• 12 مئی, 2025

حضرت ملک نیاز محمدؓ۔ راہوں ضلع جالندھر

حضرت ملک نیاز محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ راہوں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد حضرت شیخ برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ (وفات:30؍مئی 1933ء ) اور والدہ حضرت عظیم بی بی صاحبہؓ (وفات:23؍اگست 1932ء) دونوں اصحاب احمدؑ میں سے تھے اور دونوں بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہیں۔ آپ حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ (وفات:25؍مئی 1983ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) کے چھوٹے بھائی تھے۔ اپنی روایات قلم بند کراتے ہوئے آپ نے بیان فرمایا:
‘‘اگرچہ میرے والد صاحب ملک برکت علی صاحب1897ء – 1898ء سے احمدی تھے اور میں بھی ان کی اقتداء میں بچپن سے احمدی تھا۔ تاہم 1904ء میں جبکہ میری عمر چودہ یا پندرہ سال کے لگ بھگ تھی میں نے حضور کی خود بیعت کی۔ جب کوئی شخص بیعت کرتا تھا۔ ہم بھی بار بار بیعت کرلیتے تھے تاکہ ہم بھی حضور کی اس دعا میں جو کہ حضور علیہ السلام بعد بیعت فرمایا کرتے تھے شامل ہوجائیں۔ بعض وقت بہت آدمی بیعت کرنے والے ہوتے تھے تو لوگ اپنی اپنی پگڑیاں اتار کر حضور کے ہاتھوں تک پہنچا دیتے تھے اور ان پگڑیوں کوسب لوگ پکڑ لیتے تھے اور اس طرح بیعت ہوجاتی تھی۔

1905ء میں ایک دن بوقت عصر ہم کو راہوں ضلع جالندھر کارڈ ملا کہ حضور علیہ السلام دہلی تشریف لے جارہے ہیں اور صبح آٹھ یا نو بجے کی گاڑی سے پھگواڑہ سٹیشن پر سے گزریں گے۔ حاجی رحمت اللہ صاحب، چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ تم نوجوان ہو اسی وقت جاؤ اور جماعت کریام کو اطلاع کرو۔ چنانچہ میں مغرب کے بعد چل کر کریام پہنچ گیا۔ جماعت کو اطلاع کی گئی کہ وہاں سے بھی کچھ دوست ساتھ ہولئے۔ ہم سب لوگ اسی طرح چل کر پھگواڑہ جو کہ راہوں سے تیس میل کے قریب دور ہے پہنچے اور صبح کی نماز پڑھی۔ وہاں سٹیشن پر منشی حبیب الرحمان صاحب مرحوم نے حاجی پور والوں کی طرف سے احباب جماعت کے ٹھہرنے کا انتظام کیا ہوا تھا اور دن کے وقت انہیں کی طرف سے کھانا آیا۔ جب گاڑی کا وقت ہوا اور گاڑی آکر گزر گئی تو معلوم ہوا کہ روانگی کی تاریخ تبدیل ہوگئی ہے۔ جس سے ہم کو بہت صدمہ ہوا۔ یا تو راتوں رات وفور محبت کی وجہ سے اتنا لمبا سفر کیا تھا یا یہ حالت ہوئی کہ ایک قدم چلنا دشوار ہوگیا۔ پیروں میں چھالے پڑے ہوئے تھے اور ملاقات نہ ہونے کا صدمہ تھا اس لئے واپسی پر یکوں پر آئے۔

چند روز کے بعد پھر اطلاع ملی کہ حضور دہلی سے واپسی پر فلاں تاریخ لدھیانہ میں اتریں گے اور قیام فرمائیں گے….. دوسرے روز گاڑی سے گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ہم سٹیشن پر پہنچ گئے۔ وہاں خلقت کا بڑا ہجوم تھا۔ میرے بڑے بھائی حکیم دین محمد صاحب بھی جو ان دنوں حاجی پور میں انٹرنس کی تیاری کررہے تھے وہاں سے آئے ہوئے تھے۔ جس وقت گاڑی سٹیشن پر پہنچی حضور علیہ السلام کا ڈبہ جو کہ ریزرو تھا کاٹ کر پیچھے کی طرف دھکیلا گیا۔ میں اور میرے بھائی حکیم دین محمد صاحب اس ڈبے کے ڈنڈوں کو پکڑ کر پائیدان پر چڑھ کر ڈبے کے ساتھ ہی پیچھے کی طرف چلے گئے۔ چونکہ میرے بڑے بھائی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓمیاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کے کلاس فیلو رہ چکے تھے اور ان کے خوب واقف تھے اور وہ بھی اس ڈبہ میں سوار تھے۔ اس لئے ڈبے کے ساتھ ہم کھڑے ہوکر ان سے باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ ڈبہ پلیٹ فارم پر آیا تو حضور اور حضور کے اہل بیت پلیٹ فارم پر اُترے اور سٹیشن سے باہر تشریف لائے۔ سٹیشن سے باہر شکرم دو گھوڑے والی جو کہ بند گاڑی ہوتی ہے موجود تھی۔ اس میں حضور سوار ہوگئے اور دروازہ بند کرلیا اور ہم لوگ اور بہت خلقت اس کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے آئے۔ نہال اینڈ سنز کی دکان کے پاس ایک مکان قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم نے غالباً لے رکھا تھا جو کہ برلب سڑک تھا۔ اس میں حضور نے قیام فرمایا۔ برآمدہ میں حضور کرسی پر تشریف فرما ہوئے۔ عام لوگ آکر مصافحہ کرتے رہے۔ حاجی رحمت اللہ صاحب نے بھی اپنے اس تین چار سالہ بچے کے ہاتھ نذرانہ دے کر مصافحہ کرایا۔ حضور نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اب تو لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں، یہ نسلیں یاد کریں گی۔ میرے بڑے بھائی جان محمد صاحب ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس ان دنوں قلعہ پھلور میں قانون کی تعلیم کے لئے گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے مع ایک دوست چوہدری شہاب الدین کے آئے اور مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ حضور یہ بھائی شہاب الدین بیعت کرنی چاہتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ عصر کے بعد۔ اس پر میرے بھائی نے عرض کیا کہ حضور ہم پھلور میں تعلیم کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ جمعرات کے روز وہاں چھٹی ہوتی ہے اور چار بجے شام سے پہلے ہمیں وہاں پہنچنا ضروری ہے۔ اگر ہم شام تک ٹھہر جائیں تو غیر حاضر ہوجائیں گے۔ حضور نے فرمایا۔ بہت اچھا۔ ابھی بیعت لے لیتے ہیں اور اسی وقت بیعت لے لی…..

ایک واقعہ جو رہ گیا ہے یہ ہے کہ جب حضور گاڑی سے اتر کر مکان میں تشریف لائے تو قاضی خواجہ علی صاحب نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ حضور یہاں مولویوں نے حضور کی نسبت بہت کچھ غلط بیانیاں لوگوں میں مشہور کر رکھی ہیں چنانچہ ایک یہ کہ حضور کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کوڑھ ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر وقت ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں اور چہرے پر نقاب رکھتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ سڑک پر کرسی بچھا دوں اور حضور وہاں تشریف رکھیں تاکہ لوگوں کو اصل حقیقت سے آگاہی ہوجائے۔ حضور نے فرمایا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ اس مکان کے باہر برلب سڑک کرسی بچھائی گئی اور حضور اس پر تشریف فرما ہوئے۔ لوگ آتے رہے اور مصافحہ کرتے رہے۔

1905ء میں مَیں بمعیت اپنے والد صاحب مرحوم و برادران حکیم غلام محمد صاحب (شاگرد حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ) و حکیم دین محمد صاحب بتقریب نکاح حکیم دین محمد صاحب قادیان گیاتھا…..

1904ء میں جب میں قادیان گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوران مقدمہ کرم دین بھین والے گورداسپور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ چنانچہ میں بھی وہاں گیا۔ ….. 1906ء یا 1907ء میں مَیں بمعیت چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم و حاجی رحمت اللہ صاحب قادیان گیا۔

مئی 1908ء میں مَیں نے پاکپٹن سے سول سرجن صاحب منٹگمری کو اپنی ملازمت کے لئے درخواست بھیجی۔ جس نے 16؍ مئی کو اپنے پیش ہونے کے لئے بلایا۔ 15؍ مئی کو میں منٹگمری پہنچ گیا۔ 16؍ مئی کو میں اس کے پیش ہوا۔ اس نے منظور کرکے مجھے پاکپٹن ہسپتال میں کام کرنے کی اجازت دی۔ وہیں منٹگمری میں معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ چونکہ ان دنوں منٹگمری سے پاکپٹن تک سفر یکوں پر بوجہ کچی سڑک کے نہایت دشواری سے ہوتا تھا۔ اس لئے یہ خیال کرکے کہ دشوار سفر تو کرچکا ہوں اب صرف ریل میں بیٹھ کر ہی جانا باقی ہے۔ حضرت مسیح موعود کی زیارت بڑی آسان ہے۔ اس لئے 16-17کی رات کی گاڑی سوار ہوکر 17؍مئی صبح سویرے لاہور پہنچ گیا۔ سٹیشن سے اتر کر کیلیاں والی سڑک پر احمدیہ بلڈنگ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام قیام فرما تھے پہنچ گیا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ حضور کا لیکچر امراء کے لئے مقرر ہے اور صرف امراء ہی کو داخل ہونے کی اجازت ہے۔ عام لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ اس مکان کے دروازے پر جہاں لیکچر ہورہا تھا۔ سید محمد اشرف صاحب راہوں والے کھڑے تھے جو کہ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر اندر داخل کرتے تھے۔ میں ان کی منت کرکے اندر داخل ہوگیا۔ …. اس طرح 17؍مئی والا لیکچر میں نے سنا۔ پہلے جس وقت حضور تقریر فرمانے لگے تو حضور کی آواز نہایت باریک تھی۔ جس کی وجہ سے لوگ اپنی اپنی کرسیاں آگے کی طرف کھینچ رہے تھے تاکہ نزدیک ہوجائیں۔ لیکن بعد ازاں حضور کی آواز بہت بلند ہوگئی تھی …..

میرے بڑے بھائی حکیم دین محمد صاحب نے میرے لئے پشاور میں ملازمت کی تجویز کرکے غالباً 22؍ مئی کو وہاں بھیج دیا۔ 23؍مئی کو وہاں پہنچا۔ وہاں کام نہ بنا۔ 24؍مئی کو میں واپس لاہور آگیا۔ 25؍ کے دن رہنے کے بعد26؍کو حضور کی وفات ہوگئی۔

میں اپنے بھائی صاحب کے پاس ہربنس سنگھ کی حویلی میں لاہور رہتا تھا۔ بازار میں مَیں اور بھائی صاحب کسی کام کے لئے جارہے تھے کہ غالباً چودھری عبدالحئی صاحب کاٹھ گڑھ والے نے بتلایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی۔ یہ خبر سنتے ہی میرا اپنا یہ حال ہوا کہ تمام بدن سن اور بے حس ہوگیا۔ کچھ منٹوں کے بعد ہوش ٹھیک ہوئی۔ اس وقت تک کہ میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ اور بھائی اور لڑکے اور کئی عزیز فوت ہوئے ہیں مگر ایسا صدمہ جیساکہ حضور کی وفات کو سن کر ہوا تھا کبھی نہیں ہوا۔ میرے بھائی حکیم دین محمد صاحب کے پاس میرے علاوہ میرے تایا زاد بھائی جو کہ غیر احمدی تھے۔ اپنی لڑکی کے ساتھ جو کہ بیمار تھی معالجہ کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے۔ بھائی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ان کی خاطر تم یہاں ٹھہرو اور میں جنازہ کے ساتھ قادیان جاؤں گا۔ میں نے کہا یہ آپ کے مہمان ہیں۔ آپ ٹھہریں یا نہ ٹھہریں میں تو جنازہ کے ساتھ ضرور جاؤں گا۔ ہمارے آپس کے اس تکرار کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ بھائی میں اکیلا ہی رہوں گا۔ آپ دونوں جائیں…..

امرتسر کے سٹیشن پر حضرت خلیفۃ المسیح اول مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔ 9 بجے کے قریب گاڑی بٹالہ پہنچی۔ جنازے والا ڈبہ اور ریزرو ڈبہ دونوں کاٹے گئے۔ حضرت ام المومنین اور دیگر خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے لوگوں کو ڈبہ سے نکال کر پلیٹ فارم پر اتارا گیا اور اسٹیشن کے پاس ٹھہرایا گیا۔ ہم لوگوں کے پہرے مقرر کئے گئے جو کہ ہم نے باری باری ادا کئے۔ پچھلی رات حضور کا جنازہ صندوق سے نکال کر ایک چارپائی پر جس کو لمبے لمبے بانس بندھے ہوئے تھے اٹھایا گیا اور قادیان کو لے کر روانہ ہوئے۔

غالباً نماز ظہر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت خلیفہ اول نے نماز جنازہ پڑھائی۔ میاں سلطان احمد صاحب بھی آچکے تھے۔ اتفاق سے مرزا سلطان احمد صاحب جنازہ میں میرے ساتھ کھڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت رو رہے تھے۔ جنازے کے بعد حضرت خلیفہ اول قبر پر تشریف لے گئے چونکہ آپ پر بعدبیعت ایک قسم کا ضعف ہوگیا تھا اس لئے قبر کے نزدیک چارپائی پر تاوقتیکہ قبر درست نہیں ہوئی۔ لیٹے رہے۔ قبر میں جو تابوت رکھا گیا تھا وہ وہ نہیں تھا جو لاہور سے برف والا تابوت لایا گیا تھا بلکہ وہ اور ایک مضبوط تابوت تھا۔ جس کے اوپر قبر میں رکھ کر جو پھٹے لگائے گئے وہ بڑے مضبوط تھے۔ غالباً ایک شہتیری کو چیر کر وہ بنائے گئے تھے۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلد 3 صفحہ 226 – 239 الفضل 10؍جولائی و 12؍ جولائی 1942ء)

آپ نے اپنی زیادہ تر عمر ضلع ساہیوال میں ہی گزاری۔ جیسا کہ روایات میں بیان ہوا کہ آپ 1908ء میں بسلسلہ ملازمت اس علاقے میں آگئے تھے، یہاں آنے کے بعد آپ نے افراد جماعت کو منظم کرنا شروع کیا، اسی سلسلے میں آپ نے اخبار بدر میں اعلان کرایا:‘‘پاک پٹن میں خدا کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے انجمن احمدیہ قائم کی گئی ہے، وہ اصحاب جو اس ضلع میں ہیں اور کسی اور انجمن میں شامل نہیں ہیں وہ اس میں شامل ہوکر و اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعًا کے پاک ارشاد کے نیچے آجاویں۔ والسلام نیاز محمداحمدی کمپونڈر سیکرٹری انجمن احمدیہ پاک پٹن۔’’ (بدر 28؍نومبر 1912ء صفحہ 2 کالم 3) قادیان کے حالات کے بہت مشتاق رہتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے ایڈیٹر اخبار بدر کو لکھا:‘‘بدر میری جان کی غذا ہے۔‘‘

(بدر 11؍اپریل 1912ء صفحہ 5)

وصیت کے ریکارڈ کے مطابق آپ چک 119/7-DR نزد کسووال ضلع ساہیوال میں بھی مقیم رہے۔ آپ نے 12؍دسمبر 1967ء کو وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 940) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ خبر وفات دیتے ہوئے آپ کے بیٹے محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے یکے از درویشان قادیان نے لکھا:
’’افسوس کہ والد صاحب حضرت ملک نیاز محمد صاحب 12؍دسمبر کو بمقام ساہیوال مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا۔ آپ صحابی ابن صحابی تھے۔ ایک وقت میں پاک پٹن (ضلع منٹگمری) صرف آپ واحد احمدی تھے پھر جماعت پیدا ہونے پر عرصہ تک اس کے سیکرٹری مال رہے۔ خلافت ثانیہ کے قیام پر فورًا بیعت کی توفیق پائی تھی ….. بہت دعائیں کرنے والے اور صاحبِ کشف و الہام تھے۔‘‘

(اخبار بدر قادیان 21؍دسمبر 1967ء صفحہ 4)

آپ کی اہلیہ محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ نے 14؍دسمبر 1964ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

آپ کی اولاد میں سات بیٹے محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان، ڈاکٹر عطاءاللہ صاحب، ملک رحمت اللہ صاحب، ملک برکت اللہ صاحب، ملک عصمت اللہ صاحب، ملک حشمت اللہ صاحب، ملک ذکاء اللہ صاحب اور دو بیٹیاں عزیزہ بیگم صاحبہ اور امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں۔

(نوٹ:آپ کی تصویر آپ کے پوتے مکرم ملک صفی اللہ خان صاحب آف ٹورانٹو نے مہیا کی ہے فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اومے ریجن آئیوری کوسٹ میں مسجد کا سنگ بنیاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2023