• 2 مئی, 2024

ہم املا کی غلطیاں کیوں کرتے ہیں؟

مضمون نویسوں اور کمپوزنگ کرنے والے حضرات کے لئے اہم تحریر

املا کی غلطیاں کتنا بڑا سردرد ہیں یہ کوئی اخبار کا ایڈیٹر ہی جان سکتا ہے۔ایسی تحریر جس میں املا کی غلطیاں ہوں قارئین پر بھی اچھا تاثر نہیں ڈالتیں۔ماضی کے مقابلہ میں یہ مسئلہ دور حاضر میں اس وجہ سے بھی زیادہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہےکہ ماضی میں تحریر کا زیادہ تر کام قلم سے ہی کیا جاتا تھا۔قلم سے لکھتے وقت تحریر پر نظر ہوتی ہے نیز ٹائپنگ کی نسبت لکھنے کی رفتار بھی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان بھی کم ہوتا تھا۔جب کہ ٹائپنگ کی مشق سے تحریر پر نظر نہ ہونے کے باوجود روانی اور تیزی سے لکھا جا سکتا ہے ایسے میں غلطی کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ٹائپ رائٹر ستمبر 1867ء میں ایجاد ہوا تھا اور کمرشل ٹائپ رائٹر 1873ء میں بننا شروع ہوئے تو تحریر کے میدان میں انقلاب آ گیا۔گو کہ ٹائپ رائٹر کے اپنے بہت سے مسائل تھے لیکن وقت کے ساتھ اس میں جدت آتی رہی جو آج کمپیوٹر کے کی بورڈ کی صورت میں منتج ہو کر ہمارے سامنے ہے۔جہاں ایک شخص ایک منٹ میں 40 الفاظ اپنے ہاتھ سے لکھ سکتا تھا وہیں ٹائپ رائٹر کی مدد سے 60 سے 75 الفاظ فی منٹ تک ٹائپ کیے جاسکتے تھے۔یعنی ہاتھ سے لکھنے کی نسبت تقریباً دگنا۔الیکڑک کی بورڈ پر تیز ترین ٹائپنگ کا ریکارڈ باربرا بلیک برن کے نام ہے جنہوں نے 2005ء میں ایک ٹیسٹ کے دوران ایک منٹ میں 216 الفاظ ٹائپ کیے۔

لکھنے کی نسبت ٹائپ کرتے وقت غلطی کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ دماغ کئی کام بیک وقت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ سوچنا،جملہ بینی کرنا،تخلیق کرنا،تحریر کا نفس مضمون ذہن میں رکھتے ہوئے لفظوں کا انتخاب کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ دماغ کو ایک سیکنڈ میں 11 ملین bits کے قریب معلومات مسلسل مل رہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں غلطی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔املا کی غلطیاں کرنے کا مطلب کند ذہن ہونا ہرگز نہیں ہے۔ البتہ تھوڑی توجہ سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ہمارا دماغ خالق کی ایسی تخلیق ہے جس پر جتنا غور کریں اتنا حیرت میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔سوتے ہوئے بھی دماغ کا ایک حصہ نہ صرف بیدار رہتا ہے بلکہ یہ ہمارے ساتھ پیش آنے والے مسائل کے حل بھی تجویز کرتا ہے۔یہ اکثر ہمارے روز مرہ کے معمولات میں بار بار سامنے آنے والی چیزوں سے صرف نظر کرنا شروع کر دیتا ہے۔مثلاً گلی میں نیا اسپیڈ بریکر بن جائے تو پہلے کچھ دن آپ اس پر سے گزرتے ہوئے اسے نوٹس کریں گے لیکن پھر آپ معمول کے مطابق وہاں سے گزر جاتے ہیں۔یہی عمل ٹائپنگ کے دوران ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ اپنے ذخیرہ الفاظ میں موجود لفظوں کو جملے کے لیے چننے کے دوران زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ یا گرامر کی ترتیب کو ہمارے ٹائپ کرنے سے قبل ہی ترتیب میں لے آتا ہے اور جملے کے ہر لفظ کو انفرادی طور پر نہیں پرکھتا کہ وہ صحیح طرح ٹائپ کیا گیا ہے یا نہیں۔چوں کہ لاشعور میں وہ جملہ ایک سیکنڈ سے بھی قلیل وقت میں مکمل ہو چکا ہوتا ہے اس لیے ٹائپنگ کے دوران ہمیں لگتا ہے کہ جملہ ٹھیک لکھا گیا ہے۔یعنی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا دماغ ہمارے سوچ کر لکھنے کے دوران اوور سمارٹ بننے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جن میں جملے کے آخر میں کوئی لفظ چھوٹ جاتا ہے یا پھر گرائمر آگے پیچھے ہو جاتی ہے۔تحریر میں ایسی غلطی صاحب تحریر کی کم علمی پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ دماغ کے معلومات کو تیزی سے پراسس کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔اس طرح نہ صرف ٹائپ کرنے کے دوران الفاظ چھوٹ جاتے ہیں بلکہ تحریر کو پروف ریڈ کرتے ہوئے بھی ایسی فاش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ۔کیونکہ دیکھ کر پڑھنے کے دوران جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمارے دماغ میں وہ جملہ مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

دوسری عام غلطی ہم آواز الفاظ کے لکھنے میں ہوتی ہے۔ جیسے الف اور ع میں ز، ض، ذ، ژ اور ظ میں ط اور ت میں ہ اور ح میں علی ھذالقیاس۔ اس معاملہ میں بھی کسی حد تک دوران تحریر وفور خیالات کو حوالہ قرطاس کرنے میں توجہ کے بہت زیادہ مرکوز ہونے کا قصور ہے۔ لیکن اگر صاحب تحریرہر بار ’’ذلالت کو زلالت‘‘ لکھیں، صحیح اور سہی میں فرق نہ کریں ’’کے اور کہ‘‘ کو ان کی جگہ پر استعمال نا کریں تو یہ ان کے علمی تبحر پر سوالیہ نشان ضرور ہے۔

یونیورسٹی آف شیفلڈ سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر ٹام سٹیفورڈ نے وکی پیڈیا کے edits پر تحقیق کی اور دیکھا کہ کس طرح دماغ زبان کو پراسس کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب آپ کسی تحریر کو ٹائپ کرنا شروع کرتے ہیں اور آپ کے ٹائپ کرنے کی رفتار اور تحریر میں روانی اور تیزی آتی ہے تو وہ چیز آپ کے معمولات میں شامل ہو جاتی ہے جس پر آپ کے دماغ کو زیادہ سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔اس معاملہ پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب لوگ ایک جیسے یا بار بار استعمال ہونے والے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں تو دماغ میں موجود نیوران کے فائر کرنے کا پیٹرن تبدیل ہو جاتا ہے (نیوران کی فائرنگ دماغی افعال میں سے ہے جسے سادہ طریقے سے یوں سمجھ لیں کہ جس طرح گھروں میں بجلی کی ترسیل کے لیے بجلی کے تاروں کی وائرنگ کی جاتی ہے ایسے ہی دماغ میں نیوران کے فائر کرنے کا نظام ہوتا ہے) جس کے نتیجے میں دماغ بار بار دھرائے جانے والے الفاظ پر اپنی توانائی صرف نہیں کرتا اور ٹائپ کرنے کے دوران الفاظ چھوٹ جاتے ہیں اور یہی معاملہ گرائمر کی غلطیوں میں بھی پیش آتا ہے۔

اس تحریر کا مقصد املا کی غلطیوں کو جواز فراہم کرنا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ کسی قدر غیر اختیاری معاملہ ہونے کے باعث اس کی سائنسی وجوہات کا ادراک حاصل کرکے اس پر قابو پانے کی کوشش کرنا ہے۔جملے کے اختتام پر الفاظ کا غائب ہونا عام غلطی ہے۔اسے ذہن میں رکھ کرمسلسل مشق کرنے سے اس خامی پر قابو پانا ممکن ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ٹائپنگ کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے اور تحریر مکمل کرنے کے بعد بار بار تحریر کو پروف ریڈ کیا جائے۔اگر ممکن ہو تو کسی اور سے بھی پروف ریڈنگ میں مدد لیں۔ جب بات ہو الفضل جیسے موقر جریدے کے لیے لکھنے کی تو پھر ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

ایسی تحاریر جن میں املا کی غلطیاں بہت زیادہ ہوں اشاعت کے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہتی ہیں۔ گو کہ ایڈیٹر تحریر میں رد و بدل کا استحقاق رکھتا ہے اور معمولی غلطیوں کو درست بھی کر دیا جاتا ہے لیکن اولین ذمہ داری صاحب تحریر کی ہے کہ وہ اپنی تحریر پر محنت کرے۔معروف اردو بلاگنگ ویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر لکھنے والوں کے لیے ہدایات میں درج ایک جملہ ہمیشہ میرے مدنظر رہتا ہے۔ ہدایات کی ذیل میں لکھا ہے۔

’’بسا اوقات آپ کی ایک اچھی تحریر بھی کمپوزنگ کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے مسترد کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ خود اپنی تحریر کو اہم سمجھ کر اس پر محنت نہیں کریں گے، تو پھر دوسرے افراد بھی اسے اہمیت نہ دینے پر مائل ہوں گے‘‘

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ پیدل چلنا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2022