• 2 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 22)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک و شہر
قسط22

ارشاد ات برائے عرب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اس مجمع میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو بخوبی علم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کا کیا حال تھا۔ کوئی بدی ایسی نہ تھی جوان میں نہ پائی جاتی ہو۔ جیسے کوئی ہر صیغہ اور امتحان کو پاس کر کے کامل استاد ہرفن کا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر وہ بدیوں اور بدکاریوں میں ماہر اور پورے تھے۔ شرابی، زانی، یتیموں کا مال کھانے والے، قمار باز۔ غرض ہر برائی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے، بلکہ اپنی بدکاریوں پر فخر کرنے والے تھے۔ ان کا قول تھا۔ اِنْ هِیَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا (المؤمنون: 36) ہماری زندگی اسی قدرہے کہ یہاں ہی مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں۔ حشر نشر کوئی چیز ہیں ۔ قیامت کچھ نہیں۔ جنت کیا اور جہنم کیا؟ قرآن شریف کے احکام جن بد یوں اور برائیوں سے روکتے ہیں وہ سب مجموعی طور پر ان میں موجود تھیں ۔ ان کی حالت کا یہ نقشہ ہے۔ جس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کیا تھے؟ ایک موقع پر فرماتا ہے يَتَمَتَّعُوْنَ وَیَاْ کُلُوْنَ (محمد: 13) کھاتے ہیں اورتمتع اٹھاتے ہیں یعنی اپنے پیٹ کی اور دوسری شہوات میں مبتلا اور اسیر ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسان جذبات نفس اور دیگر شہوات میں اسیر اور مبتلا ہو جاتا ہے تو چونکہ وہ طبعی تقاضوں کو اخلاقی حالت میں نہیں لاتا اس لیے ان شہوات کی غلامی اور گرفتاری ہی اس کے لیے جہنم ہو جاتی ہے اور ان ضرورتوں کے حصول میں مشکلات کا پیش آنا اس پر ایک خطرناک عذاب کی صورت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس حال میں ہیں گو یا جہنم میں مبتلا ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ483-484 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
عرب کی تجارتی اشیاء کا تذکرہ ہوتا رہا۔ اور طائف کے ذکر پر فرمایا کہ:۔ وہ گویا اس ریگستان میں بہشت کا نمونہ ہے۔

اسی ذکر میں یہ بھی کہا گیا کہ عرب میں بازاروں میں ہر ایک چیز کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر وقت جس قدر چاہو میسر آسکتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ198 ایڈیشن 2016ء)

اہل عرب میں چونکہ ایک ہزار سے آگے شمار نہیں ہے حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ:۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا میلان دنیا کی طرف نہ تھا ورنہ دوسری دنیا دار قوموں کی طرح لاکھوں کروڑوں تک گنتی وہ بھی رکھتے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ348 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
پھر اس امر پر تذکرہ ہوتا رہا کہ قدیم اور اصل لفظ عیسیٰ ہے

یایسوع – حضرت اقدسؑ نے فر مایا کہ:۔
پرانا نام عیسیٰ ہی ہے تمام عرب میں عیسیٰ ہے یسوع کا ذکر پرانے اشعار عرب میں بھی نہیں پا یا جا تا چونکہ عیسیٰ نبی تھے اس لئے مصلحتاً انہوں نے کسی موقع پرعیسیٰ کو بدل کر یسوع بنا لیا ہو یہ بھی تعجب ہے کسی اور نبی کا نام آج تک نہیں الٹا صرف انہیں کا الٹا اور مذہب بھی انہیں کا الٹا ایسا ہی کسی کا شعر ہے۔

نہ ہو کیونکر ہمارا کام الٹا
ہم الٹے، بات الٹی، یار الٹا

حکیم نور الدین صاحب نے فرمایا کہ ساری انجیلوں میں کہیں عیسیٰ کا نام نہیں آیا یسوع کا آیا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ367 ایڈیشن 2016ء)

ارشاد ات برائے بدر

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
الله کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول وفعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مورد غضب الہٰی ہوگا۔ جو دل نا پاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو۔ وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہوگا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جاوے ۔ پسں ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا۔ الله تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے۔ محض زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے۔ وہ پروا نہیں کرتا ۔ بدر کی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی ، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آ نحضرت صلی الله علیہ وسلم رو روکر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے ؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے ،یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہٰی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ10 ایڈیشن 2016ء)

احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض کے متعلق فرمایا:
’’اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے خوف سے غور کرے کہ چار شخصوں کی موت کی نسبت ہماری پیش گوئی تھی۔ جن میں سے تین ہلاک ہو چکے ہیں اور ایک (داماد) باقی ہے تو اس کی روح کانپ جائے گی کہ کس دلیری سے اور کیوں وہ اعتراض کر سکتا ہے۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے مصالح اس میں ہیں۔ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ راستبازوں کے مخالفوں کی عمریں بھی ان کے کارخانہ کی رونق کے لئے لمبی کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ قادر تھا کہ ابو جہل اور اس کے امثال پر مکہ معظمہ میں یکجا اور نا گہاں بجلی پڑ جاتی اور بہت بڑی ایذا پہنچانے سے قبل ان کا استیصال ہو جاتا مگر ان کا تار و پود درہم برہم نہ ہوا جب تک بدر کا یوم نہ آیا۔ اگر ایسی ایسی کارروائیاں جلد جلد پوری ہوجائیں تو نبی بہت جلد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور وہ گرمیءِ ہنگا مہ کیونکر رنگ آرائے چہرہ ہستی ہو، جس کے قیام کے بغیر طرح طرح کے علوم و حکمتیں بروئے کار نہیں آسکتیں۔ خدا تعالیٰ صادق کو نہیں اٹھاتا، جب تک اس کا صادق ہونا آشکار نہ کر دے اور ان الزاموں سے اس کی تطہیر نہ کر دے جونا عاقبت اندیش اس پر لگاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ7 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
اب دیکھو کہ صحابہ کو بدر میں نصرت دی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ نصرت ایسے وقت میں دی گئی جبکہ تم تھوڑے تھے۔ اس بدر میں کفر کا خاتمہ ہو گیا۔

بدر پر ایسی عظیم الشان نشان کے اظہار میں آئندہ کی بھی ایک خبر رکھی گئی تھی اور وہ یہ کہ بدر چودھویں کے چاند کوبھی کہتے ہیں۔ اس سے چودھویں صدی میں الله تعالیٰ کی نصرت کے اظہار کی طرف بھی ایماء ہے۔ اور یہ چودھویں صدی وہی صدی ہے جس کے لئے عورتیں تک کہتی تھیں کہ چودھویں صدی خیر و برکت کی آئے گی۔ خدا کی باتیں پوری ہوئیں اور چودھویں صدی میں اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق اسم احمد کا بروز ہوا اور وہ میں ہوں ۔جس کی طرف اس واقعہ بدر میں پیشنگوئی تھی۔ جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا ۔مگر افسوں کہ جب وہ دن آیا اور چودھویں کا چاند نکلا تو دکاندار، خودغرض کہا گیا۔ افسوس ان پر جنہوں نے دیکھا اور نہ دیکھا۔ وقت پایا اور نہ پہچانا۔ وہ مر گئے جو منبروں پر چڑھ چڑھ کر رویا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں یہ ہوگا اور وہ رہ گئے جو کہ اب منبروں پر چڑھ پڑھ کر کہتے ہیں کہ جو آ یا ہے و ہ کاذب ہے!!! ان کو کیا ہو گیا۔ یہ کیوں نہیں دیکھتے اور کیوں نہیں سوچتے۔اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے بدر ہی میں مدد کی تھی ۔ اور وہ مدد اَذِلَّۃٌ کی مد دتھی۔ جس وقت تین سو تیرہ آدمی صرف میدان میں آئے تھے۔ اور کل دو تین لکڑی کی تلواریں تھیں ۔ اور ان تین سو تیرہ میں زیادہ تر چھوٹے بچے تھے۔ اس سے زیادہ کمزوری کی حالت کیا ہوگی اور دوسری طرف ایک بڑی بھاری جمعیت تھی اور وہ سب کے سب چیدہ چیدہ جنگ آزمودہ اور بڑے بڑے جوان تھے۔ آنحضرت کی طرف ظاہری سامان کچھ نہ تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جگہ پر دعا کی اَللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَا بَۃَ لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا یعنی اےاللہ! اگر آج تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ رہے گا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ72-73 ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
سنو! میں بھی یقیناً اسی طرح کہتا ہوں کہ آج وہی بدر کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک جماعت طیار کر رہا ہے۔ وہی بدر اور اَذِلَّۃٌ کا لفظ موجود ہے۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ اسلام پر ذلت نہیں آئی؟ نہ سلطنت ظاہری میں شوکت ہے۔ ایک یورپ کی سلطنت منہ دکھاتی ہے تو بھاگ جاتے ہیں اور کیا مجال ہے جوسر اٹھائیں۔ اس ملک کا حال کیا ہے؟ کیا اَذِلَّۃٌ نہیں ہیں ۔ ہندو بھی اپنی طاقت میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک ذلت ہے جس میں ان کا نمبر بڑھا ہوا ہے؟ جس قدر ذلیل سے ذلیل پیشے ہیں، وہ ان میں پاؤ گے ۔ٹکڑ گدا مسلمانوں ہی ملیں گے ۔ جیل خانوں میں جاؤ تو جرائم پیشہ گرفتار مسلمان ہی پاؤ گے۔ شراب خانوں میں جاؤ، کثرت سے مسلمان۔ اب بھی کہتے ہیں ذلت نہیں ہوئی؟ کروڑ ہا ناپاک اور گندی کتا بیں اسلام کے رد میں تالیف کی گئیں۔ ہماری قوم میں مغل، سید کہلانے والے اور شریف کہلانے والے عیسائی ہو کر اسی زبان سے سید المعصومین خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کو کوسنے لگے۔ صفدر علی اور عماد الدین وغیرہ کون تھے؟ امہات المومنین کا مصنف کون ہے؟ جس پر اس قدر واویلا اور شور مچایا گیا اور آخر کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس پر بھی کہتے ہیں کہ ذلت نہیں ہوئی ۔ کیا تم تب خوش ہوتے کہ اسلام کا اتنا رہا سہا نام بھی باقی نہ رہتا، تب محسوس کرتے کہ ہاں اب ذلت ہوئی ہے !!!

آہ! میں تم کو کیوں کر دکھاؤں جو اسلام کی حالت ہورہی ہے۔ دیکھو! میں پھر کھول کر کہتا ہوں کہ یہی بدر کا زمانہ ہے۔ اسلام پر ذلت کا وقت آچکا ہے ،مگر اب خدا نے چاہا ہے کہ اس کی نصرت کرے، چنانچہ اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اسلام کو براہین اور حجج کے ساتھ تمام ملتوں اور مذہبوں پر غالب کر کے دکھا دوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک زمانہ میں چاہا ہے کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ اب کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ۔ جس طرح پہلے صحابہؓ کے زمانہ میں چاروں صفات کی ایک خاص تجلی ظاہر ہوئی تھی۔ اب پھر وہی زمانہ ہے اور ربوبیت کا وقت آیا ہے ۔ نادان مخالف چاہتے ہیں کہ بچے کو الگ کر دیں، مگر خدا کی ربوبیت نہیں چاہتی۔ بارش کی طرح اس کی رحمت برس رہی ہے۔ یہ مولوی حامی دین کہلانے والے مخالفت کر کے چا ہتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں ۔ مگر یہ نور پورا ہو کر رہے گا۔ اسی طرح پر جس طرح الله تعالیٰ نے چاہا ہے۔ یہ خوش ہوتے ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں جب پادری اٹھ اٹھ کر کہتے ہیں کہ تمہارا نبی مر گیا اور زندہ نبی مسیح ہی ہے اور مس شیطان سے مسیح ہی بچا ہوا ہے۔ اور مسیح نے مردوں کو زندہ کیا۔ یہ بھی تائید کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں چڑیاں بنایا کرتے تھے۔ ایک شخص موحد میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ک مسیح جو چڑیاں بنایا کرتے تھے۔ اب تو وہ بہت ہوگئی ہوں گی ۔ کیا فرق کر سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں مل جل گئی ہیں۔ اس طرح پر ان لوگوں نے مسیح کو نصف خدائی کا دعویدار بنا لیا ہے۔ ایسا ہی انہوں نے دجال کی نسبت مان رکھا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرے گا۔ اور یہ کرے گا اور وہ کرے گا۔ افسوس قرآن تو لَآاِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی تلوار سے تمام ان باطل معبودوں کوقتل کرتا ہے،جن میں خدائی صفات مانی جا ئیں۔ پھر یہ دجال کہاں سے نکل آیا ہے۔ سورة فاتحہ میں یہودی اور عیسائی بننے سے بچنے کی دعا تو سکھلائی، کیا دجال کا ذکر خدا کو یاد نہ رہا جو اتنا بڑا فتنہ تھا؟ اصل یہ ہے کہ ان لوگوں کی عقل ماری گئی اور یہ اس کے مصداق ہیں۔ یکے برسرشاخ و بن سے برید۔

یہ لوگ جب کہ اس طرح سے اسلام کو ذلیل کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) قرآن شریف کی عظمت کو قائم کرنے کے لئے چودھویں صدی کے سر پر مجھے بھیجا ہے۔

کیا نہیں دیکھتے کہ کس طرح پر اس کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں۔ خسوف وکسوف رمضان میں ہو گیا۔ کیا ہوسکتا ہے کہ مہدی موجود نہ ہو اور یہ مہدی کا نشان پورا ہو جاوے ۔ کیا خدا کو دھوکہ لگا ہے؟ پھر اونٹ بیکار ہونے پر بھی مسیح نہ آیا۔ آسمان اور زمین کے نشان پورے ہو گئے۔ زمانہ کی حالت خودتقاضا کرتی ہے کہ آنے والا آوے ،مگر یہ تکذیب ہی کرتے ہیں۔ آنے والا آ گیا۔ ان کی تکذیب اور شور و بکا سے کچھ نہ بگڑے گا۔ ان لوگوں کی ہمیشہ سے اسی طرح عادت رہی ہے۔ خدا کی با تیں سچی ہیں اور وہ پوری ہو کر رہتی ہیں۔
پس تم ان کی بد صحبتوں سے بچتے رہو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اسلام کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرو۔

(ملفوظات جلد2صفحہ73-75ایڈیشن 2016ء)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
چودہ کے عدد کو بڑی مناسبت ہے چودھویں صدی کا چاند کامل ہوتا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ (آل عمران: 124) میں اشارہ کیا ہے۔ یعنی ایک بدر تو وہ تھا جب کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخالفوں پر فتح پائی اس وقت بھی آپ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے۔ بدر میں چودھویں صدی کی طرف اشارہ ہے اس وقت بھی اسلام کی حالت اذلہ کی ہورہی ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ240 ایڈیشن 2016ء)

(جاری ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

مقابلہ پیدل چلنا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2022