ڈائری مکرم عابد خان سے کچھ حصے
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی عاجزی کی ایک مثال
مجھے ہدایات سے نوازنے کے بعد حضور نے ازراہ شفقت دریافت فرمایا کہ اس دن میں نے ناشتے میں کیا کھایا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ حسب معمول ایک toast مکھن اور جام کے ساتھ کھایا تھا اور کافی پی تھی۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو تھوڑی غذا ہے۔ اس پر میں نے عرض کی کہ دوپہر کے کھانے میں مچھلی اور چپس کافی وافر مقدار میں کھا لیے تھے۔ حضور انور نے بتایا کہ دوپہر کے کھانے میں آپ نے مچھلی کے دو چھوٹے ٹکڑے اور ایک سینڈوچ تناول فرمایا تھا جو میں نے پارلیمنٹ میں آپ کے پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا تھا۔ میں نے عرض کی کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جماعت نے آپ کو مچھلی اور چپس نہیں بھجوائے ہوں گے۔ حضور نے مسکرا کر ایسا تاثر دیا جیسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگرچہ یہ حضور کی سادگی اور عاجزی کی ایک مثال ہے تاہم مجھے ذاتی طور پر بہت تکلیف ہوئی کہ مجھے اور دیگر احباب کو اتنا شاندار کھانا ملا جب کہ حضور انور اور خالہ سبوحی کو پیش نہیں کیا گیا۔
حضور انور کے دورہ کے بارے میں
لوکل جماعت کے تاثرات
میں نے چند احمدیوں سے حضور انور کے دورہ کے بارے میں تاثرات پوچھے۔ ایک احمدی دوست مکرم محمود احمد صاحب جن کی عمر 41 سال ہے اور تعلق Auckland سے ہے نے بتایا کہ کس طرح حضور انور کا دورہ ان کی روحانیت میں اضافہ کا موجب بنا ہے۔ اور اب وہ جماعت کے زیادہ قریب آگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان کے لیے اب جماعت پہلے سے زیادہ فیملی کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ جو حضور انور کے دورہ کا نتیجہ ہے۔
مکرم عمران ملک صاحب جن کی عمر 29 سال اور تعلق Auckland سے ہےنے بتایا کہ حضور انور کے دورہ کے بعد سے انہیں محسوس ہوا ہے کہ ان کی نماز میں لذت کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور انور کی موجودگی کی وجہ سے ان کا جماعت کی خدمت کا جذبہ بڑھ گیا ہے۔
*ایک خادم جو میرا اچھا دوست بن گیا تھا اور واقف نو تھا، اس کا نام عزیزم محسن اقبال اور عمر 16 سال ہے۔ دوران دورہ جب بھی میں اس سے پوچھتا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا ہے تو وہ ہر مرتبہ یہی جواب دیتا کہ حضور انور کی موجودگی کی وجہ سے وہ بہت خوش اور جذباتی ہے۔ ہر بار میں اسے ایک نئی ڈیوٹی دیتے ہوئے دیکھتا۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اس نے بتایا کہ وہ صرف جماعت کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ کس شعبے میں مدد درکار ہے۔چنانچہ جب بھی اسے معاونت کے لیے بلایا جاتا ہے تو اگرچہ وہ اس کی ڈیوٹی نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ خوشی سے معاونت کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ حضور انور کے بارے میں اس نے کہا میں اللہ کا بہت شکر گزار ہوں اور حضور انور کا بھی کہ آپ نیوزی لینڈ دورے پر تشریف لائے۔ میں اس بات پر بھی اللہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے حضور انور کی خدمت کا موقع ملا۔ حضور انور کے دورے نے مجھے بہترین احمدی بننے اور اپنے دوستوں کو تبلیغ کرنے پر بھی پر ابھارا ہے۔میں احمدیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں احمدیت کے لیے ہر طرح کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوں۔
*ایک دوسرے خادم مکرم انس سراج رحیم صاحب جن کی عمر 23 سال ہے نے بتایا کہ حضور انور کی واپسی پر وہ سخت افسردہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا جی چاہتا ہے کہ حضور اگلے روز ہی نیوزی لینڈ واپس تشریف لے آئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حضور انور کے دورہ کے دوران وہ اپنے جائزے لینے پر مجبور ہوئے ہیں اور اب ان کی خواہش ہے کہ وہ جماعت کی خدمت کریں اور مثالی احمدی بنیں۔
*ایک اور احمدی نے بتایا کہ پہلے وہ نمازوں کی ادائیگی میں کمزور تھے مگر اب حضور انور کے دورہ کے بعد سے وہ باقاعدگی اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ بطور احمدی اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ احسن رنگ میں سمجھ سکتے ہیں۔
*مجھے مکرم محمد اقبال صاحب سے بھی بات کرنے کا موقع ملا جو نیوزی لینڈ کے صدر جماعت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور انور کی ایک ہفتہ خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہونا اور آپ کی معیت میں وقت گزارنے کی سعادت ملنا زندگی کی شاذ خوش نصیبیوں میں سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضور انور کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ میں کس قدر کمزور ہوں۔ ہر بھلائی اللہ اور اس کے خلیفہ کی طرف سے آتی ہے۔ حضور انور کی روانگی نے مجھے افسردہ اور غمگین کر دیا ہے۔جذبات کے تلاطم میں الفاظ کی ادائیگی کرنا مشکل ہے۔میں حضور انور سے معافی کا درخواست گزار ہوں اور اپنی کمزوریوں (کی پردہ پوشی)کے لیے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔ اور اس تکلیف کے لیے بھی جو آپ کو اس دورے کے دوران میری کسی غفلت کی وجہ سے پیش آئی ہو۔
لجنہ اور ناصرات کے تاثرات
ای میل کے توسط سے مجھےحضور انور کے دورہ نیوزی لینڈ کے متعلق لجنہ اور ناصرات کے جذبات اکٹھے کرنے کا موقع بھی ملا۔ مردوں کی طرح ان کے تاثرات بھی حضور انور اور خلافت کے لیے محبت سے لبریز تھے۔ مکرمہ مہ پارہ ملک صاحبہ واقفہ نو نے لکھا کہ ہم حقیقت میں بے حد خوش تھے اور بیتابی سے منتظر تھے جب ہمیں پتہ چلا کہ حضور انور نیوزی لینڈ تشریف لا رہے ہیں اور جب حضور تشریف لائے تو مجھے ایسا لگا کہ میری روح، جسم اور دماغ پر برقی اثر ہوا ہے۔ سارے ماحول پر ایک برقی اثر تھا۔ جیسے کسی بھی لمحہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حضور انور کی آمد پر اور ایک ہفتہ قبل میں بہت کم نیند پر گزارا کر رہی تھی مگر کمال کی بات یہ تھی کہ میں تھکاوٹ محسوس نہیں کر رہی تھی اور یہ ایک انمول اور حوصلہ افزا تجربہ تھا۔ حضور کے دورہ نے میری زندگی بدل دی۔اس نے میرے میں ہر چیز کے لیے ایک جوش بھر دیا ہے۔ حضور کے دورہ کے بعد میں خود میں بہت تبدیلی محسوس کر رہی ہوں۔ میں اپنی ذمہ داریوں کو پہلے سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہوں۔ اگر یہ میرے دائرہ اختیار میں ہوتا تو حضور انور اور آپا جان کو کبھی نیوزی لینڈ سے واپس نہ جانے دیتی۔ میری خواہش ہے کہ کاش وہ اس وقت یہاں ہوتے۔ جب وہ یہاں ہوتے ہیں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا ایک حقیقی مقصد ہے۔
*عزیزہ دانیہ شفیق جن کی عمر 13 سال ہے،نے لکھا کہ حضور انور کا دورہ میرے لیے نہایت خوش کن تھا اور ایسا تھا جیسے کوئی خواب سچ ہو گیا ہو۔ حضور کا دورہ ہماری جماعت کے لیے برکتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس لیے اس نے کئی طرح سے ہماری مدد کی ہے اور ذاتی طور پر میں پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہوں۔میں نے کارٹون دیکھنا چھوڑ دیے ہیں اور ایم ٹی اے دیکھنے کی وجہ سے میراعلم بڑھ رہا ہے کیونکہ اب میں حضور کے خطبات جمعہ دیکھتی ہوں۔ہر چیز جو حضور کے دورہ کے دوران ہوئی وہ ہمیشہ میری یاداشت کا حصہ رہے گی۔
*ایک ممبر لجنہ مکرمہ حمدہ مبارک نے لکھا کہ یہ میری حضور سے پہلی ملاقات تھی اس لیے بے حد خوش تھی۔ جیسا کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ہمیں حضور سے ملاقات کا موقع نصیب نہیں ہو سکتا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے حضور کے ساتھ اللہ کے فرشتے ہوں۔ حضور انور کے ہمارے ملک میں آنے سے (شکرانے کے باعث) ہماری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضور کو اپنے درمیان موجود پانا نا قابل یقین تھا اور بے حد جذباتی کر دینے والا تھا۔ حضور انور کا سارا دورہ ہی پلک جھپکتے گزر گیا۔ لیکن سب سے اچھی چیز یہ تھی کہ جب ہم حضور انور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بھاگتے تھے اور پھر حضور کے اپنے پاس سے گزرنے کا انتظار کرتے تھے۔ حضور انور کے دورہ سے مجھے ذاتی طور پر بہت بہتری محسوس ہوئی ہے۔ کیونکہ اب میں جب بھی کچھ کرنے لگتی ہوں تو مجھے ہمیشہ یہی خیال آتا ہے کہ حضور اس سے خوش ہوں گے یا نہیں؟ اب میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی زیادہ توجہ دیتی ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کا زیادہ احساس کرتی ہوں۔
مسجد میں الوداعی تقریب
حضور انور کی نیوزی لینڈ سے روانگی 5نومبر 2013ء کو ہوئی۔ الوداعی تقریب بعد نماز فجر مسجد میں ہوئی جہاں احمدی احباب حضور انور کو الوداع کہنے کے لیے جمع تھے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ نہایت جذباتی ماحول تھا اور نماز فجر میں ادا کیے جانے والے چاروں سجدے معمول سے زیادہ لمبے تھے۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ جس کے بعد آپ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ یوں احمدی احباب نے اس دورہ کے اختتام پر حضور انور کو آخری بار اللہ حافظ کہا۔
جاپان کے لیے روانگی
چند گھنٹوں کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور ایئرپورٹ کی طرف سفر کا آغاز ہوا۔ مکرم اقبال صاحب (صدر جماعت نیوزی لینڈ) اپنے نیوی لباس کو زیب تن کیے اپنے آخری فریضہ کو ادا کرنے کے لیے ایئرپورٹ پر مستعد کھڑے تھے۔ گویا وہ حضور انور کو الوداعی salute کرنے آئے ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آپ اور دیگر احمدی احباب جو ایئرپورٹ پر آئے تھے، نے نہایت جذباتی انداز میں حضور انور کو الوداع کہا۔ نہایت شفقت کے انداز میں حضور انور نے ان کی سمت میں ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا۔ بالآخر حضور انور اور جملہ ممبران قافلہ اس دورہ کے آخری مرحلے کے لیے جاپان روانہ ہوگئے۔ جہاں ایک ہفتے کے قیام کا پروگرام تھا۔
(ڈائری عابد خان دورہ حضور انور 28 اکتوبر تا 5 نومبر 2013)
ایک غیر احمدی فوٹوگرافر کا دلچسپ مشاہدہ
جب ہم اکٹھے بیٹھے تو وہ فوٹو گرافر جو Daily Telegraph سے تعلق رکھتا تھا،اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ حضور انور کے دفتر میں دوبارہ جا سکتا ہے تاکہ چند مزید تصاویر بنا سکے۔ میں نے انہیں بتایا کہ حضور انور اس وقت احمدیوں سے ملاقات فرما رہے ہیں اس لیے یہ ممکن نہ ہے۔جب میں نے ان سے یہ پوچھا کہ کیا انہیں حضور انور کی تصاویر بنانے کا موقع نہیں ملا تو انہوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ تصاویر بنا چکے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں حضور انور کا چہرہ ایسا خوبصورت اور پُرنور لگا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ چند مزید تصاویر بنائیں۔ جب میں نے یہ سنا تو مجھے فورا خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہےکہ چند لوگ سچائی کو سچے انسان کا چہرہ دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں۔اس جرنلسٹ کے تبصرے نے حضور انور کے وجہ ِمبارک کی خوبصورتی اور طلسمی کشش کو خوب عیاں کیا۔
(دورہ آسڑیلیا حضور انور2013 پہلا حصہ)
(مترجم : ابو سلطان)