• 28 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 19)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک وشہر
قسط 19

ارشادات برائے ہندوستان

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • مولوی جان محمد صاحب مدرس ڈسکہ نے سوال کیا کہ حضور آپ کی بیعت کرنے کے بعد پہلی بیعت اگر کسی سے کی ہو وہ قائم رہتی ہے یا نہیں؟

حضرت حجۃاللہ نے فرمایا: ’’جب انسان میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرتا ہے تو پہلی ساری بیعتیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ انسان دو کشتیوں میں کبھی پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ اگر کسی کا مرشداب زندہ بھی ہو تب بھی وہ حقائق اور معارف ظاہر نہ کرے گا جو خدا تعالیٰ یہاں ظاہر کر رہا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ساری بیعتوں کو توڑ ڈالا ہے، صرف مسیح موعود ہی کی بیعت کو قائم رکھا ہے جو خاتم الخلفاء ہو کر آیا ہے۔

ہندوستان میں جس قدر گدیاں اور مشائخ اور مرشد ہیں سب سے ہمارا اختلاف ہے۔ بیعت دینی سلسلوں میں ہوتی ہے جو خداتعالیٰ قائم کرتا ہے۔ ان لوگوں کا ہمارے مسائل میں اختلاف ہے اگر ان میں سے کسی کو شک ہو کہ وہ حق پر ہیں تو ہمارے ساتھ فیصلہ کر لیں۔ قرآن شریف کو حکم ٹھہرائیں۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت سب گدیاں ایک مردہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور زندگی صرف اسی سلسلہ میں ہے جو خدا نے میرے ہاتھ پر قائم کیا ہے۔ اب کیسا نادان ہوگا وہ شخص جوزندوں کو چھوڑ کر مردوں میں زندگی طلب کرتا ہے۔

الله تعالیٰ نے ایسا ہی چاہا تھا کہ ایک زمانہ فیج اعوج کا ہو اور اس کے بعد ہدایت کا بہت بڑا زمانہ آوے۔ چنانچہ ہدایت کے دو ہی بڑے زمانے ہیں جو دراصل ایک ہی ہیں مگر ان کے درمیان ایک وقفہ ہے اس لیے دو سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وہ زمانہ جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور دوسرا مسیح موعود کا زمانہ اور مسیح موعود کے زمانہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا زمانہ قرار دیا گیا ہے۔ اب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی دوسرے کی بیعت کب جائز ہوسکتی اور قائم رہ سکتی ہے یہ اس شخص کا زمانہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا اب اس کی بیعت کے سوا سب بیعتیں ٹوٹ گئیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ294-295 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • اگر چہ ہمارے نزدیک اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ (الحجرات: 14) ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اور کی، مگر سچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رک نہیں سکتے۔ ترکوں کے ذریعہ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے۔ یہ کہنا کہ وہ پہلے کافر تھے یہ طعن درست نہیں۔ کوئی دو سو برس پہلے کافر ہوا، کوئی چارسو برس پہلے یہ کیا ہے؟ آخر جوآج سید کہلاتے ہیں کیا ان کے آباؤ اجداد پر کوئی وقت کفر کی حالت کا نہیں گزرا؟ پھر ایسے اعتراض کرنا دانشمندی نہیں ہے۔

ہندوستان میں جب یہ مغل آئے تو انہوں نے مسجدیں بنائیں اور اپنا قیام کیا۔ اَلنَّاسُ عَلیٰ دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ کے اثر سے اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اور اب تک بھی حرمین شریفین ترکوں ہی کی حفاظت کے نیچے خدانے رکھی ہوئی ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے دو ہی گروه رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ترک دوسرے سادات۔ ترک ظاہری حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر کا مبدء قرار دیا گیا؛ چنانچہ صوفیوں نے فقر اور روحانی فیوض کا مبدء سادات ہی کو ٹھہرایا ہے اور میں نے بھی اپنے کشوف میں ایسا ہی پایا ہے۔ دنیا کا عروج ترکوں کو ملا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ342 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • اب اس تعلیم پر نگاہ کرو کہ نہ یہ توریت کی طرح محض انتقام پر ہی زور دیتی ہے اور نہ انجیل کی طرح ایسے عفو پر جو بسا اوقات خطر نا ک نتائج کا موجب ہوسکتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے مثلا ًایک خدمتگار ہے جو بڑا شریف اور نیک چلن ہے کبھی اس نے خیانت نہیں کی اور کوئی نقصان نہیں کیا اگر اتفاقاً وہ چاء پلانے کے لئے آئے اور اس کے ہاتھ سے پیالیاں گر کر ٹوٹ جاو یں تو اس وقت مقتضائے وقت کیا ہو گا کیا یہ کہ اس کو سزا دیں یا معاف کر دیں ایسی حالت میں ایسے شریف خدمت گار کو معاف کر دینا ہی اس کے واسطے کافی سزا ہوگی۔ لیکن اگر ایک شریر خدمتگار جو ہر روز کوئی نہ کوئی نقصان کرتا ہے اس کو معاف کر دینا اور بھی دلیر کر دینا ہے اس لئے اس کو سزا دینی ضروری ہوگی مگر انجیل یہ نہیں بتاتی انجیل پر عمل کر کے تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ اگر کوئی ہندوستان مانگے تو وہ انگلستان بھی اس کے حوالے کرے۔ کیا عملی طور پرانجیل مانی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں گورنمنٹ کے سیاست مدن کے اصولوں پر مختلف محکموں کا قائم کرنا اور عدالتوں کا کھولنا دشمن سے حفاظت کے لئے فوجوں کا رکھنا وغیرہ وغیرہ جس قدر امور ہیں انجیل کی تعلیم کے موافق نہیں ہیں اس لئے کہ انجیل کی تعلیم کے موافق کوئی انتظام ہوسکتا ہی نہیں ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ378-379 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • مسیح کے معجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہٰی کاپتہ نہیں لگتا۔ جبکہ آج اس سے بھی بڑھ کرطبی کر شمے اورعجائبات دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا جس میں ایک وقت غسل کرنے والے شفا پا لیتے تھے۔ اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے ہندوستان میں بھی بعض چشموں یا کنوؤں کے پانی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ ایک کنویں کے پانی سے جذامی اچھے ہونے لگے۔ اب عیسائی مذہب کے کن تا ئیدی نشانوں کو ہم دیکھیں۔ پچھلوں کا یہ حال ہے اور اب کوئی دکھا نہیں سکتا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ450 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • طاعون تین قسم کی ہے ایک خفیف جس میں صرف گلٹی نکلتی ہے اور تپ نہیں ہوتا۔ دوسری اس سے تیز کہ جس میں گلٹی کے ساتھ تپ بھی ہوتا ہے تیسری سب سے تیز اس میں تپ نہ گلٹی آدمی سویا اور مر گیا۔ ہندوستان کے بعض دیہات میں ایسا ہی ہوا ہے کہ دس آدمی رات کو سوئے تو صبح کو مرے ہوئے پائے۔ اس کا اصل با عث طعن ہے یہ لوگ ٹھٹھہ کر تے ہیں مگر ان کو عنقر یب پتہ لگ جائے گا جو مخالف بکو اس کیا کرتے ہیں ان پر یک لخت پتھر نہیں پڑا کرتے۔ اول ان کو دور سے آگ دکھلائی جاتی ہے تا کہ وہ توبہ کریں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ412 ایڈیشن 2016ء)

  • ایک مقام پر حضرت اقدس نے فر مایا کہ ہند میں دو واقع ہوئے ہیں ایک سید احمد صاحب کا، دوسرا ہمارا۔ ان کا کام لڑائی کرنا تھا۔ مگر انہوں نے شروع کر دی اور اس کا اتمام ہمارے ہاتھوں مقدر تھا جو کہ اب اس زمانہ میں بذ ر یعہ قلم ہورہا ہے اسی طرح عیسیٰ کے وقت جو نامرادی تھی وہ چھ سو برس بعد آنحضرتؐ کے ہاتھوں سے رفع ہوئی۔ خدا بھی فرماتا ہے کہ وہ کامیابی اب ہوئی۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ369 ایڈیشن 2016ء)

  • سیر میں مختلف تذکروں کے بعد قیصر ہندکی تا جپوشی کا ذکر آیا۔ فرمایا کہ:۔

رعیت کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ شاہ ایڈ ورڈ ہفتم ہندوستان کے سرپرست ہوئے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ نوجوان بادشاہ کی نسبت بوڑھا بادشاہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ کیونکہ نوجوان اپنے جذبات اور جوش کے نیچے کبھی کبھی رعایا کے حقوق اور نگہداشت کے طریقوں میں فروگذاشت کر بیٹھتا ہے مگر عمر رسیدہ بادشاہ اپنی عمر کے مختلف حصوں میں گزر جانے کے باعث تجربہ کار ہوتا ہے۔ اس کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں۔ خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جا تا ہے۔ اس لئے وہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید اور خیر خواہ ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ112 ایڈیشن 2016ء)

• مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہارنپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور جب آپ نماز مغرب سے فارغ ہو کر شہ نشین پر اجلاس فرما ہوئے۔ یہ عرض کیا کہ میں نے آج تحفہ گولڑو یہ اورکشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں۔ میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر چہ وہ فروعی ہے لیکن پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعا مانگتے ہیں، لیکن یہاں نوافل تو خیر دعا بعد نماز نہیں مانگتے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا:۔
اصل یہ ہے کہ ہم دعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اور ہم خود بھی دعا مانگتے ہیں۔ اور صلوٰة بجائے خود دعا ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیل ارکان پورے طور پرملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں۔ گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔ اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق انس اور سرور بڑھتا ہے۔ مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کر نے والی نماز نہ پڑھیں، بلکہ حضور قلب کی کوشش کریں جس سے ان کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔ عام طور پر یہ حالت ہو رہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور قلب کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیا جاتا ہے اور خارج نماز میں بہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیں اور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں حالانکہ نماز کا (جو مومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعا کی جاوے اور اسی لیے اُمُّ الْا دعیہ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ دعا مانگی جاتی ہے۔ انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ نہ کرے۔ اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے مگر جوشخص اِقَامُ الصَّلٰوة کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں۔ نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اسے پی لے اسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتا ہے۔ اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک باربھی اسے چکھتا ہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا۔

مومن کو بے شک اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔ مگر نماز کے بعد جو دعاؤں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے۔ بعض مساجد میں اتنی لمبی دعا ئیں کی جاتی ہیں کہ آ ده میل کا سفر ایک آدی کر سکتا ہے۔ میں نے اپنی جماعت کو بہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کو سنوارو یہ بھی دعا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں۔ پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں۔ کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا یہی سبب ہے کہ وہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے ایسی نمازوں کے لیے ویل آیا ہے۔ دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لیے اسے اس کو پھینک دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ اول اس جوہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے۔ اس لیے نماز کو سنوار سنوار کر اورسمجھ سمجھ کر پڑھے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ239-240 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

  • پھر آریوں کے مقابل میں ایک نشان مجھے دیا گیا جو لیکھرام کے متعلق تھا وہ اسلام کا دشمن تھا اور گندی گالیاں دیا کرتا اور پیغمبر خدا صلی الله علیہ وسلم کی توہین کرتا تھا۔ یہاں قادیان آیا اور اس نے مجھ سے نشان مانگا میں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی۔ چنانچہ میں نے اس کو شائع کردیا اور یہ کوئی مخفی بات نہیں کل ہندوستان اس کو جانتا ہے کہ جس طرح قبل از وقت اس کی موت کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا تھا اسی طرح وہ پورا ہو گیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے نشانات ہیں جو ہم نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں اور اس پر بھی ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا خدا تھکنے والا خدا نہیں وہ تکذیب کرنے والوں کے لیے ہر وقت طیارہے میں نے پنجاب کے مولویوں اور پادریوں کو ایسی دعوت کی ہے کہ وہ میرے مقابل میں آ کر ان نشانات کو جو ہم پیش کرتے ہیں فیصلہ کر لیں۔ اگر ان کو نہ مانیں تو دعا کر سکتا ہوں اور اپنے خدا پر یقین رکھتا ہوں کہ اور نشان ظاہر کر دے گا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صدق نیت سے اس طرف نہیں آتے بلکہ لیکھر امی حملے کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کسی کی حکومت کے نیچے نہیں ہے۔
  • (البدر سے) ’’یہ لوگ جو اس طرح کے سوال کرتے ہیں کہ زمین کو اُلٹ کر دکھا دو۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اس طرح کے سوالات تو کفار آنحضرت ؐ پر کیا کرتے تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ208 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2022