• 5 مئی, 2024

خدا کی خوشامد

دعا کی اہمیت و برکات اور اس کی طرف توجہ دلانے پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ آج کے دور کے مامور زمانہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اس موضوع پر بہت کچھ تحریر فرمایا اور اپنی تقاریر، دروس اور محافل عرفان میں بہت کچھ کہا اور اپنے ماننے والوں کو اس طرف اس حد تک توجہ دلائی کہ کسی نے ایک بزرگ صحابی سے پوچھا کہ آپ تو اپنی تقاریر اور گفتگو کے ذریعہ محفلوں میں لوگوں کو رُ لایا کرتے تھے۔ اب کیا ہوا کہ آپ خود رونے لگ گئے ہیں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ مجھے مرزا صاحب نے رونا سکھا دیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے ایک جگہ اس امر کا اظہار فرمایا :
’’ میں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ ایک بار اور شرح و بسط کے ساتھ دعا کے مضمون پر ایک رسالہ لکھوں۔ مسلمان دعا سے بالکل نا واقف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بد قسمتی سے ایسا موقع ملا کہ دعا کریں مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیا اس لیے نا مراد رہ کر سید احمد خانی مذہب اختیار کرلیا کہ دعا کوئی چیز نہیں۔ یہ دھوکہ اور غلطی اسی لیے لگتی ہے کہ وہ حقیقت دعا سے نا واقف محض ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور اپنی خیالی امیدوں کو پورا نہ ہوتے دیکھ کے کہہ اٹھتے ہیں کہ دعا کوئی چیز نہیں اور اس سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے۔ اگر دعاؤں کا اثر نہ ہوتا تو پھر اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ150 ایڈیشن 1984ء)

چنانچہ ادارہ الفضل کو اس عنوان پر 50قسطوں پر آپ کے ارشادات پر مشتمل ایک طویل مضمون شائع کرنے کی توفیق ملی۔ جسے بعد میں کتابی شکل میں قارئین کے لیے مہیا کر دیا گیا اور آج الفضل آن لائن کی ویب سائٹ پر یہ کتاب موجود ہے۔

رمضان اور دعا کا چونکہ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے ان اقساط کا آغاز گزشتہ سال 2022ء کے رمضان میں کیا گیا اور یہ روحانی مائدہ مکرمہ حسنٰی مقبول احمد امریکہ سے قارئین کے لیے تیار کرتی رہیں۔

آج دعا کے آداب میں سے ایک ادب بیان فرمودہ حضرت مسیح موعودؑ میرا زیر نظر مضمون ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’ لوگ اپنے جیسے انسان کی خوشامد تو کرتے ہیں مگر افسوس! خدا کی خوشامد نہیں کرتے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 237 ایڈیشن 1984ء)

تعریف تو صرف اللہ کی ہے اور اس کے بعد سیّدنا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ انسانوں میں سے کسی کی تعریف کرنی مقصود ہو تو میانہ روی ضروری ہے۔ ہم اپنے گھروں میں روزانہ ہی دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگر ماں اپنے کسی بچے سے ناراض ہو جاتی ہے یا بچے کو کوئی چیز باوجود بچے کے مانگنے کے نہیں دیتی تو بچہ ماں کے قریب آتا، اس سے پیار کرتا، اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا اور بعض اوقات اس کی تعریفیں بھی کرتا ہے۔ جب کافی حد تک وہ ماں کی خوشامد کر لیتا ہے تو ماں کا دل پسیج جاتا ہے اور ماں بچے کو اس کی مطلوبہ چیز دے دیتی ہے۔ یہ کیفیت ماں سے ہی نہیں ہے بلکہ باپ اور دیگر عزیز و اقارب، بہن بھائیوں سے بھی ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ اسما ء الحسنٰی کا واسطہ دے کر اس کی خوشامد کر کے اس اللہ جلّ شانہ سے کوئی چیز مانگی جائے تو وہ ضرور مہیا کرے گا۔

ماں کو تو اللہ تعالیٰ سے بہت مماثلت ہے۔ ماں اللہ تعالیٰ کی ظلّ کے طور پر سمجھی جاتی ہے۔ دونوں میں رحم کا مادہ ہے۔ جس طرح بچہ ماں سے مختلف ادائیں کرتا ہے اور کبھی لاڈ کر کے ماں کو منوا لیتا ہے۔ اسی طرح ایک عبد اپنے اللہ تعالیٰ سے پیار، محبت اور لاڈ سے اس کی صفات کا ذکر اس کے سامنے کر کے اسے منا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے وقت اگر دعا کی نسبت سے اس کی صفت کا نام لے کر دعا کی جائے تو وہ جلد سنی جاتی ہے۔ دعا سے قبل الحمد شریف پڑھ کر درود پڑھنا دعا کی قبولیت کا ایک گر سمجھا جاتا ہے۔

جس طرح ماں کو بچہ سوہنی امی، پیاری امی، میرے دل میں بسنے والی امی کے الفاظ بول کر ماں کو رام کرتا ہے اسی طرح خوشامد ی فقرات خدا کے لیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اے میرے سوہنے اللہ! اے پیارے اللہ، اے ساری کائنات کے مالک خدا! اے محبوب اللہ ! اے خالق کائنات خدا! اے تمام صفات حسنہ اور خوبیوں کے مالک خدا! کہہ کر اللہ تعالیٰ کو منایا جا سکتا ہے۔ ماں کے سامنے کی جانے والی ادائیں اپنے پیارے اللہ کے سامنے بھی کی جا سکتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کا واسطہ دیا جا سکتا ہے جو ایک طرف بندے کو خدا کے قریب کرتی ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نرم دل کے ساتھ دعائیں کرنے والے کی طرف مائل ہو۔ اگر مال میں کشادگی چاہیے تو اے باسط! کہہ کر، اگر صحت و تندرستی اور شفا یابی چاہیے تو اے شافی مطلق! اگر امن آشتی چاہیے تو سلام اور مومن خدا کہہ کر دعا کی جا سکتی ہے۔ اگر دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو تو اے سمیع! اور اے مجیب الدعوات خدا! کہہ کر پکارا جائے۔ بخشش کے لیے غفار، غفور کی صفات سے دعا کریں۔ سب سے آگے رہنے کے لیے الاوّل اور المقّدم کی صفات کام دے سکیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے محبت و پیار کے لیے الودود کی صفت کا واسطہ دیا جا سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

لوگ تو افسران کا دل جیتنے کے لیے خوشامدی فقرے کہہ دیتے ہیں جن میں بسا اوقات تصنع ہوتا ہے اور وہ بات بھی افسر کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو اس کے اندر نہیں ہوتی۔ یہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خوشامدی لوگ کہتے ہیں۔ وہ کچھ دیر تو فائدے میں رہتے ہیں۔ آخرکار نقصان اٹھاتے ہیں۔ لیکن ماں کو مخاطب کرتے وقت کوئی تصنع یا بناوٹ نہیں ہوتی۔ بعینہٖ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی کسی قسم کے جھوٹ کی ملمع سازی نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں فرمایا ہے۔

وَلِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا

(الاعراف:181)

کہ اللہ کے پاک نام اور خوبصورت صفات ہیں۔ ان ناموں اور صفات کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارا کرو اور اس سے دعا مانگا کرو۔

پس آنے والے رمضان میں اس قرآنی اصول کو سامنے رکھ کر ہم اللہ تعالیٰ کو پکاریں۔ اس کے حضور اپنی التجائیں پیش کریں اور دعاؤں کی مقبولیت چاہیں۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

اومے ریجن آئیوری کوسٹ میں مسجد کا سنگ بنیاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2023