• 5 مئی, 2024

بھانڈے قلعی کرالو

بھانڈے قلعی کرالو
انسانی اعضاء کو رمضان کی بھٹی میں ڈال کر صاف کرنے کی ضرورت

ہم جب بچپن کے دور سے گزر رہے تھے تو گلی کوچوں سےاکثر ایک صدا سنائی دیتی تھی کہ ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘ (یعنی اپنے برتن پالش کرالیں) تو گھر کی خواتین اپنے پیتل اور تانبے کے برتن نکال کر انہیں قلعی کروایا کرتی تھیں اور جب برتن قلعی کرنے والا شخص ایک جگہ بیٹھ کر اپنی بھٹی کو گرم کرتا اور برتنوں کو قلعی کرنے کا عمل شروع کرتا تو ارد گرد کے مکانات سے بھی خواتین اپنے پیتل اور تانبے کے برتن نکال کر لے آتیں اور ہم اس کے قریب کھڑے ہو کر اس عمل کوشوق سے دیکھتے اور انجوائے کرتے کہ کس طرح میلا کچیلا برتن قلعی کرنے سے چاندی جیسا چمکدار سفید یا یوں کہیں کہ ایک بار پھر نیا نکور ہو جاتا تھا۔

اسکولز کی رخصتوں کے دوران اپنے عزیزوں اور دوستوں سے ملنے ملانے اور پڑھائی کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ہماری مائیں ہمیں گاؤں بھی بھجوا دیا کرتی تھیں۔ ہم نے وہاں بھی یہ چیز مشاہدہ کی کہ جونہی ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘ کی صدا سنائی دیتی تو خواتین اپنے گھروں کی پر چھتیوں سے پیتل اور تانبے کے برتن اٹھا کر لا باہر رکھ دیتیں اور اپنے اس عمل پر ہمیں متعجب پا کر کہتیں کہ بیٹا! پیتل اور تانبے کے برتنوں کو سال میں ایک بار قلعی کروانے سے جہاں برتنوں میں خوبصورتی آجاتی ہے وہاں اس کی کَس (سبزرنگ کا مَیل یا زنگ) بھی مر جاتا ہے اور یوں ان برتنوں کو اٹھا کر قلعی کرانے کے بعد دوبارہ سیٹ کرنے سے گھر کی نہ صرف پر چھتیاں صاف ہو جاتی ہیں بلکہ گھر کے باقی کونے کھدرے بھی نکھر جاتے ہیں۔

یہی عمل ہم نے جو اس زمانہ میں نائی (باربر) کہلاتے تھے اور شادی بیاہ اور دیگر فنکشنز میں کھانا پکایا کرتے تھے کو اپنی دیگوں (پکانے والے بڑے برتن) کو سال میں ایک دفعہ قلعی کرواتے دیکھا۔ پھر چونکہ ربوہ میں دار الضیافت (لنگر خانہ مسیح موعود ؑ) بھی ہمارے گھر سے چند قدم پر تھا۔ وہاں بھی اور دیگر لنگر خانوں میں بھی سال میں ایک بار یہ عمل دیکھنے کو ملتا رہا۔

ہماری آج کی نوجوان نسل اور پود کو شائد خاکسار کے اس مضمون پر باندھی گئی یہ تمہید سمجھ نہ آئے یا اسے عجیب سمجھ کر وہ پریشان ہوں۔ اس دور کے نوجوانوں اور بچوں کی معلومات میں اضافہ کے لئے مجھے وضاحت کرنی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج کے دَور تک مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں مختلف قسم کے برتن استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کبھی لکڑی، کبھی پتھر، کبھی مٹی اور ایک وقت میں تو درختوں کے پتوں کو بھی بطور برتن استعمال کیا جاتا رہا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس جدید دور میں بھی سکھوں کے گردواروں میں خاص قسم کے درخت کے بڑے سائز کے پتوں کی بنی ہوئی پلیٹوں میں پرساد (سکھوں کا تبرک) تقسیم کیا جاتا ہے۔ پتوں کی پلیٹوں میں آج بھی امرتسر انڈیا کے گولڈن ٹیمپل میں حلوہ تقسیم ہوتا ہے۔ تقریباً 4-5 دہائیاں قبل پیتل (Brass) اور تانبے (Copper) کے برتنوں کا استعمال عام تھا۔ پھر سلور اور تام چینی کے برتن آئے اور کبھی چاندی کے برتن استعمال ہوئے۔ سلور کے برتنوں کے استعمال کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی ایک وقت میں مضر صحت قرار دیا تھا۔ اس اہم موضوع پر آپ ؒ نے اپنے خطبہ جمعہ میں سیر حاصل روشنی ڈالی تھی، جس کی میڈیکل ریسرچ نے تصدیق کی، اپنے محبوب امام ؒ کے اس خطبہ کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے احمدی گھروں نے سلور کے برتن اپنے گھروں سے نکال دیئے اور ان کی جگہ اسٹیل کے برتنوں نے لے لی، اس عمل کا آغاز ربوہ سے ہوا اور پاکستان کے کئی شہروں کے احمدی گھرانوں نے حفظان صحت کے لئے سلور کے برتن نکال باہر کئے۔ ربوہ میں تو برتن بیچنے والے ایک وقت میں یہ آواز لگایا کرتے تھے کہ ’’سلور کے برتن تبدیل کراکے اسٹیل کے برتن لے لو‘‘

آج کل اسٹیل کے برتنوں کے ساتھ ساتھ کانچ، stone ware porcelain اور Pyrex کے برتنوں کا رواج عام ہے۔

پیتل اور تانبے کے برتنوں کو روزانہ پانی، صابن وغیرہ سے دھونے کے باوجود کچھ عرصہ گزرنے کے بعدیا کم از کم سال میں ایک بار ایک خاص دھات Tin سے قلعی کروایا جاتا تھا۔ جس کا طریق کسی حد تک میں اوپر بیان کر آیا ہوں۔ دہکتی ہوئی آگ پر برتنوں کو گرم کر کے Tin کی معمولی رگڑائی کے بعد کپڑا اندر والے حصہ میں پھیرنے سے برتن چاندی کی طرح سفید ہو جاتے ہیں اور کھانے کے ساتھ جو بد ذائقہ کَس مل جاتی تھی وہ بھی ختم ہو جایا کرتی تھی اور کھانے کا اصل مزا دوبالا ہو جاتا تھا۔

قلعی اور کَس کے لغوی معانی

مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل قلعی اور کَس کے لغوی معنی جاننا ضروری ہیں۔ قلعی لفظ کے تحت لکھا ہے۔ ایک سفید رنگ کی ملائم دھات جو چاندی سے مشابہت رکھتی ہے اور تانبے و پیتل وغیرہ کے برتنوں پر ملمع کرنے اور مرکب دھات بنانے کے کام آتی ہے۔ رانگ، رانگا، ٹین،ملمع، گلٹ، روغن نیز ظاہری چمک دمک۔ گھروں اور مکانوں کو چونا کرنے کو بھی قلعی کرانا کہتے ہیں اور یہ بھی پرانے وقتوں میں سال میں ایک دفعہ کروایا جاتا تھا۔ آج کل اس چونا کی جگہ کئی اور چیزیں جیسے وائیٹ واش دیواروں پر کرنے والی آگئی ہیں جومختلف کیمیکلز ملے ہونے کی وجہ سےدو تین سال گزار دیتی ہیں۔

کَس کے معنی۔ تانبے پر کچھ عرصہ کے بعد سبزی مائل رنگ آجاتا ہے۔ یہ اصل میں زنگ ہے جو برتنوں سے اترنا شروع ہو جاتا ہے اور کھانے میں آمیزش کے بعد کھانے کو بد مزا بنا دیتا ہے۔

انسانی اعضاء بمثل برتن

اللہ تعالیٰ نے انسانی اعضا کو بھی کسی نہ کسی رنگ میں برتن کی شکل دی ہے۔ اور شعراء نے بعض اعضاء کو مختلف رنگ کے برتنوں سے تشبیہ بھی دے رکھی ہے۔ جیسے آنکھ کو پیالےسےاور گردن کو صراحی سے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انسان کے مُنہ کو پیالے سےتشبیہ دیتے ہوئے کمال عمدگی سے نصیحت فرمائی تھی کہ اسی مُنہ سے آپ درود شریف پڑھتے ہو جو دودھ پینے کی طرح ہے اور اسی مُنہ سے بد اخلاقیاں، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرتے ہو جو گندگی کھانے یاپینے کے مترادف ہے۔ ایک ہی پیالے میں گندگی بھی کھاتے ہواور پھر اسی پیالے میں دودھ بھی پیتے ہیں، عام زندگی میں اگر اس کا تصور کیا جائے تو جھرجھری آجاتی ہے۔ میں آنکھ اور منہ کا ذکر تو کر آیا ہوں۔ کان کی شکل لے لیں، زبان بھی گول ہو کر برتن کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ ہاتھوں کو لیں۔ اس کی انگلیوں کو ہتھیلی کی طرف ملائیں تو برتن کی کیفیت اختیار کر جاتی ہے جسے پنجابی میں ہم ’’بُک‘‘ بھی بولتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں کوملاکر اور پیالہ یا گلاس بنا بنا کر ہم پانی بھی پیتے ہیں۔ ناک کے دونوں نتھنے برتن نما ہیں۔ انسان کی کھوپڑی (skull) تو ہے ہی پیالے کی طرح۔ اور دل کی shape بھی برتن کی طرح ہے۔ اور شعراء نے اس کو مختلف بر تنوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔گردوں کو لیں تو ان کی شکل کی ٹرے میڈیکل کے شعبہ میں استعمال ہوتی ہے جس کو kidney tray یا kidney dish کہتے ہیں۔

اعضاء کو قلعی کرانا

انسان کو اپنے برتن نما اعضاء کو بھی قلعی کرتے یا کرواتے رہنے کا حکم ہے۔ جسے ہم پاک صاف اور صفائی وغیرہ کہہ سکتے ہیں۔ قرآن و احادیث میں بار بار ان اعضاء کو دھونے اور پاک صاف کر کے رکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

جسم کو مل مل کر دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں
دل کو جو دھوئے وہی ہے پاک نزدِ کردگار

(درثمین۔ مناجات اور تبلیغ حق)

اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا
ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا

(در ثمین۔ محاسن ِ قرآن کریم)

ویسے تو ہر وقت اور ہر لمحہ ان کو صاف رکھنے کی تلقین ملتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ظاہری برتنوں کو سال میں ایک بار قلعی کرنے کے مقابل پر انسانی برتن نما اعضاء کو پاک صاف اور قلعی کرنے کے لئے سال میں ایک مبارک مہینہ ’’رمضان‘‘ رکھا ہے۔ جس کے متعلق آتا ہے کہ انسان اگر اپنے آپ کو اس ماہ میں اللہ کے حضور صدق نیت سے پیش کرے۔ استغفار اور تسبیح و تحمید کرتے ہوئے روزے رکھے، ذکر الہٰی میں وقت گزارے تو وہ نو مولود بچے کی طرح اس رمضان کو خیر آباد کہہ رہا ہو گا یعنی عبادات مکمل کرکے رمضان کا مہینہ پورا کرے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ رمضان اسلامی مہینوں میں نواں مہینہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مومن کی اس مہینے نئی روحانی پیدائش ہوتی ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

  • پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ شور شرابہ، اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑے جھگڑے تو وہ جواب میں ’’اِنّی صائم‘‘ کہے۔

(صحیح بخاری۔کتاب الصوم)

  • جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم)

  • مَنْ صَا مَ رَمْضَانَ اِیماناً واحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ

(صحیح بخاری کتاب الصوم)

کہ جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔

اس حدیث میں لفظ صَامَ میں انسانی برتن نما تمام اعضاء مخاطب ہیں۔ رمضان، انسانی برتن نما اعضاء جیسے آنکھ، کان، زبان، ناک، ہاتھ اور دل کی صفائی ستھرائی کا بہترین ذریعہ اور موقعہ ہے۔

رمضان کے حوالے سے تو اب باتیں ماہ رمضان میں ہوتی رہیں گی۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح برتنوں کو قلعی کرنے کے لئے تپش کی ضرورت ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ tin لگا کر کپڑے سے صفائی ہوتی ہے۔ اسی طرح رمضان، رَمض سے نکلا ہے۔ جس کے معنی گرمی اور تپش کے ہیں۔ اس لئے انسانی اعضاء کو رمضان کی بھٹی میں ڈال کر اگر مومن قرآن کریم کی تعلیم، احادیث میں بیان فرمودات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلفاء کے ارشادات سے قلعی کرے گا تو تمام انسانی اعضاء چمک دمک جائیں گے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رَمَضَ سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رَمَضَان میں چونکہ انسان اَکلْ و شُرب اور تمام جسمانی لذّتوں پر صبر کرتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رَمضان ہوا۔ اہلِ لُغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا، اس لئے رمضان کہلایا۔ میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ روحانی رَمَضَ سے مراد رُوحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے۔ رَمَضَ اس حرارت کو بھی کہتے ہیں، جس سے پتھر گرم ہو جاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ136 ایڈیشن 1988ء)

اس حوالہ سے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہاں رہنے والوں کو یا بعض لوگوں کو شاید قلعی کا صحیح اندازہ نہ ہو کہ برتن کو قلعی کرنے کا طریق کیا ہے؟ پُرانے زمانے میں تانبے اور دھاتوں کے برتن ہوتے تھے اور کچھ عرصے بعد انہیں قلعی کروانا پڑتا تھا۔ پاکستان میں اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو تو اندازہ ہو گا کہ کس طرح قلعی ہوتی ہے اور خاص طور پر جو ہمارے لنگر خانوں میں ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کو بھی اندازہ ہے کیونکہ جلسہ سالانہ میں دیگیں قلعی کروائی جاتی ہیں۔ قلعی کے لئے پہلے برتن کو آگ میں ڈالا جاتا ہے پھر اُس پر نوشادر یا کچھ کیمیکل ملے جاتے ہیں یا مَل کے آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ بہر حال اُس کے بعد پھر ایک سفید چمکدار دھات ہوتی ہے وہ اُس پر مَلی جاتی ہے۔ جب اچھی طرح اُس کا گند پہلے سے اتارا جائے اور پھر یہ دھات مَل کے اُس کو ایک کپڑے سے اچھی طرح پالش کیا جائے تو پھر وہ برتن اس طرح بالکل صاف شفاف اور چمکدار ہو جاتا ہے جیسے چاندی کا برتن ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 11 مارچ 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک میں اپنے اعضاء کو پاک صاف کرنے اور دینی تعلیمات کے مطابق ان کا استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیشہ جاری رہے۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2022