• 6 مئی, 2024

رمضان، اونٹ کی کوہان اور ہمارا بنک بیلنس

رمضان کے آغاز سے دو دن قبل خاکسار اپنے پُرانے کاغذات ترتیب دے رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا نوٹ میرے ہاتھ لگا جو میرے بہت ہی پیارے دوست مرحوم قریشی محمد کریم صاحب کی تحریر بعنوان ’’اونٹ کی بناوٹ میں حکمت‘‘ پر مشتمل تھا ۔خاکسار نے اپنے مرحوم بھائی کا یہ نوٹ پڑھا اور بار بار پڑھاجو معلومات میں اضافے کے لئے ہدیہ قارئین ہے۔

اونٹ کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘؟ اونٹ کے جسم کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں ۔اس بے ڈھنگی صورت کے ساتھ اس کی پیٹھ پر کوہان بھی ہوتا ہے ۔

کوہان اصل میں خوراک کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے جو چربی کی شکل میں جمع ہوتا رہتا ہے ۔اونٹ کو ریگستان کا جہاز بھی کہا جاتا ہے۔ ریگستان میں خوراک اور پانی کی بہت کمی ہوتی ہے ۔سفر کے دوران بسا اوقات اونٹ کو کئی کئی دن تک کھانے کو کچھ نہیں ملتا اس وقت وہ اپنے کوہان سے مدد لیتا ہے اور اس میں جو چربی جمع ہوتی ہے اس کو استعمال کر لیتا ہے ۔

اونٹ کی دو قسمیں ہیں ۔ایک قسم عربی اونٹوں کی ہوتی ہے جن کی پیٹھ پر صرف ایک کوہان ہوتا ہے۔دوسری قسم بختیاری اونٹوں کی ہے جن کی پیٹھ پر دو کوہان ہوتے ہیں۔ سائنس دان اونٹ کو زرافے اور ہرن کا رشتہ دار کہتے ہیں لیکن جہاں تک بوجھ اٹھانے اور انسان کی خدمت کرنےکا تعلق ہے۔ اونٹ کے یہ رشتہ دار تو بچ گئے مگر اونٹ بے چارہ نہ جانے کس زمانے سے یہ فرض ادا کر رہاہے۔‘‘

چونکہ رمضان بھی سر پر ہے اور اس حوالہ سے تربیتی مضامین کے لئے بھی سوچ بچار جاری ہے اور اس کے لئے اپنے اللہ تعالیٰ سے مدد کا بھی طلبگار تھے اس نوٹ کے ہاتھ لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک حدیث ذہن میں ڈال دی جس میں آنحضور ﷺ نے رمضان کے آخری حصّہ کو اونٹ کی کوہان سے مشابہت دی ہے جس طرح اونٹ ریگستان میں (جہاں پانی اور خوراک کی کمی رہتی ہے) مسلسل بوجھ لئے چلتا ہے اور خوراک یا پانی کی کمی کو کوہان میں کئے گئے ذخیرہ سے پوری کرتا ہے اسی طرح رمضان میں بھی ایک مومن روحانی ذخیرہ اکھٹا کرتا ہے جو سال بھر اس کے کام آتا ہے آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے اِذَا سَلِمَ الرَّمْضَانُ سَلِمَتِ السَّنَۃُ کہ جب رمضان بخیریت سے گزر گیا تو سمجھیں کہ سارا سال بخیریت گزر گیا ۔

ایک مومن رمضان کے آغاز سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں اور فضلوں کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے لیکن رمضان کے آخری حصہ میں وہ ان برکات سے جھولیاں بھرنے کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اب چند دن رہ گئے ہیں وہ ان برکتوں سے مستقبل میں فائدہ اُٹھانے کے لئے بنک بیلنس (bank balance) کے طور پر جمع کرتا ہے ۔

ہم نے عموما ًدیکھا ہے کہ ایک کسان فصل کاٹنے کے لئے صبح سویرے اپنے کھیت میں جاتا ہے اور آرام آرام سے کٹائی کا آغاز کرتا ہے مگر جونہی دن ڈھلتا ہے (جسے گوڈا لگنا کہتے ہیں) اس کسان کے کام میں تیزی آجاتی ہے وہ جانتا ہے کہ سورج غروب ہونے تک میں نے نہ صرف کٹائی مکمل کرنی ہے بلکہ میں نے اس کو سنبھالنا بھی ہے ۔کہیں رات بارش کی وجہ سے سارا اندوختہ خراب ہی نہ ہو جائے یا کوئی چور ہی نہ اچک کر لے جائے ۔بعینہ ایک مومن رمضان کو گوڈا لگنے کو بعد روحانی فصل کی کٹائی میں تیزی لے آتا ہے اور پھر روحانی اندوختے و ذخیرے کو سنبھالنے کے لئے نوافل اور تسبیح کی باڑ لگاتا ہے ۔تاکہ کوئی شیطان اُچک کرنہ لے جائے کیونکہ چور اور شیطان ہمیشہ ایسی ہی جگہوں پر نقب لگا نے کی کوشش کرتے ہیں جہاں انہیں ذخیرہ نظر آئے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مومنین کو اس رمضان المبارک میں حقیقی معنوں میں اپنے خالق حقیقی کی عبادت کر کے اونٹ کی کوہان میں خوراک کے ذخیرہ کی طرح اپنے بنک بیلنس کو بڑھانے کی توفیق دے تا اس سے ہم خود بھی اور ہماری نسلیں بھی مستفیض ہو سکیں۔

(ابوسعید)


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر 16، 02۔ مئی 2020ء