• 17 مئی, 2024

سحر اور افطار میں اعتدال

رمضان کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سحری کھاکر روزہ رکھا جائے۔سحری کھا کر روزہ رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزے کے دنوں میں سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھا کر روزہ رکھنے میں برکت ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الصوم باب برکۃ السحور … حدیث 1923)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس کی پابندی فرمایا کرتے تھے، خود بھی اور احباب جماعت سے بھی فرمایا کرتے تھے کہ سحری ضروری ہے۔ اسی طرح جو مہمان قادیان میں آیا کرتے تھے ان کے لئے بھی سحری کا باقاعدہ انتظام ہوا کرتا تھا۔اس بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریر ہے کہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ آپ نے سحری کھاتے دیکھ کر فرمایا کہ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ (سحری کے وقت دال روٹی کھا رہے تھے) اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں (ہیں۔ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔) ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر مَیں کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھا لو۔ اذان جلدی دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2 حصہ چہارم صفحہ127 روایت نمبر 1163)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز تہجد پڑھنا اور سحری کھانے کے بارے میں ایک روایت بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ1895ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کر کے آخرشب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے۔ یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک۔ اور دوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اسْتَغِیْث اکثر پڑھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا۔ نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہو جاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہو جائے سحری کھانا جائز ہے۔ اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے۔ اس لئے لوگ عموماً بعض جگہوں پہ سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہو جاتی ہو۔ اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملے میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طور پر صبح صادق کا آغاز ہو اس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح صادق کی سفیدی ظاہر ہو جائے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کر رہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہو گئی ہے، صبح ہو گئی۔ اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر 320 صفحہ 295-296)

بیشک اچھا کھانا تو کھائیں لیکن اس میں بھی اعتدال ہونا چاہئے۔ روزہ رکھ کر یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ ہم نے روزہ رکھنا ہے اور رکھا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الُیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ تم ایمان لاؤ اور پھر تنگیوں میں بسر کرو۔ اس لئے ہم نے روزے فرض کئے۔ (اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے) تا تمہاری تنگیاں دُور ہوں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے۔ (یہ نکتہ بڑا یاد رکھنے والا ہے کہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے، تنگی نہیں چاہتا۔ اور اس کی وضاحت کیا ہے۔) یہ ایسا نکتہ ہے جو مومن کو مومن بناتا ہے اور جو یہ ہے کہ روزے میں بھوکا رہنا یا دین کے لئے قربانی کرنا انسان کے لئے کسی نقصان کا موجب نہیں بلکہ سراسر فائدے کا باعث ہے۔ جو یہ خیال کرتا ہے کہ رمضان میں انسان بھوکا رہتا ہے وہ قرآن کی تکذیب کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھوکے تھے ہم نے رمضان مقرر کیا تا تم روٹی کھاؤ۔ پس معلوم ہوا کہ روٹی یہی ہے جو خدا تعالیٰ کھلاتا ہے اور اصل زندگی اسی سے ہے۔ اس کے سوا جو روٹی ہے وہ روٹی نہیں پتھر ہیں جو کھانے والے کے لئے ہلاکت کا موجب ہیں۔ مومن کا فرض ہے کہ جو لقمہ اس کے منہ میں جائے اس کے متعلق پہلے دیکھے کہ وہ کس کے لئے ہے۔ اگر تو وہ خدا کے لئے ہے تو وہی روٹی ہے اور اگر نفس کے لئے ہے تو وہ روٹی نہیں۔‘‘

پس سحری اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھائی جا رہی ہے تو اگر اچھی بھی کھائی جا رہی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور وہ جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں برکت ہے۔ اور پھر اگر پیٹ بھرنا ہے اور اچھی خوراک کھانا ہے اور مزہ لینا ہے تو پھر وہ نفس کے لئے ہے۔ پھر آگے حضرت مصلح موعودنے وضاحت کی ہے کہ ’’جو کپڑا خدا کے لئے پہنا جائے وہی لباس ہے۔ جو نفس کے لئے پہنا جاتا ہے وہ ننگا ہے۔ دیکھو کیسے لطیف پیرائے میں بتایا کہ جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی اِبطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ (بعض لوگ ایسے ہیں جن کے وزن رمضان میں کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتے ہیں۔) حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید۔ (یعنی گندم اور جَو کی اچھی اعلیٰ خوراک ہوتی ہے۔) وہ لوگ جو ہیں ان دنوں میں خوب گھی، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا۔ یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد2 صفحہ395-396)

اب ایک طرف حکم ہے کہ سحری کھاؤ اس میں برکت ہے۔ افطاری کرو اس میں برکت ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر صرف کھانا ہی مقصد ہو تو ایک یہ چیز اس برکت کو کم بھی کر دیتی ہے۔ پس اعتدال ضروری ہے۔ اچھا کھاؤ لیکن اعتدال کے ساتھ۔

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح افطاری میں تنوع اور سحری میں تکلفات بھی نہیں ہونے چاہئیں اور یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سارا دن بھوکے رہے ہیں اب پُرخوری کرلیں۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلفات نہ کرتے تھے۔ کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریم ﷺ اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں‘‘۔

(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ سورۃ البقرہ زیر آیت186)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں: ’’پس افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں۔ کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے۔ افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اوررمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگرآپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جو نسبتاً غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تویہ وہ افطاری ہے جو آپ کے لئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی۔

مگر جب آپ افطاری کی دعوتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ روزہ کھول کے انسان ذکر الٰہی میں مصروف ہو قرآن کریم کی تلاوت کرے جو تراویح پڑھتے ہیں وہ تراویح کے لئے تیار ہو کر جائیں اس کی بجائے مجلسیں لگ جاتی ہیں جو بعض دفعہ اتنی لمبی چل جاتی ہیں کہ عبادتیں بھی ضائع ہونے لگتی ہیں اور اگراس دن کی عشاء کی نماز پڑھ بھی لیں وقت کے اوپر تو دوسرے دن تہجد کی نماز پر اثر پڑ جائے گا۔

رمضان کے مہینے میں یہ مشاغل کرنا اس قسم کے یہ میرے نزدیک رمضان کے مقاصد سے متصادم ہے۔ اس سے ٹکرانے والی بات ہے۔ تو جو افطاریاں ہو چکیں پہلے ہفتے میں ہو گئیں آئندہ سے توبہ کریں اور مجالس نہ لگائیں گھروں میں۔ مجالس وہی ہیں جو ذکر الٰہی کی مجلسیں ہیں اور افطاری کی مجلسوں کو میں نے نہیں کبھی ذکر الٰہی کی مجلسوں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ پھر وہ سجاوٹ کی مجلسیں بن جاتی ہیں، اچھے کپڑے پہن کر عورتیں، بچے جاتے ہیں۔ وہاں خوب گپیں لگائی جاتی ہیں، کھانے کی تعریفیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن اپنے تہجد کو ضائع کردیتے ہیں اور پھر بے ضرورت باتیں بہت ہوتی ہیں‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ جنوری 1997ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے والا بنائے اور ہمیں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرتے ہوئے رمضان کے روزوں سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(احتشام الحسن۔ مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2022