آج مجھے وہ بہادر، جفا کش، نڈر، باحیا، باہمت، پُر وقار، ایماندار، نیک سیرت، پارسا اور بااصول خاتون یاد آرہی ہیں جو 24 یا 25 سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ جنہوں نے 3معصوم بچوں 2بیٹوں اور ایک بیٹی کو اللہ پاک کے سہارے محنت، ہمت اور بہادری سے پالا۔ پروش کی، پڑھایا لکھایا اور معاشرے میں عزت سے رہنے کے قابل بنایا ۔ وہ خاتون محترمہ صالحہ فاطمہ مرحومہ اہلیہ چوہدری غلام محمد مرحوم میری اُمی جان کی بڑی بہن تھیں اور میری بہت پیاری خالہ تھیں۔ اس لحاظ سے بھی وہ میری محترم تھیں کہ میں نے قرآن کریم ناظرہ اور بہت سی دعائیں اُن بزرگ ہستی سے ہی سیکھیں۔ ان کے بڑے بیٹے چودھری سمیع اللہ صاحب (شفا میڈیکوز لاہور) کا انتقال ہو چکا ہے جنہوں نے گھر کے ذمہ داریاں اُ ٹھائیں وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ خلق ِ خدا سے حسن ِ سلوک ان کی بہت بڑی خوبی تھی۔
ان کے چھوٹے بھائی چودھری فاروق احمد بیان کرتے ہیں۔
’’میرے والد صاحب کی اچانک وفات ہوئی جب کہ ہم تینوں بہن بھائی بہت چھوٹے تھے چھوٹی بہن غالباً کچھ ماہ کی تھی۔ والد صاحب سکول ٹیچر تھے۔ وفات کے وقت جو ترکہ چھوڑا وہ 4 ہزار روپے اور دو کنال زمین تھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میرے ماموں عبد الرحیم (درویش) کی مدد سے اماں جی نے اُس زمین پر ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا جو ہمارا اپنا گھر بن گیا ۔ بچے چھوٹے تھے آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ میرے نانا جی اور ماموں سب بزنس کرتے تھے سو میری والدہ صاحبہ نے بھی اپنے بھائی کی مدد سے گھر پر ہی کپڑے کا چھوٹا سا کاروبار شروع کر دیا اور ایک عدد بھینس رکھ لی جس کے دودھ سے کچھ آمدن ہو جاتی اس طرح سے ہماری دال روٹی چلتی رہی ۔
ان مختصر وسائل سے گھر کے اخراجات چلانے میں بہت مشکل رہتی۔جب بڑے بھائی جان نے میٹرک کا امتحان دے دیا تو اماں جی نے بھائی جان کو کوئی کام کرنے کے لئے کہا۔ بڑی خالہ جان کے بیٹے نسیم سیفی (مربی ِسلسلہ و ایڈیٹر الفضل) اُن دنوں دہلی میں ملازمت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے بھائی جان سمیع اللہ صاحب کو اپنے پاس دہلی بلوا لیا ۔ ایک اخبار میں ملازمت کا اشتہار دیکھا اور بھائی جان وہاں انٹرویو کے لئے چلے گئے ۔انٹرویو لینے والا ایک انگریز تھا اُس نے بھائی جان کو کہا کہ یہ تو انٹر پاس کے لئے اشتہار ہے بھائی جان نے جواب دیا میرا جلدی رزلٹ آنے والا ہے۔ مجھے اپنی فیملی کی مدد کرنی ہے مجھے پیسوں کی بہت ضرورت ہے ۔اگر میں پاس نہ ہوا تو کام چھوڑ دوں گا۔ وہ اچھا بندہ تھا بھائی جان نے وہاں کام شروع کر دیا ۔رزلٹ آیا تو بھائی جان شاندار نمبروں سے پاس ہو گئے۔
75 روپے تنخواہ میں سے 35 روپے وہ خود رکھتے اور 40 روپے کا منی آڈر وہ ہمیں بھجوا دیتے ۔آپ نے لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک مکان کرایہ پر لیا ہوا تھا ۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی ۔ اکثر روٹی کی جگہ خالی بھنے ہوئے چنے کھا کر ہی گزاراکر لیتے تھے۔ 2 ماہ کی چھٹیوں میں بھائی جان نے مجھے اپنے پاس دہلی بلوالیا۔میرے کانوں میں تکلیف رہتی تھی بھائی جان نے ڈاکٹروں کے مشورہ کے بعد انگریز ڈاکٹروں سے ہی میرے کانوں کا آپریشن کروایا۔ جتنے دن میں وہاں رہا ہر وقت میرا خیال رکھتے،کچھ رقم رکھ دیتے کہ آئس کریم والا آئے تو لے کر کھا لینا ساتھ یہ نصیحت بھی کرتے کہ گھر سے دور نہیں جانا صرف دروازہ کے باہر تک جائیں،میں بھی اُن کا بھائی تھا جب یہ دیکھتا کہ وہ خود کتنی مشکل سے گزارا کر رہے ہیں میں بھی پانی والی رنگدار قلفی کھا کر اپنا دل خوش کر لیتا اور زیادہ خرچ نہ کرتا۔
قادیان میں ایک دن ہمیں تار موصول ہوا کہ بھائی جان کو سٹروک ہو گیا ہے اور وہ بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔ تار ملتے ہی اماں جی بہت سخت پریشان ہو گئیں اور فوری طور پر دو بکرے صدقہ دئیے۔میرے ماموں جان عبد الرحیم فوراً پہلی گاڑی سے دہلی روانہ ہو گئے۔ہسپتال پہنچنے تک الحمد للہ بھائی جان کو ہوش آ چکا تھا۔مگر اس واقعہ کے بعد اماں جی نے فیصلہ کیا کہ بھائی جان قادیان واپس آ جائیں۔بھائی جان کے واپس آنے سے اماں جی کو بہت سکون ملا۔قادیان آنے کے بعد بھائی جان کو ڈاکٹر مرزا منور احمد مرحوم نے ملازم رکھ لیا۔ڈاکٹر صاحب کا عطر کا کاروبار تھا اس کام کے لئے انہوں نے ایک دوکان ریتی چھلہ کے سامنے لے رکھی تھی ۔ یہاں چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں عطر بھرا جاتا تھا۔ بعض اوقات شیشیاں زیادہ ہوتیں تو بھائی جان گھر لے آتے جہاں میری ہمشیرہ اور والدہ صاحبہ مل کر کام کر دیتے۔
پاک و ہندتقسیم کے وقت جماعت کی طرف سے حکم ہوا کہ 313 صحت مند نوجوان قادیان میں ہی رہیں گے اور کسی قیمت پر بھی مسجد اقصیٰ،مسجد مبارک، مہمان خانہ اور بہشتی مقبرہ وغیرہ کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے۔ان 313 افراد میں میرے پیارے بھائی جان چودھری سمیع اللہ اور میرے ماموں عبد الرحیم شامل تھے۔ بھائی جان کو جماعت نے چند ماہ کے بعد پاکستان جانے کی اجازت دے دی کیو نکہ اُ نہوں نے ہماری دیکھ بھال کرنی تھی۔میں یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کے ہمارے بھائی نے ہمیں اتنا پیار دیا اور دیکھ بھال کی کہ اگر ہمارے والد صاحب زندہ ہوتے تو شائد وہ بھی نہ کر سکتے ۔اللہ تعالیٰ بھائی جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فر مائے۔ آ مین ثم آ مین۔
ہم رتن باغ لاہور سے چنیوٹ اور پھر پنڈی بھٹیاں آگئے ۔ بھائی جان چودھری سمیع اللہ صاحب نے لاہور میں ملازمت شروع کر دی میں نے میٹرک 1949ء چنیوٹ سے پاس کیا اور لاہور بھائی جان کے پاس آ گیا۔ بھائی جان دو موریہ پُل کے اُس پار ایک امریکن کھالوں کی کمپنی میں ملازم تھے ۔ میں نے چونکہ کامرس میں سر ٹیفکیٹ لیا تھا اس لئےمجھے ایک انگریز بینک Lloyds Banks میں ملازمت مل گئی۔
لاہور میں رتن باغ کے سامنے جودھا مل بلڈنگ میں ہماری رہائش تھی بھائی جان ملازمت کے لئے دو موریہ پُل جانے کے لئے میو ہسپتال کے چوک سے گزر کر جاتے تھے۔ یہاں چوک میں محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد پسر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓ کی شفا میڈیکو نامی دوائیوں کی ایک دکان تھی۔ کام پر جاتے ہوئےراستہ میں بھائی جان اس دکان سے اکثر دوائی خرید نے جاتے۔ اس کے مینیجر کا نام غلام محمد شاہ تھا۔یہ ایک نہات شریف النفس آدمی تھے ۔ ان سے بھائی جان کی اچھی دوستی ہو گئی ۔خاندان کے افراد بشمول ڈا کٹر مرزا منور احمد ربوہ منتقل ہو گئے تو یہ دکان فروخت کرنے کا ارادہ کیا گیا ۔ غلام محمد صاحب نے بھائی کو بتایا کہ میاں صاحب دکان بیچ رہے ہیں اور اس کی قیمت پانچ ہزار رکھی ہے۔ بھائی جان تو صرف 175 روپے کے ملازم تھے اتنا روپیہ اُن کے پاس نہیں تھا وہ جہاں ملازمت کرتے تھے وہاں کا مینیجر نہایت فرشتہ صفت انسان تھا ۔بھائی جان نے اُن سے درخواست کی کہ وہ مجھے 5 ہزار روپیہ اُدھار دے دیں وہ ہر ماہ قسطوں میں واپس کر دیں گے ۔ اُنہوں نے بھائی جان کو مطلوبہ رقم دے دی اور بھائی جان نے وہ شفا میڈیکو دکان خرید لی ۔کچھ عرصہ بعد غلام محمد نے بھی شفا میڈیکو سے ملازمت چھوڑ دی اور بھائی جان نے مجھے کہا کہ میں دکان سنبھالوں ۔چنانچہ میں نے بینک کی ملازمت چھوڑ دی اور دکان پر کام شروع کر دیا ۔ اس طرح 1957 ء تک وہ دوکان میرے پاس رہی۔ ستمبر 1957ء میں دکان بھائی جان کو واپس کرکے میں لندن چلا گیا۔1953ء کے فسادات میں بلوائیوں نے ہماری دکان شفا میڈیکو کا سارا سامان باہر سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی ۔
بھائی جان کو اللہ تعالیٰ نے شفا میڈیکو سے بہت کشائش دی اور ان کے دل میں دین کی خدمت کے ساتھ غریبوں،ضرورت مندوں کے کام آنے کا جذبہ بھی عنایت فرمایا تھا ۔ وہ بہت دردمند دل رکھتے تھے۔ لاہور میں ہماری جماعت میں جہاں بھی کہیں کسی کو ضرورت ہوتی اُس کی مدد کو پہلے پہنچ جاتے خاص طور پر جب اُن کی ایمبولینس کا کاروبار عروج پر تھا تو اکثر لوگوں کی میتوں کو بلا معاوضہ ہی ربوہ یا جہاں اُن کی تدفین مقصود ہوتی لے جانے کے لئے ایمبولینس دے دیتے۔
ہمارے ماموں زاد بھائی جان مکرم عبد الباسط شاہد (مربی سلسلہ) بھائی سمیع اللہ کی یاد میں لکھتے ہیں کہ
محترم سمیع اللہ بہت معاملہ فہم اور سمجھدار انسان تھے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دہلی میں ملازمت شروع کی ۔ 1944ء میں جلسہ مصلح موعود ؓ کے انعقاد کے وقت وہ ہمارے بڑے بھائی نسیم سیفی کے ساتھ ہی تھے۔ دہلی سے آنے کے بعد انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا ۔ میوہسپتال کے سامنے کیمسٹ کی دکان شفا میڈیکو کے نام سے شروع کی اور پھر اللہ کے فضل سے کاروبار میں خوب ترقی کی۔ کاروباری تجربے اور کامیاب کی وجہ سے تاجروں کی مشہور تنظیموں کے عہدیدار بھی رہے۔ اس زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ اس طرح ہے کہ آپ تاجروں کی ایک میٹنگ میں تھے جب ان کی مجلس ختم ہونے والی تھی تو کسی مسجد سے آذان کی آواز آئی اس پر اُن کے دونوں ساتھیوں نے باہم اشارہ سے کوئی بات کی جسے انہوں نے بھی دیکھ لیا اور سمجھ گئے کہ اشارے میں کیا کہہ رہے تھے۔بتایا کرتے تھے کہ اُس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جو اشارہ کیا ہے میں اس کامطلب سمجھ گیا ہوں ۔ آذان کی آواز سن کر آپ نے ازراہ ِ مذاق کہا ہے کہ میں احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھوں گا ۔
میں نے ان کی حیرانی دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ نے لوگوں سے بہت غلط باتیں ہمارے متعلق سن رکھی ہوں گی لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ میں اور طرح کا آدمی ہوں اور ابھی یہاں ہی نماز ادا کروں گا۔ وہ بتاتے تھے کہ ہم تینوں نے وضو وغیرہ کر کے نماز کی تیاری کی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو نماز پڑھانے کے لئے کہنے لگے مگر دونوں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ ’’مجھے تو نماز پڑھانی نہیں آتی‘‘ اس پر میں نے کہا کہ مجھے نماز پڑھنی اور پڑھانی آتی ہے۔ اُس پر ان دونوں نے مجھے امامت کرانے کے لئے کہا اور میری اقتدا میں نماز ادا کی ۔
مذکورہ دلچسپ بات تو خاکسار نے اُن سے سنی تھی مگر ذیل میں ایک بڑی مزیدار اور دلچسپ بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو ہماری کالجیٹ ایسوسی ایشن کے طالب علموں نے خاکسار کو سنائی۔ان طالب علموں نے جو میڈکل کے سٹوڈنٹ تھے بتایا کہ ایک دفعہ خیبر میڈیکل کالج کے طالب علم لاہور کی سیر کرنے کے لئے آئے۔ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اُن کو چائے کی دعوت پر بلایا۔نفرت، تعصب کی آ ندھیاں اتنی تیز نہیں تھیں جتنی آج کل ہورہی ہیں۔ انہوں نے ہماری دعوت مان لی ۔ اس سلسلہ میں ہمیں اخراجات کی ضرورت تھی جسے ہم مخیر حضرات سے چندہ اکٹھا کر کے پورا کرنے والے تھے ۔ اس سلسلہ میں ہم چودھری سمیع اللہ کے پاس گئے اور اپنا مقصد بتایا ۔ وہ ہم سے تفصیلات پوچھنے لگے تو ہم نے بتایا کہ ہم انہیں کالج کی ٹک شاپ پر چائے پلائیں گے اور سب کو قرآن مجید کا تحفہ دیں گے۔ اُس پر سمیع اللہ نے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کا تحفہ دے رہے ہیں آپ بتائیں کہ ’’آپ نے خود قرآن مجید پڑھا ہوا ہے؟‘‘ ہم اُنہیں تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو وہ کہنے لگے کہ اس کامطلب یہ ہوگا کہ یہ کتاب بہت اچھی ہے ۔ یہ تحفہ بہترین ہے لیکن ہم اس سے فائدہ نہیں اُ ٹھا رہے اس لئے آپ ہماری طرف سے یہ تحفہ لے جائیں اور اسے پڑھ کر اس سے دنیا اور آ خرت کے فوائد حاصل کریں ۔
اُنہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک ڈاکیہ کسی کا خط مکتوب الیہ کو پہنچاتا ہے مگر اسے علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔وہ طالب علم بتاتے ہیں کہ سمیع اللہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم قرآن مجید بالا لتزام پڑھو گے تو میں تمہیں تمہاری ساری پارٹی کا خرچ دینے کو تیار ہوں۔ ہم نے اُن سے وعدہ کیا وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ کالج کی ٹک شاپ کے بجائے آپ شیزان میں چائے پلائیں اور مجھے خرچ کا اندازہ بتادیں میں آپ کو سارا خرچ دے دوں گا ۔
محترم سمیع اللہ خدمت خلق کے بہت سے کام بہت خاموشی سے کیا کرتے تھے ۔ اپنے کار خانے کے کاریگروں سے حسن سلوک کرتے اور بھی جہاں اور جب موقع ملے بے لوث خدمت کرتے قرآن بڑے اہتمام سے پڑھاتے بلکہ حسب، عادت درس بھی دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ چودھری سمیع اللہ کی مغفرت فر مائے آپ بہت با برکت وجود تھے۔ آ مین
ہماری ماموں زاد بہن امۃ الباری ناصر اپنی یادوں کو یوں بیان کرتی ہیں کہ
بھائی جان سمیع اللہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں اُن کی یادوں میں، مَیں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہوں، اپنے اس بھائی کے بارے میں اپنے گھر میں اچھا تذکرہ سنا تھا کہ انہیں خدمت خلق کا شوق ہے۔ بچوں کا سکول بھی اپنے خرچ پر کھولا تھا ، شفا میڈیکو کے مالک جو اپنے اُونچے معیار کی وجہ سے مشہور و معروف اور کاروبار کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں،محنت اور دیانت سے کاروبار دوسرے ملکوں تک بڑھاتے جا رہے ہیں۔دینی علم بھی ہے ، اپنے نماز سینٹر میں درس قرآن دیتے ہیں، اسی طرح کی اچھی اچھی باتیں ہمارے گھر میں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔ جب ان کے والد صاحب اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر وفات پا گئے تو میرے اباجان مکرم عبدالرحیم درویش قادیان اور خاندان کے دوسرے مہر بانوں نے حتی المقدور ان کا خیال رکھا ۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے سے بھائی سمیع اللہ صاحب نے اپنی والدہ اور چھوٹی بہن اور بھائی کی ذمہ داری اُٹھائی۔جب میں لاہور میں پڑھتی تھی تو پھوپھی جان کو ملنے جاتی تھی مگر یاد نہیں کہ کبھی بھائی جان سے ملاقات ہوئی ہو ، ملاقات تو یاد نہیں لیکن دو دفعہ ان کی ضرورت پڑی تو خوش دلی سے کام آ ئے جس کے لئے ہم شکر گزار دل کے ساتھ اُن کے لئے جزائے خیر کی دعا کرتے ہیں ۔
1967ء میں ناصر کی ٹرانسفر کراچی سے لاہور ہوئی تو رہنے کے لئے سرکاری رہائش گاہ ملنے سے پہلے کرایہ کا گھر لینا پڑا جو گڑھی شاہو میں اپنی مسجد کے قریب ملا ۔ ہماری اماں ( ناصر صاحب کی والدہ صاحبہ) اِن کا ایک بھا نجا، ہمارے دو بچے اس مکان میں رہنے لگے ۔ اس جگہ آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ اماں بیمار ہو گئیں ۔ صحت پہلے ہی کمزور تھی ہر ممکن علاج معالجہ جاری تھا مگر اُ نہیں مولا کریم کا بلاوا آ گیا ۔ اپریل کی 16 تاریخ تھی جب رات کو حالت خراب ہونے لگی ناصر صاحب نے فوراًہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا، مگر لےکر کیسے جائیں، اس وقت بھائی جان سے ایمبولنس کے لئے کہا جو اُ نہوں نے فوراً بھجوا دی اماں کو ہسپتال لے کر گئے خیال تھا کہ وہ داخل کر لیں گے اس لئے واپسی جلدی متوقع نہیں تھی، میں گھر میں اکیلی تھی اماں کی حالت سے افسردہ بھی تھی اور ڈر بھی لگ رہا تھا، سو بھی نہیں سکی کہ اتنے میں دروازہ کھٹکا کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو ایمبو لنس واپس آ گئی تھی۔ اماں اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھیں ۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
دوسرا واقعہ 1969ء کا ہے ہم لاہور سمن آباد میں رہتے تھے۔ میرے بھائی جان مکرم عبد الباسط صاحب شاہد تبلیغ کے لئے افریقہ گئے ہوئے تھے ۔ بھابی جان اور بچے ربوہ میں تھے۔ ناصر صاحب کسی کام کے لئے سرگودھا گئے تو واپسی پر ربوہ میں رُکے ۔ اُنہیں خیال آیا کہ بچوں کو چھٹیاں ہیں کیوں نہ بھابی اور بچوں کو ساتھ لے جاؤں ان کی بھی سیر ہو جائے گی۔ وہ بھی خوشی سے تیار ہو گئے امی جان بھی اُن کے ساتھ ہی تھیں ۔ اُمی جان کے آنے کی بہت خوشی تھی پھر کچھ عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے بھابی کو ننھا وسیم بھی عطا فرمایا تھا اسے دیکھنے کا بھی شوق تھا۔ آمد کی اطلاع ملتے ہی میں نے مہمانوں کے لئے تیاری شروع کر دی ۔ سارے کام خود ہی کرنے ہوتے تھے ،ایکدم مصروف ہو گئی۔ بھابھی اور بچوں کے آنے سے رونق ہو گئی بچے آپس میں کھیلنے لگے میں نے دیکھا کہ پیارا سا وسیم خود اپنے ہاتھوں میں بوتل پکڑے دودھ پی رہا تھا۔ خیال تھا کہ سب کو کھانا کھلا کر فارغ ہو کر آرام سے بیٹھ کر ا سے پیار کروں گی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں کسی کام سے کمرے میں آئی تو دیکھا کہ ننھے وسیم کے ہونٹوں اور ناخنوں میں نیلاہٹ سی ہے۔ گھبرا کے بھابی کو بتایا ، فوراً بچے کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بچہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اِنَّاللّٰہ و انِّا الیہ راجعون
یہ اتنی اندوہ ناک بات تھی کہ ہم سب سہم گئے کہ چند گھنٹوں میں کیا سے کیا ہو گیا ۔ اُمی جان اپنے پوتے کو گود میں چھپائے بیٹھی تھیں جیسے کوئی چھین کر نہ لے جائے ۔ ناصر صاحب کو چھٹی نہ تھی ٹرین پر جا نہیں سکتے تھے ایسے میں بھائی جان سمیع اللہ صاحب کو فون کیا ، اُنہوں نے اُسی وقت شفا میڈیکوز کی ایمبولینس بھیج دی۔ صبح کی اذان کے ساتھ سب واپس ربوہ پہنچ گئے ۔ بچے کی تدفین کا انتظام ہو گیا اس موقع پر بھائی جان سمیع اللہ کے کام آنے سے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ناصر صاحب نے بھی اُن کا شکریہ ادا کیا ان کے اصرار کے باوجود دونوں مواقع پر ہم سے کوئی کرایہ نہیں لیا ۔ اللہ پاک مرحوم بھائی کو غریق رحمت فر مائے ہر حُسن سلوک کا بہت بڑھا کر اجر عطا فرمائے۔ آمین
میرے بھائی عزیزم اسلم خالد نے اپنی یادوں کو یوں بیان کیا ۔
ہم نے جب ہوش سنبھالاتو بھائی جان سمیع اللہ کو کسی نہ کسی طرح اپنے سے محبت و شفقت کا سلوک کرتے پایا ۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خالہ جی کے دونوں بیٹے سمیع اللہ اور بھائی فاروق میرے اباجان اور میری اُمی جان سے بہت محبت کرتے تھے۔ باپ نہ ہونے کی وجہ سے میرے اباجان بھی اُن کے ساتھ ہمیشہ شفقت بھرا سلوک کرتے تھے ۔ جب میرے اباجان کارو بار کی وجہ سےملک سے باہر چلے گئے تو اِن بھائیوں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ پیار بھرا سلوک ہی رکھا۔ہم اکثر لاہور ان کے گھر جاتے اور وہ بھی ربوہ میں ہمارے مہمان بنتے ۔
ایک دو بار لندن آپ بھی آئے اورہمارے گھر ہی رہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے ملاقات کی۔ وہاں مسجد فضل کے احاطہ میں پھر رہے تھے کہ ربوہ کے ہمارے پڑوسی حمید لائلپوری جن کے ساتھ ہمیشہ بھائیوں والا ہی تعلق رہا نے مجھ سے پوچھا خالد وہ کون شخص ہے، اشارہ بھائی سمیع اللہ کی طرف تھا ۔ میں نے اُن کو بتایا کہ یہ شفا میڈکو والے سمیع اللہ صاحب ہیں اور میرے کزن ہیں ۔ کہنے لگے میں نے اِن کا شکریہ ادا کرنا ہے ، مجھے بات بتائے بغیر بھائی جان کو ملے اور ان کو یاد کروایا کہ ایسے میں لندن سے ربوہ اپنے بھائی مجید کی بیماری کے سلسلہ میں پاکستان گیا ہوا تھا۔ اُسے ہم لاہور لے کر گئے جہاں اُس کی وفات ہو گئی۔ اب باڈی کو ربوہ لے جانے کا کوئی انتطام نہیں ہو رہا تھا ، مجھے آپ کا بتایا گیا کہ آپ کی ایمبولینس سروس ہے ۔ میں نے آپ کو اپنا تعارف کروایا کہ میں ایسے ربوہ سے آیا ہوں اور خالہ جی حلیمہ جو کہ آپ کی خالہ ہیں اُن کا پڑوسی ہوں مجھے اپنے بھائی کے لئے ایمبولینس چاہئے ۔ آپ نے اپنے ڈرائیور کو بلا کر میرے ساتھ جانے کو کہا۔ ربوہ پہنچ کر میں نے معاوضہ دینے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے کہا کہ چودھری صاحب نے رقم لینے سے منع کیا تھا ۔حمید صاحب نے کہا کہ میں آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے صرف خالہ جی کا نام لینے سے اتنا خیال کیا ۔ یہ ساری بات سُن لینے کے بعد سمیع اللہ صاحب کا جواب تھا ‘‘اچھا مجھے تو کچھ یاد نہیں ’’ بھائی سمیع اللہ کے کام کرنے کی مثال ایسی تھی کہ نیکی کر اور دیا میں ڈال ۔
وسیم احمد ظفر مبلغ انچارج جماعت احمدیہ برازیل جو میرے خالہ زاد بھائی ہیں ان کے ذکر میں لکھتے ہیں۔
1965ءمیں جب میں نے ہوش سنبھالہ تو اُس وقت گھر میں جن کا ذکر خیر سننے میں آتا رہا اُن میں ایک بھائی جان سمیع اللہ مرحوم تھے۔ آپ جلسہ سالانہ پر اور آگے پیچھے جب بھی ربوہ آتے ہمارے گھر ٹھہرتے گو کہ تب میں بہت چھوٹا تھا لیکن ابھی تک وہ نظارہ آنکھوں کے سامنے ہے جب آ پ اپنی ایمبولینس میں کبھی دوائیاں اور کبھی ہسپتال کا سامان لاتے اور فضل عمر ہسپتال کو عطیہ دیتے اور کبھی اپنے غیر احمدی عملہ کو لاتے اور ربوہ دکھاتے ۔ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو اور ستاری کے دامن میں ڈھنکتے ہوئے آپ کے درجات بلند فر مائے۔ آمین
اب میں بھائی جان سمیع اللہ کا اپنے ساتھ کئے ہوئے حُسنِ سلوک کے بارے میں کچھ لکھتی ہوں۔ احسان مندی کا اظہار لفظوں میں کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر اب میں یہی کرسکتی ہوں کہ ان کے کار خیر کا ذکر کرکے دعا کروں اور دعا کی درخواست کروں۔
آپ نے بہت سے یتیم بچوں اور بیوؤں کے وظائف لگائے ہوئے تھے۔سکول کھولے ،یہاں تک کے یتیم اور مستحق بچوں کو یونیفار م بنوا کر دیتے اور تعلیم بھی مفت ہی دلواتے۔ بیواؤں کے لئے رہنے کے لئے کوارٹر بنوائے جہاں بہت کم کرایہ پر اُن کی رہائش کا انتظام کیا گیا۔ میری عمر کوئی 12 یا 13سال ہوگی جب میں اپنی تائی کے ساتھ لاہور میں رہتی تھی یہ جوائنٹ فیملی تھی اُس میں میرے بڑے تایا جی اور اُن کی فیملی بھی تھی ایک دن میرے تایاجی کی سالی کی وفات ہو گئی۔ اُن کی میت لاہور سے اُن کے شہر لے کر جانی تھی میرے تایا جی نے مجھے ساتھ لیا اور بھائی جان سمیع اللہ کے پاس گئے اور ایمبولینس کی درخواست کی جو اُنہوں نے اُسی وقت دے دی۔ مجھے وہ سفارش کے لئے لے کر گئے کہ سمیع اللہ صاحب میرے کزن ہیں میری وجہ سے اُن کو ایمبولینس مل جائے گی ۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں اگر وہ مجھے ساتھ نہ بھی لے کر جاتے بھائی جان نے پھر بھی اُن کا کام کر دینا تھا ۔ مجھے تو اتنا شعور بھی نہیں تھا کہ مجھے یہ کیوں ساتھ لے کر جارہے ہیں ۔
پھر ایک واقعہ اس طرح ہے کہ میری عمر کوئی 14 یا 15 سال کی ہوگی کہ ربوہ میں ہمارے دور کے رشتہ دار کی وفات ہو گئی۔ اُس وقت اُن کے بچے بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ ہماری خالہ جی اور اپنے بیٹے سمیع اللہ صاحب کے ساتھ شائد افسوس کے لئے ہی آئے ہوں گے ۔ باتوں باتوں میں نہ جانے میں نے کیسے کہہ دیا بھائی جان اگر آپ ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں تو ضرور کریں (شائد یہ بات میں نے سرسری طور پر کی ہوگی مَیں کوئی اتنی سمجھدار نہیں تھی کہ مشورہ دیتی) لیکن میرے بھائی نے میری بات کی لاج رکھی اور مجھے یاد نہیں کہ کب تک اُن کا وظیفہ لگا رہا ۔ بھائی جان موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ اُن کو کوئی نیکی کا موقع ملے اور وہ کر گزریں ۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی ہم سب بڑے ہوگئے سب کی شادیاں ہو گئیں۔میں شادی کے بعد پشاور چلی گئی، بچے ہوگئے ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔سامی صاحب کی اچھی نوکری تھی مگر پھر بھی جب دو بچے ہو گئے تو سوچا ملک سے باہر جاکر قسمت آزمانی چاہئے۔ اباجی یعنی سامی کے والد صاحب ہمارے پاس پشاور آئے ہوئے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے سامی کو بلایا اور کہا کہ تم نے ایک بار ملک سے باہر جانے کا سوچا تھا میرا خیال ہے اگر اب بھی تم جانا چاہتے ہو تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں ۔ ہم پشاور میں رہتے تھے روزانہ ہمسایوں میں سے کسی نہ کسی کو براستہ افغانستان ملک سے باہر جاتے دیکھتے تھے سامی صاحب نے بھی اس راستے باہر جانے کا پروگرام بنا لیا ۔ میں اپنی اُمی جان کے پاس ربوہ منتقل ہوگئی ۔سامی صاحب افغانستان، ایران، ترکی، بلغاریہ، اٹلی سے ہوتے ہوئے تقریباً 3ماہ کی مسافت کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جرمنی پہنچ گئے۔ ہمیں احمدی ہونے پر فخر ہوتا ہے کہ ہر جگہ ہمارے مشن ہاؤس ہوتے ہیں جو ہمارے گھر کی طرح ہی ہوتے ہیں۔سامی صاحب جاتے ہوئے جماعت کی طرف سے ایک ایسا خط لیکر گئے تھے کہ کچھ دن مشن ہاؤس میں قیام کر سکیں۔وہاں ایک سامی نہیں وہاں تو اور بھی سامی صاحب جیسے پناہ لئے ہوئے تھے اور حکومت کی طرف سے یہ اجازت نہیں تھی کہ آپ اس طرح لوگوں کو رہائش کیلئے مسجد میں رکھیں۔اس لئے سامی صاحب کو بھی مربی صاحب نے اپنا ٹھکانا ڈھونڈنے کے لئے کہہ دیا جو ان کے لئے بہت مشکل تھا۔کہتے ہیں کہ میں نے ہر طرح کی کوشش کر لی لیکن کچھ بن نہ پایا۔پھر ایک دن اللہ تعالیٰ کے آگے مسجد میں سجدہ ریز تھا اپنے پیارے ربّ سے التجا کے بعد سلام پھیرا تو حیران رہ گیا کہ ایک ایسا چہرہ نظر آیا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ اُن کو دیکھ کر پہلے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا ۔جب غور سے دیکھا تو میرا دل اُچھل کر میرے حلق تک آ گیا اور میں دھیرے سے اُ ٹھا اور اُن کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔ پہلے تو اُنہوں نے مجھے پہچانا نہیں کیونکہ میں سفروں کا تھکا ہوا پریشانیوں کا مارا ہوا تھا۔ میں نے سلام کے بعد اپنا تعارف کروایا اُنہوں نے پہچان کر گلے لگایا اور خیریت پوچھی اور کہا تم یہاں کیسے ؟ کہتے ہیں میں تو تنکے کا سہارا ڈھونڈ رہا تھا یہ تو میرے لئے شہتیر تھے۔ یہ تھے میرے خالہ زاد بھائی سمیع اللہ ۔ساری دنیا میں اُن کے بہت بڑے بڑے بزنس تھے وہ ساری دنیا میں بہت آسانی سے سفر کرسکتے تھے۔ کہتے ہیں میں نے اپنی ساری بات بتائی تو سب سُن کر بولے بتاؤ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں ؟ میں نے کہا آپ بتائیں میں کیا کروں ؟ سامی کہتے ہیں اُن کا جواب سُن کرمیرا دل اندر سے اُچھل پڑا بھائی جان نے کہا میں تمہیں لندن لے جاتا ہوں۔مَیں اُن کا منہ دیکھتا رہ گیا کہ اتنی بڑی بات جو میں دل سے چاہتا تھا مگر یہ میری سوچ سے بھی باہر تھا ، میں فوراً بولا اگر یہ ممکن ہے تو مَیں تیار ہوں ۔بولے ہے تو مشکل لیکن میں کل شام لندن جا رہا ہوں تم تیار رہنا ۔ اُن دنوں ائیر پورٹ سے ہی ویزا لینا ہوتا تھا ، مجھے ویزے سے انکار ہو گیا مگر میں نہیں جانتا کہ پھر کیسے بھائی جان نے میرا ویزہ لگوایا اور اس طرح میں بہت جدوجہد کے بعد ایک مشفق اور مہربان کی وجہ سے لندن کی سر زمین پر پہنچ گیا۔ الحمد للہ
یہ ساری تفصیل سامی صاحب نے مجھے بتائی تو میں نے ربوہ سے لاہور بھائی جان کو شکریہ کا فون کیا تو بولے شکریہ کی کیا بات ہے میرا فرض تھا ،اپنی بہن کے لئے کچھ کیا مجھے خوشی ہوئی ۔
سامی صاحب کو گئے ہوئے تقریباً ایک سال سے زیادہ ہو گیا تھا اور میں 3بچوں کے ساتھ پاکستان میں تھی ،ہماری ہر وقت یہی تکرار ہو تی کہ ہمیں کب بلائیں گے ؟ کیونکہ میں امیگریشن کے معاملات کو بالکل بھی نہیں سمجھتی تھی کہ وہاں سامی صاحب کِن حالات میں ہیں اور وہ کیوں ہمیں نہیں بلا سکتے ۔سامی مجھے کہتے میں نہیں بلا سکتا تم بھائی جان سمیع اللہ کے پاس جاؤ اور اُن سے ہی مدد لو۔ جب کوئی سمجھ نہ آئی تو میں پھر اپنے بھائی سمیع اللہ کے پاس گئی ۔ یہاں میں ایک بات ضرور لکھنا چاہوں گی جب سامی صاحب کی بھائی جان سمیع اللہ صاحب نے مدد کی اُس وقت بھی اور جب میں اُن کو ملنے گئی ہم دونوں بہن بھائی میں کچھ عرصہ سے ناراضگی چل رہی تھی ۔ مگر میں اُن کے بڑے پن کو سلام کرتی ہوں اور آج بھی نمازوں میں اُن کیلئے دعا کرتی رہتی ہوں اُنہوں نے سب باتوں کو بھلا کر پہلے سامی کی اور اب پھر میری مدد کی حامی بھر لی۔ جب میں بھائی جان کے پاس گئی پہلے تو بہت غصہ سے مجھے دیکھا پھر کہنے لگے تم میری ایسی بہن ہو جس کو ناراضگی کے باوجود اُس کی کسی بات کو نہیں ٹال سکتا بولو کیا چاہتی ہو ؟ میں نے اپنی بات اُن کے سامنے رکھی ۔ نہیں جانتی بھائی جان نے کیسے اورکن لوگوں سے بات کی مجھے آج تک نہیں علم کہ سب کچھ کیسے ہوا کیونکر میرے کاغذات مکمل ہوئے ۔ خود سے کرایہ کا بھی انتظام کیا اور مجھے جہاز میں سوار کروا دیا ۔ بھائی جان خود تو ائیر پورٹ پر نہیں آئے مگر گھر سے اپنی کار میں ہی رخصت کیا۔
مَیں آج جو بھی ہوں اور میرے سب بچے جس بھی پوزیشن میں ہیں ان سب میں میرے بھائی جان محترم سمیع اللہ کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ بھائی جان ہمیشہ میری دعاؤں میں رہتے ہیں ۔ زندگی کی گاڑی چلتی رہی پھر میں اُس مقام پر آ کھڑی ہوئی جب سامی صاحب کی اچانک بیماری اور اُن کی وفات ہو گئی یہ بہت مشکل گھڑی تھی ۔ خالد نے بھائی جان کو بھی اطلاع دی کہ سامی صاحب کی وفات ہو گئی ہے ۔ سچ پوچھیں اُس مشکل کی گھڑی میں میرے بھائی کا جواب تھا ۔
’’صفیہ کس حال میں ہے اُس کو کسی قسم کی اگر ضرورت ہو تو مجھے بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ اُس کے بچوں کے پاس جاب وغیرہ ہیں کچھ بھی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں’’ الحمد للہ مجھے کسی مدد کی ضرورت تو نہیں تھی مگر ایسے وقت میں بھی اُنہوں نے اپنی بہن کو اکیلے نہیں چھوڑا اور فوراً مدد کے لئے آ گئے ۔اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے ۔آ مین
الفضل انٹر نیشنل یکم دسمبر 2017ء تا 7 دسمبر 2017ء کے میں اُن کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔
مکرم چوہدری سمیع اللہ (شفا میڈیکو۔لاہور)
29 مئی 2017ء کو 88 سال کی عمر میں وفات پا گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون آپ حضرت میاں فضل محمدؓ آف ہرسیاں صحابی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نواسے تھے۔ آپ لاہور کے میوہسپتال کے قریب شفا میڈیکو کے نام سے ایمبولینس مہیا کرتے تھے۔ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان کی وفات پر بھی آپ نے ایمبولینس مہیا کی تھی اور خود ہی اُسے ڈرائیو بھی کیا تھا۔ مرحوم بیواؤں اور یتیموں کی مالی مدد کرنے والے، بہت نیک، مخلص اور باوفا انسان تھے۔ پسماندگان میں ایک بیٹی ڈاکٹر سامعہ ڈار اور بھائی مکرم فاروق احمد (حال امریکہ) یاد گار چھوڑے ہیں۔ آپ مکرم محمد اسلم خالد کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن کے خالہ زاد بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کو صبر کرنے اور اُن کی خوبیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے ۔آمین
دُنیا میں دُکھ اور سُکھ ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔غم اور خوشیاں بھی ہماری زندگیوں میں شامل ہیں۔اسی طرح بھائی جان نے بھی اِن سب باتوں سے اپنا حصہ پایا، اپنی زندگی کے آخر میں اُنہیں انتہائی مشکل دور سے گزرنا پڑا۔ کاروبار سنبھل نہ سکا۔ کچھ عمر کا تقاضا اور کچھ اپنے ہی ہمدروں کے ہاتھوں تکلیف اُٹھائی اور دل برداشتہ ہو گئے۔وہی چودھری سمیع اللہ جو لوگوں کو اپنی ایمبولینس میں ڈال کر بن اُجرت لئے اُن کی منزلِ مقصود تک پہنچاتا تھا وہ خود بھی اُسی میں سوار ہو کر اپنے پیارے ربّ کے حضور حاضر ہو گیا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
دُعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ میرے اس محسن بھائی کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور اپنی برزخ میں اُونچے مقام پر بٹھائے۔ان کی بخشش فرمائے اور اُن کے تمام لواحقین کو اُن کی نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فر مائے ۔آ مین ثم آ مین ۔
(صفیہ بشیر سامی۔لندن)