشمن قریش ہر طرف سے شرارت پر تلے ہوئے تھے اور انہوں نے آپؐ کے قتل کا منصوبہ کیا۔ وہ زمانہ بڑا ابتلا کا زمانہ تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو حقِ رفاقت ادا کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ طاقت اور قوت بجز صدقِ ایمان کے ہر گز نہیں آسکتی۔

آج جس قدر تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو۔ اپنی اپنی جگہ سوچو کہ
اگر اس قسم کا کوئی ابتلا ہم پر آجائے تو کتنے ہیں جو ساتھ دینے کو تیار ہوں۔

مثلاً گورنمنٹ کی طرف سے ہی یہ تفتیش شروع ہو جائے کہ کس کس شخص نے اس شخص کی بیعت کی ہے تو کتنے ہوں گے جو دلیری کے ساتھ یہ کہہ دیں کہ ہم مبائعین میں داخل ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بات سن کر بعض لوگوں کے ہاتھ پاؤں سُن ہو جائیں گے اور ان کو فوراً اپنی جائدادوں اور رشتہ داروں کا خیال آجائے گاکہ ان کو چھوڑنا پڑے گا۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مشکلات ہی کے وقت ساتھ دینا ہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک انسان عملی طور پر ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے محض قول سے کچھ نہیں بنتا اور بہانہ سازی اس وقت تک دور ہی نہیں ہوتی۔ عملی طور پر جب مصیبت کا وقت ہو تو اس وقت ثابت قدم نکلنے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح ناصریؑ کے حواری اس آخری گھڑی میں جو ان کی مصیبت کی گھڑی تھی انہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے تو منہ کے سامنے ہی آپ پر لعنت کر دی۔‘‘

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’…غرض حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کیا گیا۔ گو بعض کفا ر کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرت رائے آپؐ کے قتل پر تھی۔ ایسی حالت میں

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو
ابدا لآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا۔

اس مصیبت کی گھڑی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت اور اعلیٰ وفاداری کی ایک زبر دست دلیل ہے۔ دیکھو! اگر وائسرائے ہند کسی شخص کو کسی خاص کام کے لئے انتخاب کر لے تو اس کی رائے صائب اور بہتر ہو گی یا ایک چوکیدا ر کی؟‘‘ وائسرائے اگر انتخاب کرے تو اس کی رائے صائب ہو گی یا ایک عام چوکیدار کی۔ فرماتے ہیں کہ ’’ماننا پڑے گا کہ وائسرائے کا انتخاب بہرحال موزوں اور مناسب ہو گا کیونکہ جس حال میں کہ وہ سلطنت کی طرف سے نائب السلطنت مقرر کیا گیا ہے اور اس کی وفاداری، فراست اور پختہ کاری پر سلطنت نے اعتماد کیا ہے تب ہی تو زمام ِسلطنت اس کے ہاتھ میں دی ہے۔ پھر اس کی صائب تدبیری اور معاملہ فہمی کو پس پشت ڈال کر ایک چوکیدار کے انتخاب اور رائے کو صحیح سمجھ لینا نامناسب امر ہے۔

یہی حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب کا تھا۔ اس وقت آپ کے پاس 70-80 صحابہؓ موجود تھے جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے مگر ان سب میں سے آپؐ نے اپنی رفاقت کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہی انتخاب کیا۔ اس میں سرّ کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ

نبی خدا تعالیٰ کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کا فہم اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف اور الہام سے بتا دیا کہ اس کام کے لئے سب سے بہتر اور موزوں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں۔

ابوبکرؓ اس ساعتِ عُسر میں آپؐ کے ساتھ ہوئے۔ یہ وقت خطر ناک آزمائش کا تھا۔‘‘

فرماتے ہیں ’’…غرض حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپؐ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کوغارِثور کہتے ہیں آپؐ جا چھپے۔ شریر کفار جو آپؐ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا بھی نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبہ: 40) کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس لفظ پر غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق ؓکو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ مَعَنَا میں آپ دونو شریک ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ تیرے اور میرے ساتھ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک پلّہ پر آنحضرتؐ کو اور دوسرے پر حضرت صدیق ؓ کو رکھا ہے۔‘‘

ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں ایک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رکھا۔ دوسرے پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو رکھا۔ ’’اس وقت دونو ابتلا میں ہیں کیونکہ

یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی
بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والا ہے۔

دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ا س غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جا تا ہے…… لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گذر اور دخل کیسے ہوگا؟ مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے۔ کبوترنے انڈے دیئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں۔ ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپؐ کے کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیقِ صادق صدیقؓ کو فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے …ابوبکر صدیق ؓکی شجاعت کے لئے ایک دوسرا گواہ اس واقعہ کے سوا اَور بھی ہے۔‘‘

فرماتے ہیں: ’’جب آنحضرتؐ نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہے تو مَیں اسے قتل کردوں گا۔ ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بڑی جرأت اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہوکر خطبہ پڑھا۔ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران: 145) یعنی محمدؐبھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہی ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی ہوگذرے ہیں۔ سب نے وفات پائی۔ اس پر وہ جوش فروہوا۔ اس کے بعد بادیہ نشین اعراب مرتد ہوگئے۔ ایسے نازک وقت کی حالت کو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یوں ظاہر فرمایا ہے کہ

پیغمبرِ خدا صلعم کا انتقال ہوچکا ہے اور بعض جھوٹے مدعی نبوت کے پیدا ہوگئے ہیں اور بعضوں نے نمازیں چھوڑدیں اوررنگ بدل گیا ہے۔ ایسی حالت میں اور اس مصیبت میں میرا باپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اور جانشین ہوا۔ میرے باپ پر ایسے ایسے غم آئے کہ اگرپہاڑوں پر آتے تو وہ بھی نابود ہوجاتے۔

اب غور کرو کہ مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے پر بھی ہمت اور حوصلہ کو نہ چھوڑنا یہ کسی معمولی انسان کاکام نہیں۔ یہ استقامت صدق ہی کو چاہتی تھی اور صدیق ؓنے ہی دکھائی۔ ممکن نہ تھا کہ کوئی دوسرا اس خطرہ کو سنبھال سکتا۔ تمام صحابہؓ اس وقت موجود تھے۔ کسی نے نہ کہا کہ میرا حق ہے۔ وہ دیکھتے تھے کہ آگ لگ چکی ہے۔ اس آگ میں کون پڑے۔ حضرت عمرؓنے اس حالت میں ہاتھ بڑھا کر آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر سب نے یکے بعد دیگرے بیعت کرلی۔ یہ ان کا صدق ہی تھا کہ اس فتنہ کو فرو کیا اور ان موذیوں کو ہلاک کیا۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی تھا اور اس کے مسائل اباحت کے مسائل تھے۔ لوگ اس کی اباحتی باتوں کو دیکھ دیکھ کراس کے مذہب میں شامل ہوتے جاتے تھے لیکن خداتعالیٰ نے اپنی معیت کا ثبوت دیا اور ساری مشکلات کو آسان کر دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ374تا 379 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر،عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔‘‘

(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ294)

پھر فرمایا: ’’اللہ کی قسم صدیقِ اکبرؓ وہ مرد خدا ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختصاص کے کئی لباس عطا کئے گئے۔‘‘ بہت ساری خصوصیتیں عطا کی گئیں۔ ’’اور اللہ نے ان کے لئے یہ گواہی دی کہ وہ خاص بر گزیدہ لوگوں میں سے ہیں اور اپنی ذات کی معیت کو آپ کی طرف منسوب کیا اور آپ کی تعریف و توصیف کی اور آپ کی قدردانی کی اور یہ اشارہ فرمایا کہ آپ ایسے شخص ہیں کہ جنہیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی گوارا نہ ہوئی۔ ہاں آنحضرتؐ کے علاوہ دیگر عزیز و اقارب کی جدائی پر آپ راضی ہو گئے۔ آپ نے اپنے آقا کو مقدم رکھا اور ان کی طرف دوڑے چلے آئے۔ پھر بکمال رغبت آپ نے اپنے تئیں موت کے منہ میں ڈال دیا اور ہر نفسانی خواہش کو اپنی راہ سے ہٹا دیا۔ رسولؐ نے آپ کو رفاقت کے لئے بلایا تو موافقت میں لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب قوم نے حضرت (محمد) مصطفیٰؐ کو نکالنے کا ارادہ کیا تو بزرگ و برتر اللہ عزّ وجل کے محبوب نبیؐ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہےکہ میں ہجرت کروں اور تم میرے ساتھ ہجرت کرو گے اور ہم اکٹھے اس بستی سے نکلیں گے۔ پس اس پر حضرتِ صدیق ؓنے الحمدللہ پڑھا کہ ایسے مشکل وقت میں اللہ نے انہیں مصطفیٰؐ کا رفیق بننے کی سعادت بخشی۔ وہ پہلے ہی سے نبی مظلوم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نصرت کے منتظر تھے۔ یہاں تک کہ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو آپؓ نے پوری سنجیدگی اور عواقب سے لاپرواہ ہو کر ھم و غم میں آپؐ کا ساتھ دیا اور قاتلوں کے قتل کے منصوبہ سے خوفزدہ نہ ہوئے۔ پس

آپؓ کی فضیلت حکم ِسریع اور نصِ محکم سے ثابت ہے اور آپ کی بزرگی دلیلِ قطعی سے واضح ہے اور آپ کی صداقت روزِ روشن کی طرح درخشاں ہے۔ آپ نے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی نازو نعمت کو ترک کر دیا۔ دوسروں میں سے کوئی بھی آپؓ کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم یہ پوچھو کہ اللہ نے سلسلۂ خلافت کے آغاز کے لئے آپؓ کو کیوں مقدم فرمایا اور اس میں ربِّ رؤوف کی کیا حکمت تھی؟ تو جاننا چاہئے کہ اللہ نے یہ دیکھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وارضیٰ ایک غیر مسلم قوم میں سے بکمال قلب سلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ہیں اور ایسے وقت میں ایمان لائے جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یک و تنہا تھے اور فساد بہت شدید تھا۔ پس حضرت صدیق اکبرؓ نے اس ایمان لانے کے بعد طرح طرح کی ذلت اور رسوائی دیکھی اور قوم، خاندان، قبیلے، دوستوں اور بھائی بندوں کی لعن طعن دیکھی، رحمان خدا کی راہ میں آپ کو تکلیفیں دی گئیں اور آپ کو اسی طرح وطن سے نکال دیا گیا جس طرح جن و انس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا گیا تھا۔ آپ نے دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں اور اپنے پیارے دوستوں کی طرف سے لعنت ملامت مشاہدہ کی۔ آپ نے بارگاہِ ربّ العزت میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا۔ آپ معزز اور ناز و نعم میں پلنے کے باوجود معمولی لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ راہِ خدا میں (وطن سے) نکالے گئے۔ آپ اللہ کی راہ میں ستائے گئے۔ آپ نے راہِ خدا میں اپنے اموال سے جہاد کیا اور دولت و ثروت کے رکھنے کے بعد آپ فقیروں اور مسکینوں کی طرح ہو گئے۔ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ پر گزرے ہوئے ایام کی آپ کو جزا عطا فرمائے اور جو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا اس سے بہتر بدلہ دے اور اللہ کی رضامندی چاہنے کے لئے جن مصائب سے آپ دوچار ہوئے ان کا صلہ آپ پر ظاہر فرمائے اور اللہ محسنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ لہٰذا آپ کے ربّ نے آپ کو خلیفہ بنا دیا اور آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بلند کیا اور آپ کی دلجوئی فرمائی اور اپنے فضل و رحم سے عزت بخشی اور آپ کو امیر المومنین بنا دیا۔‘‘

(سرالخلافۃ (مترجم) صفحہ63تا 66)

پھر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔

ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدم ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآن شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ151 مکتوب نمبر 2مکتوب بنام حضرت خان صاحب محمد علی صاحبؓ)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:

’’حضرت ابوبکرؓ اسلام کے آدمِ ثانی ہیں

اُس زمانہ میں بھی مسیلمہ نے اباحتی رنگ میں لوگوں کو جمع کررکھا تھا۔ ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کرسکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیداہوئی ہوں گی۔ اگر وہ قوی دِل نہ ہوتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبراجاتا لیکن صدیق ؓنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم سایہ تھا۔‘‘ ہم سایہ تھا یعنی جس طرح آپ کا سایہ تھا اسی طرح وہ تھے۔ ’’آپؐ کے اخلاق کا اثراس پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا۔ اس لیے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ان کی زندگی اسلام کی زندگی تھی۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں۔ اس زمانہ کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اس کا اندازہ کرلو۔ میں سچ کہتاہوں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلعم کے بعد ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا۔ ابوبکر صدیق ؓ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا۔ اپنی قوتِ ایمانی سے کل باغیوں کو سزادی اور امن کو قائم کردیا۔ اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ میں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا۔ یہ پیشگوئی حضرت صدیق ؓکی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی۔ پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہئے۔ نظائر سے مسائل بہت جلد حل ہوجاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ380-381 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہزاروں آدمی مرتد ہو گئے حالانکہ آپؐ کے زمانہ میں تکمیل شریعت ہو چکی تھی۔ یہانتک اس ارتداد کی نوبت پہنچی کہ صرف دو مسجدیں رہ گئیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ باقی کسی مسجد میں نماز ہی نہیں پڑھی جاتی تھی۔ یہ وہی لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا (الحجرات: ۱۵) مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دوبارہ اسلام کو قائم کیا اور وہ آدمِ ثانی ہوئے۔

میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت بڑا احسان اس امت پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے

کیونکہ ان کے زمانہ میں چار جھوٹے پیغمبر ہو گئے۔ مسیلمہ کے ساتھ ایک لاکھ آدمی ہو گئے تھے اور ان کا نبی ان کے درمیان سے اٹھ گیا تھا مگر ایسی مشکلات پر بھی اسلام اپنے مرکز پر قائم ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تو بات بنی بنائی ملی تھی۔ پھر وہ اس کو پھیلاتے گئے۔ یہاں تک کہ نواحِ عرب سے اسلام نکل کر شام و روم تک جا پہنچا اور یہ ممالک مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والی مصیبت کسی نے نہیں دیکھی نہ حضرت عمرؓ نے
نہ حضرت عثمانؓ نے اور نہ حضرت علیؓ نے۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ277-278 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو خدا تعالیٰ کے لئے ذلیل ہو وہی انجام کار عزت و جلال کا تخت نشیں ہو گا۔ ایک ابوبکرؓ ہی کو دیکھو جس نے سب سے پہلے ذلت قبول کی اور سب سے پہلے تخت نشین ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ41 ایڈیشن 1984ء)

فرمایا: ’’کیا دنیا میں ایسی کم مثالیں اور نظیریں ہیں کہ جو لوگ اس کی راہ میں قتل کئے گئے۔ ہلاک کئے گئے ان کے زندہ جاوید ہونے کا ثبوت ذرہ ذرہ زمین میں ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہی دیکھ لو کہ سب سے زیادہ اللہ کی راہ میں برباد کیا اور سب سے زیادہ دیا گیا۔ چنانچہ تاریخِ اسلام میں پہلا خلیفہ حضرت ابوبکرؓ ہی ہوا۔‘‘ فرمایا

’’بہت کا یہ بھی خیال ہو گا کہ کیا ہم انقطاع الی اللہ کر کے اپنے آپ کو تباہ کر لیویں؟ مگر یہ ان کو دھوکا ہے۔ کوئی تباہ نہیں ہو گا۔ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ لو۔ اس نے سب کچھ چھوڑا پھر وہی سب سے اوّل تخت پر بیٹھا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ19مع حاشیہ ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک تم پر اس دلیل کی وضاحت کے لئے تفصیل کا تعلق ہے تو اے اہلِ دانش و فضیلت! جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمان مردوں اور عورتوں سے ان آیات میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے فضل اور رحم سے ان میں سے بعض مومنوں کو ضرور خلیفہ بنائے گا۔‘‘ آیتِ استخلاف کے بارے میں فرما رہے ہیں ’’اور ان کے خوف کو ضرور امن کی حالت میں بدل دے گا۔ اس امر کا اتم اور اکمل طور پر مصداق ہم حضرت صدیق (اکبرؓ) کی خلافت کو ہی پاتے ہیں۔کیونکہ جیساکہ اہلِ تحقیق سے یہ امر مخفی نہیں کہ آپ کی خلافت کا وقت خوف اور مصائب کا وقت تھا۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔‘‘ فرماتے ہیں: ’’بہت سے منافق مرتد ہو گئے اور مرتدوں کی زبانیں دراز ہو گئیں اور افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٰٔ نبوت کر دیا اور اکثر بادیہ نشین ان کے گرد جمع ہو گئے یہاں تک کہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے اور مصائب بڑھ گئے اور آفات نے دور و نزدیک کا احاطہ کر لیا اور مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ اس وقت تمام لوگ آزمائے گئے اور خوفناک اور حواس باختہ کرنے والے حالات نمودار ہو گئے اور مومن ایسے لاچار تھے کہ گویا ان کے دلوں میں آگ کے انگارے دہکائے گئے ہوں یا وہ چھری سے ذبح کر دئیے گئے ہوں۔ کبھی تو وہ خیرالبریہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جدائی کی وجہ سے اور گاہے ان فتنوں کے باعث جو جلا کر بھسم کر دینے والی آگ کی صورت میں ظاہر ہوئے تھے روتے۔ امن کا شائبہ تک نہ تھا۔ فتنہ پرداز گند کے ڈھیر پر اگے ہوئے سبزے کی طرح چھا گئے تھے۔ مومنوں کا خوف اور ان کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی تھی اور دل دہشت اور بے چینی سے لبریز تھے۔ ایسے (نازک) وقت میں (حضرت) ابوبکر رضی اللہ عنہ حاکم وقت اور (حضرت) خاتم النبیینؐ کے خلیفہ بنائے گئے۔ منافقوں، کافروں اور مرتدوں کے جن رویوں اور طور طریقوں کا آپ نے مشاہدہ کیا ان سے آپ ہم و غم میں ڈوب گئے۔ آپ اس طرح روتے جیسے ساون کی جھڑی لگی ہو اور آپ کے آنسو چشمۂ رواں کی طرح بہنے لگتے اور آپ (رضی اللہ عنہ) (اپنے) اللہ سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگتے۔ …یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی اور جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دئیے گئے۔ فتنے دُور کر دئیے گئے اور مصائب چھٹ گئے اور معاملے کا فیصلہ ہو گیا اور خلافت کا معاملہ مستحکم ہوا اور اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا لیا اور ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا اور ان کے لئے ان کے دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا اور مفسدوں کے چہرے کالے کر دئیے اور اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے (حضرت ابوبکر) صدیقؓ کی نصرت فرمائی اور سرکش سرداروں اور بتوں کو تباہ و برباد کر دیا اور کفار کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ پسپا ہو گئے اور (آخر) انہوں نے رجوع کر کے توبہ کی اور یہی خدائے قہار کا وعدہ تھا اور وہ سب صادقوں سے بڑھ کر صادق ہے۔ پس غور کر کہ کس طرح خلافت کا وعدہ اپنے پورے لوازمات اور علامات کے ساتھ (حضرت ابوبکر) صدیق ؓکی ذات میں پورا ہوا۔‘‘

فرماتے ہیں: ’’…غور کرو کہ آپ کے خلیفہ ہونے کے وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ اسلام مصائب کی وجہ سے آگ سے جلے ہوئے شخص کی طرح (نازک حالت میں) تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اس کی طاقت لوٹا دی اور اسےگہرے کنویں سے نکالا اور جھوٹے مدعیانِ نبوت دردناک عذاب سے مارے گئے اور مرتد چوپاؤں کی طرح ہلاک کئے گئے۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں: ’’اور اللہ نے مومنوں کو اس خوف سے جس میں وہ مردوں کی طرح تھے امن عطا فرمایا۔ اس تکلیف کے رفع ہونے کے بعد مومن خوش ہوتے تھے اور (حضرت ابوبکر) صدیق ؓکو مبارکباد دیتے تھے اور مرحبا کہتے ہوئے ان سے ملتے تھے … وہ آپ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے اور یہ سب کچھ (حضرت ابوبکر) صدیق ؓکے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا۔‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 47تا 51)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کی کیا حالت تھی اور اس میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکے خصائل کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرمایا: ’’آپؓ نبی تو نہ تھے مگر آپؓ میں رسولوں کے قویٰ موجود تھے۔

آپؓ کے اس صدق کی وجہ سے ہی چمن اسلام اپنی پوری رعنائیوں کی طرف لوٹ آیا اور تیروں کے صدمات کے بعد بارونق اور شاداب ہو گیا اور اس کے قسما قسم کے خوشنما پھول کھلے اور اس کی شاخیں گرد و غبار سے صاف ہو گئیں

جبکہ اس سے پہلے اس کی حالت ایسے مردے کی سی ہو گئی تھی جس پر رویا جا چکا ہو اور (اس کی حالت) قحط زدہ کی سی تھی اور مصیبت کے شکار کی سی اور ذبح کئے گئے ایسے جانور کی سی جس کے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہو، ہو گئی تھی اور (اس کی حالت) قسما قسم کی مشقتوں کے مارے ہوئے اور شدید تپش والی دوپہر کے جلائے ہوئے کی طرح تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ان تمام مصائب سے نجات بخشی اور ان ساری آفات سے اسے رہائی دلائی اور عجیب در عجیب تائیدات سے اس کی مدد فرمائی یہاں تک کہ اسلام اپنی شکستگی اور خاک آلودگی کے بعد بادشاہوں کا امام اور گردنوں (عوام النّاس) کا مالک بن گیا۔ پس منافقوں کی زبانیں گنگ ہو گئیں اور مومنوں کے چہرے چمک اٹھے۔ ہر شخص نے اپنے رب کی تعریف اور صدیق (اکبرؓ) کا شکریہ ادا کیا۔‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ52)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کو ایک ایسی دیوار کی طرح پایا جو اشرار کے شر کے باعث گرا ہی چاہتی تھی۔ تب اللہ نے آپ کے ہاتھوں اسے ایک ایسے مضبوط قلعہ کی طرح بنا دیا جس کی دیواریں لوہے کی ہوں اور جس میں غلاموں کی طرح فرمانبردار فوج ہو۔

پس غور کر کیا تو اس میں کوئی شک پاتا ہے؟ یا پھر اس کی مثال تو دوسرے گروہوں میں سے پیش کرسکتے ہو؟‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ 54)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھے اور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے۔ بہت ہی عفو و درگزر کرنے والے اور مجسم شفقت و رحمت تھے۔

آپؓ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ کا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا اور آپ کی روح خیر الوریٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی روح سے پیوست تھی اور جس نور نے آپ کے آقا و مقتدا محبوبِ خداؐکو ڈھانپا تھا اسی نور نے آپ کو بھی ڈھانپا ہوا تھا اور آپ رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے نور کے لطیف سائے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپے ہوئے تھے اور فہم ِقرآن اور سید الرسل، فخرِ بنی نوع انسانؐ کی محبت میں آپ تمام لوگوں سے ممتاز تھے اور جب آپ پر اخروی حیات اور الٰہی اسرار منکشف ہوئے تو آپ نے تمام دنیوی تعلقات توڑ دئیے اور جسمانی وابستگیوں کو پرے پھینک دیا اور آپ اپنے محبوبؐ کے رنگ میں رنگین ہو گئے اور واحد مطلوب ہستی کی خاطر ہر مراد کو ترک کر دیا اور تمام جسمانی کدورتوں سے آپ کا نفس پاک ہو گیا اور سچے یگانہ خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا اور رب العالمین کی رضا میں گم ہو گیا اور جب سچی الٰہی محبت آپ کے تمام رگ و پے اور دل کی انتہائی گہرائیوں میں اور وجود کے ہر ذرہ میں جاگزین ہو گئی اور آپ کے افعال و اقوال میں اور برخاست و نشست میں اس کے انوار ظاہر ہو گئے تو آپ صدیق کے نام سے موسوم ہوئے اور آپ کو نہایت فراوانی سے تروتازہ اور گہرا علم، تمام عطا کرنے والوں میں سے بہتر عطا کرنے والے خدا کی بارگاہ سے عطا کیا گیا۔ صدق آپ کا ایک راسخ ملکہ اور طبعی خاصہ تھا اور اس صدق کے آثار و انوار آپؓ میں اور آپؓ کے ہر قول و فعل، حرکت و سکون اور حواس و انفاس میں ظاہر ہوئے۔ آپ آسمانوں اور زمینوں کے رب کی طرف سے منعم علیہ گروہ میں شامل کئے گئے۔

آپؓ کتابِ نبوت کا ایک اجمالی نسخہ تھے اور آپ اربابِ فضیلت اور جواں مردوں کے امام تھے اور نبیوں کی سرشت رکھنے والے چیدہ لوگوں میں سے تھے۔‘‘

فرماتے ہیں: ’’تُو ہمارے اس قول کو کسی قسم کا مبالغہ تصور نہ کر اور نہ ہی اسے نرم رویے اور چشم پوشی کی قسم سے محمول کر اور نہ ہی اسے چشمہ محبت سے پھوٹنے والا سمجھ بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو بارگاہِ رب العزت سے مجھ پر ظاہر ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مشرب ربّ الارباب پر توکل کرنا اور اسباب کی طرف کم توجہ کرنا تھا اور آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہؐ سے ایک ازلی مناسبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا۔ تُو جان لے کہ فیوض کسی شخص کی طرف صرف مناسبتوں کی وجہ سے ہی رخ کرتے ہیں اور تمام کائنات میں اسی طرح اللہ کی سنت جاری و ساری ہے۔ پس جس شخص کو قسّامِ (ازل) نے اولیاء اور اصفیا کے ساتھ ذرا سی بھی مناسبت عطا نہ کی ہو تو یہی وہ محرومی ہے جسے حضرت کبریاء کی جناب میں شقاوت و بدبختی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اتم و اکمل خوش بخت وہی شخص ہے جس نے حبیب خداؐ کی عادات کا احاطہ کیا ہو یہاں تک کہ الفاظ، کلمات اور تمام طور طریقوں میں آپؐ سے مشابہت پیدا کر لی ہو۔ بدبخت لوگ تو اس کمال کو سمجھ نہیں سکتے۔ جس طرح ایک پیدائشی اندھا رنگوں اور شکلوں کو دیکھ نہیں سکتا ایک بدبخت کے نصیب میں تو پُر رعب اور پُر ہیبت (خدا) کی تجلیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اس کی فطرت رحمت کے نشانات نہیں دیکھ سکتی اور جذب اور محبت کی خوشبو کو نہیں سونگھ سکتی اور یہ نہیں جانتی کہ خلوص، خیر خواہی، اُنس اور فراخی قلب کیا ہیں کیونکہ وہ (فطرت) تو ظلمات سے بھری پڑی ہے۔‘‘ یعنی جو اندھا ہے۔ ’’پھر اس میں برکات کے انوار اتریں تو کیسے؟ بلکہ بدبخت شخص کا نفس تو ایک تند و تیز آندھی کے تموّج کے طرح موجیں مارتا ہے اور اس کے جذبات حق اور حقیقت دیکھنے سے اسے روکتے ہیں۔ اس لئے وہ سعادت مندوں کی طرح معرفت میں راغب ہوتے ہوئے (حق) کی طرف نہیں آتا۔ جبکہ صدیقؓ کی تخلیق مبدءِ فیضان کی طرف متوجہ ہونے اور رسول رحمٰن صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرنے کی صورت میں ہوئی۔ آپ صفاتِ نبوت کے ظہور کے تمام انسانوں سے زیادہ حقدار تھے اور حضرت خیرالبریہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بننے کے لئے اولیٰ تھے اور اپنے متبوعؐ کے ساتھ کمال اتحاداور موافقتِ تامہ استوار کرنے کے اہل تھے۔ نیز یہ کہ وہ جملہ اخلاق، صفات و عادات اپنانے اور انفسی اور آفاقی تعلقات چھوڑنے میں آپؐ کے (ایسے کامل) مظہر تھے کہ تلواروں اور نیزوں کے زور سے بھی ان کے درمیان قطع تعلق واقع نہ ہو سکے اور آپ اس حالت پر ہمیشہ قائم رہے اور مصائب اور ڈرانے والے حالات، نیز لعنت ملامت میں سے کچھ بھی آپ کو بیقرار نہ کر سکے۔ آپ کی روح کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے۔‘‘

(سر الخلافہ (مترجم) صفحہ101تا 105)

یہ تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کر دیا تھا۔

بدری صحابہؓ کے ذکر میں یہ آخری ذکر تھا جو چل رہا تھا وہ اب ختم ہوا۔

شاید بعض صحابہ جو میں نے شروع میں بیان کیے تھے ان کی بعض تفصیلیں بعد میں آئی ہیں وہ کبھی موقع ملا تو بیان کر دوں گا۔ نہیں تو جب بدری صحابہؓ کی اشاعت ہوگی اس میں ان صحابہ کی بھی وہ تفصیل چھپ جائے گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر طرف ستاروں کی طرح یہ ہماری راہنمائی کرنے والے ہوں اور جو معیار انہوں نے قائم کیے ہم بھی ان معیاروں کو قائم کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2023