• 26 اپریل, 2024

چٹوری جنگلی بکریاں

چٹوری جنگلی بکریاں
آئی بیکس جو کیلشیم کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالتی ہیں

جس شخص کو کسی چیز کی چاٹ لگ جائے اور اس کے ذائقے کا اسیر ہو اور مذکورہ چیز کے حصول کے لیے اپنی جان جوکھن میں ڈالے اور فضول خرچی کرنے لگے چٹورا کہلاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’چٹورا کھاوے اپنا گھر،بَٹورا کھاوے دونوں گھر‘‘ یعنی پیٹو چٹورا تو کھا پی کر صرف اپنا گھر اجاڑتا ہے لیکن جمع کرنے والا اپنا بھی اور دوسرے کا گھر بھی اجاڑتا ہے۔ اس مثل کا پہلا حصہ آئی بیکس یعنی جنگلی بکریوں پر خوب صادق آتا ہے۔ بادی النظر میں ان بکریوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ڈیم کی عمودی دیوار پر باآسانی چڑہ سکتی ہیں۔بنیادی طور پر یہ سبزی خور جانور ہیں لیکن ان چٹوری بکریوں کو نمک کی لت لگ گئی ہے۔یہ گرمیوں میں اپنا زیادہ وقت جنگل میں گھاس پھوس چرنے میں گزارتی ہیں تاکہ سردیوں کے لیے اپنے جسم میں کافی چربی جمع کر لیں۔ بالعموم نر کا وزن 100 کلو اور مادہ 50 کلو تک ہوتی ہیں۔نر اور مادہ الگ الگ رہتے ہیں اور صرف دسمبر،جنوری میں افزائش نسل کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔

اٹلی میں واقع سنگینو ڈیم اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ڈیم کے اطراف میں رہنے والی جنگلی بکریوں (آئی بیکس) کو ڈیم کی 161 فٹ اونچی عمودی دیوار پر چڑہے ہوئے دیکھا گیا۔ایک شخص نے ان کی وڈیو بنا کر یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی۔

ڈیم کی دیواریں بنانے لیے استعمال کی گئی چٹانوں پر پانی میں حل شدہ منرل کی تہ جم جاتی ہے۔یہ منرل کیلشم پر مشتمل ہوتے ہیں جو ان جنگلی بکریوں کو صحت مند رکھنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں۔کیلشیم سے بھرپور یہ نمک ان کی ہڈیوں اور پٹھوں کی نشونما اور ان کے نروو سسٹم کے لیے بہت ضروری ہے۔ جس کے حصول کے لیے ان بکریوں کو ڈیم کی سینکڑوں فٹ اونچی دیوار پر چڑھنا پڑتا ہے۔ پالتو جانوروں کو خوراک کے ساتھ الگ سے نمک دیا جاتا ہے لیکن جنگل میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں اور جنگلی گھاس سے کیلشیم کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اس لیے آئی بیکس ڈیم کی دیواروں پر لگا نمک چاٹنے کے لیے دیوار پر چڑھتی ہیں۔انہیں موسم بہار میں کیلشیم کی طلب زیادہ ہوتی ہے۔ ڈیم کی بلند و بالا تقریباً عمودی دیوار پر انہیں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا پڑتا ہے اور چند سینٹی میٹر کے غلط اندازے کا مطلب صرف موت ہے۔

مادہ آئی بیکس بچوں کو اپنے ساتھ لے کر ڈیم کی دیواروں پر چڑھنے کا عملی مظاہر کرتی ہے۔ بچے ماں کے قدموں کی پیروی کرتے ہوئے دیورا پر چڑھتے ہیں۔ ماں کے ساتھ دیورا پر چڑھنے کی مشق سے کچھ ہی دنوں میں بچے دیوار پر چڑھنا سیکھ لیتے ہیں اور ماں کے محتاج نہیں رہتے۔

انہوں نے اپنی پہاڑ سر کرنے کی قابلیت کو کمال مہارت سے ڈیم کی دیوار پر چڑھنے میں استعمال کیا ہے۔ ان کے کھروں کی بناوٹ ایسی ہے کہ دیوار کے ساتھ ناکافی جگہ پر بھی بہت اچھے طریقے سے اپنا توازن قائم رکھ سکتے ہیں۔حتیٰ کہ چٹانوں کے جوڑوں پر لگے ابھرے ہوئے سیمنٹ پر جہاں صرف چند سینٹی میٹر جگہ ہو یہ آرام سے پاؤں جما لیتی ہیں۔

مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی کہ نروں کے مقابلہ میں مادہ آئی بیکس ہی زیادہ تر ڈیم کی دیوار پر چڑھتی ہیں۔ اس کی حتمی وجہ تو معلوم نہیں البتہ نر آئی بیکس کے سینگ مادہ کے مقابلہ میں زیادہ بڑے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں ڈیم کی دیوار پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے نمک چاٹنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں زیادہ کیلشیم کی ضرورت ہی نا ہو۔

ڈیم توانائی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہونے کے باوجود قدرتی ماحول کو تباہ کرنے اور زمین کی تزئین کو بگاڑنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن قدرت نے انسانی دست برد سے متاثر ماحول میں اپنی مخلوق کو فائدہ پہنچانا بھی سکھایا ہے۔ ڈیم کی دیواروں سے نمک چاٹتی ہوئی بکریاں اس کی ایک بہترین مثال ہیں۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین مارچ 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات