• 4 مئی, 2024

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے دستِ مبارک میں پکڑا اور فرمایا ۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے دستِ مبارک میں پکڑا اور فرمایا کہ کہو، اَللّٰہُ رَبِّیْ۔ تو مَیں نے اَللّٰہُ رَبِّیْ کہا۔ اتنے میں مَیں بیدار ہو گیا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ پیدائشی احمدی تھے، 1903ء میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں مَیں نے سب سے پہلے حضرت اقدس کو اُس وقت دیکھا جب حضور جہلم تشریف لے جا رہے تھے۔ واپسی پر بھی دیکھا تھا۔ پھر لاہور 1904ء میں، پھر 1905ء میں مَیں قادیان گیا۔ قادیان جانے سے پہلے مجھے ایک خواب آئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب گھر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں صرف مَیں اور میری چھوٹی ہمشیرہ ہیں۔ دیکھا کہ دو آدمی دروازے پر آئے، دستک دی اور آواز دی۔ مَیں نے باہر نکل کر دروازہ کھولا۔ وہ دونوں میری درخواست پر اندر تشریف لے آئے۔ مَیں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک دری اور تین کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ سامنے ایک میز بھی پڑی ہے۔ میں نے اُن (یعنی دو مہمان جو آئے تھے) کو کرسیوں پر بٹھا دیا۔ خواب میں چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ اُن کے لئے چائے تیار کرو۔ وہ کوٹھے پر ایندھن لینے کے لئے گئی (اُس زمانے میں جو طریقہ تھا، گیس وغیرہ تو ہوتی نہیں تھی۔ لکڑیاں یا جو بھی جلانے کی چیزیں اوپر پڑی ہوتی تھیں، وہ لینے گئی) تو سیڑھیوں میں ہی تھی کہ ایک سیاہ رنگ کا اچھے قد و قامت کا سانڈ اندر آیا اور اُن آدمیوں کو دیکھ کر فوراً واپس ہو گیا اور سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ میں نے شور ڈال دیا کہ میری ہمشیرہ کو مار دے گا۔ شور سن کر پہلے سیاہ داڑھی والے مہمان اٹھنے لگے ہیں مگر سرخ داڑھی والے نے کہا کہ چونکہ یہ کام آپ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے اس لئے یہ میرا کام ہے۔ چنانچہ وہ گئے۔ مَیں بھی پیچھے ہو لیا۔ ہمشیرہ دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ اُسے کچھ خراش لگی ہے مگر زخم نہیں لگا۔ ہم اوپر چلے گئے۔ سانڈ ہماری مغربی دیوار پر انجن کی شکل میں تبدیل ہو گیا (اُس کی شکل بدل گئی) اور دیوار پر آگے پیچھے چلنے لگا۔ جب دیوار کے آخری کونے پر پہنچا تو اس مہمان نے سوٹا مارا اور پیچھے کی طرف گر کر چور چور ہو گیا۔ ہم واپس آگئے اور وہ مہمان پھر کرسی پر بیٹھ گئے اور چائے پی۔ مجھے بھی انہوں نے پلائی۔ چائے پینے کے بعد کچھ دیر وہ بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے۔ پھر کہنے لگے کہ برخوردار ہمیں دیر ہو گئی ہے، اجازت دو تا کہ ہم جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے بتائیں تو سہی کہ آپ کون ہیں؟ تا میں اپنے والد صاحب کو بتا سکوں۔ میری اس عرض پر وہ دونوں خفیف سے مسکرائے۔ کالی داڑھی والے نے کہا کہ میرا نام محمد ہے اور ان کا نام احمد ہے۔ میں نے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ پھر مجھے کچھ بتائیں۔ انہوں نے عربی زبان میں ایک کلمہ کہا جو مجھے یادنہ رہا مگر اُس کا مفہوم جو اُس وقت میرے ذہن میں تھا وہ یہ تھا کہ تیری زندگی کے تھوڑے دن بہت آرام سے گزریں گے۔ پھر مَیں نے مصافحہ کیا، انہوں نے کہا کہ اپنے باپ کو ہمارا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہہ دینا۔ وہ باہر نکل گئے۔ میں نے اُن کو رخصت کیا۔ اُن کے جانے کے بعد خواب میں ہی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب آ گئے۔ (خواب ابھی چل رہی ہے) میں نے سارا قصہ سنایا۔ وہ فوراً باہر گئے۔ اتنے میں کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی جس کا باعث یہ ہوا کہ میرے باپ نے آواز دی کہ اُٹھو اور نماز پڑھو۔ میں نے اپنے والد صاحب کو یہ خواب سنائی۔ اُس دن جمعہ تھا۔ جمعہ کے وقت میں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نویس کو وہ خواب سنائی۔ انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود لکھ کر یا مجھ سے لکھوا کر بھیج دی۔ چند روز کے بعد کہا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ جلسہ پر اس لڑکے کو ساتھ لے کر آؤ۔ چنانچہ جلسہ پر میں گیا۔ جب ہم مسجد مبارک میں گئے تو دو تین بزرگ بیٹھے تھے۔ ہم نے اُن سے مصافحہ کیا۔ اتنے میں حضرت اقدس تشریف لائے۔ ہم کھڑے ہو گئے۔ مصافحہ کیا۔ پھر حضور بیٹھ گئے۔ منشی احمد دین صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ وہ لڑکا ہے جس کو خواب آئی تھی۔ حضور نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ وہ خواب سناؤ۔ چنانچہ میں نے وہ خواب سنائی۔ پھر اندر سے کھانا آیا۔ حضور نے کھایا اور دوستوں نے بھی کھایا۔ جب حضرت اقدسؑ کھانا کھاچکے تو تبرک ہمارے درمیان تقسیم فرما دیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10 صفحہ111تا113 از روایات حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ)

حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے 1906ء میں بیعت اور 1908ء میں زیارت کی تھی۔ کہتے ہیں غالباً بارہ تیرہ سال کی عمر تھی کہ خواب میں اپنے آپ کو موضع یاڑی پورہ میں پایا۔ اُس وقت تک میں یاڑی پورہ سے نا آشنا تھا۔ (پتہ نہیں تھا کہ یاڑی پورہ کیا جگہ ہے)۔ کہتے ہیں دیکھا کہ ہزاروں لوگ جمع ہو گئے ہیں اور اس جگہ احمدیوں کی مسجد ہے۔ اُس جگہ ایک ٹیلہ جو قریباً چھ سات گز اونچا تھا نظر آیا۔ اور اُس پر ایک صاحب بیٹھے ہیں اور لوگ اُس ٹیلے کے نیچے سے اُن کی زیارت اور آداب کر کے گزرتے ہیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو مَیں نے کمال مسرت سے بے تحاشا ٹیلے پر چڑھ کر اور اُن کے سامنے کھڑا ہو کر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ عرض کیا اور حضور نے وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ فرمایا اور میں نزدیک ہو کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا تو یک لخت میرے دل میں وہی ہمیشہ کی آرزو یاد آ گئی تو میں نے دل میں کہا کہ اب ان سے بڑھ کر مجھے اور کس پیر یا رہبر کی ضرورت ہے۔ میں انہی سے بیعت کروں گا۔ مَیں نے عرض کی کہ یا حضرت مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں تو حضور نے فرمایا اچھا ہاتھ نکالو۔ تو مَیں نے ہاتھ نکالا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے دستِ مبارک میں پکڑا اور فرمایا کہ کہو، اَللّٰہُ رَبِّیْ۔ تو مَیں نے اَللّٰہُ رَبِّیْ کہا۔ اتنے میں مَیں بیدار ہو گیا۔ بیدار ہونے پر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر رہا تھامگر افسوس کہ جلدی بیدار ہو گیا۔ وہ مقدس صورت ہمیشہ میرے سامنے آ جاتی تھی اور رُخِ منوّر کا عکس میرے لوحِ دل سے کبھی محو نہ ہوتا تھا۔ گویا میرے دل پر وہ نقشہ جم گیا تھا۔ آگے لکھتے ہیں کہ اس رؤیا کی تعبیر آگے کھل جائے گی۔ پھر بڑا لمبا عرصہ گزر گیا۔ (اس عرصے کے مختلف حالات انہوں نے بیان کئے ہیں) کہتے ہیں آخر ان کو قادیان جانے کا موقع ملا۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار ہوا تو کہتے ہیں کہ جب میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی تو مجھے وہی خواب والا نقشہ یاد آیا۔ یعنی ہوبہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی صورت دیکھی جو مَیں نے خواب مذکور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی تھی۔ ایک سرِمُوتفاوت نہ تھی۔

(ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد3 صفحہ41-42و45-46۔ از روایات حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 25؍جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ پیدل چلنا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2022