• 28 اپریل, 2024

غَضِّ بصر کیا ہے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر غَضِّ بصر کی وضاحت فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غَضِّ بصر کہتے ہیں’’۔ یعنی آدھی کھلی آنکھوں سے جو چیزیں دیکھنے والی نہیں ہیں ان کو صرف دیکھنا اور نظر بچا لینا اور دوسری جو جائز چیزیں ہیں ان کو کھول کر آنکھیں دیکھنا اس کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں۔ ‘‘اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدّنی زندگی میں غَضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خُلق کے رنگ میں آ جائے گی اور اس کی تمدّنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔ یہی وہ خُلق ہے جس کو اِحصان اور عفّت کہتے ہیں‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 344)

پھر ایک جگہ آپ نے مزید کھول کر بیان فرمایا کہ:
’’مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم اور محل شہوت کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں اس قدر بند رکھیں کہ پوری صفائی سے چہرہ نظر نہ آسکے اور نہ چہرہ پرکشادہ اور بے روک نظر پڑسکے اور اِس بات کے پابند رہیں کہ ہرگز آنکھ کو پورے طور پر کھول کر نہ دیکھیں۔ نہ شہوت کی نظر سے اور نہ بغیر شہوت سے۔ کیونکہ ایساکرنا آخر ٹھوکر کاباعث ہے یعنی بے قیدی کی نظر سے نہایت پاک حالت محفوظ نہیں رہ سکتی اور آخر ابتلا پیش آتا ہے اور دِل پاک نہیں ہوسکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو اور وہ مقامِ اَزْکٰی جس پر طالب حق کے لئے قدم مارنا مناسب ہے، حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور اِس آیت میں یہ بھی تعلیم ہے کہ بدن کے ان تمام سوراخوں کومحفوظ رکھیں جن کی راہ سے بدی داخل ہوسکتی ہے۔ سوراخ کے لفظ میں جو آیت ممدوح میں مذکور ہے آلاتِ شہوت اور کان اور ناک اور مُنہ سب داخل ہیں۔ اب دیکھو کہ یہ تمام تعلیم کس شان اور پایہ کی ہے جو کسی پہلو پر نامعقول طور پر اِفراط یا تفریط سے زور نہیں ڈالا گیا اور حکیمانہ اعتدال سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس آیت کا پڑھنے والا فی الفور معلوم کرلے گا کہ اِس حکم سے جو کھلے کھلے نظر ڈالنے کی عادت نہ ڈالو یہ مطلب ہے کہ تا لوگ کسی وقت فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں اور دونوں طرف مرد اور عورت میں سے کوئی فریق ٹھوکر نہ کھاوے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 164-165)

پس یہ ہے اسلام کی تعلیم مَردوں کے لئے کہ انہیں پہلے ہر طرح پابند کیا گیا ہے۔ پھر عورتوں کو حکم دیا ہے کہ ان احتیاطوں کے بعد بھی تم نے بھی اپنے پردہ کا خیال رکھنا ہے۔ اور ان ملکوں میں جہاں بالکل ہی بے حیائی ہے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پردے کی ضرورت نہیں ہے۔ بے حجابی اور دوستیاں بہت سی قباحتیں پیدا کر رہی ہیں ان سے بچنے کی ہمیں بہت کوشش کرنی چاہئے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اگر عورتوں کو مَردوں کے ساتھ سوئمنگ کی اجازت نہیں ہے تو مَردوں کو بھی نہیں ہے کہ عورتوں میں جا کر سوئمنگ کریں۔ پس یہ پابندیاں صرف عورت کے لئے نہیں بلکہ مَرد کے لئے بھی ہیں۔ مَردوں کو اپنی نظریں عورتوں کو دیکھ کر نیچے کرنے کا حکم دے کر عورت کی عزت قائم کی گئی ہے۔ پس اسلام کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے اور برائیوں کے امکانات کو دُور کرتا ہے۔

( خطبہ جمعہ 13؍ جنوری 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اومے ریجن آئیوری کوسٹ میں مسجد کا سنگ بنیاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2023